www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام محمد تقی علی السلام
 آپ پانچویں برس میں تھے جب آپ کے والد بزرگوار امام رضا(ع) سلطنت عباسیہ کے ولی عھد ھو گئے اس کے معنی یہ ھیں کہ سن تمیز پر پھنچنے کے بعد ھی آپ نے آنکہ کھول کر وہ ماحول دیکھا جس میں اگر چاھا جاتا تو عیش و آرام میں کوئی کمی نہ رھتی مال و دولت قدموں سے لگا ھوا تھا اور تزک و احتشام آنکھوں کے سامنے تھا پھر باپ سے جدائی بھی تھی کیونکہ امام رضا(ع) خراسان میں تھے اور متعلقین تمام مدینہ منورہ میں تھے۔ اور پھر آپ کو آٹھواں ھی برس تھا کہ امام رضا(ع) نے دنیا ھی سے مفارقت فرمائی۔
یہ وہ منزل ھے کہ جھاں ھمارے تاریخی کارخانہ تحلیل و توجیھہ کی تمام دوربینیں بیکار ھو جاتی ھیں۔ کسی دنیوی مکتب اور درسگاہ میں تو نہ ان کے آباؤاجداد کبھی گئے نہ یہ جاتے نظر آتے ھیں۔ ھاں ایک معصوم کے لئے معصوم بزرگوں کی تعلیم و تربیت ناقابل انکار ھے مگر یھاں معصوم باپ سے چار پانچ برس کی عمر میں جدائی ھو گئی۔ ایک توارثِ صفات رہ جاتا ھے مگر ھر ایک جانتا ھے کہ اس سے صلاحیت کا حصول ھوتا ھے۔ فعلیت کے لئے پھر اسباب ظاھری کی ضرورت ھے۔ مگر یہ تاریخی واقعہ ھے کہ امام محمد تقی(ع) نے بچپن کی جتنی منزلیں اس کے بعد طے کیں وہ ابھی شباب کی سرحد تک بھی نہ تھیں کہ آپ کی سیرت بلند کی مثالیں اور علمی کمال کی تجلیاں دنیا کی آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ یھاں تک کہ امام رضا(ع) کی وفات کے بعد ھی شاھی دربار میں اکابر علمائے وقت سے مباحثہ ھوا تو سب کو آپ کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔
اب یہ واقعہ کوئی صرف اعتقادی چیز بھی نھیں ھے بلکہ مسلم الثبوت طور پر تاریخ کا ایک جز ھے یھاں تک کہ اس مناظرہ کے بعد اسی محفل میں مامون نے اپنی لڑکی ام الفضل کو آپ کے حبالہ عقد میں دیا۔
یہ سیاست مملکت کا ایک نئی قسم کا سنھرا جال تھا جس میں امام محمد تقی(ع) کی کمسنی کو دیکھتے ھوئے خلیفہ وقت کو کامیابی کی پوری توقع ھو سکتی تھی۔
جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ ”نویں امام“ (شائع کردہ امامیہ مشن) میں لکھا ھے۔
”بنی امیہ کے بادشاھوں کو آلِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا جتنا ان کے صفات سے۔ وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے وہ گھبرا گھبرا کر مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا(ع) کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقھ۔
فقط ظاھری شکل میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں باتوں کی ایک تھی۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بعیت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے اسی طرح امام رضا(ع) ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ نہ چل سکے تو آپ کی شمع حیات کو زھر کے ذریعہ سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
اب مامون کے نقطھٴ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین آٹہ نو برس کا ایک بچہ ھے جو تین چاربرس پھلے ھی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقہ پر لانا نھایت آسان ھے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتھائی خطرناک، قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھو جائے گا۔
مامون امام رضا(ع) کی ولی عھدی کی مھم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب تصور نھیں کرتا تھا اس لئے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی اس میں تبدیلی نھیں ھوئی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی(ع) آٹہ برس کے سن میں خاندان شھنشاھی کا جز بنا لئے جائیں تو وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار رھیں۔
سوا ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون کا ھم خیال ھو گا۔ مگر حضرت امام محمد تقی(ع) نے اپے کردار سے ثابت کر دیا کہ جو ھستیاں عا م جذبات کی سطح سے بالاتر ھیں اور یہ بھی اسی قدرتی سانچے میں ڈھلے ھوئے ھیں جن کے افراد ھمیشہ معراج انسانیت کی نشاندھی کرتے آئے ھیں آپ نے شادی کے بعد محل شاھی میں قیام سے انکار فرمایا اور بغداد میں جب تک قیام رھا آپ ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام پذیر ھوئے او رپھر ایک سال کے بعد ھی مامون سے حجاز واپس لے جانے کی اجازت لے لی۔ اور مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت کا کاشانہ گھرکی ملکہ کے دنیوی شاھزادی ھونے کے باوجود بیت الشرف امامت ھی رھا۔ قصر دنیا نہ بن سکا۔ ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس کے پھلے تھا۔ نہ پھرے دار اورنہ کوئی خاص روک ٹوک۔ نہ تزک نہ احتشام۔ نہ اوقات ملاقات کی حدبندی۔ نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی فرق۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث احادیت دریافت کرتے تھے۔ طلاب علمی مسائل پوچھتے تھے اور علمی مشکلات کو حل کرتے تھے۔ چنانچہ شاھی سیاست کی شکست کا نتیجہ یہ تھا کہ آخر آپ کا بھی زھر سے اسی طرح خاتمہ کیا گیا جس طرح آپ کے بزرگوں کا اس سے پھلے کیا جاتا رھا تھا۔
امام علی نقی(ع)
 آپ کی زندگی میں بھی وھی خصوصیتیں موجود ھیں جو آپ کے آباؤ اجداد میں تھیں۔
آپ کو متوکل نے مدینہ سے بلوا کر سامرے میں نظربند کیا اور متعدد اشخاص کی نگرانی آپ پر قائم کی۔ مگر آپ کے اخلاق حمیدہ نے ھر ایک کو متاثر کیا۔ آپ کی خاموش زندگی صحیح اسلامی سیرت کی عملی مثال تھی اور ھمیشہ اس مشن کی جو تبلیغ دین و شریعت کا تھا حفاظت کرتے رھے۔ ایسے موقعوں پر جب جذباتی انسان یا تو مرعوب ھو کر دوسرے کا ھم رنگ ھو جائے یا مشتعل ھو کر مرنے مارنے پر تیار ھو جائے یہ ضبط نفس معراج انسانیت کا نمونہ تھا کہ نہ اپنے جاوہ عمل کو چھوڑا جاتا تھا اور نہ تصادم کی صورت پیدا کی جاتی تھی۔
متوکل کا دربار جھاں شراب کا دور چل رھا تھا۔ اس میں امام(ع) کی طلبی اور جام شراب کا پیش کیاجانا اور آپ کے انکار پر یہ فرمائش کہ کچھ اشعار ھی سنائیے اور آپ کا اس موقع سے وعظ کے لئے گنجائش نکالنا اور بے اعتباری دنیا اور محاسبہ نفس کی دعوت پر مشتمل وہ اشعار پڑھنا جنھوں نے اس محفل عیش کو مجلس وعظ میں تبدیل کرکے وہ اثر پیدا کیا کہ حاضرین زاروقطار رونے لگے اور بادشاہ بھی چیخیں مار مار کر گریہ کرنے لگا۔ یہ انھی حضرت زین العابدین﷼ کے وارث کا کام ھو سکتا تھا جنھوں نے دربار ابن زیاد و یزید میں اظھار حقائق کے کسی موقع کو کبھی نظرانداز نھیں کیا۔
قید کے زمانہ میں آپ جھاں بھی رھے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ھوئی تیار رھتی تھی۔ یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا یعنی زیادہ سے زیادہ تمھارے ھاتہ میں جو ھے وہ جان کا لے لینا مگر جو موت کے لئے اتنا تیار ھو وہ ظالم حکومت سے ڈر کر باطل کے سامنے سر کیوں خم کرنے لگا۔
پھر بھی مثل اپنے بزرگوں کے حکومت کے خلاف کسی سازش وغیرہ سے آپ کا دامن ایسا بری رھا کہ باوجود دارالسلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے آپ کے خلاف کوئی الزام کبھی عائد نھیں کیا جا سکا۔ حالانکہ عباسی سلطنت اب کمزور ھو چکی تھی اور وہ دم توڑنے کے قریب تھی مگر آل محمد نے ان حکومتوں کو ھمیشہ اپنی موت مرنے کے لئے چھوڑا۔ ان کے خلاف کبھی کسی اقدام کی ضرورت محسوس نھیں فرمائی۔

Add comment


Security code
Refresh