www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تاریخ سلطانی کے مصنف تحریر فرماتے ہیں کہ جب امام باڑہ کی تعمیر مکمل ہوچکی اور محرم کا چاند نمودار ہوا تو اس میں پہلی مجلس نواب صدر جہاں بیگم کی طرف منعقد ہوئی جس میں ساری رات تبرک تقسیم ہوتا رہا اس مجلس پر ساٹھ ہزار روپیہ خرچ کئے گئے جو ایک یادگار مجلس تھی ۔ (۴۶)

منشی جوالہپرساد اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں کہ نواب آصف الدولہ اس امام باڑہ میں اس خلوص و عقیدت و احترام کے ساتھ مجلس کرتے تھے کہ محرم کے زمانے میں یہ امام باڑہ انسانی سروں کا سمندر نظر آتا تھا ۔ مجلسوں میں شرکت کے لیے شہر کے امراء و روساء اور حکومتی افراد کو ہاتھیوں ، پالکیوں اور بگھیوں میں بیٹھا کر لایا جاتا تھا آنے والوں میں فرنگی محل کے علماء ، ممتاز شعراء اور دانشوروں کی بھی جماعتیں ہوتی تھیں ۔ میر تقی میر زیادہ نازک مزاج تھے اس لیے بساء اوقات ان کی سواری کے لیے چو پہلا بھیجا جاتا تھا ۔ قرب و وجوار کے معززین بھی ان مجلسوں میں شرکت کی غرض سے اپنی اپنی سوارویوں پر آتے تھے ۔ (۴۷)

آصفی امام باڑہ کوعزاداری میں مرکزیت حاصل تھی۔ سارا شہر اس امام باڑہ کی مجلس میں شریک ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود نواب آصف الدولہ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ ایام محرم میں کم از کم ایکبار ہر ایک کے امام باڑہ میں شرکت کریں خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہندو ہو یا سنی بغیر کسی امتیاز کے شریک ہوتے تھے ۔ شاہان اودھ اور شیعت کے مصنف نے آصف  الدولہ کے دو سال کے عشرہ محرم میں امام باڑوں کی شرکت کی تفصیل لکھی ہے ہم یہاں اس پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں:

 یکم محرم ۱۲۰۹ھجری مطابق ۱۲اگست ۱۷۹۴ء نواب آصف الدولہ نے صبح کو بیدار ہونے کےبعد غسل کیا لباس تبدیل کیا دیگر امور کو انجام دینے کے بعد گھوڑے پر سوار ہو کر عتیق اللہ کے امام باڑہ میں تشریف لے گئے وہاں انہوں نے فاتحہ پڑھا اور احترام و آداب کے ساتھ پانچ سو روپیہ تازیہ پر نذرانہ چٹھایا اور دیگر غریب و فقیر لوگوں کے تازیہ کی زیارت کے لیے چل دئے زیارت کرتے اور اہل تازیہ کی ضرورت کے پیش نظر کچھ روپیہ ہر تازیہ پر بطور نذر پیش کرتے ہوئے اپنے محل واپس چلے گئے ۔ نواب آٓصف الدولہ کا یہ سلسلہ اول محرم کو شروع ہوتا اور اسی طرح دس محرم تک وہ اپنی اس سیرت کو جاری رکھتے ہر روز کسی نہ کسی کے امام باڑہ میں حاضری دیتے اوراس کی تشویق کرتے لوگوں کو عزاداری امام حسین کی طرف رغبت دلاتے اپنی تمام مصروفیات کو مد نظر رکھتے ہوئے محرم کے دس دن اپنے آپ کو عزاداری کے کاموں کے لیے یا عزاداری اور شیعت کی تبلیغ کے لیے وقف کردیتےتھے یہی وجہ تھی کہ ان کے دور حکومت میں جہاں شیعوں کے امام باڑہ ہوتے وہیں اہل سنت اور ہندوں کے امام باڑہ بھی موجود تھے اور کافی شہرت رکھتے تھے ۔ خواہ وہ دین محمد چودھری کا امام باڑہ ہو یا عتیق اللہ کا امام باڑہ یا پھر وہ مہاراجہ ٹکیٹ رای کا عزاخانہ ہو یا راجہ جھاؤ لال کا امام باڑہ ہر ایک کو شہرت حاصل تھی اور آصف الدولہ حاضری دیتے تھے اور لوگوں میں عزاداری کے سیاہ لباس تقسیم کراتے تھے  پڑھنے والوں کو انعامات سے نوازتے تھے ۔

مجلسوں میں شرکت کے وقت با قاعدہ سینہ زنی کرتے تھے اور اپنے مولا کے غم میں دل بھر کے آنسو بہاتے تھے ۔

نواب آصف الدولہ کے دور میں سیکڑوں عزاخانہ تعمیر ہوئے جن  میں عزاداری کا خصوصی انتظام ہوتا تھا ۔ آصف  الدولہ کی سیر چشمی و کرم نوازی کسی کو مایوس نہیں ہونے دیتی تھی وہ خود بہ نفس نفیس ہر چھوٹے بڑے امیرو غریب ہندو مسلمان سب کے یہاں شریک ہوتے  اور ان کے معیار کے مطابق انکی حوصلہ افزائی کرتے ان کا یہ فعل عزاداری اور شیعت کی تبلیغ میں کافی موثر نظر آتا تھا اور ہر سال شیعوں اور عزاداری میں اضافہ ہوتا تھا ۔ لوگ پہلے عزاداری کے لیے مجلسوں میں شریک ہوتے اور آہستہ آہستہ جب ان کے لیے مقصد اور ہدف شہادت  امام حسین علیہ السلام روشن اور واضح ہوجاتا  توو ہ مذہب شیعہ کو اختیار کر لیتے تھے ۔ نواب شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کے دور میں مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کو بھی عروج ملا اور انیس ، چک بست ، ومیر جیسے شاعروں کی پرورش بھی ہوئی شیعہ نماز جمعہ کا بھی قیام انہیں کے زمانے میں ہوا ۱۳رجب ۱۲۰۰ھجری میں شیعوں کی پہلی نماز جماعت قائم ہوئی جو سر فراز الدولہ کے محل والی مسجد میں ہوئی اور اسکی امامت کا شرف مولانا سید دلدار علی غفران معاب صاحب کو حاصل ہوا ۔ (۴۸)

نواب آصف الدولہ کو خبر ملی کے عراقی حکومت کی لا پرواہی کی بنا پر کربلائے معلیٰ میں زائرین کو پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے سخت تکلیفیں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو انہوں نے حاجی محمد تہرانی کے ذریعہ ہندوستان  سےسات لاکھ روپیہ بھیجے اسے صرف کر کے فرات سے ایک نہر نکلوائی جو نہر آصفی کے نام سے مشہور ہوئی لیکن دور حاضر میں یہ نہر معدوم ہو چکی ہے۔(۴۹)

اس کے علاوہ شہر لکھنوء میں درگاہ حضرت عباس کی بنیاد رکھی جسے بعد میں آنے والیے نوابین اودھ نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ البتہ جو ترقی شیعت اور عزاداری کو نواب شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کے زمانے میں حاصل ہوئی کسی اور نواب کے زمانے میں نہ ہوسکی البتہ بعد میں آنے والے نوابین نے اس کو باقی رکھنے اور وسعت بخشنے میں کافی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب رہے ، لیکن انگریزوں کی روز بہ روز بڑھتی طاقت انہیں ایسا کرنے سے روک دیتی انہیں حکومت کے دوسر ے مسائل میں اتنا گرفتار کردیتی کہ وقت ہی باقی نہ رہتا لیکن پھر بھی سعادت خان نے اپنی پوری کوشش کی اور اس کام میں اہم کردار  ادا کیا ۔ نواب سعادت علی خان میں اپنے بھائی نواب آصف الدولہ کی طرح داد ودہش کی اعلیٰ صفات نہیں تھی پھر بھی انہوں نے دربار آصفی کے ماحول اور روایت کو برقرار رکھا ۔ اور مراسم عزاداری میں وسعت پیدا کی ۔ ان کے دربار میں اگر ایک طرف مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی عزت و اہمیت تھی تو وہیں دوسری طرف عالموں ، خطیبوں ، اور مرثیہ خوانوں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے ، انہوں نے آصفی دور کے مراسم عزا کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ انہیں اور وسعت و ترقی دینے کی بھر پور کوشش کی ۔

دولت سرا میں سال بھر نذر و نیاز مجلس و ماتم اور آئمہ اطہار علیہ السلام کی ولادت کی تاریخوں میں محافل کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور ہر طبقہ اور ہر فرقہ کے لوگ ان میں شرکت کرتے تھے ۔ انہوں نے انتہائی عقیدت و احترام اور بڑی گرم جوشی کے ساتھ درگاہ حضرت عباس علیہ السلام میں شب جمعہ نذر کی روایت قائم کی ۔ ان کے دور میں ایام عزا کی ایسی چہل پہل اور رونق رہتی تھی جسکی منظر کشی ممکن نہیں ہے ۔ گھر گھر  میں تازیہ داری ہوتی اور ہر گھر سے علم اٹھ کر درگاہ حضرت عباس علیہ السلاممیں تمام ہوتا تھا قیصر التواریخ کی صراحت کے مطابق کربلائے تال کٹور ا کی تعمیر بھی نواب سعادت علی خان کے جذبہ عقیدت کا نتیجہ ہے ۔ چنانچہ  سید کمال الدین حیدر نے اس کی تعمیر کے سلسلہ میں جو حکایت نقل کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل شہر عاشور کے دن اپنے تازیہ سپّایا پراولے کے مقام پر دفن کیا کرتے تھے ۔ ایک دن صبح کے وقت نواب سعادت علی خان کی سواری تال کٹورا کی طر ف سے گذری جو اس وقت آم کا ایک وسیع و عریض باغ تھا نواب قاسم علی خان بھی ہمراہ تھے ۔ نواب سعادت علی خان نے فرمایا کہ اگر شہر کے لوگ اپنے تازیہ سپّا کے بجائے یہاں دفن کریں تو زیادہ بہتر ہے جو لوگ نواب کے ساتھ تھے سب نے اس تجویز کی تائید کی چنانچہ نواب سعادت علی خان کے حکم کے مطابق سب سے پہلے قاسم علی خان نے لکڑی کا ایک جنگلہ بنوا کر روضہ کا حصار قائم کیا اور اس کے وسط میں مشاہدہ مقدسہ کے تبرکات دفن کئے ابتداء میں تازیہ کی تعداد کم ہوتی تھی لہذا وہ حصار کے اندر ہی دفن ہوتے تھے ۔ قاسم علی خان اپنی طرف سے ایک مجلس وہیں کرتے تھے اور خود مرثیہ پڑھتے تھے تبرک میں پلاؤ تقسیم کرتے تھے ۔

نواب سعادت علی خان نے پچاس بیگھا پختہ اراضی کا گھر او کر کے ایک خاص رقبہ علحدہ کیا تقریباً سو گز لمبے دالان کی تعمیر کرائی جو دودرجوں پر مشتمل تھی پہلے درجہ کے بیچ میں تازیہ اور ممبر تھا دوسرے درجہ میں فرش عزا تھا جہاں مجلس ہوتی تھی اس کی تعمیرات کے لیے جہاں جہاں سے مٹی لائی گئی تھی وہاں ایک تالاب بن گیا تھا ۔ اس لیے یہ کربلا ،تال کٹورا کی کربلا کے نام سے مشہور ہوئی ان تمام امور کی روشنی میں اگر انصاف کی نظروں سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ نواب سعادت علی خان سلطنت کے انتظامی معاملات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ شیعت کی بقاء و اقتدار کے معاملے میں بھی مخلصانہ جذبہ رکھتے تھے اور اس ذیل میں انہوں نے کار ہائے نمایا ں انجام دیئے ہیں انکی صداقت سے نہ تو انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں بھلایا جاسکتا ہے ۔

سعادت علی خان کے بعد ان کے بیٹے غازی الدین حیدر  مسند نشین ہوئے تو انہوں نے بھی اپنے والد کی سیرت پر چلتے ہوئے شیعت اور عزاداری کی تبلیغ اور روضوں کی تعمیرات میں کسی طرح کی کوئی کمی نہ چھوڑی ہر ممکن کوشش کی ان کی تعمیرات میں اہم رتبہ یا نقش اول نجف کے امام باڑہ کو حاصل ہے جسے انہوں نے ۱۸۱۷ء میں تعمیر کر ایا تھا اس کی مختصر توضیح اس طرح ہے کہ یہ امام باڑہ پیغمبر اسلام  کے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علی علیہ السلام کے روضہ اقدس کی نقل ہے جو عراق کے شہر نجف اشرف میں واقع ہے ۔

اس کے اندرونی پھاٹک پر شبیح نجف اشرف کا کتیبہ ہے بھاٹک کی محراب گول ہے اور اس کے دونوں جانب گنبد ہے اس کے بعد دوسرا پھر تیسرا پھاٹک ہے جہاں سے روضۃ کا جنوبی رخ اور چھت پر شاندار سفید گنبد نظر آتا ہے روضہ کے مغربی جانب ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد ہے نوابین اودھ کی یہ خاص بات رہی ہے کہ جہاں انہوں نے روضہ یا امام باڑہ کی تعمیر انجام دی وہیں اس کے پاس ایک مسجد ضرور بنوائی ہے ۔

غازی الدین حیدر نے اس امام باڑہ کی بقاء اور عزاداری کے لیے ۱۸۲۵ء میں ایک کروڑ روپیہ فکس کردیا  جس  سےحاصل ہونے والا منافا امام باڑہ کے لیے وقف کردیا تھا ۔ غازی الدین حیدر کے دور حکومت میں پیداوار میں کافی اضافہ ہوا صنعت کو کافی ترقی حاصل ہوئی ، مختلف علوم و فنون کے ماہرین کی حوصلہ افزائی ہوئی ، شعر و ادب نے ایک غیر معمولی ترقی حاصل کر لی کیونکہ خود غازی الدین ان چیزوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے لہذا علماء و ادباء کی قدر دانی ہوتی تھی اور یہ قدر دانی سبب بنتی تھی کہ روز بہ روز مختلف علوم میں ترقی ہو ۔غازی الدین حیدر مذہب میں ایک پختہ انسان تھے جب لوگوں نے آصف الدولہ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ لکھنو میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ (( جس کو نہ دے مولا اس کو دے آصف الدولہ ))اس بات کو سن کر انہوں نے افسوس کیا اور کہا کہ کاش لوگ اس طرح کہتے کہ جس کو نہ دے مولا اسے کیا دے گا آصف الدولہ تو مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ۔

غازی الدین حیدر نے جو شادیاں کی ان کی ازواج میں کچھ عورتیں ایسی تھی جو مسلمان نہ تھیں غازی الدین نے پہلے انہیں درس اسلام دیا اور پھر جب وہ مسلمان ہو گئیں تو ان  سے عقد کیا ۔ انہیں ازواج میں سے ایک ممتاز محل ثانی تھیں جو جگنا تھ اگر وال کی قریبی رشتہ دار تھیں ان کا نام لاڈووتا تھا مسلمان ہونے کے بعد ان کو نام لاڈو خانم اور ممتاز محل ثانی  کاخطاب ملا۔ کہتے ہیں کہ بعد میں جگنّاتھ اگروال بھی مسلمان ہوگئے تھے اور ان کا اسلامی نام غلام رضا خان رکھا گیا تھا ۔ لاڈو خانم یا ممتاز محل ثانی نے چاندی خانہ محلہ میں ایک مسجد بنوائی تھی جو آج تک اپنی آب تاب کے ساتھ باقی ہے ۔ (۵۰)

غازی الدین حیدر کے بعد ان کے بیٹے نصیر الدین حیدر مسند نشین ہوئے اور حکومت کی باگ ڈور ۱۸۲۷ء میں سنبھالی اپنے والد محترم کی طرح انہوں نے بھی مذہب شیعہ اور عزاداری کے فروغ کے لیے بہت کچھ کیا جب کہ ان کی حکومت کو ہمہ وقت گر جانے کا خطرہ لاحق تھا ۔ انگریز کرنل لوان کا سخت مخالف تھا لہذا لوگوں میں یہ مشہور تھا کہ نصیر الدین حیدر جلد ہی حکومت سے برکنار کرد یے جاینگے اور انکی جگہ کوئی اور حکومت کرے گا ۔ لہذا ایسے حالات میں تہمت اور الزام تراشیوں کا بھی بازار گرم تھا لیکن جہاں انگریز مورخ نے پرائی ویٹ لائف میں ان کی عیش پرستیوں عیاشیوں وغیرہ میں مبالغہ آمیز داستانیں بیان کی ہیں تو وہیں  رجب علی بیگ نے فسانہ عبرت میں ان کی درباری شان و شوکت علمی و تہذیبی بلندیوں اور عظیم خدمتوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔

ان تمام مشکلات کے ساتھ نصیر الدین حیدر کی اسلامی خدمتیں قابل ذکر ہیں ہم یہاں خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔

نصیر الدین حیدر نے غریبوں محتاجوں اور مزدوروں کی امداد  پر ہمیشہ توجہ کی اور اس کار خیر کے لیے ایک بڑی رقم کمپنی سرکار کے خزانے میں جمع کرادی تاکہ ان کے بعد بھی اس سے لوگوں کو روٹی روزی ملتی رہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے حکومت اودھ کی طرف سے لکھنؤ کے علمی مراکز میں حصول علم کے لیے طلبہ کے وظیفہ بھی مقرر کئے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے حضرت گنج میں ایک اسپتال قائم کیا جو بعد میں منتقل ہو کر حیدر گنج چلا گیا اور آج بھی لوگ اس سے فیض حاصل کرتے ہیں ۔ ساڑھے تین لاکھ روپیہ کی لاگت سے وکٹوریہ گنج میں ایک شاہی خیرات خانہ کی عمارت تعمیر کرائی جس میں لولے ، لنگڑے ، اپاہج ، اور لاوارث مردوں اور عورتوں کی رہائش کا انتظام تھا ۔ اس کے علاوہ چوک میں ایک یونانی دواخانہ قائم کیا جہاں غریبوں اور ناداروں کا علاج مفت ہوتا تھا ۔ نصیر الدین حیدر کا ایک قابل ستائش کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بردہ فروشی کی اس رسم کو ممنوع قرار دیا اور اس پر پابندی عائد کی جو ان کے زمانہ تک چلی آرہی تھی خدمت بشر کے حوالے سے اور بھی خدمات ہیں لیکن ہم یہی پر اکتفار کرتے ہیں ۔

عزاداری کے حوالے سے ان کی خدمات تعمیراتی لحاظ سے ڈالی گنج کے ارادت نگر کے کربلا کا ذکر سر فہرست ہے جسکی تفصیل سے ہم پر ہیز کرتے ہیں۔

نصیر الدین حیدر اور انکے والد غازی الدین حیدر کی زوجہ بادشاہ بیگم جنہوں نے نصیر الدین حیدر کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی تھی کیونکہ نصیر الدین حیدر کی والدہ وضع حمل کے وقت ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں تھیں اور بادشاہ بیگم کے کوئی اولاد نہ تھی ۔ خلاصہ کے طور پر ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ نصیر الدین حیدر کے دور حکومت میں ماں بیٹے نے مل کر عزاداری کو خوب وسعت و رونق بخشی ان دونوں نے عزاداری سے متعلق مختلف مراسم کی ابتداء کی ایام عزا میں مزید توسعہ کیا گیا آٹھ ربیع الاول تک جلوس ہائے عزا کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ بادشاہ بیگم نے نصیر الدین حیدر کی بادشاہت کے عہد میں جو پہلا محرم کا چاند نمودار ہوا اسی سال ایک فرمان جاری کر کے چہلم تک مسرت و خوشی کی ہر تقریب پر پابندی عائد کردی ۔ انگریزریزی ڈنٹ نے اس بات کی مخالفت کی نصیر الدین حیدر نے کہا کہ ہم اسی طرح ہی کر ینگے لیکن عوام کو اختیار ہے ۔ لیکن عزاداری کی جڑیں اودھ کی عوامی زندگی میں اس طرح پیوست ہو چکی تھیں کہ اختیار کے باوجود ہر خاص و عام نے چہلم تک مسرت و خوشی کی نہ کوئی تقریب منائی اور نہ ہی شرکت کی اس دور کو چھوڑ دیجئے نہ جانے کس خلوص سے بادشاہ بیگم و نصیر الدین حیدر نے اس رسم کی بنیاد رکھی کہ نہ صرف اودھ کی عوام بلکہ تمام ہندوستان و پاکستان کی عوام آج بھی آٹھ ربیع الاول تک کسی بھی خوشی کی تقریب میں شرکت نہیں کرتی ۔ نصیرالدین حیدر کے زمانے میں عزاداری پر روشنی دالتے ہوئے ولیم نائٹن جو ساڑھے تین سال تک نصیر الدین حیدر کے ساتھ رہ چکے تھے اس زمانے کے شاہی جلوس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : شاہی جلوس میں سب سے آگے چھ ہاتھی ہوتے تھے جن پر متفرق جھولے نقرئی و طلائی ہو دیں عماریاں و غیرہ رہتی تھی ہر ایک ہاتھی پر کچھ لوگ جواہر نگار علم ہاتھوں میں لئے ہوئے سوار ہوتے تھے انکے ہمراہ ایک گارڈ ہوتا تھا ۔

ہاتھیوں کے پیچھے ایک شخص خاص طور پر سوگوار بنا ہوتا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں بانس کی ایک بڑی چھڑ سیاہ کپڑے میں مڑھی ہوئی تھی اور اس جھڑ کے اوپر الٹی کمان میں دو برہنہ تلواریں لٹکی ہوتی تھیں ۔ اس کے پیچھے خود بادشاہ سلامت ہوتے تھے اور ان کے گردوپیش خاندان شاہی کے لوگ اور مقتدر علمائے کرام ہوتے تھے ۔

اس کے علاوہ ہر امام کی ولادت پر جشن اور شہادت پر مجلس عزا کا خصوصی انتظام ہوتا تھا جو چند روز قبل و بعد جاری رہتا تھا ۔ محرم کی پہلی تاریخ سے چہلم تک بادشاہ نے اپنے اوپر لازم کر لیاتھا کہ بہ نفس نفیس وہاں کی خدمت ہزار دلو جان سے فرماتے تھے محرم کے دنوں میں مجلس ہوتی اور پھر شربت و مٹھائی اور میوہ جات تقسیم ہوتے ان مراسم میں چار پانچ لاکھ روپیہ سے زیادہ کا خرچ آتا تھا ۔ اس کے علاوہ آخری اور خاص بات یہ کہ بادشاہ محرم کی پہلی تاریخ  کوسو پچاس تازیہ اپنے گھر سے لے کر مقام معین تک اپنے سرپر رکھ کر لے جاتے تھے اور اس راستہ کو پاپیادہ اور پا برھنہ طے کرتے تھے  جب کہ انہیں اس راستہ کو مکرر بار طی کرنا پڑتا تھا  ۔ (۵۱)

شاہ نصیر الدین حیدر نے عزاداری اور شیعت کے حق میں جو کوشش کی اس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ان کے زمانے کی رسومات عزاداری آج بھی زندہ ہیں ۔

ان کے انتقال کے بعد انکے چچازاد بھائی محمد علی خان جو نواب سعادت علی خان کے بیٹے تھے محمد علی شاہ کا لقب اختیار کر کے مسند نشین ہوئے ۔محمد علی شاہ بھی دیگر نوابین اودھ کی طرح عزاداری اور شیعت کے فروغ میں بھر پور کوشش کی مجلس و ماتم اور جلوس عزا کے انعقاد میں کوئی کمی نہ آئی وہ حسب دستور سابق بلکہ اس سے زیادہ پر رونق طریقہ سے منعقد ہوتے رہے ہم اختصار کے تحت تفصیلی بیان سے پر ہیز کرتے ہیں ۔ لیکن تعمیرات مذہبی کے حوالے سے اگر محمد علی شاہ کی دو اہم تعمیرات کا ذکر نہ کیا جائے تو بات نہ مکمل رہ جائے گی اور ان کے حق میں نا انصافی بھی محسوب ہو گی ۔

حسین آباد کا امام باڑہ جو اس وقت بھی لکھنؤ کی تمام تعمیرات میں دوسرا درجہ رکھتا ہے پہلا درجہ شجاع الدولہ کے بڑے امام باڑہ کو حاصل ہے ۔

محمد علی شاہ نے اپنے سلسلہ حکومت کے دوسرے ہی سال اس امام باڑہ کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور اپنے دور اقتدار میں پایہ تکمیل تک بھی پہنچا دیا ۔ ان کی دوسری تعمیر اسی امام باڑہ کے قریب ایک خوبصورت مسجد کی ہے جس کے لیے انہوں نے بہت اہتمام کیا تھا چاہتے تھے کہ دہلی کی جامعہ مسجد کی طرح بنے لیکن یہ اسے اس طرح نہ بنوا سکے جس طرح چاہتے تھے اوردنیا سے رخصت ہو گئے ۔

جب واجد علی شاہ اپنے والد کے انتقال کے بعد ۱۸۴۷میں تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہو ئے اس وقت وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر انگریز پوری طرح قابض ہو رہے تھے نہ صرف حکومت اودھ بلکہ ہندوستان کی تمام جھوٹی بڑی حکومتیں بڑی تیزی سے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ خواہ وہ پنجاب میں سکھوں کی حکومت ہو یا دکن میں مرہٹوں کا بول بالا دہلی میں مغل حکومت سب کے سب ختم ہو رہے تھے اور ہر جگہ انگریزی قوت بڑھتی جارہی تھی واجد علی اور حکومت اودھ بھی اسی کا شکار تھی ، لیکن ایسے عالم میں بھی واجد علی سے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں انہوں نے کوئی کمی نہیں کی اپنے اجداد کی طرح انہوں نے بھی مذہب شیعت اور عزاداری کے فروغ کے لیے بھر پور کوشش کی ان کی ان خدمات پر ہم مختصر روشنی ڈالتے ہیں ۔

واجد علی شاہ ابتدائے عمر سے علمی ماحول میں پرورش پا رہے تھے ، مختلف علوم کے لیے بڑے بڑے علماء مقرر تھے ، حدیث و تفسیر ، فقہ ، تاریخ ، وغیرہ سلطان العلماء ، سید محمد صاحب ، سید العلماء سید علی صاحب مہد ی حسن صاحب زید پوری اور امداد حسین صاحب سے حاصل کئے ۔(۵۲)

یہی وجہ تھی کہ واجد علی شاہ متدین و متقی ہونے کے ساتھ ساتھ پرہیز گار بھی تھے ان کے نماز  و روزہ قضا  نہیں ہو تے تھے اس کے علاوہ مرثیہ گو اور مرثیہ خان بھی تھے ۔ اور مجلس امام حسین علیہ السلام کو خطاب  بھی فرماتے تھے حجۃ السلام والمسلمین مرتضی حسین فاضل لکھنوی صاحب تاریخ تاجداران اودھ کے خطی نسخے میں تحریر فرماتے ہیں کہ مہدی حسن صاحب نے لکھا ہے کہ واجد علی شاہ سے پہلے کسی بادشاہ نے مجلس نہیں پڑھی ، پھر مرتضی حسین صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ میں عرض کرتا ہوں کہ انکے بعد بھی یہ شرف انہی کے لیے مخصوص ہےکہ نہ کسی بادشاہ نے میلاد پڑھا نہ ہی مجلس ۔(۵۳)

واجد علی شاہ امام حسین پر دلو جان سے فریفہ تھے انہوں نے قیصر باغ میں (( قیصر العزا)) کے نام سے ایک عظیم الشان امام باڑہ بھی بنوایا تھا اور جب تک سلطنت کا وجود باقی تھا اس امام باڑہ میں بڑے جوش و خروش سے عزاداری کرتے تھے اور جب کلکتہ چلے گئے تو وہاں مٹیا برج میں بھی (( بیت البکاء)) کے نام سے ایک امام باڑہ تعمیر کیا اور وہاں بھی سب کچھ امام حسین علیہ السلام کے نام پر نثار کرتے رہے ۔

مشہور فریادی نوحہ (( اے کل کے مددگار مدد کرنے کو آؤ فریاد کو پہنچو)) انہیں واجد علی شاہ کا ہے جو آج بھی دنیاں بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔نواب واجد علی کے دور میں مرثیہ گوئی کو کافی عروج ملا جہاں مسلمان شاعروں نے اپنے فن دیکھائے وہیں ہندو شعراء نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی اس دور کے ہندو شعراء جو کافی مشہور ہو ئے ۔ ان میں دیاکشن ، راجہ الفت رائے ، کونردھن پت ، رام پرساد گروبخش رائے اور لال حسین کے نام لئے جاتے ہیں ۔

واجد علی کے دور میں عزاداری کے حوالے سے لکھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ہم اختصار کے سبب پر ہیز کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ مختصر تحقیق قارئین کے لیے مفید واقع ھو انشا اللہ ۔

Add comment


Security code
Refresh