www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نوابین اودھ کی اسلامی خدمتیں

ہندوستان کے اس مخصوص و ممتاز خطہ کو اودھ کے نام سے موصوم کیا جاتا  ہےجسکی سر زمین ان جلیل القدر عالموں صوفیوں ولیوں بزرگوں اور حق پرستوں کی آماج گاہ  و آرام گاہ بنی جنکی تبلیغی تدریسی سرگرمیوں کی تابندہ و تابناک کرنوں سے اسکے ذرّوں کو روشن و منور کیا۔

اودھ کی گنگا جمنی تہذیب اور مسالی تمدن ساری دنیا میں موجود ہے ۔ لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اس تہذیب و تمدن کی انفرادیت شاہان اودھ اور ان کی رعایا کے ما بین استوار ہونے والے ہمدردانہ کرم اور باہمی خوشگوار تعلقات کا حتمی و لازمی نتیجہ ہے جوہر کاروان انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے ۔

جب ہم تاریخی واقعات کی روشنی میں شاہان اودھ کے غیر جانبدارانہ طرزعمل اور نظام حکومت کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات ابھرکر سامنے آتی ہے کہ ان فرمانرواؤں نے اپنی رعایا کی جذباتی و مزاجی کیفیت کو نظر میں رکھتے  ہوئے باہمی ہم آہنگی اور قومی یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے جو اہم کردار ادا کیا ہے اس کی مثال مغلیا تاجداروں کے یہاں بھی نہیں ملتی اور اس مستحصن کو ششوں کے نتیجہ میں اپنی رعایا کی طرف سے انہیں جو بے پناہ پیار ملا اس کی نظیر بھی ممکن نہیں ہے ۔

چنانچہ اس پیار و محبت کا تلسمی کرشما تھا کے اودھ کے آخری تاجدار کو بھی جان عالم کہا گیا ۔ کبھی اختر پیاکہکر مخاطب کیا گیا ۔ کبھی قیصرے زمان کا خطاب دیا گیا ۔ مختصر یہ کہ شاہان اودھ نے اپنے دور حکمرانی میں رعایا پروری کرم نوازی انصاف پسندی قومی ہم آہنگی اور انفرادی تہذیب و تمدن کے ایسے غیر فانی چراغ روشن کئے کہ جنکی تجلی سے اودھ کا گوشہ گوشہ آج بھی جگمگا رہا ہے ۔

اودھ کی اس شیعہ حکومت کی بنیاد ۱۷۲۲ء میں سید محمد امین نیشاپور نے رکھی تھی انہوں نے اپنی رعایا میں اخلاق اسلامی پیش کر کے اپنی شخصیت کا لوہا منوالیا تھا اودھ کا نواب ہوتے ہی جب ماہ محرم آیا اور محرم کا چاند فلک پر نمودار ہواتو  انہوں نے شیعت کی تبلیغ کا آغاز عزاداری امام حسین (ع) سے کیا ۔

منشی جوالہ پرساد اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں کہ برہان الملک کے عہد حکومت میں ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگوں کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصلی تھی ۔ برہان الملک چونکہ بذات خود شیعہ تھے لہذا ان کا سارا خاندان محرم کا چاند دیکھتے ہی سیاہ پوش ہوجاتا تھا ۔ اور بیگمات مظلوم کربلا امام حسین کے سوگ میں اپنے سارے قیمتی زیورات اتار کر چوڑیاں توڑ دیتی تھیں ۔ محرم کی ساتویں تاریخ سے صوبہ اودھ کے حدود مملک میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا تھا ۔ کسی پر کوئی زور زبردستی نہ تھی لیکن چونکہ برہان الملک عزاداری مناتے تھے لہذا ان کے ساتھ ہندو مسلمان سب مل کر امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے تھے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صوبہ اودھ میں شیعت کی پہلی تبلیغ برہان الملک نواب سعادت علی خان کی مرحون منت ہے ۔ (۳۹)

جس سلسلہ کی بنیاد برہان الملک سعادت خان نے رکھی تھی ان  کے بعد آنے والے ان کے جانشین صفدر جنگ جو ان کے بھانجے اور داماد بھی تھے انہوں نے بھی اس مشن میں کوئی کمی نہیں چھوڑی عزاداری اور غم امام حسین علیہ السلام منانے کے ساتھ ساتھ شیعت  کی تبلیغ میں روز بہ روز ترقی کرتے رہے اور مذہب کے حوالے تعمیراتی کام کا بھی آغاز ہوا مسجد اور امام بارگاہوں کی تعمیرات شروع ہوئی البتہ ان تعمیرات نے نوابین اودھ میں شجاع الدولہ اور خصوصاً آصفہ الدولہ کے زمانے میں کافی ترقی حاصل کی ۔لیکن ان  بادشاہوںمیں سب کا طرز عمل یہ تھا کہ رعایا کی خوشنودی کے لیے جب کبھی اپنے مذہب کے لیے تعمیرات انجام دیتے تو دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی ان کی عبادت گاہوں کی تعمیرات کے لیے زمین اور پیسے کا انتظام کرتے تھے فرق یہ تھا کہ ان کی عبادت گاہوں کی تعمیرات کی ذمہ داری خود انکے حوالہ کردیتے تھے لیکن مساجد و امام بارگاہوں کی تعمیرات پر اکثر خود نظر رکھتے تھے ۔

بادشاہ کے درباریوں میں کسی مذہب و ملت کی قید نہ تھی جہاں شیعہ حضرات منصب دار تھے وہیں اہل سنت بھی منصب دار شاہی، دربار میں موجود تھے ان دونوں کے ساتھ ساتھ ہندوں کی بھی منصب داروں میں کمی نہ تھی جسکی عمدہ مثال راجہ نول رائے کی ہے جو اودھ کے نائب صوبہ دار تھے ۔

بحرحال دربار اور رعایا دونوں میں مختلف مذاہب کے لوگ موجود تھے لہذا جب ایام عزا ماہ محرم میں عزاداری ہوتی تو امام حسین علیہ السلام کی اس عزاداری میں شیعہ و سنی کے علاوہ ہندو بھی بڑی عقیدت سے کثرت کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور نہ صرف شریک ہوتے بلکہ اپنی طرف سے عزاداری کا اہتمام کرتے جس  میں مومنین کے ساتھ ساتھ بادشاہ کو بھی دعوت دیتے اور بادشاہ بھی شریک ہوتے تھے ۔

انوار سعادت کے مصنف منشی جوالہپرساد تحریر فرماتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں عَلم نکالے جانے کی ابتداء ایودھیا کی مشہور مسجد یعنی بابری مسجد سے ہوئی وہ تحریر فرماتے ہیں کہ صوبہ اودھ میں حسینی فوج کے سپہ سالار اور عَلم بردار حضرت عباس علیہ السلام کے نام کا پہلا عَلم ایودھیا کی سرزمین پر بابری مسجد سے نکلا اور اس کے نکالنے کی ذمہ داری کمال شاہ نامی ایک بزرگ کی خواہش پر راجپوت سردار دھرم سنگھ نے لی تھی جو وہاں ذمہ دار ہندؤوں کی مشورت سے عین ۱۰محرم کو نکالا گیا تھا ۔ پہلے ہی سال اس علم کے جلوس میں ایودھیا کی ساری آبادی بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ شریک ہوئی ۔

دوسرے سال اس علم کو اتنی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی کہ قرب وجوار کی خلقت سمٹ کر ایودھیا پہنچ گئی اسی طرح اس کی شہرت بڑھتی گئی شہرت کے ساتھ ساتھ شرکت کرنے والوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہوتا گیا ۔ اپنی عمر کے اواخر میں اس علم کی شہرت سن کر نواب شجاع الدولہ بھی اپنی والدہ نواب صدر جہاں بیگم کے ہمراہ شاہی کرو فر کے ساتھ ایودھیا آئے اور اس علم کی زیارت سے مشرف ہوئے نواب بیگم اس علم کے جلوس کی شان شوکت سے اسقدر متأثر ہوئیں کہ انہوں نے تقریباً دو لاکھ کا چٹھاوا چڑھایا ۔ (۴۰)

کہتے ہیں کہ اودھ میں تازیہ داری کی بھی ابتداء اسی شہر ایودھیا سے ہوئی لیکن یہ نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے عزاداری کا باقاعدہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب فیض آباد میں پہلا امام باڑہ نواب شجاع الدولہ کی والدہ نے شہر کے مشہور باغ موتی باغ کے پیچھے ۱۷۶۴ء میں تعمیر کروایا اور اسی سے ملحق ایک مسجد بھی بنوائی ۔ دوسرا امام باڑہ شجاع الدولہ کی زوجہ نے بنوایا تھا اور خود شجاع الدولہ نے تشنہ گانہ کربلا کے نام سے ایک سبیل جاری کی تھی جو بہت مشہور ہوئی لوگ عرصہ دراز تک اسکا ذکر کرتے تھے ۔

فیض آباد میں پہلے نواب برہان الملک سے لیکر تیسرے نواب شجاع الدولہ کے زمانے تک شیعت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ تعمیری کام بھی بہت ہوئے جس میں کچھ حالات زمانہ کی وجہ سے تخریب ہو گئے لیکن بعض عمارتیں آج بھی شہر کی زینت و مرکزیت بنی ہوئی ہیں جن میں قلب شہر میں ا س مسجد کا ذکر ضروری ہے جیسے شجاع الدولہ کے مقرب اور بہوبیگم کے خزانہ دار حسن رضا خان نے بنوایا تھا یہ مسجد آج فیض آباد شہر کے قلب میں وسط چوک میں موجود ہے جس کے آسمان چھوتے مینار اور گمبندوں کی سفیدیاں یہاں آج بھی ہر راہ چلتے ہوئے شخص کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں ۔ فیض آباد کے دور حاضر کے مومنین نے ان مسجدوں کے تحفظ و تعمیرات میں اہم کردار ادا کیا ہے خواہ وہ کھجور کی مسجد یا موتی مسجد ہو یا قائم خان کی مسجد یا وشیقہ عربی کالج کی یا کلاب باڑی کی مسجد مومنین کی زحمتوں کا نتیجہ ہے کہ آج یہ تمام مسجدیں نہ صرف آباد ہیں بلکہ شہرکی زینت بنی ہوئی ہیں ۔

البتہ امام باڑوں میں جو شاہان اودھ کی طرف  سےتعمیر کرائے گئے تھے ان میں صرف جواہر علی خان کا امام باڑہ باقی ہے جو بوسیدہ حالت میں تھا لیکن ۲۰۱۱میں اس کی تعمیر ہوگئی اور اس کی کھوئی ہوئی شان شوکت دوبارہ پلٹ آئی۔

جواہر علی خان نے جہاں ایک خوبصورت امام باڑہ کی تعمیر کروائی تھی وہیں شیعت کی تبلیغ میں ان کے اور بھی نمایاں کردار ہیں مثلاً نواب شجاع الدولہ کی خواہش یہ تھی کہ نماز با جماعت پڑھی جائے لیکن لوگ اکثر عذر پیدا کر لیتے تھے ۔ جواہر علی خان کی بدولت لوگوں کو نماز جماعت پڑھنے پر آمادہ کیا گیا ۔ جواہر علی خان نے ایک دستہ بھی ترتیب دیا تھا جو نماز کے وقت لوگوں کو نماز جماعت پڑھنے کی ترغیب دلاتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ باقاعدہ نماز جماعت ہونے لگی اور پھر نماز جمعہ کا بھی انتظام ہوا اس طرح نواب شجاع الدولہ کے زمانہ میں فیض آباد میں نماز جمعہ قائم ہوئی اس کے علاوہ شیعت کی تبلیغ و تحفظ و بقاء کے لیے شجاع الدولہ نے جو قدم اٹھائے ان سب پر روشنی ڈالتے ہوئے منشی جوالہپرساد اختر تحریر فرماتے ہیں کہ نواب شجاع الدولہ شیعہ مسلک کے پیرو تھے ۔ اس لیے انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود انہوں نے اپنے عہد میں شیعت کی تبلیغ و تحفظ پر خاص توجہ رکھی ۔ انہوں نے مفتی میر محمد حسین نیشاپوری کی قیادت میں دو درجن سے زیادہ ایرانی و عراقی مبلغین کو اس کام پر مأمور کیا تھا ۔ یہ لوگ نہ صرف شہر فیض آباد میں بلکہ اودھ کے مختلف گوشوں میں شیعت کی تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ۔ ان لوگوں کی تنخواہیں شاہی خزانہ سے ادا کی جاتی تھی ۔ (۴۱)

ایسا نہیں تھا کہ صرف شجاع الدولہ نے ایسا کیا بلکہ اودھ کے تمام نوابوں کا طریقہ کار یہی تھا ۔ بس حالات کے اعتبار سے کسی نے اس کام کو بخوبی انجام دیا اور بعض حالات کی تبدیلیوں کی وجہ سے اس کام کو بخوبی انجام نہ دے سکے ہم نے فیض آباد کے مختصر حالات میں ان کی خدمتوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اب ہم شاہان اودھ کی اسلامی خدمتوں کا جائزہ شہر لکھنو میں لیتے ہیں کہ جو در اصل شاہان اودھ کی اصلی اسلامی خدمتوں کا نمونہ ہے حقیقت تو یہ ہے کہ شہر لکھنو تعمیرات کے لحاظ سے شاہان اودھ کی خدمات میں آج بھی ڈوبا ہوا ہے ۔ شجاع الدولہ کے بعد ان کے فرزند آصف الدولہ مسند نشین ہوئے انہوں نے بھی اپنے اجداد کی طرح اسلامی خدمتوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔

منشی جوالہ پرساد آصف الدولہ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں : نواب آصف الدولہ ایک سنجیدہ  مزاج ، بردبار ، رحم دل ، سخی ، اور با تحمل فرمانروا ہونے کے ساتھ ساتھ نیک طینت ، پرہیز گار ، متقی ، اور نماز روزہ کے پابند انسان تھے ۔

رات کے پچھلے پہر بسترے استراحت کو چھوڑ کر قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوجاتے تھے ، اور یہ سلسلہ صبح کی اذان تک جاری رہتا تھا ۔ اس کے بعد نماز صبح سے فارغ ہوکر فرش خاک پر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے خالق کی بارگاہ میں گریہ وزاری کے ساتھ سجدہ شکر اور مناجات فرماتے تھے ۔اور سورج کے طلوع ہونے سے قبل ہاتھی پر سوار ہو کر ہوا خوری کے لیے نکلتے تھے تو راہ میں کھڑے غریبوں اور مسکینوں میں دوہزار روپیہ تقسیم کرتے تھے ۔ اور یہ  ان کا کسی خاص دن کا نہیں بلکہ روزآنہ کا معمول تھا ۔ (۴۲)

اپنی متعصبانہ روش کے باوجود عبد الحلیم شرر لکھنوی نے بھی آصف الدولہ کی سخاوت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:

نواب آصف الدولہ کی فیاضیوں کی خاص و عام میں بڑی شہرت تھی اور انکی دادودہش کا تذکرہ دور دور کے شہروں میں ہو رہا تھا ۔ لوگ اٹھتے بیٹھتے عزت و محبت کے ساتھ ان کا نام لیتے تھےہندو دکاندار آج تک صبح کو آنکھ کھلتے ہی جوش عقیدت میں کہتے ہیں یا آصف الدولہ ولی ۔ (۴۳)

نواب آصف الدولہ کے دور حکومت میں بڑی مشکلات کا سامنا تھا انگریز اکثر چیزوں پر قابض ہو چکے تھے آصف الدولہ کا بھی دربار انگریزی جاسوسوں سے بھرا ہوا تھا ان تمام مشکلات اور انتہائی نا مساعد اور کربناک حالات کے باوجود لکھنو کی سرزمین پر شاندار عمارتوں کی تعمیر کر کے انہیں دوامی زندگی بخش دینا کوئی معمولی کارنامہ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔

ان عمارتوں کی تعمیر کے پس پردہ محض شان و شوکت کے اظہار کا جذبہ نہ تھا بلکہ اس سے ہزاروں غریبوں اور بے روزگاروں کو روزگار بھی فراہم ہوتا تھا ۔ اس کے علاوہ نواب آصف الدولہ کے عہد میں اہل علم کی سرپرستی کے ساتھ ساتھ کتب خانہ کے لیے نادر و نایاب کتابوں کی فراہمی بھی ایک ضروری جز تھا ۔ چنانچہ اس کے ذیل میں عبد اللطیف شستری کا بیان ہے کہ شاھی کتب خانہ میں تین لاکھ منتخب کتابیں میں نے خود دیکھی ہیں ۔ جو نہایت ہی پاکیزہ خط میں لکھی ہوئی تھیں ۔ سو کتابوں کے اوپر ایک  گماشتہ مقرر تھا ، مختلف علوم و فنون اور اصناف پر انگریزی ، فارسی ، اور عربی میں کتابیں موجود تھیں ۔

۱۷۸۴ء میں اودھ پر جب قحط کا گہرا سایہ پڑا اور شہر کے شرفا ، تک فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے تو نواب آصف الدولہ نے اس نازک موقعہ پر لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور پیغمبر اسلام کے مظلوم نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی مثالی یاد گار قائم کرنے کی نیت سے بڑے امام باڑہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا ۔

اس ضمن میں عبد العلیم شرر تحریر فرماتے ہیں ۱۷۸۴ء میں قحط پڑ گیا تھا اور شرفاء شہر تک فاقہ کشی میں مبتلا تھے اس نازک موقعہ پر رعایا کی دست گیری کے  لیے امام باڑہ کی عمارت چھیڑ دی گئی چونکہ شریف لوگ دن کو مزدوری کرنے میں اپنی بے عزتی خیال کرتے تھے اس لیے تعمیر کا کام دن کی طرح رات کو بھی جاری رہتا تھا اور غریب فاقہ کش شرفاء رات کے اندھیرے میں آکر مزدوروں میں شریک ہوجاتے اور مشعلوں کی روشنی میں کام کرتے ۔ اس عمارت کو نواب نے جیسے خلوص وعقیدت اور جوش دین داری سے بنوایا تھا ویسے ہی خالص اور سچے دل سے لوگوں نے تعمیر بھی کیا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسی نفیس اور شاندار عمارت بن کر طیار ہو گئی جو اپنی نوعیت میں  بے مثل اور نادر روزگار ہے ۔ اس عظیم ترین امام باڑہ کا نقشہ ایک ایرانی ماہرے فن تعمیر کفایت اللہ کا تیار کردہ تھا جو اورنگ زیب کے دور حکومت میں ایران سے ہندوستان آئے اور دہلی میں سکونت پزیر ہوئے ۔ (۴۴)

آصفیہ امام باڑہ اس امام باڑہ کا نام رکھا گیا بائیس (۲۲) ہزار معماروں اور مزدوروں کی پانچ یا سات سال شب وروز کی تعمیراتی سرگرمیوں کے ثمرہ میں تیار ھوا ۔

یہ آصفی امام باڑہ دریائے گومتی کے جنوبی کنارے سے ملحق میڈکل کالج اور حسین آباد انٹر کالج کے مغرب میں ایک وسیع و عریض علاقہ کا احاطہ کیئے ہوئے ہے اور اسکا تعمیری سلسلہ درجہ ذیل دس حصوں پر مشتمل ہے ۔

۱۔ رومی گیٹ ۲۔ نوبت خانہ  ۳۔ پہلا مرکزی گیٹ ۴۔ گول صحن  ۵۔ دوسری سیح دری روکار  ۶۔ صحن و سبزہ زار  ۷۔باولی ۸۔ مسجد آصفی  ۹۔ امام باڑہ کی اصلی عمارت  ۱۰۔ بھول بھلیّا ۔

اب ہم یہاں پر ان دس حصّوں کی توضیح سے پرہیز کر کے آگے کا ذکر کرتے ہیں توضیح کے لیے آپ فروغ کاظمی کی تاجدار اودھ اور شیعت کا مطالعہ کریں انہوں نے اپنی کتاب کے ص ۸۳سے شروع کی ہے ۔

امام باڑہ کے ساتھ ہی ایک طویل عریض مسجد بھی واقع ہے جس میں ہزاروں نمازیوں کی گنجائش ہے جسے لگتا ہے آصف الدولہ نے امام باڑہ کی تعمیر سے قبل تعمیر کرایا تھا ۔ کیونکہ امام باڑہ کی تعمیر کے دوران نواب آصف الدولہ نے عقیدتن جو نظم کہی تھی اس سے بھی اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ امام باڑہ کی تعمیر سے قبل مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ یہ نظم آصف الدولہ کے کلیات میں شامل ہے جو سالار جنگ میوزیم حیدر اباد میں آج بھی محفوظ ہے ۔ اس نظم کے دو بند ملاحظہ فرمائیں:

                        مسجد کا گرچہ سب سے بڑا احترام ہے

                                                لیکن امام باڑہ بھی عالی مقام ہے

                        وہ آستانہ حق ، یہ مکان امام ہے

                                                بندہ جو ہیں سو رات دن انکا یہ کام ہے

            سجدہ اگر ادھر تو اودھر بھی سلام ہے

                                                دونوں مکان عرش سے رکھتے ہیں ہمسری

            جنت کے قصر جنت اعلی سے برتری

                                                اوج بیاں سے انکی صفت ہے بہت بڑی

کہتے ہیں دیکھ حور و ملک آدم پری

                                                سجدہ اگر ادھر تو اودھر بھی سلام ہے (۴۵)

Add comment


Security code
Refresh