www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اب تک ہم نے ایسی تحریکوں کا ذکر کیا جو کہ اہل تسنن نے چلائیں‘ اس میں شک نہیں کہ سید جمال ایران کے باشندے اور شیعہ تھے‘ لیکن سنی مشن میں اصلاحی تحریکوں کی کہانی سید جمال کو بھی اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اہل شیعہ کی تحریکات جن کا بنیادی مقصد سنیوں سے بہت مختلف تھا‘ مختلف ماحول اور انواع میں ملتی ہیں‘ دنیائے شیعیت میں اصلاحی

آئمہ ہدیٰ علیہم السلام کی زندگیاں تعلیمات‘ رہبری اور اجتماعی اصلاح کی غمازی کرتی ہیں‘ ان کے علاوہ ہم اسلامی تاریخ میں اور بھی کئی اصلاحی تحریکیں دیکھتے ہیں‘ لیکن چونکہ ان تحریکوں کا مفصل مطالعہ نہیں کیا گیا‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ ایک جمود کا شکار رہی ہے اور اصلاحی تحریکیں ناپید ہیں۔

وئی تحریک بغیر قیادت کے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی‘ لیکن جب ایک تحریک اسلامی ہو اور اس کے مقاصد بھی کلی طور پر اسلامی ہوں تو اس کی قیادت کونسا لیڈر کرے؟ یا کونسے لیڈروں کا گروپ کرے؟

تاریخ دور حاضر کے صاحبان علم و دانش اس بات کو مانتے ہیں کہ ہماری صدی کے دوسرے نصف میں تقریباً تمام یا کم از کم کچھ ممالک میں اسلامی تحریکیں ظاہراً یا خفیہ طور پر ابھرتی رہی ہیں‘ یہ تحریکیں عملی طور پر سرمایہ داری‘ استبدادیت اور مادیت پرستی جو کہ استبدادیت کی جدید نئی شکل ہے‘ کے خلاف کام کرتی رہیں۔

دوسرے کئی واقعات کی طرح تحریکیں بھی بحرانوں کا شکار ہوتی رہتی ہیں‘ لیکن یہ قیادت کا فرض ہے کہ وہ تحریک کو بحران سے بچائے۔ اگر بحران آ بھی جائے تو قیادت اعتماد کر کے اپنی تحویل میں تمام ذرائع سے استفادہ حاصل کر کے بحران سے تحریک کو بچانے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ بحران کو سمجھنے میں سستی کرنے یا اس کی اہمیت کا صحیح اندازہ نہ لگا