www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اسلام نے جھاں تمام روحانی اور جسمانی تقاضوں کا حل پیش کیا ھے وھاں اس فطری ضرورت کوبھی نظر انداز نھیں کیا ھے ۔
حضرت امام علی رضا عليه السلام نے فرمایا : " دنیا کی لذتوں سے اپنے لئے بھی ایک حصہ مخصوص رکھو ۔ اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرو تاکہ تمھاری شجاعت اور شخصیت متاثر نہ ھو۔ اسراف اور شدت پسندی سے دور رھو۔ ان چیزوں کے ذریعہ دنیاوی امور میں مدد حاصل کرو "۔ 

(۱)
تفریح کی فطری ضرورت اگر دوسری فطری ضرورتوں کی طرح کنٹرول نہ کی جائے تو اس کے اثرات یقینا خطر ناک ھوں گے اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ :"یہ وسائل ایسے نہ ھوں جو انسان کی واقعی شخصیت اور شجاعت پر اثر انداز ھوں ۔ انسان کو مفید اور مضر تفریحوں میں فرق کرنا چاھئیے ۔"
حضرت امیر المومنین عليه السلام نے تفریح کو مومنین کے روزآنہ کے معمول میں قرار دیا ھے ،آپ نے فرمایا : " مومنین کے دن کو تین حصوں میں تقسیم ھونا چاھئے ۔ ایک حصہ خدا وند عالم سے راز و نیاز عبادت کے لئے ، ایک حصہ معاشی امور کی اصلاح اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے اور ایک حصہ حلال اور نیک چیزوں سے لطف اندوز ھونے کے لئے " ۔(۲)
مفید اور مضر تفریحیں
یہ بات بیان کی جاچکی ھے کہ تفریح انسان کی فطری ضرورت ھے ۔ اس کو جائز اور حلال ذرائع سے پورا ھونا چاھئے۔ اس کے لئے سب سے پھلے یہ ضروری ھے کہ ھم مفید اور مضر تفریحوں کو پھچانیں تاکہ تفریح کے لمحات گمراھی اور شخصیت کے منافی امور کی نذر نہ ھونے پائیں ۔
تفریح کو روحانی اور جسمانی قوتوں کی تقویت کا ذریعہ ھونا چاھئے جس کے ذریعہ انسان کو تازگی کا احساس ھو ، روح شاداب ھو اور انسان برائی کے راستوں پر چلنے سے محفوظ رھے ۔ جن تفریحوں میں اس احساس کے بجائے روح اور زیادہ مضطرب ھو جائے ،جسم کو اور زیادہ تھکن کا احساس ھونے لگے، انسان فحشاء اور برائیوں کے راستہ پر چلنے لگے بلکہ ان کو عام کرنے لگے تو ان امورکو درحقیقت تفریح کانام نھیں دیاجاسکتااور انسان کو ایسی تفریحوں سے اجتناب کرناچاھئے کیونکہ تفریح صرف دل بھلانے کاوسیلہ نھیں ھے بلکہ یہ انسان کی جسمانی ، روحانی، انفرادی اور اجتماعی صحت و سلامتی کاایک اھم ذریعہ ھے اور جس تفریح میں یہ اثر نہ پایا جاتا ھو اس کو تفریح نھیں کھا جا سکتا ھے ۔
اگر ھمارا معاشرہ غورو فکر سے کام لیتا تو حیوانوں کی طرح خطرناک تفریحی مراکز یا اخلاقیات کے مقتل کی طرف اس طرح نہ ٹوٹتااور اپنی انسانیت کے گراں بھا گوھر کو اس طرح مفت ضائع نہ کرتا ۔
حضرت علی عليه السلام نے ارشاد فرمایا :
"وہ لذت جس سے شرمندگی حاصل ھواور وہ شھوت و خواھش جس سے درد میں اضافہ ھو اس میں کوئی خیر نھیں ھے "(۳)
اگر معاشرہ نیکیوں کا طلب گا رھے تو اسے حضرت عليه السلام کے قول پر غور و فکر کرتے ھوئے دور اندیشی کے ساتہ اپنے کام کے نتائج کودیکھنا ھو گا ۔ اسے غور کرنا ھو گا کہ وقتی خواھشات کے نتائج کیا بر آمد ھو سکتے ھیں ۔ وہ تفریحیں جو اس وقت بھلی معلوم ھوتی ھیں وہ آئندہ کن کن خرابیوں اور تباھیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ھیں ۔ اس طرح کی تمام تفریحوں سے اس کو حد درجہ پرھیز کرنا ھو گا ۔
حضرت علی نے ارشاد فرمایا :
" مجھے اس شخص پر تعجب ھے جو لذتوں کے خطرناک نتائج سے واقف ھوتے ھوئے بھی عفت و پاکدامنی کا راستہ اختیار نھیں کرتا ۔ " (۴)
حوالہ:
۱۔ بحار طبع جدید ج۷۸ ،ص ۳۴۶۔
۲۔ نھج البلاغہ کلمات قصار شمارہ ۳۸۲۔
۳۔ غرر الحکم ص۳۵۴۔
۴۔ غرر الحکم ص ۲۱۸۔
 

Add comment


Security code
Refresh