www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فھرست عناوین:                                       (مقالہ نگار: سید محمد عباس رضوی)

مقدمہ   

سلطنت اودھ کےبانی سیدمحمدامین نیشاپوری  

شخصیت اورکردارپرطائرانہ نظر        

محمدامین برھان الملک اودھ کےصوبہ دار 

نادرشاہ کاھندوستان پرفوجی حملہ        

برھان الملک کی گرفتاری       

برھان الملک کاحکیمانہ فیصلہ

برھان الملک پرالزام اوراسکی تردید   

ازواج برھان الملک     

نواب مرزامقیم ابوالمنصوربھادرصفدرجنگ    

صفدرجنگ کی دھلی میںمنصبداری    

احمدشاہ ابدالی کاھندوستان پرفوجی حملہ         

صفدرجنگ اورعھدہ وزارت ھند          

صفدرجنگ کی فیض آبادواپسی           

جلال الدین حیدرنواب شجاع الدولہ بھادر          

شخصیت وکردارپرطائرانہ نظر

شجاع الدولہ پرالزام اوراسکی تردید     

شجاع الدولہ کی صوبہ اودھ پرخاص توجہ       

شجاع الدولہ کاانگریزوںسےمقابلہ       

شجاع الدولہ پرازواج کثیررکھنےکاالزام اوراسکی تردید          

نوابین اودھ کی اسلامی خدمتیں     


مقدمہ 

ھندوستان میں مغلوں کی حکومت کا سلسلہ جاری تھا اور مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے اس سلسلہ کو اپنی فتوحات کے ذریعہ اور بھی محکم کرکے ایک طویل و عریض حصہ پر حاکم ھو گیا لھذا اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کے لیے اکبر نے جنوری ۱۵۸۰  میں اپنی اس سلطنت کو بارہ صوبوں میں تقسیم کر دیا جن میں سے ایک صوبہ اودھ کے نام سے مشھور ھوا جسکی مرکزیت لکھنؤ کو حاصل تھی ۔

بقیہ ۱۱صوبوں کے نام اس طرح ہیں : ۱۔ آگرہ  ۲۔ دھلی  ۳۔ الہ آباد ، ۴۔ اجمیر ، ۵۔ احمد آباد (گجرات ) ۶۔ بھار ، ۷۔بنگال ۸۔ کابل ۔۹۔ لاھور (پنجاب ) ۱۰۔ ملتان ، ۱۱۔ مالوا ۔(۱)

بادشاہ اکبر کے دور حکومت سے صوبہ او دھ پر مغلوں کی حکومت تھی اور یہ سلسلہ مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے تک چلتا رھا محمد شاہ کے زمانے میں ۱۷۱۹سے ۱۷۲۲ء تک اودھ کے صوبہ دار گردھر بھادر ناگر تھے جن کے زمانے میں حکومت کے مخالفین کی تعداد میں کثرت سے اضافہ ھوا لوگوں نے حکومت کے خلاف سر اٹھانا شروع کردیا بگڑتی ھوئی حالت کافی نازک تھی امکان تھا کہ صوبہ اودھ ھاتھ سے نکل جائے اسے سنبھالنے اور واپس لانے کے لیے ایک مرد میدان کی ضرورت تھی بادشاہ محمد شاہ نے محمد امین سعادت خان کا انتخاب کیا اور ۱۷۲۲ء انھیں اودھ کا صوبہ دار بنا کر لکھنو بھیج دیا ۔

محمد امین برھان الملک سعادت خان نے اپنی شجاعت بلند حوصلہ دور اندیشی حکیمانہ فیصلہ عدالت بردباری اور قوت بازو کے تحت صوبہ اودھ کو ایک نئی حیات بخشی اور صوبہ اودھ میں دو بارہ پر امن حکومت قائم کی ۔اس طرح حکومت اودھ یا تاجدار ان اودھ کی حکومتوں کی بنیاد رکھی گئیبرھان الملک کی طرح ان کے بعد آنے والے نوابوں نے بھی ان کی سیرت کو قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی اور جھاں تک ھو سکا رعایا اور غریبوں کو خوش رکھنے کی کوشش  کی حکومت کو عدالت و رحم دلی کی بنیاد پر بغیر کسی تعصب کے آگے بڑھایا سامنے ولا شیعہ ھو یا سنی یا ھندو یا کسی اور مذھب سے سب کے لیے ایک جیسا برتاؤ کرتے تھے یھی وجہ تھی کہ عوام الناس میں ان بادشاھوں کی قدر تھی اور وہ کافی خوشحال نظر آتے تھے ۔

اودھ کی گنگا جمنی تھذیب اور مسالی تمدن ساری دنیا میں موجود ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے بھت کم لوگ واقف ہیں کہ اس تھذیب و تمدن کی انفرادیت شاھان اودھ اور ان کی رعایا کے ما بین استوار ھونے والے ھمدردانہ کرم اور باھمی خوشگوار تعلقات کا حتمی و لازمی نتیجہ ہے جوھر کاروان انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔

جب ھم تاریخی واقعات کی روشنی میں شاھان اودھ کے غیر جانبدارانہ طرزعمل اور نظام حکومت کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ابھرکر سامنے آتی ہے کہ ان فرمانرواؤں نے اپنی رعایا کی جذباتی و مزاجی کیفیت کو نظر میں رکھتے  ھوئے باھمی ھم آھنگی اور قومی یک جھتی کو فروغ دینے کے لیے جو اھم کردار ادا کیا ہے اس کی مثال مغلیا تاجداروں کے یھاں بھی نھیں ملتی اور اس مستحصن کو ششوں کے نتیجہ میں اپنی رعایا کی طرف سے انھیں جو بے پناہ پیار ملا اس کی نظیر بھی ممکن نھیں ہے ۔

چنانچہ اس پیار و محبت کا تلسمی کرشما تھا کے اودھ کے آخری تاجدار کو بھی جان عالم کھا گیا ۔ کبھی اختر پیاکھہ کر مخاطب کیا گیا ۔ کبھی قیصرے زمان کا خطاب دیا گیا ۔ مختصر یہ کہ شاھان اودھ نے اپنے دور حکمرانی میں رعایا پروری کرم نوازی انصاف پسندی قومی ھم آھنگی اور انفرادی تھذیب و تمدن کے ایسے غیر فانی چراغ روشن کئے کہ جنکی تجلی سے اودھ کا گوشہ گوشہ آج بھی جگمگا رھا ہے ۔

لیکن جھاں مورخین نے نوابین اودھ کی خوبیاں بیان کی وھیں کچھ مورخین نے صرف عیوب پرروشنی ڈالی ہے شرر لکھنوی جیسے مورخین نے تو ان کی خوبیوں کو بڑی مشکل سے ھضم کیا ہے اور اپنے تعصب کا بھر پور اظھار کیا ہے۔ حالانکہ مطالع سے صاف واضح ھوتا ہے کہ باتیں بے بنیاد ہیں ۔

بھر حال بعض مورخین نے نوابین اودھ کو عیاش اور لحو لعب میں ھی مشغول بتایا ہے ھم نے اپنی اس تحقیق میں حقیقت کو دلائل کے تحت روشن کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ھماری نظر میں عیب تراشیاں اور تھمت کے بازار میں گرمی دو اھم اسباب کی بنا پر ھوئی پہلا سبب یہ کہ نوابین اودھ انگریزوں کے مخالف تھے اور انگریز بھی انھیں اپنے لیے ایک بھت بڑا خطرہ سمجھتے تھے لھذا ان لوگوں نے ان کی شخصیتوں کو خراب کر کے عوام کے دل میں ان کے لیے جو محبتیں تھیں اسے ختم کرنا چاھا دوسرے یہ کہ جب اودھ کے دوسرے نواب صفدر جنگ احمد شاہ کے وزیر بنے تو سابق وزیر قمر الدین کے فرزند انتظام الدولہ جنکا دربار میں کافی رسوخ تھا وزارت کے متمنی تھے نہ ملنے پر وہ صفدر جنگ کے مخالف ھو گئے مخالف اتنی شدید تھی کہ درباری دو گروہ میں تبدیل ھو گئے ایک سنی گروہ جسکی سربراھی انتظام الدولہ کر رھے تھے ۔ دوسرا ایرانی شیعہ گروہ جسکی نمائندگی خود صفدر جنگ کر رھے تھے انتظام الدولہ کی جانب سے اس اختلاف کو مذھبی رخ دینے کے بعد بات کافی بڑھ گئی تھی اس کی مختصر تفصیل ھم نے صفدر جنگ کے حالات میں بیان کی ہے انتظام الدولہ کے گروہ نے نوابین اودھ پر آخر تک الزام تراشیاں کی اور کچھ وہ حضرات جو اپنی تانا شاھی چلا رھے تھے اور نوابین اودھ کے ذریعہ سر کوب ھوئے یہ انہیں گروھوں میں مل جاتے اور جذبہ انتقام کے تحت الزاموں کی بوچھار کرتے یھی وجہ ہے کہ اودھ کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئیں یا تو وہ انگریزوں کے ذریعہ لکھوائی گئیں یا پھر انتظام الدولہ کے چیلوں نے یہ کام کیالھذا ان میں اچھائیوں سے کھیں زیادہ برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے البتہ جو منصف مزاج مورخین ہیں انہوں نے دل کھول کر ان نوابین کی قدر دانی کی ہے خصوصاً مذھب اسلام اور شیعت کے حوالہ سے ان کی ناقابل فراموش خدمات کو بیان بھی کیا ہے ھماری بھی کوشش یھی ہے کہ وہ خدمات جو نوابین اودھ نے مسلمانوں اور خاص طور سے مذھب شیعت کے لیے انجام دی ہیں اسے خلاصہ کے طور پر ھی صحیح اس مختصر تحقیق میں بیان کیا جائے خواہ وہ فیض آباد ھو یا لکھنو، آج بھی انکے تعمیر کردہ  اسلامی اورشیعہ مراکز شھر کی زینت بنے ھوئے ہیں ان سے چشم پوشی کرنا نوابین اودھ کے ساتھ نا انصافی ھو گی لھذا آخر تحقیق میں جہاں اسلامی خدمتوں کا ذکر ہے ھم ان مراکز پر روشنی ڈالیں گے انشا اللہ تعالی ۔


نوابین اودھ کا دور حکومت

نوابین اودھ کی حکومت کا دور اس وقت آغاز ھوتا ہے جب ۱۷۲۲ء میں دھلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ نے سید محمد امین نیشاپوری  کواودھ کا صوبہ دار بنا کر فیض آباد روانہ کیا ۔ ھم نے یہاں پر اودھ کے نوابوں کی صرف مدت حکومت کو بیان کریں گے کہ کسی حاکم نے کس سنہ سے کس سنہ تک حکومت کی تفصیلی بیان آئندہ کے صفحات میں ذکر کیئے جائیں گے انشاء اللہ ۔

نوابین اودھ نے سید محمد امین نواب سعادت خان سے لیکر آخری نواب نواب واجد علی شاہ تک دور تک حکومت ۱۳۶سال رھا جن میں مختلف نوابوں کی مدمت حکومت اس  طرح ہے ۔

۱۔ سید محمد امین نواب سعادت خان برہان الملک  ۱۷۲۲ ء سے ۱۷۳۹ء ۔

۲۔ نواب صفدر جنگ ۱۷۳۹ء سے ۱۷۵۴ء۔

۳۔ نواب شجاع الدولہ۱۷۵۴ء سے ۱۷۷۵ء۔

۴۔ نواب آصف الدولہ    ۱۷۷۵ء سے ۱۷۹۷ء۔

۵۔ نواب سعادت علی خان  ۱۷۹۷ء سے ۱۸۱۴ء ۔

۶۔ نواب بادشاہ غازی الدین حیدر  ۱۸۱۴ ء سے ۱۸۲۷ء۔

غازی الدین حیدر نے اپنی حکومت کو دھلی سے جدا کر کے  ایک مستقل حکومت کا اعلان کر دیا تھا ۔ اور پھر یہ سلسلہ جاری رھا ۔

۷۔ نواب بادشاہ نصیر الدین حیدر  ۱۸۲۷ء سے ۱۸۳۷ء۔

۸۔ نواب بادشاہ محمد علی شاہ  ۱۸۳۷ء سے ۱۸۴۲ء۔

۹۔ نواب بادشاہ امجد علی شاہ  ۱۸۴۲ء  سے ۱۸۴۷ء ۔

۱۰۔ نواب بادشاہ واجد علی شاہ ۱۸۴۷ء سے ۱۸۵۶ء۔

۱۱۔ نواب بادشاہ برجیس قدر  ۱۸۵۷ء سے ۱۸۵۸ء۔(۲)

البتہ اکثر مورخوں کا یہ ماننا ہے کہ اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ ھی تھے ۔


سلطنت اودھ کے بانی سید محمد امین نیشاپوری،شخصیت اور کردار پر طائرانہ نظر

سید محمد امین ایران نیشاپور کے رھنے والے تھے انکے والد کا نام سید محمد نصیر نیشاپوری تھا۔ ان کا خاندانی سلسلہ ۲۴واسطوں سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملتا ہے البتہ بعض محقیقن نے ۲۵واسطوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔

محمد امین کی ولادت ۱۰۹۱ھجری مطابق ۱۶۸۰ء میں ھوئی محمد امین کے ایک بڑے بھائی محمد باقر اور ایک بڑی بھن اس کے علاوہ ایک چھوٹی بھن بھی تھیں  ۔(۳)

محمد امین کے بارے میں " وقایع دلپذیر "کے مقدمہ نگار تحریر فرماتے ہیں کہ یہ ذھین ، بلند پرواز ، بلند حوصلہ  بیدار مغز ، جری مذھب میں پختہ اور فطرطاً سادگی پسند اور جفا کش تھے ۔(۴)

۱۷۰۷ء کے اواخر میں محمد امین کے والد میر محمد نصیر اپنے بڑے بیٹے محمد باقر کے ساتھ معاش زندگی کی غرض سے ھندوستان آئے اس وقت اور نگ زیب کے بیٹے بھادر شاہ ظفر کا دور حکومت تھا بنگال ھوتے ھوئے بھار پھنچے اور مرشد قلی خان کے یھاں پٹنہ میں نوکری کر لی میر محمد امین اس وقت تک نیشاپور ھی میں مقیم تھے ۔

میر محمد امین کے نیشاپور سے ھندوستان آنے کے بارے میں مختلف باتیں ذکر کی جاتی ہیں مگر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے والد کے حالات سے باخبر ھونے کے لیے ۱۷۰۸ء میں ہندوستان آئے اور جب وہ پٹنہ پہنچے تو ان کے والد کا انتقال ھو چکا تھا ۔

محمد امین نے ۱۷۱۰ء میں الہ باد صوبہ کے کڑا ملک پور کے فوجدار سربلند خان کے پاس خیمہ نصب کر نے کی نوکری میر منزل میں ھی ۱۷روپیہ مھینہ پر قبول کر لی کچھ عرصہ کے بعد سر بلند خان گجرات کے نایب صوبے دار ھوئے تو محمد امین بھی ان کے ساتھ ساتھ گجرات کے شھر احمد آباد آگئے اسی سال کے آخر میں نواب سر بلند خان شکار کے لیے گئے محمد امیننے ان کا خیمہ ایک نشیبی مقام پر نصب کروایا تھا اتفاق سے اس دن موسلادھار بارش ھوئی جس سے جل تھل بھر گئے اور نواب کے خیمہ میں بھی پانی ھی پانی ھو گیا ۔ انھوں نے ایک رتھ میں بیٹھ کر تمام شب آنکھوں میں کاٹی ۔صبح کو میر محمد امین کو بلا کر بھت خفا ھوئے اور فرمایا کہ آپکا دماغ توھفت ھزاریوں کا ایسا معلوم ھوتا ہے ۔ اپنے کام میں دل نھیں لگاتے ۔ محمد امین کو یہ کلمات سخت ناگوار گزرے ۔ عرض کیا حضور سید ہیں آپ کی زبان میں تاثیر ضرور ھوگی اس لیے ارشاد عالی کو اپنے حق میں فال نیک سمجھ کر ملازمت سے دست بردار ھوتا ھوں تاکہ جاکر ھفت ھزاری منصب کے لیے کوشش کروں ۔ چنانچہ نوکری چھوڑ کر ۱۷۱۹ءمیں دھلی چلے آئے یہ فروخ سیر کا دور حکومت تھا وھاں عبد اللہ خان کے لیے دیوان رائے رتن چند سے راہ ورسم پیدا کئے اور ایک ھزاری منصب پر فائز ھوئے ۔ اس زمانہ میں دربار دھلی میں دو سید زادوں کا کافی اثر و رسوخ تھا حسن علی خان و حسین علی خان دربار میں ان دونوں بھائیوں نے اتنا ا ثر جمارکھا تھا کہ انھیں بادشاہ سازیاking makersبھی لکھا گیا ہے محمد امین کے تعلقات آھستہ آھستہ چھوٹے بھائی حسین علی سے ھو گئے ان کی ھی وجہ سے محمد امین ۱۷۱۹ء میں سعادت خان کے خطاب سے نوازے گئے اور انھیں آگرہ کا گورنر اور مھتمم خاصان شاھی مقرر کیا گیا۔(۵)

آگرہ میں سعادت خان ان زمیندارو کے مقابل میں اپنی کاروائی شروع کی جنھوں نے حکومت کی اراضی کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا ان میں آگرہ اور متھو راوغیرہ کے زمیندار شامل تھے سعادت خان نے ان سے جنگ کی اور ان اراضی کو ان سے واپس لیا البتہ یہ شدید جنگ تھی جس میں محمد امین سعادت خان کے تقریباً ۴۰۰سپاھی مارے گئے لیکن کامیابی محمد امین ھی کو ملی ۔


محمد امین برھان الملک اودھ کے صوبہ دار

اسی زمانے میں صوبہ اودھ سے رعایا کی سرکشی اور منتظمین کی بد انتظامی کی خبریں شھنشاہ دھلی محمد شاہ کے کانون تک پہنچی تو بادشاہ نے سعادت خان کو آگرہ سے بلوا کر برھان الملک کاخطاب دیا اور ۹دسمبر ۱۷۲۲ء بمطابق ۲۹ذیقعدہ ۱۱۳۴ھ کو اودھ کا صوبے دار مقرر کیا ۔ اس وقت اودھ میں دور حاضر کے اترپردیس کے بارہ ضلع شامل تھے جن میں ۔۱۔ لکھنو ۲۔ رای بریلی  ۳۔ پرتاب گڑھ ۴۔ سلطان پور ۵۔ فیض آباد ۶۔ بارہ بنکی  ۷۔ گونڈا ۸۔بھرائچ ۹۔ لکھیم پور کھیری  ۱۰۔ سیتاپور  ۱۱۔ ھردوئی  ۱۲۔ انّاو  ۔ البتہ مختلف اوقات میں ان اراضی میں تبدیلیاں وجود میں آتی رھیں ۔

سید محمد امین نواب سعادت خان برھان الملک جب لکھنو پھنچے تو وھاں ان کا مقابلہ ان شیخ زادوں سے تھاجن کالکھنو پر غلبہ تھا اس کے علاوہ یہ بیسواڑہ بلرام پور تلوئی پرتاب گڑھ گونڈا اور رسول پور کے زمینداروں سے مقابلہ بھی کافی سخت تھا ان کو کوزیر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اودھ کے ان سرکش زمینداروں کی طاقت کے شہر ہ سے سابق صوبہ داروں کی ناک میں دم ہو گیا تھا ۔(۷)

برہان الملک نے سب سے پہلے شیخ زادوں کے غرور و سرکشی کا طلسم توڑا اور انہیں مغلوب کیا اور پنج محل مبارک محل مچھلی محل نامی عمارتوں پر قبضہ کیا اور لکھنو میں امن و امان بحال کر کے رعایا میں جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظہ کا اعتماد بحال کیا۔

اور پھرایودھیا کی طرف بڑھے اور وہاں پہنچ کر آبادی سے دور دریائے گھاگھرا کے کنارے پر شہر سے تقریباً چھ کلو میٹر مغرب کی طرف اپنا مسکن بنوایا تھا ۔ نواب محمد امین برہان الملک چونکہ ایک خدا پرست عبادت گزار منصف مزاج اور قناعت پسند انسان تھے اور نمائشی کر فر کے ساتھ عالی شان محلوں میں رہنے کا انہیں شوق بھی نہیں تھا اسی لیے وہ کافی دنوں تک خیموں میں ہی رہ کر حکومت کے امور انجام دیتے تھے مگر ایک سال موسم برسات میں بارش کی فراوانی نے انہیں پریشان کیا تو انہوں نے اپنا مسکن بنوایا ۔یہ مسکن کوئی آراستہ و پیراستہ کوٹھی یا سجی سجائی حویلی نہ تھی بلکہ پھوس کا بنا ہوا ایک صاف ستھرا جھوپڑا تھا جو ایک مسطح اور بلند مقام پر بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف مٹی کی طویل و عریض دیوار کھینچ کر چاروں گوشوں پر چار برج بنادیے گئے تھے اس چار دیواری کے بیچ میں شمال کی طرف ایک پھوس کا چھپر تھا جو میر محمد امین نیشاپوری سعادت خان برہان الملک کا محل تھا اس چھار دیواری کے اندر اتنی وسعت تھی کہ تمام پیادہ و سوار اور توپ خانہ وغیرہ اسی میں سماگئے تھے ۔

سعادت خان اپنا زیادہ وقت صوبہ اودھ کے مختلف علاقوں کے دور ے میں گزارتے تھے لیکن جب صوبہ کے نظم و ضبط اور امور سلطنت سے فرصت پاتے تو اسی پھوس کی جھوپڑی میں آکر قیام کرتے اور آرام فرماتے تھے ۔آہستہ آہستہ یہ محل بنگلہ بستی کے نام سے مشہور ہو گیا اور اس کے اطراف میں امراء رؤساء اور کاروباری لوگوں نے مکانات اور بازار بنوالیئے اس طرح بنگلہ بستی میں آبادی و رونق کا روز بہ روز اضافہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بستی ایک بڑی آبادی میں تبدیل ہو گئی ۔

نواب محمد امین کے انتقال کے بعد نواب صفدر جنگ کے زمانے میں اس بنگلہ بستی کا نام فیض آباد کے نام سے موصوم ہوا جو آج بھی اسی نام سے باقی ہے ۔

برہان الملک نے تمام عمر سپاہانہ اور سادہ زندگی بسر کی انہوں نے ہر اس آواز کو جو دہلی دربار کے خلاف اٹھی خاموش کرد یا ۔ ۱۷۲۳ء کے شروع میں سعادت خان نے تلوئی کے بادشاہ موہن سنگ کے شر سے لوگوں کو آزاد کیا اس کی طغیانی اور ظلم جو ر سے نہ صرف اس کی رعایا پریشان تھی بلکہ اطراف کی چھوٹی حکومتوں اور ریاستوں کا جینا دشوار ہو گیا تھا جب سعادت خان نے اس سے حکومتی رقم اور زمین کے کچھ حصے فیض آباد کو دینے کے لیے کہا تو ا س نے صاف انکا کر دیا سعادت خان نے ۳۰ہزار کی فوج آمادہ کی اور اس پر حملہ کر دیا شدید جنگ ہوئی آخر کار کامیابی سعادت خان کو ملی بادشاہ موہن سنگھ مارا گیا اور اس کی فوج کے بچے ہوئے افراد نے راہ فرار اختیار کی جب کہ موہن سنگھ کے فوجیوں کی تعداد ۵۰ہزار اور سعادت خان کے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار تھی اس کامیابی کے بعد سعادت خان کی شجاعت دلیری کے چرچے ہونے لگے چھوٹی ریاستوں کے مالک اور کمزور دشمنوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور سعادت خان سے ملحق ہو گئے ۔

اسی طرح ۱۷۲۹ء  میں سعادت خان نے کانپور سے ۱۲میل کے فاصلہ پر مغرب کی طرف سچنڈی کے مضبوط قلعہ پر بادشاہ ھندو سنگھ کو مغلوب کر کے قبضہ کیا اس وقت سعادت خان کی فوج ساٹھ ۶۰ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی ۱۷۳۵ء میں بھگوت سنگھ زمیندار چکلہ کوڑھ کو شکست فاش دیکر اسکا سربادشاہ کے حضور میں دہلی لیے گئے ۔

مرہٹوں نے جب ۱۷۳۴ء سرکشی کی اور بالاجی راو کی قیادت میں دہلی کی طرف بڑھنے نکلے تو دبادشاہ محمد شاہ نے اعتماد الدولہ قمر الدین خان ایک بھاری لشکر کے ساتھ مرہٹوں سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا لیکن قمر الدین خان مرہٹوں پر حملہ کی جرأت پیدا نہ کرسکے اور صلح کے باب میں مشورے کے بہانے دہلی لوٹ آئے آخر کار برہان الملک محمد امین ہی تھے جنہوںنے مرہٹوں پر حملہ کیا اور اس طرح جنگ کی کہ مرہٹوں نے راہ فرار اختیار کی برہان الملک نے پیچھا کیا لیکن آپسی سازشوں کی وجہ سے صمصام الدولہ کاخطہ برہان الملک کو ملا جس میں مرہٹوں سے جنگ نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا لہذا برہان الملک نے مرہٹوں کا پیچھا نہیں کیا اور واپس لوٹ آئے بالاجی راونے موقع پا کر پھر دہلی پر حملہ کی کوشش کی اس درمیان برہان الملک آگرہ سے دہلی پہنچ گئے ۔ چونکہ برہان الملک کی شمشیر آبدار کا مزہ مرہٹے چکھ چکے تھے لہذا ان کے لشکر پہنچنے کی خبر سنتے ہی مرہٹوں نے گجرات اور مالوے کی طرف راہ فرار اختیار کی ۔(۸)

برہان الملک کے سوادہلی میں کسی امیر کو مرہٹوں کے تعاقب کا حوصلہ نہ تھا ہر ایک  نےعذر کیا اور ان کے تعاقب سے پرہیز کیا اور کوچ نہیں کیا ۔(۹)

نواب سعادت خان برہان الملک کے زمانہ میں صوبہ اودھ روز بہ روز ترقی کی راہوں پر گامزن تھا برہان الملک کی شجاعت کے چرچے خاص عام میں تھے برہان الملک کے زمانے میں اودھ کی رعایا مطمئن آسودہ حال تھی ہر طرف خوشحالی اور فارغ البالی کا دور دورہ تھا ذات پات اور مذہب ملت کی کوئی خاص تفریق نہیں تھی ہر فرقے کے لوگوں کے درمیان خوشگوار او برادرانہ تعلقات قائم تھے ۔ منشی جوالہ پرساد اختر فروخابادی اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں : سعادت خان برہان الملک کے عہد حکومت میں ہر طبقے اور ہر فرقے کے لوگوں کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل تھی ۔ جہاں مسجد سے آذان کی آوازآتی و ہیں مندروں سے ناقوس کی صدائیں سنائی دیتی تھی ۔ برہان الملک چونکہ بذات خود شیعہ تھے لہذا ان کا سارا خاندان محرم کا چاند دیکھتے ہی سیاہ پوش ہوجاتا تھا ۔ اور بیگمات مظلوم کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے سوگ میں اپنے سارے قیمتی زیورات اتار کر چوڑیاں توڑ دیتی تھیں ۔ساتویں تاریخ سے اودھ کے حدود مملکت میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا تھا ۔ ھندو مسلمان سب مل کر برہان الملک کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے تھے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صوبہ اودھ میں شعیت کی پہلی تبلیغ نواب سعادت علی خان کی مرحون منت ہے ۔ (۱۰)

مختصر یہ کہ نواب سعادت علی خان کے دور میں صوبہ اودھ اپنی ترقی کی منزلیں طئی کر رہا تھا کہ اچانک نادر شاہ ایرانی بادشاہ نے ھندوستان کا رخ کیا ۔


نادر شاہ کا ہندوستان پر فوجی حملہ

۱۷۳۶ء میں جب نادر شاہ ایران کا بادشاہ ہوا تو اس نے افغانستان پر حملہ کیا وہاں سے بھاگے ہوئےافغانیوں نے ہندوستان میں پناہ لینا شروع کر دیا اس پر نادرشاہ نے محمد شاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ افغانیوں کو پناہ نہ دیں لیکن محمد شاہ نے نادر شاہ کی اس بات پر کوئی توجہ نہ دیا لہذا ۱۷۳۸ء میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کی غرض سے کوچ کیا ۔ نادرشاہ کے کوچ کرنے کی خبر سنتے ہی مغل بادشاہ محمد شاہ نے نادرشاہ سے لڑنے کے  لیے سعادت خان برہان الملک کو فیض آباد سے دہلی بلوایا  ۔

سعادت خان نے اودھ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے بھانچے اور داماد ابو المنصور خان کو سونپ کر فیض آباد سے دہلی کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔اس وقت سعادت خان کے پیرمیں ایک شدید زخم تھا لیکن سعادت خان کے لیے دہلی کی محافظت زیادہ اہم تھی لہذا انہوں نے اپنے اس زخم کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنے بھانجے مرزا محسن ( ابو المنصور خان کے بڑے بھائی ) اور بھتیجے نثار محمد خان شیر جنگ ( میر محمد باقر کے بیٹے ) اس کے علاوہ تیس ۳۰ہزار کی فوج لیکر ۴۵۰میل سے زیادہ کی مسافت طئی کر کے ۱۷فروری ۱۷۳۹کو دہلی پہنچے جہاں انہوں نے ایک دن قیام کیا اور اس طویل سفر کی تھکان کے باوجود دوسرے ہی دن کرنال کی طرف حرکت کردی جہاں بادشاہ موجود تھے اور مقابل میں نادر شاہ کی فوجیں موجود تھیں برہان الملک سعادت خان ۲۳فروری ۱۷۳۹ء کی صبح کرنال میں  بادشاہ محمد شاہ کے دربار میں حاضر ہوئے جہاں پر بادشاہ کے ساتھ ان کے وکیل مطلق نظام الملک و زیر قمر الدین خان اس کے علاوہ میر بخشی وغیرہ بھی موجود تھے جو جنگ کے لیے اپنی اپنی تدبیریں پیش کر رہے تھے اکثر کی رائے یہ تھی کہ جنگ کو کم از کم چند روز کے لیے ٹال دیا جائے اسی ا ثنا میں جاسوسوں نے آکر یہ خبر دی کہ نادر شاہ کے فوجیوں نے برہان الملک کے آنے والے ساز و سامان پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ہے ۔

یہ خبر سبب بنی کے برہان الملک فوری طور پر جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے ۔(۱۱)

سعادت خان کو میدان جنگ میں آتے دیکھ کر نادرشاہ نے اپنے فوجیوں کو انکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا دونوں طرف سے شدید حملہ ہوئے جنگ اپنے آب و تاب پر تھی بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک ، قمر الدین خان وزیر اعظم اور خان دوران کو حکم دیا کہ برہان الملک کے ساتھجنگ میں شریک ہوں اور ان کی مدد کریں مگر کسی کا بھی لڑائی میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں تھا ۔

ھر امیر کا یہ حال تھا کہ وہ معاملہ کو دوسرے پر ٹالتا تھا ۔ (۱۲)


برھان الملک کی گرفتاری

برہان الملک تن تنہا مقابلہ کر رہے تھے انہوں نے مکرر بادشاہ سے مدد طلب کی اس بار بھی سوائے خان دوران کے کوئی بھی امیر فوج لے کر نہیں گیا لیکن نادر شاہ کی دوسری ٹکڑیوں نے خان دوران کی اس فوج کو برہان الملک تک پہنچنے نہیں دیا بادشاہ کی طرف سے مدد نہ ملنے سے برہان الملک نادر شاہ کی فوج میں چاروں طرف سے گھر گئے ان کی فوج کے بہت سے سپاہی مارے جا چکے تھے نادرشاہ کی فوج کا ایک ترک سپاہی جو نیشاپور ہی کا رہنے والا تھا ہمت کر کے ہاتھی کا رسہ پکڑ کر برہان الملک تک پہنچ گیا برہان الملک ایرن کے اس ضابطہ سے واقف تھے لہذا انہوں نے خود کو اس سپاہی کے حوالے کر دیا ۔ (۱۳)

اورجب اس کے ہمراہ نادرشاہ کے سامنے حاضر ہوئے ۔ اس جنگ میں برہان الملک سخت زخمی ہو گئے تھے ۔ نجم الغنی لکھتے ہیں برہان الملک نے دو زخم اٹھائے تھے ایک تیر کا دوسرے نیزے کا نادرشاہ نے ان کو مصطفی خان شاملو کے حوالے کر دیا ۔ (۱۴)

جب دوبارہ رات میں آٹھ بجے نماز عشاء کے بعد سعادت خان نادرشاہ کے سامنے پیش کئے گئے نادرشاہ نے ان سے سوال کیا کہ تم ایرانی اور شیعہ ہونے کے باوجود سب سے پہلے ہمارے خلاف جنگ کرنے کے لیے کیوں آئے ؟

برہان الملک نے جواب دیا میں ایرانی ہونے کے ساتھ ساتھ اس ملک میں صوبہ اودھ کا سردار ہوں اور منصب رکھتا ہوں اور اگر آپ سے جنگ کرنے نہ آتا تو لوگ یہ گمان کرسکتے تھے کہ میں آپ سے ایرانی ہونے کی وجہ سے جنگ نہیں کر رہا اور کسی باہمی سازش میں مبتلا ہوں اور محمد شاہ سے غدّاری کر رہا ہوں اس بات سے  ایران اور ایرانی قوم کی بھی بد نامی تھی اور لوگ میرے لیے غداری کو تصور کریں مجھے گوارا نہیں ۔

برہان الملک کے اس جواب سے نادر شاہ خوش ہوا اور برہان الملک کے لیے اس کے دل میں جگہ بنی ۔


برھان الملک کا حکیمانہ فیصلہ

برہان الملک نے دلی دربار کی سازشوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نہایت دور اندیشی سے کام لیا اور نادرشاہ سے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت ھند میں صرف میں ہی ایک سردار تھا اور آپ نے اسے مغلوب کر دیا اور بس بلکہ مغل حکومت کے ابھی ایک سے ایک سردار موجود ہیں اور جنگ ابھی تمام نہیں ہوئی ہے یا یہ کہ آپ اسے تمام کرنا چاہیں نادرشاہ نے سعادت خان سے کہا تمہارا مشورہ کیا ہے سعادت خان نے مشورہ دیا کہ آپ جنگ کی خسارت لے کر صلح کر لیں اور واپس چلے جائیں ۔(۱۵)

یوگیش پروین لکھتے ہیں کہ ۵۰لاکھ کی رقم معین ہوئی کہ اس سے لیکر نادرشاہ واپس چلا جائےلیکن دوسرے مؤرخین نے اس رقم کو دو کروڑ روپیہ بتایا ہے جس میں تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے امجد علی خان صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ  برہان الملک نے مصلحت آمیز باتیں کر کے دوکروڑ روپیہ پر فیصلہ کر لیا تھا نظام الملک جب برہان الملک سے ملنے آیا تو انہوں  نے نظام الملک سے سب احوال بیان کئے اور کہا کہ تم بادشاہ سے اس تصفیہ کا ذکر کرو نظام الملک نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بادشاہ سے عرض کی کہ غلام نے بڑی جدو جہد سے نادرشاہ کو دوکروڑ روپیہ پر راضی کیا ہے ۔ روپیہ کی ادائیگی کے بعد نادرشاہ واپس چلے جائیں گے ۔ اس بات پر محمد شاہ بہت خوش ہوئے اور اسی وقت نظام الملک کو منصب "امیر الامراء" پر سرفراز کیا حالانکہ برہان الملک اس منصب جلیہ کے حقدار تھے ۔نظام الملک جب اپنی اس چال میں کامیاب ہو گیا تو اس نے اس خوف سے کہ برہان الملک اس کی اس حرکت کی خبر پا کر کہیں اس  کے راز کو فاش نہ کریں اور اس سے انتقام نہ لیں انہیں کھانے میں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتا ر دیا ۔ اور لوگوں میں ایک داستان گڑھ کر کے یہ مشہور کر دیا کہ برہان الملک نے بدنامی کے خوف سے خود کشی کر لی ۔ (۱۶)


برھان الملک پر الزام اور اس  کی تردید

یوگیش پروین اور بعض دیگر مورخین یہ تحریر فرماتے ہیں کہ بات ۵۰لاکھ روپیہ پر معین ہو چکی تھی اور سب کچھ بخوبی انجام پارہا تھا کہ اچانک ۲۵فروری ۱۷۳۹ء کی رات میں میر بخشی کا انتقال ہو گیا جو اسی کرنال کی جنگ میں  شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے ۔ ان کے انتقال کے بعد بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک کے مشورے سے انہیں ہی میر بخشی کے منصب پر فائز کر دیا اور جب یہ خبر برہان الملک کو ملی تو وہ نظام الملک سے خاص ناراض ہو ئے کیونکہ نظام الملک نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اس منصب پر فائز کر وائیں گے لہذا برہان الملک نے نظام الملک کی اس حرکت پر انہیں سبق سکھانے کی ٹھانی اور جب انکی ملاقات دوبارہ نادرشاہ سے ہوئی تو انہوں نے نادرشاہ سے کہا کہ نظام الملک نے آپ کو ۵۰لاکھ روپیہ کی رقم کا وعدہ کر کے دھوکھادیا ہے اگر آپ دہلی چلے تو آپ کو ۲۰کروڑ روپیہ نقد مل سکتے ہیں ۔ لہذا نادر شاہ نے برہان الملک کی وجہ سے دہلی کی طرف رخ کیا اور جب نادرشاہ دہلی پہنچا تو یہ رقم اسے نہ ملی کیونکہ مصنف کے بقول دہلی کے خزانے میں ۲۰کروڑ روپیہ کبھی جمع ہی نہ ہوئے اور برہان الملک نے چونکہ اس سے وعدہ کیاتھا تو اس نے  انہیں برے الفاظہ سے نوازا اور رقم جلدی مہیا کرنے کی بات کی برہان المک اپنی اس شرمندگی اور بے عزتی کو برداشت نہ کرسکے اور زہر کا پیالا پی کر اپنی زندگی کو خیر باد کہا ۔(۱۷)

اس کے علاوہ تاریخی و قایع دلپذیر کے مقدمہ نگار تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے پیر میں زخم تھا ( جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں ) وہ ایک کینسر کے پھوڑے میں تبدیل ہو گیا تھا اور اس کے پھوٹنے سے برہان الملک کے جسم میں زہر پھیل گیا جس کی وجہ سے انکا انتقال ہو گیا ۔ (۱۸)

برہان الملک کی سوانح حیات پر نظر رکھتے ہوئے یہ بات تو قطعی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے خود کشی نہیں کی کیونکہ انہی مؤرخین نے جنہوں نے ان کی خود کشی کی بات تحریر کی ہے خواہ وہ امجد علی ہوں یا یوگیش پروین یا دیگر مولفین ان لوگوں نے جب برہان الملک کی سوانع حیات بیان کی تو ان کے بارے میں یہ تحریر کیا کہ برہان الملک ایک قوی ارادہ زحمت کش ہمت نہ ہارنے والے ہے با استقامت شخص تھے پیر کے شدید زخم کے بعد بھی میدان جنگ میں گئے سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا قوی ارادہ رکھنے والا شخص اتنی جلدی کیسے ٹوٹ گیا پھر دوسری بات یہ کہ ایشا شخص جو اس لیے میدان جنگ میں جان ہتھیلی پرلے کر نادر شاہ کے مقابلہ پر سب سے پہلے چلا گیا کہ کہیں لوگ اسے غدّار نہ سمجھ لیں کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک عہدہ کے لیے اپنے سارے اصول بھلا بیٹھے جو اس سے پہلے اس سے زندگی میں سرزد نہ ہوئے تھے۔

اور یوگیش پروین کا یہ تحریر کرنا کہ برہان الملک نے نادرشاہ سے یہ کہا کہ نظام الملک نے ۵۰لاکھ کی بات کر کے انہیں دھوکا دیا ہے یہ بات تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتی اس لیے کہنادرشاہ سے جنگ کے اخراجات لے کر واپس چلے جانے کی پیش نہاد تو برہان الملک  سعادت خان نے کی تھی نہ نظام الملک نے کیوں کہ گرفتار ہو کر برہان الملک گئے تھے نہ نظام الملک اور بات بھی دو کروڑ کی ہوئی تھی نہ ۵۰لاکھ کی کیونکہ ۵۰لاکھ کی رقم اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ نادر شاہ کے ایران سے ہند تک آنے اور جنگ کی خسارت کے لیے کافی ہوتی  ۔

اور آخری بات یہ کہ دہلی کے خزانہ میں ۲۰کروڑ روپیہ تھے ہی نہیں اور کبھی جمع نہ ہوئے ڈاکٹر دبیر اپنی کتاب شہرہ اولیاء کے ص ۳۷کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مغل حکومت میں سب سے زیادہ رقم خزانے میں بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں جمع ہوئی جو ۱۶کروڑ تھی ۔

یہ بات قابل ہضم نہیں ہوتی جب آپ فروغ کاظمی کی کتاب شاہان اودھ اور شیعت کا مطالعہ کریں اس کتاب کے ص ۳۵پر رقمطراز ہیں کہ جب برہان الملک کی وفات ہوئی تو اخراجات ۱۹کروڑ روپیہ خزانہ شاھی میں موجود تھے جو ان کے حسن انتظام سلیقہ مندی کفایت شعاری اور قناعت پسندی کی دلیل ہے ۔ (۱۹)

یہ بات اودھ کے خزانے شاہی کے بارے میں ہے دہلی کے نہیں ظاہر سی بات ہے اگر حکومت دہلی کے ایک صوبہ میں ۱۹کروڑ روپیہ ہوسکتے ہیں تو خود دہلی میں ۲۰کروڑ نہ ہونے کی وجہ سے برہان الملک کو خود کشی کرنی پڑی بات تھوڑا عجیب سی نظر آتی ہے کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو برہان الملک اپنی عزت ہی کے لیے صحیح پیسہ صوبہ اودھ سے منگا کر دے سکتے تھے لہذا برہان الملک کی خود کشی کر لینے کی بات بےبنیاد نظر آتی ہے یہاں پر کسی حد تک امجد علی (تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ کے مؤلف ) کی بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ نظام الملک کے لیے برہان الملک ایک رقیب کی حیثیت رکھتے  تھے ۔

اورنظام الملک اپنی اس چال میں کامیابی ہو گئے تھے عہدہ حاصل کر لیا تھا لیکن اس خوف میں مبتلا تھے کہ کہیں برہان الملک ان سے انتقام نہ لیں لہذا برہان الملک کو زہر دلوا کر ان کی زندگی کے چراغ کو خاموش کر دیا اور لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ برہان الملک نے خود کشی کی اور اس کے لیے ایک داستان بھی  گڑھ لی ۔ اس طرح برہان الملک ۹ذالحجہ ۱۱۵۱ھجری کو دنیا سے رخصت ہو ئے انہیں دہلی ہی میں دفن کیا گیا لیکن بعد میں انکی بیٹی صدر النساء جو نواب ابو المنصور صفدر جنگ کی زوجہ تھی نواب کے دور حکومت میں ان کی ہڈیاں قبر سے نکلوا کر مرزا حکیم کے ذریعہ کربلائے معلی بھجوا کر امام حسین (ع) کے روضہ کی پشت پر دفن کروادیا ۔ میں نے نواب سعادت خان برہان الملک کی شخصیت اور کردار پر روشنی ڈالنے میں کافی اختصار سے کام لیا ہے کیوں ہماری یہ تحقیق ۴۰صفوں پر مشتمل ہے لہذا اس سے زیادہ بیان نہیں کیا جاسکتا تھا اتنا بیان کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ برہان الملک نوابین اودھ اور حکومت اودھ کے بانی ہیں البتہ آئندہ اودھ کے ۱۰نوابوں کا ذکر بہت ہی مختصر کر کے بیان کرونگا اور پھر انکی اسلامی خدمتوں پر بھی مختصر روشنی ڈالونگا اس بات کا ذکر یہاں کرنا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ قارئین کو یہ گمان نہ ہو کہ میں نے بہت سے الزامات جو نوابین اودھ پر لگائے گئے انکا ذکر ہی نہیں کیا ذکر نہ کرنا ایک تو اختصار کے سبب تھا دوسرے ہم نے اہم الزامات پر روشنی ڈالنے اور انہیں رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔


ازواج برھان الملک

برہان الملک نے ہندوستان میں تین شادیاں کی پہلی شادی کلب علی خان کی بیٹی سے کی ( جو شاہی نظام میں عہد دار تھے ) لیکن شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی انکا انتقال ہو گیا لہذا برہان الملک نے اپنی دوسری شادی سید طالب محمد شاہ کی بیٹی سے کی اور تیسری شادی آگرہ کے صوبے دار نواب محمد نقی خان کی بیٹی سے کی برہان الملک کے ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں تھیں بیٹا سن طفولیت میں ہی انتقال کر گیا تھا ۔

۱۔ بڑی صاحبزادی صدر جہاں بیگم زوجہ نواب صفدر جنگ بہادر ۔

۲۔ نور جہاں زوجہ نصیر الدین حیدرخان۔

۳۔ ھما بیگم زوجہ نواب سیادت خان عرف سید محمد خان ۔

۴۔ محمدی بیگم زوجہ نواب محمد قلی خان ۔

۵۔ آمنہ بیگم زوجہ سید محمد خان ۔

سید محمد امین سعادت خان جب ۱۷۲۲ء میں اودھ کے صوبے دار مقرر ہوئے تھے اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی انہوں نے اپنے بھانجے مرزا محمد مقیم کو نیشاپور سے بلوایا تھا ۔سعادت خان کے بڑے بھائی سید محمد باقر کے ساتھ مراز مقیم ۱۷۲۳ء میں اودھ یعنی فیض آباد پہنچے ایک سال کے عرصہ کے بعد برہان الملک سعادت خان نے اپنی سب سے بڑی بیٹی صدر النساء کی شادی اپنے بھانجے مراز محمد مقیم سے کردی یہ شادی ۱۷۲۴ء میں ہوئی اس وقت صدر النساء کی عمر ۱۲برس اور مرزا مقیم کی عمر ۱۶برس تھی )(۲۰)اس کے کچھ عرصہ کے بعد انہیں اپنا نائب بنا لیا یعنی صوبہ اودھ کے نائب صوبہ دار بنے اور ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ مغل بادشاہ محمد شاہ سے انہیں ابو المنصور علی خان کا خطاب دلوادیا سعادت خان کے انتقال کے بعد ۱۷۳۹میں انہیں مغل بادشاہ محمد شاہ کی طرف سے صفدر جنگ کا خطاب ملا اور یہ اودھ کے صوبہ دار مقرر ہو ئے ۔ اور نوابین اودھ کے سلسلہ کے دوسرے نواب بنے۔


نواب مرزا مقیم ابو المنصور بہادر صفدر جنگ

شخصیت و کردار پر طائر انہ نظر : مرازا محمد مقیم کی ولادت ۱۷۰۸ء بہ مطابق ۱۱۲۰ھجری کو نیشا پور میں ہوئی مرزا محمد مقیم کے جد امجد شاہ منصور مرزا ابن شاہ ناصر مرزا سربراہ مملکت تبریز تھے شاہ منصور کے بیٹے محمد قلی خان بیگ ان کے بیٹے محمد جعفر خان بیگ ان کے بیٹے محمد جعفر خان بیگ ان کے بیٹے محمد قلی خان بیگ ثانی انکے دو بیٹے تھے بڑے محمد شفیع خان بیگ چھوٹے جعفر قلی خان بیگ جعفر قلی خان بیگ کی شادی سید محمد امین سعادت خان کی حقیقی بہن سے ہوئی تھی ان کے دو بیٹے ہوئے بڑے مرزا محسن چھوٹے مرزا مقیم مرزا مقیم کی شادی برہان الملک سعادت خان کی بڑی بیٹی سے ہوئی اس طرح مرزا مقیم سعادت خان کے بھانجے بھی تھے اور داماد بھی ڈاکٹر دبیر اپنی کتاب شہر اولیا کے ص ۳۷پر مرزا محمد مقیم کے بارے میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں ۔

نواب ابو المنصور صفدر جنگ میں انکے ماموں برہان الملک جیسی فضیلتیں نہ تھیں لیکن عالی حوصلہ ، فیاضی اور رحم دلی اور دیگر مراتب میں اپنے زمانے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ۔

عیاشی اور لحو لعب جو اس زمانے کے با اختیار امراء کا تغریہ امتیاز تھا صفدر جنگ ہمیشہ منفرد رہے اور انکی مجلسیں لحو لعب سے ہمیشہ خالی رہیں صفدر جنگ ایک مذہبی آدمی تھے اور اپنے ابائی عقیدہ (تشیعہ عقیدہ امامیہ ) میں پختہ تھے اور نہایت ہی معتدل مزاج شریف النفس اور نیک طینت انسان تھے ۔(۲۱)

اسی طرح نواب صفدر جنگ کے بارے میں شاہ ہمزہ اپنی کتاب کشف الاسرار میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جس وقت نواب صفدر جنگ نے سنا کہ ان کے فوجیوں نے مار ہرا (ضلع ایٹا) کے شرفاء کے عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی املاک اور گھر بار لوٹ لیا ہے تو انہیں سخت دلی تکلیف ہوئی اور فوجیوں کی اس ناشائستہ حرکت اور بربریت پر ان کی جو حالت ہوئی تھی وہ انکے ہم عصر مورّخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ نواب صفدر جنگ اس ماجر کی وجہ سے تمام شب و روز غم وغصہ میں گزاری  اور زیادہ تر شب کا حصہ گریہ وزاری میں گزارا اور کھانا بھی نہیں کھایا ۔(۲۲)

مورخین نے نواب کے اخلاقی پہلو پر اسی طرح روشنی ڈالی ہے اختصار کے سبب ہم بیان سے پرہیز کرتے ہیں ۔ نواب ابو المنصور صفدر جنگ نے جب ۱۷۳۹ء میں اودھ کی صوبہ داری کو سنبھالا تو انہیں ابتداء کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ برہان الملک سعادت خان کے انتقال کے بعد اودھ میں موجود سرداروں اور مختلف زمینداروں نے بغاوت کرنی شروع کردی وہ اودھ سے جدا ہو کر خود مختار ہونا چاہتے تھے جن میں تلوئی کے حاکم موہن سنگھ امیٹھی کے زمیندار شیخ نصر اللہ جگدیش پور کے حاکم اس کے علاوہ سیتاپور کے حاکم نول سنگھ وغیرہ وغیرہ تھے نواب صفدر جنگ بات چیت سے مسئلہ کا حل چاہتے تھے ۔ کیونکہ نواب صفدر جنگ طبیعتاً صلح پسند واقع ہوئے تھے اور حتی المقدور خونریزی سے پرہیز کرتے تھے لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور کوئی راستہ نظر نہ آیاتو کافی پریشان نظر آنے لگے اس وقت ان کی زوجہ صدر النساء نے انہیں سہارا دیا اور انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ مغل حکومت سے مدد لے کر ان لوگوں کو درس عبرت دینے کے لیے حملہ کردیں اور انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بچانے کے لیے ایسا قدم اٹھانا لازم ہے صدرالنساء کی گفتگو میں تاثیر تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صفدر جنگ نے قدم اٹھایا اور نومبر ۱۷۳۹ء سے مارچ ۱۷۴۱ء دو سال کے عرصہ میں اپنی فوج اور مغل حکومت کی مدد کے سہارے ان تمام سرکشوں اور خود سروں کو شکست فاش دے کر شورشوں اور فتنوں کو ختم کر دیا اور اپنی حکومت کو استحکام بخشا اور آہستہ آہستہ ترقی کے راستوں کو طی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ ان کی دور اندیشی عالی حوصلہ اور کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دہلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ نے ۱۷۴۳ء کے آخر میں انہیں دہلی بلوالیا صفدر جنگ جب دہلی  جانے لگے تو انہوں نے اودھ کی حکومت اپنے نائب صوبے دار نول رائے  کے سپرد کی جن پر نواب بھر پور اعتماد کرتے تھے اور نول رائے نے بھی ہمیشہ وفاداری کا ثبوت بھی دیا ۔


صفدر جنگ کی دھلی میں منصبداری

صفدر جنگ کے دہلی پہنچنے کے تقریباً چار مہینہ بعد مغل بادشاہ محمد شاہ نے میر آتش کے منصب پر فائز کیا اس عہدے پر شاہی توپ خانوں کافرمانروا ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور انکے اہل خانہ کی محافظت کی ذمہ داری بھی سنبھالنا ہوتا ہے ۔

اس کے علاوہ اودھ کا صوبے دار ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیر کا بھی صوبے دار ۱۷۴۴ء میں صفدر جنگ کو بنا دیا خلاصہ یہ کہ عہدے اور منصب صفدر جنگ کو تلاش کرتے تھے نہ یہ کہ صفدر جنگ ان کی تلاش میں تھے نواب صفدر جنگ نوابین اودھ میں واحد نواب ہیں جنہوں نے صرف ایک شادی کی اور پھر کسی دوسری خاتون کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا برہان الملک کی اس بیٹی سے ابو المنصور صفدر جنگ کی زندگی میں ایک بیٹا وجود میں آیا یہ بیٹا برہان الملک کی زندگی ہی میں متولد ہو چکا تھا اسکا نام جلال الدین حیدر رکھا گیا برہان الملک اپنے اس نواسے سے بہت پیار کرتے تھے ۔

جب جلال الدین حیدر ۱۴برس کے ہوئے تو مغل بادشاہ محمد شاہ نے ان کی شادی کے لیے صفدر جنگ سے امتہ الزہرا کے لیے پیغام دیا امتہ الزہرا محمد اسحاق خان موتمن الدولہ کی بیٹی اور اسحاق خان نجم الدولہ کی ہمشیرہ اور خود بادشاہ محمد شاہ کی منھ بولی بیٹی تھیں ۔ امتہ زہرا کے باپ شادی سے پہلے انتقال کر چکے تھے اس لیے ان کے بڑے بھائی نے بصورت ولی رسومات شادی انجام دئے بادشاہ بہ نفس نفیس مع اراکین دولت شریک ہوئے ۱۷۴۵؁کے آخری عرصہ میں یہ شادی یاد گار زمانہ بنی جس میں چھالیس لاکھ روپیہ خرچ ہوئے اور بہو کو سسرال سے (( بہوبیگم )) کا خطاب عطا ہوا ۔(۲۳)


احمد شاہ ابدالی کاھندوستان پر فوجی حملہ

۱۷۴۷ءمیں جب نادرشاہ کا انتقال افغانستان میں ہوا تو اس کی فوج کے ایک سپہ سالار نے خبر سنتے ہی اپنے فوجیوں کے ساتھ قندھار پر حملہ کیا اور وہاں کے قلعہ پر اپنا قبضہ کر لیا اسکا نام احمد خان تھا اس نے اپنے آپ کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے افغانستان کے حاکم ہونے کا اعلان کیا اور جلد ہی احمد شاہ نے کابل اور پیشاور پر اپنا قبضہ جمالیا اور پھر ہندوستان پر حملہ کی طیاری کرنے لگا آخر کار ۱۷۴۸ء میں اس نے ۱۸۰۰۰سپاہیوں کے ساتھ لاہور پر قبضہ کرتے ہوئے ہندوستان پہنچا ۔

دہلی کے بادشاہ محمد شاہ نے ابدالی کا مقابلہ کرنے کے لیے چھ لوگوں کی سرپرستی میں اپنی فوج بھیجی جس میں شاہ زادہ احمد شاہ کو اپنی نمائندگی عطا کی کیونکہ بیمار ہونے کی  وجہ سے خود جنگ میں نہیں جاسکتے تھے اس کے علاوہ میر آتش نواب ابو المنصور صفدر جنگ وزیر قمر الدین خان ، ناصر خان اشوری سنگھ ان لوگوں کے ساتھ ایک بڑی فوج روانہ کی گئی ۔

۲۱مارچ ۱۷۴۸ء کودونوں فوجیں سرھند کے مقام پر آمنے سامنے ہوئیں لڑائی کا آغاز رسمی طور پر ابھی نہیں ہوا تھا لیکن دونوں طرف سے حملہ جاری تھے وزیر قمر الدین خان اپنے خیمہ میں نماز صبح پڑھ رہے تھے ایک توپ کا گولا آکر انہیں لگا جسکی وجہ سے وہیں انکا انتقال ہو گیا اب کیا تھا جنگ نے شدت پکڑی اور شدید تر ہوتی چلی گئی ایک وقت وہ آیا جب شاہ زاد احمد ابدالی کی فوج کے درمیان گھر گیا ادھر دوسری طرف صفدر جنگ ابدالی کی افغانی فوج پر بھاری پڑ رہے تھے جب انہیں خبر ملی کی شاہزادہ احمد ابدالی کی فوج میں گھر گئے ہیں تو وہ فوراً اپنی فوج کی ایک ٹکڑی کے ساتھ مدد کے لیے آپہنچے اور شہزادہ کو نجات دی خلاصہ یہ کہ مغل فوج ابدالی فوج کے سامنے بڑی دلیری سے لڑی ابدالی کے اکثٖرفوجی مارے گئے جو بچے ابدالی نے انکے ساتھ راہ فرار اختیار کی اسطرح مغل فوج کو کامیابی حاصل ہوئی اس کامیابی کی خبر مغل بادشاہ محمد شاہ کو ملی تو بہت خوش ہوئے جو اپنی بیماری کے سبب دہلی ہی میں رہ گئے تھے محمد شاہ نے اس کامیابی کے بعد وزیر قمر الدین کے بیٹے میر منو کو لاہور اور ملتان کا صوبے دار بنادیا احمد شاہ اور صفدر جنگ کو جلد دہلی پہنچنے کا حکم دیا کیونکہ بادشاہ کی حالت بگڑتی جارہی تھی دونوں نے دستور کے مطابق دہلی کی طرف حرکت کی لیکن جب وہ پانی پت پہنچے تو انہیں بادشاہ محمد شاہ کے انتقال کی خبر ملی۵اپریل ۱۷۴۸ کو محمد شاہ کا انتقال ہوا خبر ملنے کے بعد وہیں پانی پت ہی میں احمد شاہ کے سر پر تاج بنا کر رکھا گیا اورانہیں دہلی کا بادشاہ مقرر کر دیا گیا جب نواب صفدر جنگ نے ان کے گلے میں ہار ڈال کر بادشاہت کی مبارک باد دی تو بادشاہ نے اپنے گلے سے موتیوں کا ہار اتار کر صفدر جنگ کے گلے میں ڈال دیا اور کہا مجھے بادشاہت اور آپ کو وزارت مبارک ہو اس طرح صفدر جنگ دہلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ کے وزیر بنے۔(۲۵)اور ۱۶جولائی ۱۷۴۸ء میں انکے بیٹے جلال الدین حیدر کو شجاو الدولہ کا خطاب بھی ملا ۔


صفدر جنگ اور عھدہ وزارت ھند

نواب صفدر جنگ نئے بادشاہ احمد شاہ وزیر تو بن گئے لیکن اختیارات کو صحیح طریقہ سے اجرا کرنے میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ سابق وزیر قمر الدین کے دوسرے فرزند انتظام الدولہ اپنے والد کے عہدے کو خود لینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اپنا ایک گروہ بنا لیا تھا جو صفدر جنگ کی ایک نہ سنتا تھا اس کے مقابلہ میں نواب صفدر جنگ کے افراد تھے لہذا بادشاہ کے درباری دو گروہ میں بٹ گئے اور دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ایک سنی مسلمانوں کا تورانی گروہ جس کی نمائندگی انتظام الدولہ کر رہے تھے دوسرے شیعہ مسلمانوں کا ایرانی  گروہ جس کی نمائندگی صفدر جنگ خود کر رہے تھے ان دونوں گروہوں میں رسہ کشی کا عجیب عالم تھا آپس کے اس اختلاف کو سنی گروہ نے مذہب کا رخ دے دیا اور اعلان کر وایا کہ یہ رافضی خلیفہ وقت احمد شاہ کا مخالف ہے احمد شاہ کھبی انتظام الدولہ گروہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تو کبھی صفدر جنگ کے گروہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے حکومت اس افرا تفری میں گذر رہی تھی ۔

انتظام الدولہ نے ایک بار صفدر جنگ پر جان لیوا حملہ بھی کروایا جب عید  کے دن ۳۰نومبر ۱۷۴۸ءمیں صفدر جنگ عید کی نماز پڑھ کر گھر واپس جار ہے تھے تو ان پر بم سے حملہ کروایا لیکن صفدر جنگ خوش قسمتی سے بچ گئے لیکن انہوں نے اس کے بعد سے دربار میں دشمنوں کی بڑھتی قدرت کو مد نظر رکھتے ہوئے جانا چھوڑ دیا تھا جبکہ ۱۷۴۹میں احمد شاہ اپنی والدہ اور جاوید خان کے ساتھ صفدر جنگ کے پاس آئے اور انہیں منا کر دربارلے آئے لیکن یہ ایک وقتی سمجھوتا تھا جو احمد شاہ اور انکی والدہ نے کیا تھا ۔(۲۶)

بحر حال ان واقعات کی تفصیل کا ایک الگ ہی لطف ہے لیکن میری تحقیق کے صفحات ( جو کہ چالیس صفحہ ہیں ) اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں اس سے زیادہ بیان کروں اہل نظر جانتے ہیں کہ تاجدار ان اودھ پر تحقیق کے لیے ایک جلد کتاب بھی کافی نہیں ہے ۔ لیکن میں نے آخر کے واقعات کو اس لیے بیاں کیا کہ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوابین اودھ پر عیب تر اشیوں میں انگریزوں سے زیادہ ان داخلی دشمنوں نے اہم کردار ادا کیا اور جہاں تک ہو سکا ان پر الزامات لگائے تاکہ لوگوں کی نگاہ میں انکی اہمیت کو کم کرسکیں ۔ لیکن وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے ۔

بادشاہ احمد شاہ کو بھی انکے خلاف اتنا بھر دیا گیا کہ وہ بھی صفدر جنگ کے مخالف ہو گئے دونوں میں کافی عرضہ تک اختلاف چلتا رہا یہاں تک کہ صفدر جنگ نے بادشاہ کو خط لکھا کہ میں ہمیشہ حکومت دہلی کے ساتھ رہا اور حکومت کے لیے جانفشانی کی ہے اور اب بھی حکومت دہلی کا خیر خواہ ہوں فقط دشمنوں کے بہکانے اور الزام تراشی کرنے سے نمک خوار قدیم کو سلطنت کا دشمن قرار دینا بعید از انصاف ہے خدا چاہے گا تو جلد ہی ان لوگوں کا مکر وفریب اور حال دل حضور کے لیے بخوبی روشن ہو جائے گا البتہ آہستہ آہستہ کسی حد تک بادشاہ کے لیے باتیں روشن ہو چکی تھی لیکن بادشاہ بھی مجبور تھے کیونکہ تمام درباریوں پر انتظام الدولہ اپنا ہی دستور چلانے لگے تھے ۔ بادشاہ احمد شاہ نے صفدر جنگ کو جواب دیا کہ جو تم نے عرض حال کیا سچ ہے مگر اب مناسب وقت یہ ہے کہ تم اپنے صوبہ کو واپس چلے جاؤ۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق صفدر جنگ اپنے صوبہ اودھ کی طرف روانہ ہو ئے اور دہلی کو خیر باد کہا ۔(۲۷)


صفدر جنگ کی فیض آباد واپسی

صفدر جنگ کے دہلی چھوڑ دینے سے بھی دربار کے حالات بہتر نہ ہوئے بلکہ حکومت کی ہوس اور لالچ میں سنی گروہ میں بھی اختلاف ہوا ۔ انتظام الدولہ او رعماد الملک ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو گئے حالات روز بہ روز بگڑتے گئے بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے ان کی کوئی نہ سنتا بلکہ کبھی انتظام دولہ کی طرف سے مورد ظلم واقع ہوتے تو کبھی عماد الملک کی طرف سے نتیجہ یہ ہوا کہ صفدر جنگ کے جانے کے بعد احمد شاہ صرف چھ مہینے ہی حکومت کرسکے انہوں نے حکومت کو ہاتھ سے جاتے ہوئے دیکھا تو انہیں اپنی غلطی کا باقاعدہ احساس ہوا اور خفیہ طور پر صفدر جنگ کو ایک خط لکھا کہ وہ فوج کے ساتھ ان کی مدد کے لیے آئیں خبر پا کر صفدر جنگ پرانی باتوں کو بھول کر ایک بار پھر بادشاہ کی مدد کے لیے چل پڑے جب کہ ان کے پیر میں ایک پھوڑا تھا جس کی وجہ سے زندگی دشوار تھی پھوڑا بڑھتا ہی جارہا تھا ۔ ادہر دہلی میں ۱جون ۱۷۵۴ء کو عماد الملک نے اپنی قوت کا استعمال کیا اورانتظام الدولہ کو وزارت سے ہٹا کر خود وزیر بنے (انتظام الدولہ صفدر جنگ کے جانے کے بعد وزیر معین ہوئے تھے ) اور دوسرے ہی دن وزیر عماد الملک نے بادشاہ احمد شاہ کو ان کی بادشاہت سے ہٹا دیا انہیں اور ان کی والدہ کو قید کر دیا ۔

صفدر جنگ سلطان پور کے پاس پڑاو ڈالیے ہوئے تھے بیماری نے انہیں آگے بڑھنے نہ دیا تھا اور جب یہ خبر ملی کہ عماد الملک نے بادشاہ قید کر لیا ہے تو صفدر جنگ کافی مغموم ہوئے اور وہیں سلطان پور ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئے اس دن ۱۵اکتوبر ۱۷۵۴ء  کا دن تھا انتقال کے بعد ان کی لاش کو دہلی لے جایا گیا اور وہیں دفن کیا گیا انکے بیٹے شجاع الدولہ نے ان کی قبر پر ایک خوبصورت مقبرہ بنوایا جو آج بھی صفدر جنگ کے مقبرہ کے نام سے مشہور ہے ۔(۲۸)

صفدر جنگ کی رحلت کے بعد ان کے اکلوتے بیٹے جلال الدین حیدر ، شجاع الدولہ مسند ریاست پر جلوہ افروز ہوئے ۔


جلال الدین حیدر نواب شجاع الدولہ بھادر،شخصیت و کردار پر طائرانہ نظر:

جلال الدین حیدر ۱۹جنوری ۱۷۳۲ء کو بروز اتوار دہلی میں شکوہ محل میں پیدا ہوئے اس وقت برہان الملک زندہ تھے اور انہوں نے ہی ان کا نام رکھا اور خوشی منائی جلال الدین حیدر جب پانچ سال کے ہوئے تو ان کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوا اور مخصوص ماہر اساتذہ ان کی تعلیم کے لیے انتخاب کئے گئے تھے ۔ جلال الدین حیدر بہت ذہین تھے ۔

اساتذہ کے دروس کو با آسانی سمجھ لیتے آہستہ آہستہ انہوں نے عربی ، فارسی ، ترکی ، اردو ، ہندی ، مراٹھی یہ ساری زبانیں سیکھ لیں زبانوں کے ساتھ ساتھ وہ جنگی فنون سے بہ خوبی آراستہ ہوئے ۔ (۲۹)


شجاع الدولہ پر الزام اور اس کی تردید

اپنے والد نواب صفدر جنگ کی رحلت کے بعد ۱۷۵۴ء میں مسند ریاست پر متمکن ہوئے ابھی مسند ریاست پر جلوہ افروز ہوئے ہی تھے کہ صفدر جنگ کے بھتیجے محمد قلی خان نے اسماعیل خان کا بلی سپہ سالار فوج سے ساز کر کے ایک کھتری کی اٹھارہ سالہ لڑکی کا فتنہ کھڑا کیا ۔ اور یہ مشہور کیا کہ اجودھیا میں شجاع الدولہ ایک کھتری کی اٹھارہ سالہ لڑکی پر فریفتہ ہوئے اور تاریکی شب میں اسے اس کے گھر سے اٹھوا لیا اور کلی سے پھول بنا کر صبح کی کرن پھوٹنے سے پہلے اسے اس کے گھر واپس پہنچا دیا یہ پہلا الزام حکومت سنبھالتے ہی اس لیے لگایا گیا تاکہ انہیں حکومت سے ہٹا کر محمد قلی خان کو حاکم بنایا جاسکے لیکن بعض مورخین نے ناسمجھی میں یا سمجھ بوجھ کر اس واقعہ کو حقیقت جانا ہے جبکہ اس واقعہ کے اختتام سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا بہو بیگم کی مختصر گفتگو اور ذرا سی تحقیق سے سب کچھ ثابت ہو گیا لہذا ہزاروں کی تعدا میں جمع ہوئے کھتری حقیقت سے آگاہ ہوتے ہی اپنے اپنے راستہ پر واپس چلے گے اور شجاع الدولہ اور بہوبیگم سے معافی بھی مانگی ۔

امجد علی نے تاریخی اودھ کے مختصر جائزہ میں صفحہ ۹۰پر اس واقع کو تحقیقی انداز میں بیان کیا جسے ہم خلاصہ کے طور پر یہاں اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں:

وہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بالکل من گھڑت معلوم ہوتا ہے ۔ اور اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ لڑکی کو شجاع الدولہ نے ہی اٹھوایا تھا ہوسکتا ہے کہ ہنگامہ برپا کرنے کی غرض سے محمد قلی خان کے آدمیوں نے ہی یہ حرکت کی ہو کیونکہ اسماعیل خان کا بلی یہ چاہتا تھا کہ شجاع الدولہ  کےبجائے محمد قلی خان کو مسند نشین کر کے خود صاحب اختیار ہو کر رہے ۔ بہر کیف محمد قلی خان  نےکھتری کی لڑکی کے واقعہ کو بھر پور شہرت دی اور شہرت دے کر بارہ ہزار کھتریوں کو اکٹھا کر لیا کہ حملہ کر کے شجاع الدولہ کو تخت سے اتارا جائے ۔ اس تمام سازش کی اطلاع امر اوگری اور نواب گری نے شجاع الدولہ کو جا کر دی ۔ ادہر اسماعیل خان کابلی نے سرداران مغلیہ کو بھڑکا کر یہ تجویز رکھی کہ نواب قلی خان کو الٰہ باد سے بلو اکر مسند نشین کرادیا جائے سرداران مغلیہ جو نواب صفدر جنگ کے زمانے سے اودھ کے مخالف تھے وہ بھی اس بات پر راضی ہو گئے اور شجاع الدولہ کے مخالف ہو گئے جب یہ ساری خبر نواب صدر جہاں بیگم کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے راجہ رام نرائن اور دیگر افسران و سرداران مغلیہ کو در دولت پر بلوا کر سمجھایا اور کہا کہ صفدر جنگ نے تم لوگوں کی پرورش اسی دن کے لیے کی تھی کہ ان کے دشمنوں کے شریک ہو جاؤ وغیرہ وغیرہ غرض کی نواب بیگم کی معاملہ فہمی دور اندیشی اور حسن تدبیر سے یہ معاملہ رفع دفع ہوا ۔ جب لوگوں کوحقیقت معلوم ہوئی کھتری کی لڑکی کا معاملہ پایہ ثبوت تک نہ پہنچا تو لوگ اس سازش سے آگاہ ہوئے تمام کھتری شرمسار ہوئے اور سب نے شجاع الدولہ سے معافی مانگی اور حکومت کا وفادار رہنے کا وعدہ کیا اور سرداران مغلیہ جو نواب محمد قلی خان کے حامی تھے انہوں نے بھی طاعت اور عفو قصور کی درخوات نواب بیگم صاحبہ سے کسی اور صوبہ میں امن و امان قائم ہو گیا ۔(۳۰)


شجاع الدولہ کی صوبہ اودھ پر خاص توجہ

اب شجاع الدولہ نے صوبہ کی ترقی کی طرف توجہ فرمائی فیض آباد کی رونق بڑھنے لگی ۔ دلی کی سیاسی اور معاشی حالت خراب ہونے اور فیض آباد  کی رونق بڑھنے کے علاوہ شجاع الدولہ کی فراخ دلی اور قدردانی نے علماء ادباء دانشوروں اور تاجروں کو فیض آباد کی طرف رخ کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔

ادہر شجاع الدولہ اپنے صوبہ کو مستحکم اور آباد کرنے میں مصروف تھے ادھر ان کے دشمن عماد الملک ، احمد خان بنگش ، نواب محمد قلی خان وغیرہ اس فکر وجستجو میں تھے کہ شجاع الدولہ کو ہٹا کر صفدر جنگ کی تمام ملکیت کو ضبط کر لیں ۔ مگر شجاع الدولہ کی دو راندیشی کے سامنے کسی ایک کی نہ چلی البتہ ان دشمنوں کی وجہ سے شجاع الدولہ کو کئی جنگیں لڑنی پڑی آخر کار ۱۷۵۷ء میں شجاع الدولہ نے اپنے اہم دشمن محمد قلی خان کو قید کر لیا تھا اور جب تقریباً ۲۰۔۲۵لاکھ مرہٹوں نے دہلی حکومت کو گھیر لیا تھااور دہلی کو تاخت و تاراج کرنا چاہتے تھے تو احمد شاہ درّانی بادشاہ دہلی کی امداد کے لیے آیاتھا  اس وقت شجاع الدولہ بھی بادشاہ دہلی کی مدد کے لیے گئے تھے دونوں نے مل کر مرہٹوں کو شکست فاش دی اور بادشاہ دہلی کو نجات دی تھی ۔ ۱۷۶۲ء میں شاہ عالم نے شجاع الدولہ کو ہندوستان کی وزارت کا خلعت عطا فرما تھا ۔ ۱۷۶۳ء میں میر قاسم نواب بنگال جب انگریزوں کا مقابلہ نہ کرسکا اور فرار اختیار کی تو اس نے نواب شجاع الدولہ سے پناہ اور مدد مانگی ۔ شجاع الدولہ کی دوررس نگاہیں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو دیکھ رہی تھیں اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اگر اس نئے فتنے کا سد باب نہ کیا گیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں پورے ملک میں انگریزوں کی حکومت ہوگی لہذا سوچ سمجھ کر انہوں نے میر قاسم کی امداد قبول کی اور انہیں پناہ دی کیونکہ میر قاسم کی امداد یعنی انگریزوں سے اعلان جنگ اب شجاع الدولہ انگریزوں سے مقابلہ کے لیے امادہ ہوئے اور شاہ عالم کو بحیثیت شہنشاہ ہندوستان کے آمادہ کیا کہ وہ انگریزوں کی مدافعت کے لیے اپنے وزیر کا ساتھ دیں دوسرے والیان ریاست سے بھی خط و کتابت کی اور اس بڑھتے ہوئے خطرہ کا احساس دلایا ۔(۳۱)

پھر شجاع الدولہ نے بحثیت وزیر اعظم ہندوستان ایک خط ایسٹ انڈا کمپنی کے عہدہ داروں کو لکھ کر کلکتہ روانہ کیا ۔ شجاع الدولہ کے اس خط کو پڑھ کر انگریز کافی خوف زدہ ہوگئے ۔ پنڈت سندر لال اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں : شجاع الدولہ کی طاقت بہادری اور معرکہ آرائی کی شہرت سن کر انگریز ڈر گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو میدان جنگ میں شجاع الدولہ سے مقابلہ کرنے کے قابل نہیں سمجھا ۔(۳۲)


شجاع الدولہ کا انگریزوں سے مقابلہ

جب شجاع الدولہ کو انگریزوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا تو وہ میر قاسم کی حمایت میں شاہ عالم اور دیگر والیان ریاست کے ساتھ ایک جم غفیر فوج لے کر انگریزوں کو سبق دینے کی غرض سے چلے ۔ شجاع الدولہ کے ساتھ آدمیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے یہ کثیر فوج بنارس ہوتی ہوئی پٹنہ پہنچی پہلے تو انگریزوں نے کچھ مقابلہ کرنے کی کوشش کی پھر ایک قلعہ میں محصور ہو گئے ۔ اس درمیان برسات کا موسم آگیا ۔ شجاع الدولہ نے پٹنہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور بکسر لوٹ کر برسات ختم ہونے کا انتظار کر نے لگے اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی زبردست مصیبت کا شکار تھی ۔ تباہی و بربادی کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ رہی تھی ۔ اس مصیبت سے بچنے کے لیے ان کے پاس صرف مکر و فریب اور سازش کا سہارا تھا ۔ لہذا انہوں نے سب سے پہلے شاہ عالم پر ڈورے ڈالے اور بادشاہ کو وزیر سے الگ کردینے کی سازش کی انگریزاپنی اس سازش میں کامیاب بھی ہوئے ۔ سید غلام حسین جو سیر المتاخیرین کے مصنف ہیں اور اپنے والد کے ساتھ شاہ عالم کی فوج میں موجود بھی تھے اقرار کرتے ہیں کہ لالچ میں آکر وہ خود انگریزوں سے مل گئے تھے ۔ (۳۳)

مرزا علی اظہر برلاس اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں : کہ بدقسمتی سے اٹھارہویں صدی میں مسلمان فرمان رواؤں کے آپس کے اختلاف اور بغض و حسد نے اس فوج کو کمزور کر دیا اور سوائے حافظ رحمت خان کے کوئی اس بات پر آمادہ نہیں ہوا کہ وہ شجاع الدولہ کی انگریزوں کے خلاف جنگ میں مدد کرے ۔ انگریزوں نے پہلے ہی سے سازش کا ایسا جال بچھایا تھا کہ شجاع الدولہ کا کامیاب ہونا ناممکن تھا ۔ غلام حسین خان سیر المتاخیرین کے مصنف اور ان کے باپ ہدایت علی خان جو انگریزوں کے خالص جاسوس یا گماشتے تھے شجاع الدولہ کے لشکر میں موجود تھے اور افسوس یہ کہ شجاع الدولہ کے خاص معتمد تھے ۔ انگریزوں نے انہیں کے ذریعہ سے شاہ عالم کو ملا لیا سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ میر قاسم خود جنہوں نے شجاع الدولہ سے مدد طلب کی تھی وزیر شجاع الدولہ کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے لگے اور بادشاہ کو خط لکھا کہ میں نے افسران فوج کو شجاع الدولہ سے منحرف کر دیا ہے وہ با آسانی گرفتار ہو جائیں گے ۔ مجھے عہدہ وزارت پر سرفراز کیا جائے ۔ خلاصہ یہ کہ انگریزوں نے اس فوج میں ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ خواہ وہ شاہ عالم ہوں یا میر قاسم یا شجاع الدولہ کسی کو کسی دوسرے پر اعتماد نہ رہا اور ہر ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا ۔ (۳۴)

جس فوج کے افراد خاص کا یہ عالم ہو اس کا نتیجہ پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے ۔ ۱۷۶۴ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بکسر کے میدان میں ہندوستان کے شہنشاہ اودھ کے نواب وزیر اور بنگال بہار کے نواب کی مجموعی طاقت کو چکنا چور کر دیا ۔ انگریز مورخین کے خیال میں ہندوستان میں انگریزی حکومت کا آغاز بکسر کی جنگ میں ان کی فتح سے ہوا ۔(۳۵)

میدان جنگ میں شجاع الدولہ کا ساتھ نہ میر قاسم نے دیا اور نہ شاہ عالم نے جنگ ختم ہوتے ہی شاہ عالم انگریزوں سے جا ملے اور شجاع الدولہ کے دیوان بینی بہادر کو بلوا کر شجاع الدولہ اور انگریزوں کے درمیان صلح کی بات چیت شروع کی ۔ لیکن شجاع الدولہ صلح کے لیے راضی نہ ہوئے اور اپنی بچی ہوئی فوج کے ساتھ واپس اودھ کی طرف پلٹنے لگے انگریزوں نے شجاع الدولہ کا پیچھا کیا اور الٰہ باد تک آگئے الٰہ باد کا قلعہ دار بھی انگریزوں سے مل گیا ۔ ایسے حالات میں کون تھا جو انگریزوں کا مقابلہ کرسکتا تھا ۔ آخر کار حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مہاراجہ شتاب رائے کے مشورہ و مداخلت سے شجاع الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاریخی سجھوتا کر لیا ۱۶اگست ۱۷۶۵ء میں اس صلح نامہ کو الٰہ باد میں مرتب کیا گیا ۔(۳۶)

ہم اختصار کے سبب صلح نامہ کی تفصیل سے پرہیز کرتے ہیں افسوس اس بات پر ہوتا ہے  کہ مسلمانوں نے انگریزوں کی اس چال پر نہ کبھی غور کیا اور نہ ہی اس سے درس لینے کی کوشش کی ۱۸ویں صدی کے ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے اتحاد اور غیرت کو فروخت کر کے انگریزوں کی غلامی قبول کی افسوس صدافسوس آج اکسیویں صدی کے مسلمان اس تاریخ سے عبرت نہیں لیتے اور آج بھی امریکہ اور انگریزوں کے اسی فتنہ میں گرفتار ہیں ان کے  اشاروں پر ناچتے ہیں انکی غلامی کو اپنی آزادی سمجھتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب انہیں اپنی غلامی کا احساس ہونے لگے گا جس طرح  مصر اور لیبی کے مسلمانوں کو ہوا  کاش یہ احساس آج ہی ہوجاتا اور یہ ذلیل و خوار ہونے سے بچ جاتے بحر حال یہ ایک درد دل تھا جسے بیان کرنے میں میں خود کو نہ روک سکا ۔

شجاع الدولہ کی آئندہ زندگی انہیں صلح نامہ اور شرائط کے تحت چلتی رہی انگریز شرائط بڑھاتے گئے اور شجاع الدولہ اسے مجبوری میں قبول کرتے گئے ۔ اس درمیان تہمتوں اور الزام تراشیوں کا بازار کافی گرم رہا شجاع الدولہ پر سب سے بڑا الزام عیاشی کا لگایا گیا ۔ انہیں زمانے کا اتنا بڑا عیاش بتایا گیا کہ خورد محل فیض آباد میں رہنے والی ان کی ازواج کی تعداد ۲سے ڈھائی ہزار بتائی گئی نواب شجاع الدولہ کے حرم میں عورتوں کی یہ تعداد صرف مبالغہ آرائی کا کرشما ہی نہیں بلکہ متعصب اور تنگ نظر مورخین کی عصبیت کا حتمی اور لازمی نتیجہ بھی معلوم ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہی دستر خوان کی نعمتوں اور عیش و آرام کی جولانیوں نے نواب شجاع الدولہ کو قبل از وقت جوان و بالغ بنا دیا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ انکی شادی صرف ۱۴سال کی عمر میں محمد اسحاق خان کی صاجزادی امتہ الزہرا سے کردی گئی تھی اس شادی کے دس برس بعد یعنی ۲۴سال کی عمر میں نواب موصوف مسند نشین وزارت ہوئے ۔ لیکن کسی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس دس سال کے عرصہ میں انہوں نے کوئی دوسری شادی کی ہو (جبکہ عیاشی کے لحاظ سے نواب کی یہ بہترین عمر تھی۔


شجاع الدولہ پرازواج کثیر رکھنے کا الازم اور اس کی تردید

تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد نواب شجاع الدولہ نے تقریباً ۲۲سال تک اودھ پر حکومت کی تاریخی اعتبار سے نواب کی یہ ۲۲سالہ زندگی انگریزوں اور منصب داران مملکت کی اندرونی سازشوں مرہٹوں کی فتنہ پردازیوں اور فوجوں کی اصلاحی تدبیروں میں مصروف رہی فیض آباد میں پر سکون قیام کے لیے صرف دو یا تین سال نصیب ہو ئے ۔ لہذا ان حالات میں بعض مورخوں کا یہ کہنا کہ نواب شجاع الدولہ کی ازواج کی تعداد خورد محل فیض آباد میں دو سے ڈھائی ہزار کی تعداد میں تھیں نہ تو قرین قیاس ہے اور نہ ہی عقل سلیم اسے قبول کرسکتی ہے ۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ دنیا کی ہر تاریخ تحریف کا شکار ہوتی ہے صدیوں کے طویل سفر کی گرد میں اَٹے ہوئے واقعات ، پر ہر صاحب قلم  نےجداگانہ انداز فکر اور سب سے زیادہ واقعات کی تبدیلی پر جو طاقت اثر انداز ہوتی ہے وہ حکومت وقت کی مرضی اور خوشنودی ہوتی ہے اور ایسا ہر دور ہر زمانہ میں ہوتا آیا ہے حکومتوں نے اپنے مفاد و مطالب کے حصول کے لیے قلم کاروں کو استعمال کیا ہے اس کے علاوہ صاحبان قلم میں بعض حضرات نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے تحت حکام کی خوشنودی حاصل  کرنے کے لیے اپنے قلم کو حکومت وقت کی مرضی کا تابہ بنائے رکھا ۔ اس کے برخلاف حق گوئی کے ساتھ رہنے قلم کا آزادانہ استعمال کرنے والے حکومتوں کے ظلم کا نشانہ بنتے رہے اور ان کی زبان و قلم پر اقتدار وقت نے کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت کو قائم رکھا ۔ ہندوستان کے ماضی قریب کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسے انگریزی حکومت کے انداز فکر اور اغراض و مقاصد کو نظر میں رکھتے ہوئے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے ۔ اگر حقائق اورواقعات کو انکے حقیقی پس منظر میں دیکھا جائے اور ان کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ غیر جانب دارانہ طور پر حقیقی تاریخ کا ایسے عہد میں لکھاجانا بہت ہی مشکل کام تھا ۔

قیصر التواریخ کے مصنف جناب کمال الدین حیدر نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ میں نے یہ کتاب (( مسٹر ہنسری ایلٹ چیف کمشنر سکریڑی گورنر جنرل کشور ہند) کی فرمائش پر تحریر کی ہے لہذا ایسی صورت میں اس کتاب کے اندر سلاطین اودھ کے صحیح واقعات و کردار کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو واقعات قرین قیاس ہیں انہیں درست سمجھ کر ان کی تحقیق کرنا چاہے اور جو بعید از قیاس ہیں انہیں نذر انداز کردینا چاہے ۔ ستم بالای ستم یہ کہ کمال الدین حیدر کے بعد جن لوگوں نے سلاطین اودھ کے حالات و واقعات پر قلم اٹھایا ان میں سے اکثر نے اتفاق سے قیصر التواریخ ہی کو اپنی تحقیق کا مأخذ قرار دیا اور اسی سے واقعات اخذ کر کے اپنے انداز میں تحریر کرتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو جھوٹ تھا وہ سچ بن گیا اور جو شچ تھا اس کی سچائی پر مصلحت کے پردے ڈال دیئے گئے حالانکہ دیگر کتابوں سے غیر جانب دارانہ مواد فراہم ہوسکتا تھا اور شاہان اودھ کی موجودہ تاریخی نوعیت تبدیل ہوسکتی تھی ۔ جیسا کہ نواب شجاع الدولہ کی ازواج و اولاد کے بارے میں انوار السعادہ کے مصنف جوالہ پرساد اختر نے تحریر فرمایا ہے ۔ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ نواب شجاع الدولہ کی زندگی میں صرف چار عورتیں داخل ہوئیں انکی پہلی بیوی امتہ الزہرا جو بہوبیگم کے خطاب سے نوازی گئیں اور شہنشاہ دہلی  کے دیوان خاص محمد اسحاق خان کی دختر نیک اختر تھیں جن کے بطن سے مراز امانی آصف الدولہ متولد ہوئے دوسرا عقد بنارس کے راجہ صاحب کی صاجزادی سے کیا جنہوں نے مذہب شیعت اختیار کر لیا تھا ان کے بطن سے یمین الدولہ نوابسعادت علی خان پیدا ہوئے ۔ تیسرا عقد نواب علی قلی خان ظفر جنگ کی صاجزادی گنا بیگم سے کیا جو عالیا سلطان بیگم کے خطاب سے نوازی گئیں اورا ن کے بطن سے نصیر الدولہ متولد ہوئے چوتھا عقد نواب موصوف نے سید ضامن علی زید الواسطی کی صاجزادی سرفراز النساء بیگم سے کیا ان کے بطن سے دو بیٹے معین الدولہ عنایت علی خان اور نواب شمس الدین حیدر متولد ہوئے اس کے علاوہ تین بیٹیاں بھی متولد ہوئیں ۔

 ان بیگمات کے علاوہ نواب شجاع الدولہ کی نہ کوئی بیوی تھی اور نہ ہی کوئی اولاد ، لیکن اس حقیقت کے باوجود بعض مورخین نے ان کی ازواج کے سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے جو تحقیق کے بغیر مناسب نہ تھا ۔ (۳۷)

انہیں نشیب وفراز کے ساتھ حکومت اودھ اور نواب شجاع الدولہ کی زندگی گذر رہی تھی آخر کار ۱۴ذیقعدہ ۱۱۸۸ھجری مطابق ۱۷۷۵ء کو دو بچے رات میں دنیا سے سفر آخرت اختیار کیا ۔ غسل و کفن کے بعد مفتی میر محمد حسین نے نماز جنازہ پڑھائی اور میت گلاب باڑی فیض آباد میں دفن کی گئی بعد میں نواب بہو بیگم نے قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کرایا جس کی رونق آج بھی قابل دید ہے وہاں آج بھی اس دور کے شیعہ محرم میں مجلس کرتے ہیں اور ماہ رمضان میں ایک دن حکومت ہند کی جانب سے افطار کا انتظام ہوتا ہے ۔

نواب شجاع الدولہ کی رحلت کے موقعہ پر فیض آباد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے قیصر التوارخ کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : وہ رات ماتم کی خاص رات تھی ہر گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں بلند تھیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ ا س گھر کا کوئی وارث مرگیا ہو خور د محل اور خاص محل کے محلوں میں وہ حال تھا جو ناقابل بیان ہے بس یہ کہ خاندان عالیہ میں کسی کا ایسا ماتم نہیں ہوا تھا شجاع الدولہ کے بارے میں میر تقی میر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں ۔

شجاع الدولہ اس جہانی فانی سے رخصت ہو گئے ۔ لوگوں نے بہت ماتم کیا اگر آسمان ہزار سال چکر کھاے تو ایسا صاحب جرأت اور سراپا مروّت سردار پیدا نہ ہو گا ۔ (۳۸)

شجاع الدولہ اودھ کے تیسرے نواب تھے جنکی شخصیت و کردار پر ہم نے روشنی ڈالی اودھ کے باقی بچے آٹھ نوابوں کی شخصیت و کردار پر ہم اس طرح روشنی نہ ڈال سکے جس کے لئے معذرت خواں ہیں اہم وجہ ہمارے تحقیق کے صفحات اس بات کی اجازت نہیں دیتے جسکا کہ ہم نے بارہا ذکر کیا کہ یہ تحقیق ۴۰صفحات پر مشتمل ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں اگر آئندہ میں اس ضمن میں کوئی تفصیلی کام  ہوا تو ضرورکوشش کرونگا ۔ باقی آٹھ نوابوں کی زندگی میں جو اسلامی خدمتیں ہیں ہم کوشش کریں گے کہ نوابین اودھ کی اسلامی خدمتوں کے بیان میں ہر ایک نواب کی خدمت اسلامی کا ذکر کیا جائے بس پروردگار عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔


نوابین اودھ کی اسلامی خدمتیں

ہندوستان کے اس مخصوص و ممتاز خطہ کو اودھ کے نام سے موصوم کیا جاتا  ہےجسکی سر زمین ان جلیل القدر عالموں صوفیوں ولیوں بزرگوں اور حق پرستوں کی آماج گاہ  و آرام گاہ بنی جنکی تبلیغی تدریسی سرگرمیوں کی تابندہ و تابناک کرنوں سے اسکے ذرّوں کو روشن و منور کیا۔

اودھ کی گنگا جمنی تہذیب اور مسالی تمدن ساری دنیا میں موجود ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کی انفرادیت شاہان اودھ اور ان کی رعایا کے ما بین استوار ہونے والے ہمدردانہ کرم اور باہمی خوشگوار تعلقات کا حتمی و لازمی نتیجہ ہے جوہر کاروان انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔

جب ہم تاریخی واقعات کی روشنی میں شاہان اودھ کے غیر جانبدارانہ طرزعمل اور نظام حکومت کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ابھرکر سامنے آتی ہے کہ ان فرمانرواؤں نے اپنی رعایا کی جذباتی و مزاجی کیفیت کو نظر میں رکھتے  ہوئے باہمی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کی مثال مغلیا تاجداروں کے یہاں بھی نہیں ملتی اور اس مستحصن کو ششوں کے نتیجہ میں اپنی رعایا کی طرف سے انہیں جو بے پناہ پیار ملا اس کی نظیر بھی ممکن نہیں ہے ۔

چنانچہ اس پیار و محبت کا تلسمی کرشما تھا کے اودھ کے آخری تاجدار کو بھی جان عالم کہا گیا ۔ کبھی اختر پیاکہکر مخاطب کیا گیا ۔ کبھی قیصرے زمان کا خطاب دیا گیا ۔ مختصر یہ کہ شاہان اودھ نے اپنے دور حکمرانی میں رعایا پروری کرم نوازی انصاف پسندی قومی ہم آہنگی اور انفرادی تہذیب و تمدن کے ایسے غیر فانی چراغ روشن کئے کہ جنکی تجلی سے اودھ کا گوشہ گوشہ آج بھی جگمگا رہا ہے ۔

اودھ کی اس شیعہ حکومت کی بنیاد ۱۷۲۲ء میں سید محمد امین نیشاپور نے رکھی تھی انہوں نے اپنی رعایا میں اخلاق اسلامی پیش کر کے اپنی شخصیت کا لوہا منوالیا تھا اودھ کا نواب ہوتے ہی جب ماہ محرم آیا اور محرم کا چاند فلک پر نمودار ہواتو  انہوں نے شیعت کی تبلیغ کا آغاز عزاداری امام حسین (ع) سے کیا ۔

منشی جوالہ پرساد اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں کہ برہان الملک کے عہد حکومت میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگوں کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصلی تھی ۔ برہان الملک چونکہ بذات خود شیعہ تھے لہذا ان کا سارا خاندان محرم کا چاند دیکھتے ہی سیاہ پوش ہوجاتا تھا ۔ اور بیگمات مظلوم کربلا امام حسین کے سوگ میں اپنے سارے قیمتی زیورات اتار کر چوڑیاں توڑ دیتی تھیں ۔ محرم کی ساتویں تاریخ سے صوبہ اودھ کے حدود مملک میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا تھا ۔ کسی پر کوئی زور زبردستی نہ تھی لیکن چونکہ برہان الملک عزاداری مناتے تھے لہذا ان کے ساتھ ہندو مسلمان سب مل کر امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے تھے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صوبہ اودھ میں شیعت کی پہلی تبلیغ برہان الملک نواب سعادت علی خان کی مرحون منت ہے ۔ (۳۹)

جس سلسلہ کی بنیاد برہان الملک سعادت خان نے رکھی تھی ان  کے بعد آنے والے ان کے جانشین صفدر جنگ جو ان کے بھانجے اور داماد بھی تھے انہوں نے بھی اس مشن میں کوئی کمی نہیں چھوڑی عزاداری اور غم امام حسین علیہ السلام منانے کے ساتھ ساتھ شیعت  کی تبلیغ میں روز بہ روز ترقی کرتے رہے اور مذہب کے حوالے تعمیراتی کام کا بھی آغاز ہوا مسجد اور امام بارگاہوں کی تعمیرات شروع ہوئی البتہ ان تعمیرات نے نوابین اودھ میں شجاع الدولہ اور خصوصاً آصفہ الدولہ کے زمانے میں کافی ترقی حاصل کی ۔لیکن ان  بادشاہوںمیں سب کا طرز عمل یہ تھا کہ رعایا کی خوشنودی کے لیے جب کبھی اپنے مذہب کے لیے تعمیرات انجام دیتے تو دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی ان کی عبادت گاہوں کی تعمیرات کے لیے زمین اور پیسے کا انتظام کرتے تھے فرق یہ تھا کہ ان کی عبادت گاہوں کی تعمیرات کی ذمہ داری خود انکے حوالہ کردیتے تھے لیکن مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیرات پر اکثر خود نظر رکھتے تھے ۔

بادشاہ کے درباریوں میں کسی مذہب و ملت کی قید نہ تھی جہاں شیعہ حضرات منصب دار تھے وہیں اہل سنت بھی منصب دار شاہی، دربار میں موجود تھے ان دونوں کے ساتھ ساتھ ہندوں کی بھی منصب داروں میں کمی نہ تھی جسکی عمدہ مثال راجہ نول رائے کی ہے جو اودھ کے نائب صوبہ دار تھے ۔

بحرحال دربار اور رعایا دونوں میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود تھے لہذا جب ایام عزا ماہ محرم میں عزاداری ہوتی تو امام حسین علیہ السلام کی اس عزاداری میں شیعہ و سنی کے علاوہ ہندو بھی بڑی عقیدت سے کثرت کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور نہ صرف شریک ہوتے بلکہ اپنی طرف سے عزاداری کا اہتمام کرتے جس  میں مومنین کے ساتھ ساتھ بادشاہ کو بھی دعوت دیتے اور بادشاہ بھی شریک ہوتے تھے ۔

انوار سعادت کے مصنف منشی جوالہپرساد تحریر فرماتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں عَلم نکالے جانے کی ابتداء ایودھیا کی مشہور مسجد یعنی بابری مسجد سے ہوئی وہ تحریر فرماتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں حسینی فوج کے سپہ سالار اور عَلم بردار حضرت عباس علیہ السلام کے نام کا پہلا عَلم ایودھیا کی سرزمین پر بابری مسجد سے نکلا اور اس کے نکالنے کی ذمہ داری کمال شاہ نامی ایک بزرگ کی خواہش پر راجپوت سردار دھرم سنگھ نے لی تھی جو وہاں ذمہ دار ہندؤوں کی مشورت سے عین ۱۰محرم کو نکالا گیا تھا ۔ پہلے ہی سال اس علم کے جلوس میں ایودھیا کی ساری آبادی بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ شریک ہوئی ۔

دوسرے سال اس علم کو اتنی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ قرب وجوار کی خلقت سمٹ کر ایودھیا پہنچ گئی اسی طرح اس کی شہرت بڑھتی گئی شہرت کے ساتھ ساتھ شرکت کرنے والوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہوتا گیا ۔ اپنی عمر کے اواخر میں اس علم کی شہرت سن کر نواب شجاع الدولہ بھی اپنی والدہ نواب صدر جہاں بیگم کے ہمراہ شاہی کرو فر کے ساتھ ایودھیا آئے اور اس علم کی زیارت سے مشرف ہوئے نواب بیگم اس علم کے جلوس کی شان شوکت سے اسقدر متأثر ہوئیں کہ انہوں نے تقریباً دو لاکھ کا چٹھاوا چڑھایا ۔ (۴۰)

کہتے ہیں کہ اودھ میں تازیہ داری کی بھی ابتداء اسی شہر ایودھیا سے ہوئی لیکن یہ نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے عزاداری کا باقاعدہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب فیض آباد میں پہلا امام باڑہ نواب شجاع الدولہ کی والدہ نے شہر کے مشہور باغ موتی باغ کے پیچھے ۱۷۶۴ء میں تعمیر کروایا اور اسی سے ملحق ایک مسجد بھی بنوائی ۔ دوسرا امام باڑہ شجاع الدولہ کی زوجہ نے بنوایا تھا اور خود شجاع الدولہ نے تشنہ گانہ کربلا کے نام سے ایک سبیل جاری کی تھی جو بہت مشہور ہوئی لوگ عرصہ دراز تک اسکا ذکر کرتے تھے ۔

فیض آباد میں پہلے نواب برہان الملک سے لیکر تیسرے نواب شجاع الدولہ کے زمانے تک شیعت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ تعمیری کام بھی بہت ہوئے جس میں کچھ حالات زمانہ کی وجہ سے تخریب ہو گئے لیکن بعض عمارتیں آج بھی شہر کی زینت و مرکزیت بنی ہوئی ہیں جن میں قلب شہر میں ا س مسجد کا ذکر ضروری ہے جیسے شجاع الدولہ کے مقرب اور بہوبیگم کے خزانہ دار حسن رضا خان نے بنوایا تھا یہ مسجد آج فیض آباد شہر کے قلب میں وسط چوک میں موجود ہے جس کے آسمان چھوتے مینار اور گمبندوں کی سفیدیاں یہاں آج بھی ہر راہ چلتے ہوئے شخص کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں ۔ فیض آباد کے دور حاضر کے مومنین نے ان مسجدوں کے تحفظ و تعمیرات میں اہم کردار ادا کیا ہے خواہ وہ کھجور کی مسجد یا موتی مسجد ہو یا قائم خان کی مسجد یا وشیقہ عربی کالج کی یا کلاب باڑی کی مسجد مومنین کی زحمتوں کا نتیجہ ہے کہ آج یہ تمام مسجدیں نہ صرف آباد ہیں بلکہ شہرکی زینت بنی ہوئی ہیں ۔

البتہ امام باڑوں میں جو شاہان اودھ کی طرف  سےتعمیر کرائے گئے تھے ان میں صرف جواہر علی خان کا امام باڑہ باقی ہے جو بوسیدہ حالت میں تھا لیکن ۲۰۱۱میں اس کی تعمیر ہوگئی اور اس کی کھوئی ہوئی شان شوکت دوبارہ پلٹ آئی۔

جواہر علی خان نے جہاں ایک خوبصورت امام باڑہ کی تعمیر کروائی تھی وہیں شیعت کی تبلیغ میں ان کے اور بھی نمایاں کردار ہیں مثلاً نواب شجاع الدولہ کی خواہش یہ تھی کہ نماز با جماعت پڑھی جائے لیکن لوگ اکثر عذر پیدا کر لیتے تھے ۔ جواہر علی خان کی بدولت لوگوں کو نماز جماعت پڑھنے پر آمادہ کیا گیا ۔ جواہر علی خان نے ایک دستہ بھی ترتیب دیا تھا جو نماز کے وقت لوگوں کو نماز جماعت پڑھنے کی ترغیب دلاتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ باقاعدہ نماز جماعت ہونے لگی اور پھر نماز جمعہ کا بھی انتظام ہوا اس طرح نواب شجاع الدولہ کے زمانہ میں فیض آباد میں نماز جمعہ قائم ہوئی اس کے علاوہ شیعت کی تبلیغ و تحفظ و بقاء کے لیے شجاع الدولہ نے جو قدم اٹھائے ان سب پر روشنی ڈالتے ہوئے منشی جوالہپرساد اختر تحریر فرماتے ہیں کہ نواب شجاع الدولہ شیعہ مسلک کے پیرو تھے ۔ اس لیے انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود انہوں نے اپنے عہد میں شیعت کی تبلیغ و تحفظ پر خاص توجہ رکھی ۔ انہوں نے مفتی میر محمد حسین نیشاپوری کی قیادت میں دو درجن سے زیادہ ایرانی و عراقی مبلغین کو اس کام پر مأمور کیا تھا ۔ یہ لوگ نہ صرف شہر فیض آباد میں بلکہ اودھ کے مختلف گوشوں میں شیعت کی تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ۔ ان لوگوں کی تنخواہیں شاہی خزانہ سے ادا کی جاتی تھی ۔ (۴۱)

ایسا نہیں تھا کہ صرف شجاع الدولہ نے ایسا کیا بلکہ اودھ کے تمام نوابوں کا طریقہ کار یہی تھا ۔ بس حالات کے اعتبار سے کسی نے اس کام کو بخوبی انجام دیا اور بعض حالات کی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کام کو بخوبی انجام نہ دے سکے ہم نے فیض آباد کے مختصر حالات میں ان کی خدمتوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اب ہم شاہان اودھ کی اسلامی خدمتوں کا جائزہ شہر لکھنو میں لیتے ہیں کہ جو در اصل شاہان اودھ کی اصلی اسلامی خدمتوں کا نمونہ ہے حقیقت تو یہ ہے کہ شہر لکھنو تعمیرات کے لحاظ سے شاہان اودھ کی خدمات میں آج بھی ڈوبا ہوا ہے ۔ شجاع الدولہ کے بعد ان کے فرزند آصف الدولہ مسند نشین ہوئے انہوں نے بھی اپنے اجداد کی طرح اسلامی خدمتوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔

منشی جوالہ پرساد آصف الدولہ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں : نواب آصف الدولہ ایک سنجیدہ  مزاج ، بردبار ، رحم دل ، سخی ، اور با تحمل فرمانروا ہونے کے ساتھ ساتھ نیک طینت ، پرہیز گار ، متقی ، اور نماز روزہ کے پابند انسان تھے ۔

رات کے پچھلے پہر بسترے استراحت کو چھوڑ کر قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوجاتے تھے ، اور یہ سلسلہ صبح کی اذان تک جاری رہتا تھا ۔ اس کے بعد نماز صبح سے فارغ ہوکر فرش خاک پر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے خالق کی بارگاہ میں گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ شکر اور مناجات فرماتے تھے ۔اور سورج کے طلوع ہونے سے قبل ہاتھی پر سوار ہو کر ہوا خوری کے لیے نکلتے تھے تو راہ میں کھڑے غریبوں اور مسکینوں میں دوہزار روپیہ تقسیم کرتے تھے ۔ اور یہ  ان کا کسی خاص دن کا نہیں بلکہ روزآنہ کا معمول تھا ۔ (۴۲)

اپنی متعصبانہ روش کے باوجود عبد الحلیم شرر لکھنوی نے بھی آصف الدولہ کی سخاوت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:

نواب آصف الدولہ کی فیاضیوں کی خاص و عام میں بڑی شہرت تھی اور انکی دادودہش کا تذکرہ دور دور کے شہروں میں ہو رہا تھا ۔ لوگ اٹھتے بیٹھتے عزت و محبت کے ساتھ ان کا نام لیتے تھےہندو دکاندار آج تک صبح کو آنکھ کھلتے ہی جوش عقیدت میں کہتے ہیں یا آصف الدولہ ولی ۔ (۴۳)

نواب آصف الدولہ کے دور حکومت میں بڑی مشکلات کا سامنا تھا انگریز اکثر چیزوں پر قابض ہو چکے تھے آصف الدولہ کا بھی دربار انگریزی جاسوسوں سے بھرا ہوا تھا ان تمام مشکلات اور انتہائی نا مساعد اور کربناک حالات کے باوجود لکھنو کی سرزمین پر شاندار عمارتوں کی تعمیر کر کے انہیں دوامی زندگی بخش دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔

ان عمارتوں کی تعمیر کے پس پردہ محض شان و شوکت کے اظہار کا جذبہ نہ تھا بلکہ اس سے ہزاروں غریبوں اور بے روزگاروں کو روزگار بھی فراہم ہوتا تھا ۔ اس کے علاوہ نواب آصف الدولہ کے عہد میں اہل علم کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ کتب خانہ کے لیے نادر و نایاب کتابوں کی فراہمی بھی ایک ضروری جز تھا ۔ چنانچہ اس کے ذیل میں عبد اللطیف شستری کا بیان ہے کہ شاھی کتب خانہ میں تین لاکھ منتخب کتابیں میں نے خود دیکھی ہیں ۔ جو نہایت ہی پاکیزہ خط میں لکھی ہوئی تھیں ۔ سو کتابوں کے اوپر ایک  گماشتہ مقرر تھا ، مختلف علوم و فنون اور اصناف پر انگریزی ، فارسی ، اور عربی میں کتابیں موجود تھیں ۔

۱۷۸۴ء میں اودھ پر جب قحط کا گہرا سایہ پڑا اور شہر کے شرفا ، تک فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے تو نواب آصف الدولہ نے اس نازک موقعہ پر لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور پیغمبر اسلام کے مظلوم نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مثالی یاد گار قائم کرنے کی نیت سے بڑے امام باڑہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا ۔

اس ضمن میں عبد العلیم شرر تحریر فرماتے ہیں ۱۷۸۴ء میں قحط پڑ گیا تھا اور شرفاء شہر تک فاقہ کشی میں مبتلا تھے اس نازک موقعہ پر رعایا کی دست گیری کے  لیے امام باڑہ کی عمارت چھیڑ دی گئی چونکہ شریف لوگ دن کو مزدوری کرنے میں اپنی بے عزتی خیال کرتے تھے اس لیے تعمیر کا کام دن کی طرح رات کو بھی جاری رہتا تھا اور غریب فاقہ کش شرفاء رات کے اندھیرے میں آکر مزدوروں میں شریک ہوجاتے اور مشعلوں کی روشنی میں کام کرتے ۔ اس عمارت کو نواب نے جیسے خلوص وعقیدت اور جوش دین داری سے بنوایا تھا ویسے ہی خالص اور سچے دل سے لوگوں نے تعمیر بھی کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی نفیس اور شاندار عمارت بن کر طیار ہو گئی جو اپنی نوعیت میں  بے مثل اور نادر روزگار ہے ۔ اس عظیم ترین امام باڑہ کا نقشہ ایک ایرانی ماہرے فن تعمیر کفایت اللہ کا تیار کردہ تھا جو اورنگ زیب کے دور حکومت میں ایران سے ہندوستان آئے اور دہلی میں سکونت پزیر ہوئے ۔ (۴۴)

آصفیہ امام باڑہ اس امام باڑہ کا نام رکھا گیا بائیس (۲۲) ہزار معماروں اور مزدوروں کی پانچ یا سات سال شب وروز کی تعمیراتی سرگرمیوں کے ثمرہ میں تیار ھوا ۔

یہ آصفی امام باڑہ دریائے گومتی کے جنوبی کنارے سے ملحق میڈکل کالج اور حسین آباد انٹر کالج کے مغرب میں ایک وسیع و عریض علاقہ کا احاطہ کیئے ہوئے ہے اور اسکا تعمیری سلسلہ درجہ ذیل دس حصوں پر مشتمل ہے ۔

۱۔ رومی گیٹ ۲۔ نوبت خانہ  ۳۔ پہلا مرکزی گیٹ ۴۔ گول صحن  ۵۔ دوسری سیح دری روکار  ۶۔ صحن و سبزہ زار  ۷۔باولی ۸۔ مسجد آصفی  ۹۔ امام باڑہ کی اصلی عمارت  ۱۰۔ بھول بھلیّا ۔

اب ہم یہاں پر ان دس حصّوں کی توضیح سے پرہیز کر کے آگے کا ذکر کرتے ہیں توضیح کے لیے آپ فروغ کاظمی کی تاجدار اودھ اور شیعت کا مطالعہ کریں انہوں نے اپنی کتاب کے ص ۸۳سے شروع کی ہے ۔

امام باڑہ کے ساتھ ہی ایک طویل عریض مسجد بھی واقع ہے جس میں ہزاروں نمازیوں کی گنجائش ہے جسے لگتا ہے آصف الدولہ نے امام باڑہ کی تعمیر سے قبل تعمیر کرایا تھا ۔ کیونکہ امام باڑہ کی تعمیر کے دوران نواب آصف الدولہ نے عقیدتن جو نظم کہی تھی اس سے بھی اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ امام باڑہ کی تعمیر سے قبل مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ یہ نظم آصف الدولہ کے کلیات میں شامل ہے جو سالار جنگ میوزیم حیدر اباد میں آج بھی محفوظ ہے ۔ اس نظم کے دو بند ملاحظہ فرمائیں:

                        مسجد کا گرچہ سب سے بڑا احترام ہے

                                                لیکن امام باڑہ بھی عالی مقام ہے

                        وہ آستانہ حق ، یہ مکان امام ہے

                                                بندہ جو ہیں سو رات دن انکا یہ کام ہے

            سجدہ اگر ادھر تو اودھر بھی سلام ہے

                                                دونوں مکان عرش سے رکھتے ہیں ہمسری

            جنت کے قصر جنت اعلی سے برتری

                                                اوج بیاں سے انکی صفت ہے بہت بڑی

کہتے ہیں دیکھ حور و ملک آدم پری

                                                سجدہ اگر ادھر تو اودھر بھی سلام ہے (۴۵)


تاریخ سلطانی کے مصنف تحریر فرماتے ہیں کہ جب امام باڑہ کی تعمیر مکمل ہوچکی اور محرم کا چاند نمودار ہوا تو اس میں پہلی مجلس نواب صدر جہاں بیگم کی طرف منعقد ہوئی جس میں ساری رات تبرک تقسیم ہوتا رہا اس مجلس پر ساٹھ ہزار روپیہ خرچ کئے گئے جو ایک یادگار مجلس تھی ۔ (۴۶)

منشی جوالہپرساد اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں کہ نواب آصف الدولہ اس امام باڑہ میں اس خلوص و عقیدت و احترام کے ساتھ مجلس کرتے تھے کہ محرم کے زمانے میں یہ امام باڑہ انسانی سروں کا سمندر نظر آتا تھا ۔ مجلسوں میں شرکت کے لیے شہر کے امراء و روساء اور حکومتی افراد کو ہاتھیوں ، پالکیوں اور بگھیوں میں بیٹھا کر لایا جاتا تھا آنے والوں میں فرنگی محل کے علماء ، ممتاز شعراء اور دانشوروں کی بھی جماعتیں ہوتی تھیں ۔ میر تقی میر زیادہ نازک مزاج تھے اس لیے بساء اوقات ان کی سواری کے لیے چو پہلا بھیجا جاتا تھا ۔ قرب و وجوار کے معززین بھی ان مجلسوں میں شرکت کی غرض سے اپنی اپنی سوارویوں پر آتے تھے ۔ (۴۷)

آصفی امام باڑہ کوعزاداری میں مرکزیت حاصل تھی۔ سارا شہر اس امام باڑہ کی مجلس میں شریک ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود نواب آصف الدولہ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ ایام محرم میں کم از کم ایکبار ہر ایک کے امام باڑہ میں شرکت کریں خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہندو ہو یا سنی بغیر کسی امتیاز کے شریک ہوتے تھے ۔ شاہان اودھ اور شیعت کے مصنف نے آصف  الدولہ کے دو سال کے عشرہ محرم میں امام باڑوں کی شرکت کی تفصیل لکھی ہے ہم یہاں اس پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں:

 یکم محرم ۱۲۰۹ھجری مطابق ۱۲اگست ۱۷۹۴ء نواب آصف الدولہ نے صبح کو بیدار ہونے کےبعد غسل کیا لباس تبدیل کیا دیگر امور کو انجام دینے کے بعد گھوڑے پر سوار ہو کر عتیق اللہ کے امام باڑہ میں تشریف لے گئے وہاں انہوں نے فاتحہ پڑھا اور احترام و آداب کے ساتھ پانچ سو روپیہ تازیہ پر نذرانہ چٹھایا اور دیگر غریب و فقیر لوگوں کے تازیہ کی زیارت کے لیے چل دئے زیارت کرتے اور اہل تازیہ کی ضرورت کے پیش نظر کچھ روپیہ ہر تازیہ پر بطور نذر پیش کرتے ہوئے اپنے محل واپس چلے گئے ۔ نواب آٓصف الدولہ کا یہ سلسلہ اول محرم کو شروع ہوتا اور اسی طرح دس محرم تک وہ اپنی اس سیرت کو جاری رکھتے ہر روز کسی نہ کسی کے امام باڑہ میں حاضری دیتے اوراس کی تشویق کرتے لوگوں کو عزاداری امام حسین کی طرف رغبت دلاتے اپنی تمام مصروفیات کو مد نظر رکھتے ہوئے محرم کے دس دن اپنے آپ کو عزاداری کے کاموں کے لیے یا عزاداری اور شیعت کی تبلیغ کے لیے وقف کردیتےتھے یہی وجہ تھی کہ ان کے دور حکومت میں جہاں شیعوں کے امام باڑہ ہوتے وہیں اہل سنت اور ہندوں کے امام باڑہ بھی موجود تھے اور کافی شہرت رکھتے تھے ۔ خواہ وہ دین محمد چودھری کا امام باڑہ ہو یا عتیق اللہ کا امام باڑہ یا پھر وہ مہاراجہ ٹکیٹ رای کا عزاخانہ ہو یا راجہ جھاؤ لال کا امام باڑہ ہر ایک کو شہرت حاصل تھی اور آصف الدولہ حاضری دیتے تھے اور لوگوں میں عزاداری کے سیاہ لباس تقسیم کراتے تھے  پڑھنے والوں کو انعامات سے نوازتے تھے ۔

مجلسوں میں شرکت کے وقت با قاعدہ سینہ زنی کرتے تھے اور اپنے مولا کے غم میں دل بھر کے آنسو بہاتے تھے ۔

نواب آصف الدولہ کے دور میں سیکڑوں عزاخانہ تعمیر ہوئے جن  میں عزاداری کا خصوصی انتظام ہوتا تھا ۔ آصف  الدولہ کی سیر چشمی و کرم نوازی کسی کو مایوس نہیں ہونے دیتی تھی وہ خود بہ نفس نفیس ہر چھوٹے بڑے امیرو غریب ہندو مسلمان سب کے یہاں شریک ہوتے  اور ان کے معیار کے مطابق انکی حوصلہ افزائی کرتے ان کا یہ فعل عزاداری اور شیعت کی تبلیغ میں کافی موثر نظر آتا تھا اور ہر سال شیعوں اور عزاداری میں اضافہ ہوتا تھا ۔ لوگ پہلے عزاداری کے لیے مجلسوں میں شریک ہوتے اور آہستہ آہستہ جب ان کے لیے مقصد اور ہدف شہادت  امام حسین علیہ السلام روشن اور واضح ہوجاتا  توو ہ مذہب شیعہ کو اختیار کر لیتے تھے ۔ نواب شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کے دور میں مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کو بھی عروج ملا اور انیس ، چک بست ، ومیر جیسے شاعروں کی پرورش بھی ہوئی شیعہ نماز جمعہ کا بھی قیام انہیں کے زمانے میں ہوا ۱۳رجب ۱۲۰۰ھجری میں شیعوں کی پہلی نماز جماعت قائم ہوئی جو سر فراز الدولہ کے محل والی مسجد میں ہوئی اور اسکی امامت کا شرف مولانا سید دلدار علی غفران معاب صاحب کو حاصل ہوا ۔ (۴۸)

نواب آصف الدولہ کو خبر ملی کے عراقی حکومت کی لا پرواہی کی بنا پر کربلائے معلیٰ میں زائرین کو پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے سخت تکلیفیں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو انہوں نے حاجی محمد تہرانی کے ذریعہ ہندوستان  سےسات لاکھ روپیہ بھیجے اسے صرف کر کے فرات سے ایک نہر نکلوائی جو نہر آصفی کے نام سے مشہور ہوئی لیکن دور حاضر میں یہ نہر معدوم ہو چکی ہے۔(۴۹)

اس کے علاوہ شہر لکھنوء میں درگاہ حضرت عباس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں آنے والیے نوابین اودھ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ البتہ جو ترقی شیعت اور عزاداری کو نواب شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کے زمانے میں حاصل ہوئی کسی اور نواب کے زمانے میں نہ ہوسکی البتہ بعد میں آنے والے نوابین نے اس کو باقی رکھنے اور وسعت بخشنے میں کافی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب رہے ، لیکن انگریزوں کی روز بہ روز بڑھتی طاقت انہیں ایسا کرنے سے روک دیتی انہیں حکومت کے دوسر ے مسائل میں اتنا گرفتار کردیتی کہ وقت ہی باقی نہ رہتا لیکن پھر بھی سعادت خان نے اپنی پوری کوشش کی اور اس کام میں اہم کردار  ادا کیا ۔ نواب سعادت علی خان میں اپنے بھائی نواب آصف الدولہ کی طرح داد ودہش کی اعلیٰ صفات نہیں تھی پھر بھی انہوں نے دربار آصفی کے ماحول اور روایت کو برقرار رکھا ۔ اور مراسم عزاداری میں وسعت پیدا کی ۔ ان کے دربار میں اگر ایک طرف مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی عزت و اہمیت تھی تو وہیں دوسری طرف عالموں ، خطیبوں ، اور مرثیہ خوانوں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے ، انہوں نے آصفی دور کے مراسم عزا کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں اور وسعت و ترقی دینے کی بھر پور کوشش کی ۔

دولت سرا میں سال بھر نذر و نیاز مجلس و ماتم اور آئمہ اطہار علیہ السلام کی ولادت کی تاریخوں میں محافل کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ ان میں شرکت کرتے تھے ۔ انہوں نے انتہائی عقیدت و احترام اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں شب جمعہ نذر کی روایت قائم کی ۔ ان کے دور میں ایام عزا کی ایسی چہل پہل اور رونق رہتی تھی جسکی منظر کشی ممکن نہیں ہے ۔ گھر گھر  میں تازیہ داری ہوتی اور ہر گھر سے علم اٹھ کر درگاہ حضرت عباس علیہ السلاممیں تمام ہوتا تھا قیصر التواریخ کی صراحت کے مطابق کربلائے تال کٹور ا کی تعمیر بھی نواب سعادت علی خان کے جذبہ عقیدت کا نتیجہ ہے ۔ چنانچہ  سید کمال الدین حیدر نے اس کی تعمیر کے سلسلہ میں جو حکایت نقل کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل شہر عاشور کے دن اپنے تازیہ سپّایا پراولے کے مقام پر دفن کیا کرتے تھے ۔ ایک دن صبح کے وقت نواب سعادت علی خان کی سواری تال کٹورا کی طر ف سے گذری جو اس وقت آم کا ایک وسیع و عریض باغ تھا نواب قاسم علی خان بھی ہمراہ تھے ۔ نواب سعادت علی خان نے فرمایا کہ اگر شہر کے لوگ اپنے تازیہ سپّا کے بجائے یہاں دفن کریں تو زیادہ بہتر ہے جو لوگ نواب کے ساتھ تھے سب نے اس تجویز کی تائید کی چنانچہ نواب سعادت علی خان کے حکم کے مطابق سب سے پہلے قاسم علی خان نے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوا کر روضہ کا حصار قائم کیا اور اس کے وسط میں مشاہدہ مقدسہ کے تبرکات دفن کئے ابتداء میں تازیہ کی تعداد کم ہوتی تھی لہذا وہ حصار کے اندر ہی دفن ہوتے تھے ۔ قاسم علی خان اپنی طرف سے ایک مجلس وہیں کرتے تھے اور خود مرثیہ پڑھتے تھے تبرک میں پلاؤ تقسیم کرتے تھے ۔

نواب سعادت علی خان نے پچاس بیگھا پختہ اراضی کا گھر او کر کے ایک خاص رقبہ علحدہ کیا تقریباً سو گز لمبے دالان کی تعمیر کرائی جو دودرجوں پر مشتمل تھی پہلے درجہ کے بیچ میں تازیہ اور ممبر تھا دوسرے درجہ میں فرش عزا تھا جہاں مجلس ہوتی تھی اس کی تعمیرات کے لیے جہاں جہاں سے مٹی لائی گئی تھی وہاں ایک تالاب بن گیا تھا ۔ اس لیے یہ کربلا ،تال کٹورا کی کربلا کے نام سے مشہور ہوئی ان تمام امور کی روشنی میں اگر انصاف کی نظروں سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ نواب سعادت علی خان سلطنت کے انتظامی معاملات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شیعت کی بقاء و اقتدار کے معاملے میں بھی مخلصانہ جذبہ رکھتے تھے اور اس ذیل میں انہوں نے کار ہائے نمایا ں انجام دیئے ہیں انکی صداقت سے نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں بھلایا جاسکتا ہے ۔

سعادت علی خان کے بعد ان کے بیٹے غازی الدین حیدر  مسند نشین ہوئے تو انہوں نے بھی اپنے والد کی سیرت پر چلتے ہوئے شیعت اور عزاداری کی تبلیغ اور روضوں کی تعمیرات میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ چھوڑی ہر ممکن کوشش کی ان کی تعمیرات میں اہم رتبہ یا نقش اول نجف کے امام باڑہ کو حاصل ہے جسے انہوں نے ۱۸۱۷ء میں تعمیر کر ایا تھا اس کی مختصر توضیح اس طرح ہے کہ یہ امام باڑہ پیغمبر اسلام  کے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علی علیہ السلام کے روضہ اقدس کی نقل ہے جو عراق کے شہر نجف اشرف میں واقع ہے ۔

اس کے اندرونی پھاٹک پر شبیح نجف اشرف کا کتیبہ ہے بھاٹک کی محراب گول ہے اور اس کے دونوں جانب گنبد ہے اس کے بعد دوسرا پھر تیسرا پھاٹک ہے جہاں سے روضۃ کا جنوبی رخ اور چھت پر شاندار سفید گنبد نظر آتا ہے روضہ کے مغربی جانب ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے نوابین اودھ کی یہ خاص بات رہی ہے کہ جہاں انہوں نے روضہ یا امام باڑہ کی تعمیر انجام دی وہیں اس کے پاس ایک مسجد ضرور بنوائی ہے ۔

غازی الدین حیدر نے اس امام باڑہ کی بقاء اور عزاداری کے لیے ۱۸۲۵ء میں ایک کروڑ روپیہ فکس کردیا  جس  سےحاصل ہونے والا منافا امام باڑہ کے لیے وقف کردیا تھا ۔ غازی الدین حیدر کے دور حکومت میں پیداوار میں کافی اضافہ ہوا صنعت کو کافی ترقی حاصل ہوئی ، مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی حوصلہ افزائی ہوئی ، شعر و ادب نے ایک غیر معمولی ترقی حاصل کر لی کیونکہ خود غازی الدین ان چیزوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے لہذا علماء و ادباء کی قدر دانی ہوتی تھی اور یہ قدر دانی سبب بنتی تھی کہ روز بہ روز مختلف علوم میں ترقی ہو ۔غازی الدین حیدر مذہب میں ایک پختہ انسان تھے جب لوگوں نے آصف الدولہ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ لکھنو میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ (( جس کو نہ دے مولا اس کو دے آصف الدولہ ))اس بات کو سن کر انہوں نے افسوس کیا اور کہا کہ کاش لوگ اس طرح کہتے کہ جس کو نہ دے مولا اسے کیا دے گا آصف الدولہ تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ۔

غازی الدین حیدر نے جو شادیاں کی ان کی ازواج میں کچھ عورتیں ایسی تھی جو مسلمان نہ تھیں غازی الدین نے پہلے انہیں درس اسلام دیا اور پھر جب وہ مسلمان ہو گئیں تو ان  سے عقد کیا ۔ انہیں ازواج میں سے ایک ممتاز محل ثانی تھیں جو جگنا تھ اگر وال کی قریبی رشتہ دار تھیں ان کا نام لاڈووتا تھا مسلمان ہونے کے بعد ان کو نام لاڈو خانم اور ممتاز محل ثانی  کاخطاب ملا۔ کہتے ہیں کہ بعد میں جگنّاتھ اگروال بھی مسلمان ہوگئے تھے اور ان کا اسلامی نام غلام رضا خان رکھا گیا تھا ۔ لاڈو خانم یا ممتاز محل ثانی نے چاندی خانہ محلہ میں ایک مسجد بنوائی تھی جو آج تک اپنی آب تاب کے ساتھ باقی ہے ۔ (۵۰)

غازی الدین حیدر کے بعد ان کے بیٹے نصیر الدین حیدر مسند نشین ہوئے اور حکومت کی باگ ڈور ۱۸۲۷ء میں سنبھالی اپنے والد محترم کی طرح انہوں نے بھی مذہب شیعہ اور عزاداری کے فروغ کے لیے بہت کچھ کیا جب کہ ان کی حکومت کو ہمہ وقت گر جانے کا خطرہ لاحق تھا ۔ انگریز کرنل لوان کا سخت مخالف تھا لہذا لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ نصیر الدین حیدر جلد ہی حکومت سے برکنار کرد یے جاینگے اور انکی جگہ کوئی اور حکومت کرے گا ۔ لہذا ایسے حالات میں تہمت اور الزام تراشیوں کا بھی بازار گرم تھا لیکن جہاں انگریز مورخ نے پرائی ویٹ لائف میں ان کی عیش پرستیوں عیاشیوں وغیرہ میں مبالغہ آمیز داستانیں بیان کی ہیں تو وہیں  رجب علی بیگ نے فسانہ عبرت میں ان کی درباری شان و شوکت علمی و تہذیبی بلندیوں اور عظیم خدمتوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔

ان تمام مشکلات کے ساتھ نصیر الدین حیدر کی اسلامی خدمتیں قابل ذکر ہیں ہم یہاں خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔

نصیر الدین حیدر نے غریبوں محتاجوں اور مزدوروں کی امداد  پر ہمیشہ توجہ کی اور اس کار خیر کے لیے ایک بڑی رقم کمپنی سرکار کے خزانے میں جمع کرادی تاکہ ان کے بعد بھی اس سے لوگوں کو روٹی روزی ملتی رہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے حکومت اودھ کی طرف سے لکھنؤ کے علمی مراکز میں حصول علم کے لیے طلبہ کے وظیفہ بھی مقرر کئے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے حضرت گنج میں ایک اسپتال قائم کیا جو بعد میں منتقل ہو کر حیدر گنج چلا گیا اور آج بھی لوگ اس سے فیض حاصل کرتے ہیں ۔ ساڑھے تین لاکھ روپیہ کی لاگت سے وکٹوریہ گنج میں ایک شاہی خیرات خانہ کی عمارت تعمیر کرائی جس میں لولے ، لنگڑے ، اپاہج ، اور لاوارث مردوں اور عورتوں کی رہائش کا انتظام تھا ۔ اس کے علاوہ چوک میں ایک یونانی دواخانہ قائم کیا جہاں غریبوں اور ناداروں کا علاج مفت ہوتا تھا ۔ نصیر الدین حیدر کا ایک قابل ستائش کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بردہ فروشی کی اس رسم کو ممنوع قرار دیا اور اس پر پابندی عائد کی جو ان کے زمانہ تک چلی آرہی تھی خدمت بشر کے حوالے سے اور بھی خدمات ہیں لیکن ہم یہی پر اکتفار کرتے ہیں ۔

عزاداری کے حوالے سے ان کی خدمات تعمیراتی لحاظ سے ڈالی گنج کے ارادت نگر کے کربلا کا ذکر سر فہرست ہے جسکی تفصیل سے ہم پر ہیز کرتے ہیں۔

نصیر الدین حیدر اور انکے والد غازی الدین حیدر کی زوجہ بادشاہ بیگم جنہوں نے نصیر الدین حیدر کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی تھی کیونکہ نصیر الدین حیدر کی والدہ وضع حمل کے وقت ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں تھیں اور بادشاہ بیگم کے کوئی اولاد نہ تھی ۔ خلاصہ کے طور پر ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ نصیر الدین حیدر کے دور حکومت میں ماں بیٹے نے مل کر عزاداری کو خوب وسعت و رونق بخشی ان دونوں نے عزاداری سے متعلق مختلف مراسم کی ابتداء کی ایام عزا میں مزید توسعہ کیا گیا آٹھ ربیع الاول تک جلوس ہائے عزا کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ بادشاہ بیگم نے نصیر الدین حیدر کی بادشاہت کے عہد میں جو پہلا محرم کا چاند نمودار ہوا اسی سال ایک فرمان جاری کر کے چہلم تک مسرت و خوشی کی ہر تقریب پر پابندی عائد کردی ۔ انگریزریزی ڈنٹ نے اس بات کی مخالفت کی نصیر الدین حیدر نے کہا کہ ہم اسی طرح ہی کر ینگے لیکن عوام کو اختیار ہے ۔ لیکن عزاداری کی جڑیں اودھ کی عوامی زندگی میں اس طرح پیوست ہو چکی تھیں کہ اختیار کے باوجود ہر خاص و عام نے چہلم تک مسرت و خوشی کی نہ کوئی تقریب منائی اور نہ ہی شرکت کی اس دور کو چھوڑ دیجئے نہ جانے کس خلوص سے بادشاہ بیگم و نصیر الدین حیدر نے اس رسم کی بنیاد رکھی کہ نہ صرف اودھ کی عوام بلکہ تمام ہندوستان و پاکستان کی عوام آج بھی آٹھ ربیع الاول تک کسی بھی خوشی کی تقریب میں شرکت نہیں کرتی ۔ نصیرالدین حیدر کے زمانے میں عزاداری پر روشنی دالتے ہوئے ولیم نائٹن جو ساڑھے تین سال تک نصیر الدین حیدر کے ساتھ رہ چکے تھے اس زمانے کے شاہی جلوس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : شاہی جلوس میں سب سے آگے چھ ہاتھی ہوتے تھے جن پر متفرق جھولے نقرئی و طلائی ہو دیں عماریاں و غیرہ رہتی تھی ہر ایک ہاتھی پر کچھ لوگ جواہر نگار علم ہاتھوں میں لئے ہوئے سوار ہوتے تھے انکے ہمراہ ایک گارڈ ہوتا تھا ۔

ہاتھیوں کے پیچھے ایک شخص خاص طور پر سوگوار بنا ہوتا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں بانس کی ایک بڑی چھڑ سیاہ کپڑے میں مڑھی ہوئی تھی اور اس جھڑ کے اوپر الٹی کمان میں دو برہنہ تلواریں لٹکی ہوتی تھیں ۔ اس کے پیچھے خود بادشاہ سلامت ہوتے تھے اور ان کے گردوپیش خاندان شاہی کے لوگ اور مقتدر علمائے کرام ہوتے تھے ۔

اس کے علاوہ ہر امام کی ولادت پر جشن اور شہادت پر مجلس عزا کا خصوصی انتظام ہوتا تھا جو چند روز قبل و بعد جاری رہتا تھا ۔ محرم کی پہلی تاریخ سے چہلم تک بادشاہ نے اپنے اوپر لازم کر لیاتھا کہ بہ نفس نفیس وہاں کی خدمت ہزار دلو جان سے فرماتے تھے محرم کے دنوں میں مجلس ہوتی اور پھر شربت و مٹھائی اور میوہ جات تقسیم ہوتے ان مراسم میں چار پانچ لاکھ روپیہ سے زیادہ کا خرچ آتا تھا ۔ اس کے علاوہ آخری اور خاص بات یہ کہ بادشاہ محرم کی پہلی تاریخ  کوسو پچاس تازیہ اپنے گھر سے لے کر مقام معین تک اپنے سرپر رکھ کر لے جاتے تھے اور اس راستہ کو پاپیادہ اور پا برھنہ طے کرتے تھے  جب کہ انہیں اس راستہ کو مکرر بار طی کرنا پڑتا تھا  ۔ (۵۱)

شاہ نصیر الدین حیدر نے عزاداری اور شیعت کے حق میں جو کوشش کی اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ان کے زمانے کی رسومات عزاداری آج بھی زندہ ہیں ۔

ان کے انتقال کے بعد انکے چچازاد بھائی محمد علی خان جو نواب سعادت علی خان کے بیٹے تھے محمد علی شاہ کا لقب اختیار کر کے مسند نشین ہوئے ۔محمد علی شاہ بھی دیگر نوابین اودھ کی طرح عزاداری اور شیعت کے فروغ میں بھر پور کوشش کی مجلس و ماتم اور جلوس عزا کے انعقاد میں کوئی کمی نہ آئی وہ حسب دستور سابق بلکہ اس سے زیادہ پر رونق طریقہ سے منعقد ہوتے رہے ہم اختصار کے تحت تفصیلی بیان سے پر ہیز کرتے ہیں ۔ لیکن تعمیرات مذہبی کے حوالے سے اگر محمد علی شاہ کی دو اہم تعمیرات کا ذکر نہ کیا جائے تو بات نہ مکمل رہ جائے گی اور ان کے حق میں نا انصافی بھی محسوب ہو گی ۔

حسین آباد کا امام باڑہ جو اس وقت بھی لکھنؤ کی تمام تعمیرات میں دوسرا درجہ رکھتا ہے پہلا درجہ شجاع الدولہ کے بڑے امام باڑہ کو حاصل ہے ۔

محمد علی شاہ نے اپنے سلسلہ حکومت کے دوسرے ہی سال اس امام باڑہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور اپنے دور اقتدار میں پایہ تکمیل تک بھی پہنچا دیا ۔ ان کی دوسری تعمیر اسی امام باڑہ کے قریب ایک خوبصورت مسجد کی ہے جس کے لیے انہوں نے بہت اہتمام کیا تھا چاہتے تھے کہ دہلی کی جامعہ مسجد کی طرح بنے لیکن یہ اسے اس طرح نہ بنوا سکے جس طرح چاہتے تھے اوردنیا سے رخصت ہو گئے ۔

جب واجد علی شاہ اپنے والد کے انتقال کے بعد ۱۸۴۷میں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہو ئے اس وقت وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر انگریز پوری طرح قابض ہو رہے تھے نہ صرف حکومت اودھ بلکہ ہندوستان کی تمام جھوٹی بڑی حکومتیں بڑی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ خواہ وہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت ہو یا دکن میں مرہٹوں کا بول بالا دہلی میں مغل حکومت سب کے سب ختم ہو رہے تھے اور ہر جگہ انگریزی قوت بڑھتی جارہی تھی واجد علی اور حکومت اودھ بھی اسی کا شکار تھی ، لیکن ایسے عالم میں بھی واجد علی سے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی اپنے اجداد کی طرح انہوں نے بھی مذہب شیعت اور عزاداری کے فروغ کے لیے بھر پور کوشش کی ان کی ان خدمات پر ہم مختصر روشنی ڈالتے ہیں ۔

واجد علی شاہ ابتدائے عمر سے علمی ماحول میں پرورش پا رہے تھے ، مختلف علوم کے لیے بڑے بڑے علماء مقرر تھے ، حدیث و تفسیر ، فقہ ، تاریخ ، وغیرہ سلطان العلماء ، سید محمد صاحب ، سید العلماء سید علی صاحب مہد ی حسن صاحب زید پوری اور امداد حسین صاحب سے حاصل کئے ۔(۵۲)

یہی وجہ تھی کہ واجد علی شاہ متدین و متقی ہونے کے ساتھ ساتھ پرہیز گار بھی تھے ان کے نماز  و روزہ قضا  نہیں ہو تے تھے اس کے علاوہ مرثیہ گو اور مرثیہ خان بھی تھے ۔ اور مجلس امام حسین علیہ السلام کو خطاب  بھی فرماتے تھے حجۃ السلام والمسلمین مرتضی حسین فاضل لکھنوی صاحب تاریخ تاجداران اودھ کے خطی نسخے میں تحریر فرماتے ہیں کہ مہدی حسن صاحب نے لکھا ہے کہ واجد علی شاہ سے پہلے کسی بادشاہ نے مجلس نہیں پڑھی ، پھر مرتضی حسین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں عرض کرتا ہوں کہ انکے بعد بھی یہ شرف انہی کے لیے مخصوص ہےکہ نہ کسی بادشاہ نے میلاد پڑھا نہ ہی مجلس ۔(۵۳)

واجد علی شاہ امام حسین پر دلو جان سے فریفہ تھے انہوں نے قیصر باغ میں (( قیصر العزا)) کے نام سے ایک عظیم الشان امام باڑہ بھی بنوایا تھا اور جب تک سلطنت کا وجود باقی تھا اس امام باڑہ میں بڑے جوش و خروش سے عزاداری کرتے تھے اور جب کلکتہ چلے گئے تو وہاں مٹیا برج میں بھی (( بیت البکاء)) کے نام سے ایک امام باڑہ تعمیر کیا اور وہاں بھی سب کچھ امام حسین علیہ السلام کے نام پر نثار کرتے رہے ۔

مشہور فریادی نوحہ (( اے کل کے مددگار مدد کرنے کو آؤ فریاد کو پہنچو)) انہیں واجد علی شاہ کا ہے جو آج بھی دنیاں بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔نواب واجد علی کے دور میں مرثیہ گوئی کو کافی عروج ملا جہاں مسلمان شاعروں نے اپنے فن دیکھائے وہیں ہندو شعراء نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی اس دور کے ہندو شعراء جو کافی مشہور ہو ئے ۔ ان میں دیاکشن ، راجہ الفت رائے ، کونردھن پت ، رام پرساد گروبخش رائے اور لال حسین کے نام لئے جاتے ہیں ۔

واجد علی کے دور میں عزاداری کے حوالے سے لکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ہم اختصار کے سبب پر ہیز کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ مختصر تحقیق قارئین کے لیے مفید واقع ھو انشا اللہ ۔


حوالہ جات:

۱۔ تاجدار اودھ ، یوگیش پروین ، ص ۱۶۔

۲۔ سوانحات سلاطین اودھ ص ۱۳ ۔ ۱۴۔ ؛ نوابین اودھ ، ص ۲۳، تاجدار اودھ ، ص مختصر اختلافات کے ساتھ بیان کیا ہے ۔

۳۔ ہوگیش پروین "تاجدار اودھ " ص ۱۷۔۱۸۔

۴۔وقایع دلپذیر ص ۱۵۔

۵۔ بیگمات اودھ ص ۲۰۔

۶۔ سوانحات سلاطین اودھ ، جل ۱ ، ص ۳۵۔۳۶۔؛ تاجدار اودھ ص ۲۰۔

۷۔ تاریخ اودھ جلد ۱ ص۵۰۔

۸۔ کیمرج ھسٹری آف انڈیا جلد۴ ص ۳۷۴۔

۹۔ تاریخ اودھ جلد ۱ ص ۵۶۔

۱۰۔ انوار السعادت ، منشی جوالھ پر ساد ، ص ۲۷۔۲۸ طبع ۱۲۹۶ھجری۔

۱۱۔ تاجدر اودھ ۲۹۔۳۰۔۳۱  ۔

۱۲۔ ریخ اودھ جلد ۱ ص ۶۳۔

۱۳۔ تاریخ اودھ جلد ۱ ص ۶۶۔

۱۴۔ تاریخ اودھ ج۱ ، ص ۶۶۔۶۷۔

۱۵۔ یوگیش پروین ، تاجدار اودھ ص ۳۲۔

۱۶۔ تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، ص ۷۳۔۷۴ امجد علی ۔

۱۷۔ یوگیس پروین ، تاجدار اودھ ص ۳۴۔۳۳۔؛شہرہ اولیہ ص ۳۵ سے۳۷ کے حاشیہ پر۔

۱۸۔ تاریخ وقایع دلپذیر ص ۱۸۔

۱۹۔ فروغ کاظمی تاجدار اودھ اور شیعت ص ۳۵۔

۲۰۔ شہر اولیاء ڈاکٹر دبیر ص ۴۲حاشیہ پر ، تاجدار اودھ یوگیش پروین ص ۲۴۔

۲۱۔ شہر اولیاء ڈاکٹر دبیر احمد ص ۳۸۔۴۴۔

۲۲۔ کشف الاسرار ج۳ ص ۸۷۷ ، شاہ بیگم اودھ ، ص ۶۸۔

۲۳۔ تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، امجد علی ، ص ۸۱۔۸۲۔ ؛ بیگمات اودھ ص ۲۳۔

۲۵۔ سوانحات سلاطین اودھ، ص ۴۷۔تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، ص ۸۳، تاریخ اودھ ص ۱۳۴۔۱۳۵۔ ؛ تاجدار اودھ یوگیش پروین ، ص ۴۲۔۴۳۔

۲۶۔ تاجدار اودھ ص ۴۴۔۴۵۔ یوگیش پروین ۔

۲۷۔ سوانحات سلاطین اودھ جلد ۱ ص ۴۹۔

۲۸۔ سوانحات سلاطین اودھ ، ص ۵۰۔

۲۹۔ تاجدار اودھ یوگیش پروین ص ۵۰۔۵۱۔

۳۰۔ تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، امجد علی ص ۹۰۔۹۱ ؛ تاریخ بیگمات اودھ ص ۲۸۔۲۹۔

۳۱۔ تاریخ شہر یار ص ۱۴۹۔۱۵۰۔

۳۲۔ بھارت میں انگریزی راج ، ج ۱ ص ۲۱۱۔

۳۳۔ بھارت میں انگریزی راج ، ج۱ ، ص ۲۱۱۔

۳۴۔ تاریخ شہ پارہ ، ص ۱۵۰۔۱۵۱۔

۳۵۔ اودھ راج کاپتن ، ص ۷۔

۳۶۔ تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، ص ۹۷۔ ۹۸۔

۳۷۔ انوار السعادہ ج ۱ ، ص ۱۶۲۔۱۶۳۔

۳۸۔ میر تقی میر حیات اور شاعری ، ص ۲۱۰۔

۳۹۔ انوار السعادت ص ۲۸۔

۴۰۔ انوار سعادت ، ج۱ ، ص ۱۵۶۔

۴۱۔ سعادت ، ج۱ ص ۱۵۱۔۱۵۲۔

۴۲۔ ار السعادت ج۱ ص ۱۶۴۔

۴۳۔ گذشتہ لکھنو ، ص ۷۶۔

۳۹۔ انوار السعادت ص ۲۸۔

۴۰۔ انوار سعادت ، ج۱ ، ص ۱۵۶۔

۴۱۔ سعادت ، ج۱ ص ۱۵۱۔۱۵۲۔

۴۲۔ ار السعادت ج۱ ص ۱۶۴۔

۴۳۔ گذشتہ لکھنو ، ص ۷۶۔

۴۴۔ انوار السعادت ، ج۱ ، ص ۲۱۰۔؛گذشتہ لکھنؤ ، ص ۷۴۔

۴۵۔ شاہان اودھ اور شیعت ، ص ۸۷۔

۴۶۔ تاریخ سلطانی اودھ ج ۱ ، ص ۱۷۔

۴۷۔ انوار السعادت ج۱ ، ص ۲۴۸۔

۴۸۔ مطلع انوار ، ص ۲۲۳ ۔۲۲۴۔

۴۹۔ سوانحات سلاطین اودھ ، ص ۱۱۳۔

۵۰۔ تاجدار اودھ اور شیعت ، ص ۱۴۵۔ ۱۴۴۔

۵۱۔ تاجدار اودھ اور شیعت ، ص ۱۵۰۔۱۵۱۔

۵۲۔ تاجدار اودھ ، خطی نسخہ ص ۴۳۔

۵۳۔ تاجدار اودھ ، خطی نسخہ ص ۴۴۔


فھرست منابع:

۱۔ امجد علی خان ، تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ ، سرفراز قومی پریس ، لکھنو ہند، طبع اول ۱۹۷۸ء۔

۲۔ پنڈت سندر لال ، بھارت میں انگریزی راج ، دو جلدی ، پرکاشن و بھاگ بھارت سرکار ، ۱۹۶۷ء۔

۳۔ تاریخ شہر یار ص ۲۱۔

۴۔ تاریخ وقایع دلپزیر ، ص ۱۲۔

۵۔حجۃ السلام مولانا الحاج سید مرتضی حسین صاحب قبلہ صدر الافاضل مطلع انوار ، رشید آرٹ پریس لاہور پاکستان ؛ ناشر خراسان اسلامک ریسرچ سنٹر کراچی ، پاکستان ، طبع ۱۹۸۱ ء ۱۴۰۲ھجری ۔

۶۔ ڈاکٹر دبیر ، شہر اولیاء ، نشاط آفسٹ پرس ٹانڈا ، دانس بک ڈیپو ، اکبر پور ہند ۱۹۸۴ء طبع اول ۔

۷۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی ، میر تقی میر حیات اور شاعری ۔

۸۔ سید مرتضی حسین صدر الافاضل لکھنوی ، تاریخ تاجدار ان اودھ ، خطی نسخہ ۔

۹۔ سید کمال الدین حیدر حسنی ، سوانحات سلاطین اودھ ، منشی نول کشور پریس ، لکھنو ہند، اکتبوبر ۱۸۹۷ء۔

۱۰۔ شیخ تصدق حسین ، بیگمات اودھ ، سرفراز قومی پریس ، لکھنو ہند۔

۱۱۔ شاہ بیگم اودھ ، ص ۱۵۔

۱۲۔ علامہ فروغ کاظمی ، شاہان اودھ اور شیعت ، اے ۔ بی ۔ سی آفیسٹ پرس دہلی ، عباس بک ایجنسی ، لکھنو ہند ۱۹۹۹ء۔

۱۳۔ عبد العلیم شرر ، گذشۂ لکھنو، ترتیب نومع حواسی ، محمد اکرام چختائی ، سنگ میل پبلی کیشز ، لاہور ، پاکستان ۲۰۰۶ء۔

۱۴۔ کیمرج ہسٹری آف انڈیا ، ص ۸۔

۱۵۔منشی جوالہ پرساد اختر ، انوار السعادت ۔

۱۶۔ مولوی نجم الغنی خان ، تاریخ اودھ ، ۳ جلدی ، نول کشور پریس ، لکھنو ہند ، اشاعت ۱۹۱۹ء طبع ۱۲۹۶ہجری قمری۔

۱۷۔ مرزا علی اظہر برلاس ، تاریخی شہ پارہ ، ایجوکیشنل پرٹنگ پریس ، کراچی پاکستان ۱۹۷۱ء۔

۱۸۔ منظر حسین رضوی ، تاریخ سلطانی اودھ ۔

۱۹۔ واجد علی شاہ اور اودھ راج کاپتن ، پری پونا نندر ، اشاعت ۱۹۵۹ء مطبوعہ سملین پریس ، پریاگ الہ باد ۔

۲۰۔ یون کمار ، شہر لکھنؤ ، اشاعت ۱۹۹۰ء۔

 

Add comment


Security code
Refresh