www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نواب مرزا مقیم ابو المنصور بہادر صفدر جنگ

شخصیت و کردار پر طائر انہ نظر : مرازا محمد مقیم کی ولادت ۱۷۰۸ء بہ مطابق ۱۱۲۰ھجری کو نیشا پور میں ہوئی مرزا محمد مقیم کے جد امجد شاہ منصور مرزا ابن شاہ ناصر مرزا سربراہ مملکت تبریز تھے شاہ منصور کے بیٹے محمد قلی خان بیگ ان کے بیٹے محمد جعفر خان بیگ ان کے بیٹے محمد جعفر خان بیگ ان کے بیٹے محمد قلی خان بیگ ثانی انکے دو بیٹے تھے بڑے محمد شفیع خان بیگ چھوٹے جعفر قلی خان بیگ جعفر قلی خان بیگ کی شادی سید محمد امین سعادت خان کی حقیقی بہن سے ہوئی تھی ان کے دو بیٹے ہوئے بڑے مرزا محسن چھوٹے مرزا مقیم مرزا مقیم کی شادی برہان الملک سعادت خان کی بڑی بیٹی سے ہوئی اس طرح مرزا مقیم سعادت خان کے بھانجے بھی تھے اور داماد بھی ڈاکٹر دبیر اپنی کتاب شہر اولیا کے ص ۳۷پر مرزا محمد مقیم کے بارے میں اس طرح تحریر فرماتے ہیں ۔

نواب ابو المنصور صفدر جنگ میں انکے ماموں برہان الملک جیسی فضیلتیں نہ تھیں لیکن عالی حوصلہ ، فیاضی اور رحم دلی اور دیگر مراتب میں اپنے زمانے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے ۔

عیاشی اور لحو لعب جو اس زمانے کے با اختیار امراء کا تغریہ امتیاز تھا صفدر جنگ ہمیشہ منفرد رہے اور انکی مجلسیں لحو لعب سے ہمیشہ خالی رہیں صفدر جنگ ایک مذہبی آدمی تھے اور اپنے ابائی عقیدہ (تشیعہ عقیدہ امامیہ ) میں پختہ تھے اور نہایت ہی معتدل مزاج شریف النفس اور نیک طینت انسان تھے ۔(۲۱)

اسی طرح نواب صفدر جنگ کے بارے میں شاہ ہمزہ اپنی کتاب کشف الاسرار میں تحریر فرماتے ہیں کہ : جس وقت نواب صفدر جنگ نے سنا کہ ان کے فوجیوں نے مار ہرا (ضلع ایٹا) کے شرفاء کے عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی املاک اور گھر بار لوٹ لیا ہے تو انہیں سخت دلی تکلیف ہوئی اور فوجیوں کی اس ناشائستہ حرکت اور بربریت پر ان کی جو حالت ہوئی تھی وہ انکے ہم عصر مورّخ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ نواب صفدر جنگ اس ماجر کی وجہ سے تمام شب و روز غم وغصہ میں گزاری  اور زیادہ تر شب کا حصہ گریہ وزاری میں گزارا اور کھانا بھی نہیں کھایا ۔(۲۲)

مورخین نے نواب کے اخلاقی پہلو پر اسی طرح روشنی ڈالی ہے اختصار کے سبب ہم بیان سے پرہیز کرتے ہیں ۔ نواب ابو المنصور صفدر جنگ نے جب ۱۷۳۹ء میں اودھ کی صوبہ داری کو سنبھالا تو انہیں ابتداء کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ برہان الملک سعادت خان کے انتقال کے بعد اودھ میں موجود سرداروں اور مختلف زمینداروں نے بغاوت کرنی شروع کردی وہ اودھ سے جدا ہو کر خود مختار ہونا چاہتے تھے جن میں تلوئی کے حاکم موہن سنگھ امیٹھی کے زمیندار شیخ نصر اللہ جگدیش پور کے حاکم اس کے علاوہ سیتاپور کے حاکم نول سنگھ وغیرہ وغیرہ تھے نواب صفدر جنگ بات چیت سے مسئلہ کا حل چاہتے تھے ۔ کیونکہ نواب صفدر جنگ طبیعتاً صلح پسند واقع ہوئے تھے اور حتی المقدور خونریزی سے پرہیز کرتے تھے لیکن جب پانی سر سے اونچا ہو گیا اور کوئی راستہ نظر نہ آیاتو کافی پریشان نظر آنے لگے اس وقت ان کی زوجہ صدر النساء نے انہیں سہارا دیا اور انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ مغل حکومت سے مدد لے کر ان لوگوں کو درس عبرت دینے کے لیے حملہ کردیں اور انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بچانے کے لیے ایسا قدم اٹھانا لازم ہے صدرالنساء کی گفتگو میں تاثیر تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صفدر جنگ نے قدم اٹھایا اور نومبر ۱۷۳۹ء سے مارچ ۱۷۴۱ء دو سال کے عرصہ میں اپنی فوج اور مغل حکومت کی مدد کے سہارے ان تمام سرکشوں اور خود سروں کو شکست فاش دے کر شورشوں اور فتنوں کو ختم کر دیا اور اپنی حکومت کو استحکام بخشا اور آہستہ آہستہ ترقی کے راستوں کو طی کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔ ان کی دور اندیشی عالی حوصلہ اور کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے دہلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ نے ۱۷۴۳ء کے آخر میں انہیں دہلی بلوالیا صفدر جنگ جب دہلی  جانے لگے تو انہوں نے اودھ کی حکومت اپنے نائب صوبے دار نول رائے  کے سپرد کی جن پر نواب بھر پور اعتماد کرتے تھے اور نول رائے نے بھی ہمیشہ وفاداری کا ثبوت بھی دیا ۔

Add comment


Security code
Refresh