www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

مقدمہ 

ھندوستان میں مغلوں کی حکومت کا سلسلہ جاری تھا اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اس سلسلہ کو اپنی فتوحات کے ذریعہ اور بھی محکم کرکے ایک طویل و عریض حصہ پر حاکم ھو گیا لھذا اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کے لیے اکبر نے جنوری ۱۵۸۰  میں اپنی اس سلطنت کو بارہ صوبوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک صوبہ اودھ کے نام سے مشھور ھوا جسکی مرکزیت لکھنؤ کو حاصل تھی ۔

بقیہ ۱۱صوبوں کے نام اس طرح ہیں : ۱۔ آگرہ  ۲۔ دھلی  ۳۔ الہ آباد ، ۴۔ اجمیر ، ۵۔ احمد آباد (گجرات ) ۶۔ بھار ، ۷۔بنگال ۸۔ کابل ۔۹۔ لاھور (پنجاب ) ۱۰۔ ملتان ، ۱۱۔ مالوا ۔(۱)

بادشاہ اکبر کے دور حکومت سے صوبہ او دھ پر مغلوں کی حکومت تھی اور یہ سلسلہ مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے تک چلتا رھا محمد شاہ کے زمانے میں ۱۷۱۹سے ۱۷۲۲ء تک اودھ کے صوبہ دار گردھر بھادر ناگر تھے جن کے زمانے میں حکومت کے مخالفین کی تعداد میں کثرت سے اضافہ ھوا لوگوں نے حکومت کے خلاف سر اٹھانا شروع کردیا بگڑتی ھوئی حالت کافی نازک تھی امکان تھا کہ صوبہ اودھ ھاتھ سے نکل جائے اسے سنبھالنے اور واپس لانے کے لیے ایک مرد میدان کی ضرورت تھی بادشاہ محمد شاہ نے محمد امین سعادت خان کا انتخاب کیا اور ۱۷۲۲ء انھیں اودھ کا صوبہ دار بنا کر لکھنو بھیج دیا ۔

محمد امین برھان الملک سعادت خان نے اپنی شجاعت بلند حوصلہ دور اندیشی حکیمانہ فیصلہ عدالت بردباری اور قوت بازو کے تحت صوبہ اودھ کو ایک نئی حیات بخشی اور صوبہ اودھ میں دو بارہ پر امن حکومت قائم کی ۔اس طرح حکومت اودھ یا تاجدار ان اودھ کی حکومتوں کی بنیاد رکھی گئیبرھان الملک کی طرح ان کے بعد آنے والے نوابوں نے بھی ان کی سیرت کو قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی اور جھاں تک ھو سکا رعایا اور غریبوں کو خوش رکھنے کی کوشش  کی حکومت کو عدالت و رحم دلی کی بنیاد پر بغیر کسی تعصب کے آگے بڑھایا سامنے ولا شیعہ ھو یا سنی یا ھندو یا کسی اور مذھب سے سب کے لیے ایک جیسا برتاؤ کرتے تھے یھی وجہ تھی کہ عوام الناس میں ان بادشاھوں کی قدر تھی اور وہ کافی خوشحال نظر آتے تھے ۔

اودھ کی گنگا جمنی تھذیب اور مسالی تمدن ساری دنیا میں موجود ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے بھت کم لوگ واقف ہیں کہ اس تھذیب و تمدن کی انفرادیت شاھان اودھ اور ان کی رعایا کے ما بین استوار ھونے والے ھمدردانہ کرم اور باھمی خوشگوار تعلقات کا حتمی و لازمی نتیجہ ہے جوھر کاروان انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔

جب ھم تاریخی واقعات کی روشنی میں شاھان اودھ کے غیر جانبدارانہ طرزعمل اور نظام حکومت کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ابھرکر سامنے آتی ہے کہ ان فرمانرواؤں نے اپنی رعایا کی جذباتی و مزاجی کیفیت کو نظر میں رکھتے  ھوئے باھمی ھم آھنگی اور قومی یک جھتی کو فروغ دینے کے لیے جو اھم کردار ادا کیا ہے اس کی مثال مغلیا تاجداروں کے یھاں بھی نھیں ملتی اور اس مستحصن کو ششوں کے نتیجہ میں اپنی رعایا کی طرف سے انھیں جو بے پناہ پیار ملا اس کی نظیر بھی ممکن نھیں ہے ۔

چنانچہ اس پیار و محبت کا تلسمی کرشما تھا کے اودھ کے آخری تاجدار کو بھی جان عالم کھا گیا ۔ کبھی اختر پیاکھہ کر مخاطب کیا گیا ۔ کبھی قیصرے زمان کا خطاب دیا گیا ۔ مختصر یہ کہ شاھان اودھ نے اپنے دور حکمرانی میں رعایا پروری کرم نوازی انصاف پسندی قومی ھم آھنگی اور انفرادی تھذیب و تمدن کے ایسے غیر فانی چراغ روشن کئے کہ جنکی تجلی سے اودھ کا گوشہ گوشہ آج بھی جگمگا رھا ہے ۔

لیکن جھاں مورخین نے نوابین اودھ کی خوبیاں بیان کی وھیں کچھ مورخین نے صرف عیوب پرروشنی ڈالی ہے شرر لکھنوی جیسے مورخین نے تو ان کی خوبیوں کو بڑی مشکل سے ھضم کیا ہے اور اپنے تعصب کا بھر پور اظھار کیا ہے۔ حالانکہ مطالع سے صاف واضح ھوتا ہے کہ باتیں بے بنیاد ہیں ۔

بھر حال بعض مورخین نے نوابین اودھ کو عیاش اور لحو لعب میں ھی مشغول بتایا ہے ھم نے اپنی اس تحقیق میں حقیقت کو دلائل کے تحت روشن کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ھماری نظر میں عیب تراشیاں اور تھمت کے بازار میں گرمی دو اھم اسباب کی بنا پر ھوئی پہلا سبب یہ کہ نوابین اودھ انگریزوں کے مخالف تھے اور انگریز بھی انھیں اپنے لیے ایک بھت بڑا خطرہ سمجھتے تھے لھذا ان لوگوں نے ان کی شخصیتوں کو خراب کر کے عوام کے دل میں ان کے لیے جو محبتیں تھیں اسے ختم کرنا چاھا دوسرے یہ کہ جب اودھ کے دوسرے نواب صفدر جنگ احمد شاہ کے وزیر بنے تو سابق وزیر قمر الدین کے فرزند انتظام الدولہ جنکا دربار میں کافی رسوخ تھا وزارت کے متمنی تھے نہ ملنے پر وہ صفدر جنگ کے مخالف ھو گئے مخالف اتنی شدید تھی کہ درباری دو گروہ میں تبدیل ھو گئے ایک سنی گروہ جسکی سربراھی انتظام الدولہ کر رھے تھے ۔ دوسرا ایرانی شیعہ گروہ جسکی نمائندگی خود صفدر جنگ کر رھے تھے انتظام الدولہ کی جانب سے اس اختلاف کو مذھبی رخ دینے کے بعد بات کافی بڑھ گئی تھی اس کی مختصر تفصیل ھم نے صفدر جنگ کے حالات میں بیان کی ہے انتظام الدولہ کے گروہ نے نوابین اودھ پر آخر تک الزام تراشیاں کی اور کچھ وہ حضرات جو اپنی تانا شاھی چلا رھے تھے اور نوابین اودھ کے ذریعہ سر کوب ھوئے یہ انہیں گروھوں میں مل جاتے اور جذبہ انتقام کے تحت الزاموں کی بوچھار کرتے یھی وجہ ہے کہ اودھ کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں یا تو وہ انگریزوں کے ذریعہ لکھوائی گئیں یا پھر انتظام الدولہ کے چیلوں نے یہ کام کیالھذا ان میں اچھائیوں سے کھیں زیادہ برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے البتہ جو منصف مزاج مورخین ہیں انہوں نے دل کھول کر ان نوابین کی قدر دانی کی ہے خصوصاً مذھب اسلام اور شیعت کے حوالہ سے ان کی ناقابل فراموش خدمات کو بیان بھی کیا ہے ھماری بھی کوشش یھی ہے کہ وہ خدمات جو نوابین اودھ نے مسلمانوں اور خاص طور سے مذھب شیعت کے لیے انجام دی ہیں اسے خلاصہ کے طور پر ھی صحیح اس مختصر تحقیق میں بیان کیا جائے خواہ وہ فیض آباد ھو یا لکھنو، آج بھی انکے تعمیر کردہ  اسلامی اورشیعہ مراکز شھر کی زینت بنے ھوئے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا نوابین اودھ کے ساتھ نا انصافی ھو گی لھذا آخر تحقیق میں جہاں اسلامی خدمتوں کا ذکر ہے ھم ان مراکز پر روشنی ڈالیں گے انشا اللہ تعالی ۔

Add comment


Security code
Refresh