www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

شجاع الدولہ پرازواج کثیر رکھنے کا الازم اور اس کی تردید

تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد نواب شجاع الدولہ نے تقریباً ۲۲سال تک اودھ پر حکومت کی تاریخی اعتبار سے نواب کی یہ ۲۲سالہ زندگی انگریزوں اور منصب داران مملکت کی اندرونی سازشوں مرہٹوں کی فتنہ پردازیوں اور فوجوں کی اصلاحی تدبیروں میں مصروف رہی فیض آباد میں پر سکون قیام کے لیے صرف دو یا تین سال نصیب ہو ئے ۔ لہذا ان حالات میں بعض مورخوں کا یہ کہنا کہ نواب شجاع الدولہ کی ازواج کی تعداد خورد محل فیض آباد میں دو سے ڈھائی ہزار کی تعداد میں تھیں نہ تو قرین قیاس ہے اور نہ ہی عقل سلیم اسے قبول کرسکتی ہے ۔

یہ ایک مسلم امر ہے کہ دنیا کی ہر تاریخ تحریف کا شکار ہوتی ہے صدیوں کے طویل سفر کی گرد میں اَٹے ہوئے واقعات ، پر ہر صاحب قلم  نےجداگانہ انداز فکر اور سب سے زیادہ واقعات کی تبدیلی پر جو طاقت اثر انداز ہوتی ہے وہ حکومت وقت کی مرضی اور خوشنودی ہوتی ہے اور ایسا ہر دور ہر زمانہ میں ہوتا آیا ہے حکومتوں نے اپنے مفاد و مطالب کے حصول کے لیے قلم کاروں کو استعمال کیا ہے اس کے علاوہ صاحبان قلم میں بعض حضرات نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے تحت حکام کی خوشنودی حاصل  کرنے کے لیے اپنے قلم کو حکومت وقت کی مرضی کا تابہ بنائے رکھا ۔ اس کے برخلاف حق گوئی کے ساتھ رہنے قلم کا آزادانہ استعمال کرنے والے حکومتوں کے ظلم کا نشانہ بنتے رہے اور ان کی زبان و قلم پر اقتدار وقت نے کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت کو قائم رکھا ۔ ہندوستان کے ماضی قریب کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسے انگریزی حکومت کے انداز فکر اور اغراض و مقاصد کو نظر میں رکھتے ہوئے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے ۔ اگر حقائق اورواقعات کو انکے حقیقی پس منظر میں دیکھا جائے اور ان کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ غیر جانب دارانہ طور پر حقیقی تاریخ کا ایسے عہد میں لکھاجانا بہت ہی مشکل کام تھا ۔

قیصر التواریخ کے مصنف جناب کمال الدین حیدر نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ میں نے یہ کتاب (( مسٹر ہنسری ایلٹ چیف کمشنر سکریڑی گورنر جنرل کشور ہند) کی فرمائش پر تحریر کی ہے لہذا ایسی صورت میں اس کتاب کے اندر سلاطین اودھ کے صحیح واقعات و کردار کی تلاش ایک مشکل مرحلہ ہے بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو واقعات قرین قیاس ہیں انہیں درست سمجھ کر ان کی تحقیق کرنا چاہے اور جو بعید از قیاس ہیں انہیں نذر انداز کردینا چاہے ۔ ستم بالای ستم یہ کہ کمال الدین حیدر کے بعد جن لوگوں نے سلاطین اودھ کے حالات و واقعات پر قلم اٹھایا ان میں سے اکثر نے اتفاق سے قیصر التواریخ ہی کو اپنی تحقیق کا مأخذ قرار دیا اور اسی سے واقعات اخذ کر کے اپنے انداز میں تحریر کرتے چلے گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو جھوٹ تھا وہ سچ بن گیا اور جو شچ تھا اس کی سچائی پر مصلحت کے پردے ڈال دیئے گئے حالانکہ دیگر کتابوں سے غیر جانب دارانہ مواد فراہم ہوسکتا تھا اور شاہان اودھ کی موجودہ تاریخی نوعیت تبدیل ہوسکتی تھی ۔ جیسا کہ نواب شجاع الدولہ کی ازواج و اولاد کے بارے میں انوار السعادہ کے مصنف جوالہ پرساد اختر نے تحریر فرمایا ہے ۔ وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ نواب شجاع الدولہ کی زندگی میں صرف چار عورتیں داخل ہوئیں انکی پہلی بیوی امتہ الزہرا جو بہوبیگم کے خطاب سے نوازی گئیں اور شہنشاہ دہلی  کے دیوان خاص محمد اسحاق خان کی دختر نیک اختر تھیں جن کے بطن سے مراز امانی آصف الدولہ متولد ہوئے دوسرا عقد بنارس کے راجہ صاحب کی صاجزادی سے کیا جنہوں نے مذہب شیعت اختیار کر لیا تھا ان کے بطن سے یمین الدولہ نوابسعادت علی خان پیدا ہوئے ۔ تیسرا عقد نواب علی قلی خان ظفر جنگ کی صاجزادی گنا بیگم سے کیا جو عالیا سلطان بیگم کے خطاب سے نوازی گئیں اورا ن کے بطن سے نصیر الدولہ متولد ہوئے چوتھا عقد نواب موصوف نے سید ضامن علی زید الواسطی کی صاجزادی سرفراز النساء بیگم سے کیا ان کے بطن سے دو بیٹے معین الدولہ عنایت علی خان اور نواب شمس الدین حیدر متولد ہوئے اس کے علاوہ تین بیٹیاں بھی متولد ہوئیں ۔

 ان بیگمات کے علاوہ نواب شجاع الدولہ کی نہ کوئی بیوی تھی اور نہ ہی کوئی اولاد ، لیکن اس حقیقت کے باوجود بعض مورخین نے ان کی ازواج کے سلسلے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے جو تحقیق کے بغیر مناسب نہ تھا ۔ (۳۷)

انہیں نشیب وفراز کے ساتھ حکومت اودھ اور نواب شجاع الدولہ کی زندگی گذر رہی تھی آخر کار ۱۴ذیقعدہ ۱۱۸۸ھجری مطابق ۱۷۷۵ء کو دو بچے رات میں دنیا سے سفر آخرت اختیار کیا ۔ غسل و کفن کے بعد مفتی میر محمد حسین نے نماز جنازہ پڑھائی اور میت گلاب باڑی فیض آباد میں دفن کی گئی بعد میں نواب بہو بیگم نے قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کرایا جس کی رونق آج بھی قابل دید ہے وہاں آج بھی اس دور کے شیعہ محرم میں مجلس کرتے ہیں اور ماہ رمضان میں ایک دن حکومت ہند کی جانب سے افطار کا انتظام ہوتا ہے ۔

نواب شجاع الدولہ کی رحلت کے موقعہ پر فیض آباد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے قیصر التوارخ کے مصنف تحریر فرماتے ہیں : وہ رات ماتم کی خاص رات تھی ہر گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں بلند تھیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ ا س گھر کا کوئی وارث مرگیا ہو خور د محل اور خاص محل کے محلوں میں وہ حال تھا جو ناقابل بیان ہے بس یہ کہ خاندان عالیہ میں کسی کا ایسا ماتم نہیں ہوا تھا شجاع الدولہ کے بارے میں میر تقی میر اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں ۔

شجاع الدولہ اس جہانی فانی سے رخصت ہو گئے ۔ لوگوں نے بہت ماتم کیا اگر آسمان ہزار سال چکر کھاے تو ایسا صاحب جرأت اور سراپا مروّت سردار پیدا نہ ہو گا ۔ (۳۸)

شجاع الدولہ اودھ کے تیسرے نواب تھے جنکی شخصیت و کردار پر ہم نے روشنی ڈالی اودھ کے باقی بچے آٹھ نوابوں کی شخصیت و کردار پر ہم اس طرح روشنی نہ ڈال سکے جس کے لئے معذرت خواں ہیں اہم وجہ ہمارے تحقیق کے صفحات اس بات کی اجازت نہیں دیتے جسکا کہ ہم نے بارہا ذکر کیا کہ یہ تحقیق ۴۰صفحات پر مشتمل ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں اگر آئندہ میں اس ضمن میں کوئی تفصیلی کام  ہوا تو ضرورکوشش کرونگا ۔ باقی آٹھ نوابوں کی زندگی میں جو اسلامی خدمتیں ہیں ہم کوشش کریں گے کہ نوابین اودھ کی اسلامی خدمتوں کے بیان میں ہر ایک نواب کی خدمت اسلامی کا ذکر کیا جائے بس پروردگار عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

Add comment


Security code
Refresh