www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

صفدر جنگ اور عھدہ وزارت ھند

نواب صفدر جنگ نئے بادشاہ احمد شاہ وزیر تو بن گئے لیکن اختیارات کو صحیح طریقہ سے اجرا کرنے میں انہیں کافی مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ سابق وزیر قمر الدین کے دوسرے فرزند انتظام الدولہ اپنے والد کے عہدے کو خود لینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اپنا ایک گروہ بنا لیا تھا جو صفدر جنگ کی ایک نہ سنتا تھا اس کے مقابلہ میں نواب صفدر جنگ کے افراد تھے لہذا بادشاہ کے درباری دو گروہ میں بٹ گئے اور دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ایک سنی مسلمانوں کا تورانی گروہ جس کی نمائندگی انتظام الدولہ کر رہے تھے دوسرے شیعہ مسلمانوں کا ایرانی  گروہ جس کی نمائندگی صفدر جنگ خود کر رہے تھے ان دونوں گروہوں میں رسہ کشی کا عجیب عالم تھا آپس کے اس اختلاف کو سنی گروہ نے مذہب کا رخ دے دیا اور اعلان کر وایا کہ یہ رافضی خلیفہ وقت احمد شاہ کا مخالف ہے احمد شاہ کھبی انتظام الدولہ گروہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تو کبھی صفدر جنگ کے گروہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے حکومت اس افرا تفری میں گذر رہی تھی ۔

انتظام الدولہ نے ایک بار صفدر جنگ پر جان لیوا حملہ بھی کروایا جب عید  کے دن ۳۰نومبر ۱۷۴۸ءمیں صفدر جنگ عید کی نماز پڑھ کر گھر واپس جار ہے تھے تو ان پر بم سے حملہ کروایا لیکن صفدر جنگ خوش قسمتی سے بچ گئے لیکن انہوں نے اس کے بعد سے دربار میں دشمنوں کی بڑھتی قدرت کو مد نظر رکھتے ہوئے جانا چھوڑ دیا تھا جبکہ ۱۷۴۹میں احمد شاہ اپنی والدہ اور جاوید خان کے ساتھ صفدر جنگ کے پاس آئے اور انہیں منا کر دربارلے آئے لیکن یہ ایک وقتی سمجھوتا تھا جو احمد شاہ اور انکی والدہ نے کیا تھا ۔(۲۶)

بحر حال ان واقعات کی تفصیل کا ایک الگ ہی لطف ہے لیکن میری تحقیق کے صفحات ( جو کہ چالیس صفحہ ہیں ) اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں اس سے زیادہ بیان کروں اہل نظر جانتے ہیں کہ تاجدار ان اودھ پر تحقیق کے لیے ایک جلد کتاب بھی کافی نہیں ہے ۔ لیکن میں نے آخر کے واقعات کو اس لیے بیاں کیا کہ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نوابین اودھ پر عیب تر اشیوں میں انگریزوں سے زیادہ ان داخلی دشمنوں نے اہم کردار ادا کیا اور جہاں تک ہو سکا ان پر الزامات لگائے تاکہ لوگوں کی نگاہ میں انکی اہمیت کو کم کرسکیں ۔ لیکن وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے ۔

بادشاہ احمد شاہ کو بھی انکے خلاف اتنا بھر دیا گیا کہ وہ بھی صفدر جنگ کے مخالف ہو گئے دونوں میں کافی عرضہ تک اختلاف چلتا رہا یہاں تک کہ صفدر جنگ نے بادشاہ کو خط لکھا کہ میں ہمیشہ حکومت دہلی کے ساتھ رہا اور حکومت کے لیے جانفشانی کی ہے اور اب بھی حکومت دہلی کا خیر خواہ ہوں فقط دشمنوں کے بہکانے اور الزام تراشی کرنے سے نمک خوار قدیم کو سلطنت کا دشمن قرار دینا بعید از انصاف ہے خدا چاہے گا تو جلد ہی ان لوگوں کا مکر وفریب اور حال دل حضور کے لیے بخوبی روشن ہو جائے گا البتہ آہستہ آہستہ کسی حد تک بادشاہ کے لیے باتیں روشن ہو چکی تھی لیکن بادشاہ بھی مجبور تھے کیونکہ تمام درباریوں پر انتظام الدولہ اپنا ہی دستور چلانے لگے تھے ۔ بادشاہ احمد شاہ نے صفدر جنگ کو جواب دیا کہ جو تم نے عرض حال کیا سچ ہے مگر اب مناسب وقت یہ ہے کہ تم اپنے صوبہ کو واپس چلے جاؤ۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق صفدر جنگ اپنے صوبہ اودھ کی طرف روانہ ہو ئے اور دہلی کو خیر باد کہا ۔(۲۷)

Add comment


Security code
Refresh