www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شجاع الدولہ کا انگریزوں سے مقابلہ

جب شجاع الدولہ کو انگریزوں کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا تو وہ میر قاسم کی حمایت میں شاہ عالم اور دیگر والیان ریاست کے ساتھ ایک جم غفیر فوج لے کر انگریزوں کو سبق دینے کی غرض سے چلے ۔ شجاع الدولہ کے ساتھ آدمیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ جہاں تک نظر کام کرتی تھی آدمی ہی آدمی نظر آتے تھے یہ کثیر فوج بنارس ہوتی ہوئی پٹنہ پہنچی پہلے تو انگریزوں نے کچھ مقابلہ کرنے کی کوشش کی پھر ایک قلعہ میں محصور ہو گئے ۔ اس درمیان برسات کا موسم آگیا ۔ شجاع الدولہ نے پٹنہ کا محاصرہ اٹھا لیا اور بکسر لوٹ کر برسات ختم ہونے کا انتظار کر نے لگے اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی زبردست مصیبت کا شکار تھی ۔ تباہی و بربادی کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ رہی تھی ۔ اس مصیبت سے بچنے کے لیے ان کے پاس صرف مکر و فریب اور سازش کا سہارا تھا ۔ لہذا انہوں نے سب سے پہلے شاہ عالم پر ڈورے ڈالے اور بادشاہ کو وزیر سے الگ کردینے کی سازش کی انگریزاپنی اس سازش میں کامیاب بھی ہوئے ۔ سید غلام حسین جو سیر المتاخیرین کے مصنف ہیں اور اپنے والد کے ساتھ شاہ عالم کی فوج میں موجود بھی تھے اقرار کرتے ہیں کہ لالچ میں آکر وہ خود انگریزوں سے مل گئے تھے ۔ (۳۳)

مرزا علی اظہر برلاس اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں : کہ بدقسمتی سے اٹھارہویں صدی میں مسلمان فرمان رواؤں کے آپس کے اختلاف اور بغض و حسد نے اس فوج کو کمزور کر دیا اور سوائے حافظ رحمت خان کے کوئی اس بات پر آمادہ نہیں ہوا کہ وہ شجاع الدولہ کی انگریزوں کے خلاف جنگ میں مدد کرے ۔ انگریزوں نے پہلے ہی سے سازش کا ایسا جال بچھایا تھا کہ شجاع الدولہ کا کامیاب ہونا ناممکن تھا ۔ غلام حسین خان سیر المتاخیرین کے مصنف اور ان کے باپ ہدایت علی خان جو انگریزوں کے خالص جاسوس یا گماشتے تھے شجاع الدولہ کے لشکر میں موجود تھے اور افسوس یہ کہ شجاع الدولہ کے خاص معتمد تھے ۔ انگریزوں نے انہیں کے ذریعہ سے شاہ عالم کو ملا لیا سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ میر قاسم خود جنہوں نے شجاع الدولہ سے مدد طلب کی تھی وزیر شجاع الدولہ کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے لگے اور بادشاہ کو خط لکھا کہ میں نے افسران فوج کو شجاع الدولہ سے منحرف کر دیا ہے وہ با آسانی گرفتار ہو جائیں گے ۔ مجھے عہدہ وزارت پر سرفراز کیا جائے ۔ خلاصہ یہ کہ انگریزوں نے اس فوج میں ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ خواہ وہ شاہ عالم ہوں یا میر قاسم یا شجاع الدولہ کسی کو کسی دوسرے پر اعتماد نہ رہا اور ہر ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا ۔ (۳۴)

جس فوج کے افراد خاص کا یہ عالم ہو اس کا نتیجہ پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے ۔ ۱۷۶۴ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بکسر کے میدان میں ہندوستان کے شہنشاہ اودھ کے نواب وزیر اور بنگال بہار کے نواب کی مجموعی طاقت کو چکنا چور کر دیا ۔ انگریز مورخین کے خیال میں ہندوستان میں انگریزی حکومت کا آغاز بکسر کی جنگ میں ان کی فتح سے ہوا ۔(۳۵)

میدان جنگ میں شجاع الدولہ کا ساتھ نہ میر قاسم نے دیا اور نہ شاہ عالم نے جنگ ختم ہوتے ہی شاہ عالم انگریزوں سے جا ملے اور شجاع الدولہ کے دیوان بینی بہادر کو بلوا کر شجاع الدولہ اور انگریزوں کے درمیان صلح کی بات چیت شروع کی ۔ لیکن شجاع الدولہ صلح کے لیے راضی نہ ہوئے اور اپنی بچی ہوئی فوج کے ساتھ واپس اودھ کی طرف پلٹنے لگے انگریزوں نے شجاع الدولہ کا پیچھا کیا اور الٰہ باد تک آگئے الٰہ باد کا قلعہ دار بھی انگریزوں سے مل گیا ۔ ایسے حالات میں کون تھا جو انگریزوں کا مقابلہ کرسکتا تھا ۔ آخر کار حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مہاراجہ شتاب رائے کے مشورہ و مداخلت سے شجاع الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاریخی سجھوتا کر لیا ۱۶اگست ۱۷۶۵ء میں اس صلح نامہ کو الٰہ باد میں مرتب کیا گیا ۔(۳۶)

ہم اختصار کے سبب صلح نامہ کی تفصیل سے پرہیز کرتے ہیں افسوس اس بات پر ہوتا ہے  کہ مسلمانوں نے انگریزوں کی اس چال پر نہ کبھی غور کیا اور نہ ہی اس سے درس لینے کی کوشش کی ۱۸ویں صدی کے ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے اتحاد اور غیرت کو فروخت کر کے انگریزوں کی غلامی قبول کی افسوس صدافسوس آج اکسیویں صدی کے مسلمان اس تاریخ سے عبرت نہیں لیتے اور آج بھی امریکہ اور انگریزوں کے اسی فتنہ میں گرفتار ہیں ان کے  اشاروں پر ناچتے ہیں انکی غلامی کو اپنی آزادی سمجھتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں کہ جب انہیں اپنی غلامی کا احساس ہونے لگے گا جس طرح  مصر اور لیبی کے مسلمانوں کو ہوا  کاش یہ احساس آج ہی ہوجاتا اور یہ ذلیل و خوار ہونے سے بچ جاتے بحر حال یہ ایک درد دل تھا جسے بیان کرنے میں میں خود کو نہ روک سکا ۔

شجاع الدولہ کی آئندہ زندگی انہیں صلح نامہ اور شرائط کے تحت چلتی رہی انگریز شرائط بڑھاتے گئے اور شجاع الدولہ اسے مجبوری میں قبول کرتے گئے ۔ اس درمیان تہمتوں اور الزام تراشیوں کا بازار کافی گرم رہا شجاع الدولہ پر سب سے بڑا الزام عیاشی کا لگایا گیا ۔ انہیں زمانے کا اتنا بڑا عیاش بتایا گیا کہ خورد محل فیض آباد میں رہنے والی ان کی ازواج کی تعداد ۲سے ڈھائی ہزار بتائی گئی نواب شجاع الدولہ کے حرم میں عورتوں کی یہ تعداد صرف مبالغہ آرائی کا کرشما ہی نہیں بلکہ متعصب اور تنگ نظر مورخین کی عصبیت کا حتمی اور لازمی نتیجہ بھی معلوم ہوتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہی دستر خوان کی نعمتوں اور عیش و آرام کی جولانیوں نے نواب شجاع الدولہ کو قبل از وقت جوان و بالغ بنا دیا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ انکی شادی صرف ۱۴سال کی عمر میں محمد اسحاق خان کی صاجزادی امتہ الزہرا سے کردی گئی تھی اس شادی کے دس برس بعد یعنی ۲۴سال کی عمر میں نواب موصوف مسند نشین وزارت ہوئے ۔ لیکن کسی مورخ نے یہ نہیں لکھا کہ اس دس سال کے عرصہ میں انہوں نے کوئی دوسری شادی کی ہو (جبکہ عیاشی کے لحاظ سے نواب کی یہ بہترین عمر تھی۔

Add comment


Security code
Refresh