www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

محمد امین برھان الملک اودھ کے صوبہ دار

اسی زمانے میں صوبہ اودھ سے رعایا کی سرکشی اور منتظمین کی بد انتظامی کی خبریں شھنشاہ دھلی محمد شاہ کے کانون تک پہنچی تو بادشاہ نے سعادت خان کو آگرہ سے بلوا کر برھان الملک کاخطاب دیا اور ۹دسمبر ۱۷۲۲ء بمطابق ۲۹ذیقعدہ ۱۱۳۴ھ کو اودھ کا صوبے دار مقرر کیا ۔ اس وقت اودھ میں دور حاضر کے اترپردیس کے بارہ ضلع شامل تھے جن میں ۔۱۔ لکھنو ۲۔ رای بریلی  ۳۔ پرتاب گڑھ ۴۔ سلطان پور ۵۔ فیض آباد ۶۔ بارہ بنکی  ۷۔ گونڈا ۸۔بھرائچ ۹۔ لکھیم پور کھیری  ۱۰۔ سیتاپور  ۱۱۔ ھردوئی  ۱۲۔ انّاو  ۔ البتہ مختلف اوقات میں ان اراضی میں تبدیلیاں وجود میں آتی رھیں ۔

سید محمد امین نواب سعادت خان برھان الملک جب لکھنو پھنچے تو وھاں ان کا مقابلہ ان شیخ زادوں سے تھاجن کالکھنو پر غلبہ تھا اس کے علاوہ یہ بیسواڑہ بلرام پور تلوئی پرتاب گڑھ گونڈا اور رسول پور کے زمینداروں سے مقابلہ بھی کافی سخت تھا ان کو کوزیر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا اودھ کے ان سرکش زمینداروں کی طاقت کے شہر ہ سے سابق صوبہ داروں کی ناک میں دم ہو گیا تھا ۔(۷)

برہان الملک نے سب سے پہلے شیخ زادوں کے غرور و سرکشی کا طلسم توڑا اور انہیں مغلوب کیا اور پنج محل مبارک محل مچھلی محل نامی عمارتوں پر قبضہ کیا اور لکھنو میں امن و امان بحال کر کے رعایا میں جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظہ کا اعتماد بحال کیا۔

اور پھرایودھیا کی طرف بڑھے اور وہاں پہنچ کر آبادی سے دور دریائے گھاگھرا کے کنارے پر شہر سے تقریباً چھ کلو میٹر مغرب کی طرف اپنا مسکن بنوایا تھا ۔ نواب محمد امین برہان الملک چونکہ ایک خدا پرست عبادت گزار منصف مزاج اور قناعت پسند انسان تھے اور نمائشی کر فر کے ساتھ عالی شان محلوں میں رہنے کا انہیں شوق بھی نہیں تھا اسی لیے وہ کافی دنوں تک خیموں میں ہی رہ کر حکومت کے امور انجام دیتے تھے مگر ایک سال موسم برسات میں بارش کی فراوانی نے انہیں پریشان کیا تو انہوں نے اپنا مسکن بنوایا ۔یہ مسکن کوئی آراستہ و پیراستہ کوٹھی یا سجی سجائی حویلی نہ تھی بلکہ پھوس کا بنا ہوا ایک صاف ستھرا جھوپڑا تھا جو ایک مسطح اور بلند مقام پر بنا ہوا تھا جس کے چاروں طرف مٹی کی طویل و عریض دیوار کھینچ کر چاروں گوشوں پر چار برج بنادیے گئے تھے اس چار دیواری کے بیچ میں شمال کی طرف ایک پھوس کا چھپر تھا جو میر محمد امین نیشاپوری سعادت خان برہان الملک کا محل تھا اس چھار دیواری کے اندر اتنی وسعت تھی کہ تمام پیادہ و سوار اور توپ خانہ وغیرہ اسی میں سماگئے تھے ۔

سعادت خان اپنا زیادہ وقت صوبہ اودھ کے مختلف علاقوں کے دور ے میں گزارتے تھے لیکن جب صوبہ کے نظم و ضبط اور امور سلطنت سے فرصت پاتے تو اسی پھوس کی جھوپڑی میں آکر قیام کرتے اور آرام فرماتے تھے ۔آہستہ آہستہ یہ محل بنگلہ بستی کے نام سے مشہور ہو گیا اور اس کے اطراف میں امراء رؤساء اور کاروباری لوگوں نے مکانات اور بازار بنوالیئے اس طرح بنگلہ بستی میں آبادی و رونق کا روز بہ روز اضافہ ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بستی ایک بڑی آبادی میں تبدیل ہو گئی ۔

نواب محمد امین کے انتقال کے بعد نواب صفدر جنگ کے زمانے میں اس بنگلہ بستی کا نام فیض آباد کے نام سے موصوم ہوا جو آج بھی اسی نام سے باقی ہے ۔

برہان الملک نے تمام عمر سپاہانہ اور سادہ زندگی بسر کی انہوں نے ہر اس آواز کو جو دہلی دربار کے خلاف اٹھی خاموش کرد یا ۔ ۱۷۲۳ء کے شروع میں سعادت خان نے تلوئی کے بادشاہ موہن سنگ کے شر سے لوگوں کو آزاد کیا اس کی طغیانی اور ظلم جو ر سے نہ صرف اس کی رعایا پریشان تھی بلکہ اطراف کی چھوٹی حکومتوں اور ریاستوں کا جینا دشوار ہو گیا تھا جب سعادت خان نے اس سے حکومتی رقم اور زمین کے کچھ حصے فیض آباد کو دینے کے لیے کہا تو ا س نے صاف انکا کر دیا سعادت خان نے ۳۰ہزار کی فوج آمادہ کی اور اس پر حملہ کر دیا شدید جنگ ہوئی آخر کار کامیابی سعادت خان کو ملی بادشاہ موہن سنگھ مارا گیا اور اس کی فوج کے بچے ہوئے افراد نے راہ فرار اختیار کی جب کہ موہن سنگھ کے فوجیوں کی تعداد ۵۰ہزار اور سعادت خان کے فوجیوں کی تعداد ۳۰ہزار تھی اس کامیابی کے بعد سعادت خان کی شجاعت دلیری کے چرچے ہونے لگے چھوٹی ریاستوں کے مالک اور کمزور دشمنوں نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور سعادت خان سے ملحق ہو گئے ۔

اسی طرح ۱۷۲۹ء  میں سعادت خان نے کانپور سے ۱۲میل کے فاصلہ پر مغرب کی طرف سچنڈی کے مضبوط قلعہ پر بادشاہ ھندو سنگھ کو مغلوب کر کے قبضہ کیا اس وقت سعادت خان کی فوج ساٹھ ۶۰ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی ۱۷۳۵ء میں بھگوت سنگھ زمیندار چکلہ کوڑھ کو شکست فاش دیکر اسکا سربادشاہ کے حضور میں دہلی لیے گئے ۔

مرہٹوں نے جب ۱۷۳۴ء سرکشی کی اور بالاجی راو کی قیادت میں دہلی کی طرف بڑھنے نکلے تو دبادشاہ محمد شاہ نے اعتماد الدولہ قمر الدین خان ایک بھاری لشکر کے ساتھ مرہٹوں سے مقابلہ کے لیے روانہ کیا لیکن قمر الدین خان مرہٹوں پر حملہ کی جرأت پیدا نہ کرسکے اور صلح کے باب میں مشورے کے بہانے دہلی لوٹ آئے آخر کار برہان الملک محمد امین ہی تھے جنہوںنے مرہٹوں پر حملہ کیا اور اس طرح جنگ کی کہ مرہٹوں نے راہ فرار اختیار کی برہان الملک نے پیچھا کیا لیکن آپسی سازشوں کی وجہ سے صمصام الدولہ کاخطہ برہان الملک کو ملا جس میں مرہٹوں سے جنگ نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا لہذا برہان الملک نے مرہٹوں کا پیچھا نہیں کیا اور واپس لوٹ آئے بالاجی راونے موقع پا کر پھر دہلی پر حملہ کی کوشش کی اس درمیان برہان الملک آگرہ سے دہلی پہنچ گئے ۔ چونکہ برہان الملک کی شمشیر آبدار کا مزہ مرہٹے چکھ چکے تھے لہذا ان کے لشکر پہنچنے کی خبر سنتے ہی مرہٹوں نے گجرات اور مالوے کی طرف راہ فرار اختیار کی ۔(۸)

برہان الملک کے سوادہلی میں کسی امیر کو مرہٹوں کے تعاقب کا حوصلہ نہ تھا ہر ایک  نےعذر کیا اور ان کے تعاقب سے پرہیز کیا اور کوچ نہیں کیا ۔(۹)

نواب سعادت خان برہان الملک کے زمانہ میں صوبہ اودھ روز بہ روز ترقی کی راہوں پر گامزن تھا برہان الملک کی شجاعت کے چرچے خاص عام میں تھے برہان الملک کے زمانے میں اودھ کی رعایا مطمئن آسودہ حال تھی ہر طرف خوشحالی اور فارغ البالی کا دور دورہ تھا ذات پات اور مذہب ملت کی کوئی خاص تفریق نہیں تھی ہر فرقے کے لوگوں کے درمیان خوشگوار او برادرانہ تعلقات قائم تھے ۔ منشی جوالہ پرساد اختر فروخابادی اپنی کتاب انوار السعادت میں تحریر فرماتے ہیں : سعادت خان برہان الملک کے عہد حکومت میں ہر طبقے اور ہر فرقے کے لوگوں کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل تھی ۔ جہاں مسجد سے آذان کی آوازآتی و ہیں مندروں سے ناقوس کی صدائیں سنائی دیتی تھی ۔ برہان الملک چونکہ بذات خود شیعہ تھے لہذا ان کا سارا خاندان محرم کا چاند دیکھتے ہی سیاہ پوش ہوجاتا تھا ۔ اور بیگمات مظلوم کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے سوگ میں اپنے سارے قیمتی زیورات اتار کر چوڑیاں توڑ دیتی تھیں ۔ساتویں تاریخ سے اودھ کے حدود مملکت میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا جاتا تھا ۔ ھندو مسلمان سب مل کر برہان الملک کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا غم مناتے تھے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صوبہ اودھ میں شعیت کی پہلی تبلیغ نواب سعادت علی خان کی مرحون منت ہے ۔ (۱۰)

مختصر یہ کہ نواب سعادت علی خان کے دور میں صوبہ اودھ اپنی ترقی کی منزلیں طئی کر رہا تھا کہ اچانک نادر شاہ ایرانی بادشاہ نے ھندوستان کا رخ کیا ۔

Add comment


Security code
Refresh