www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

نادر شاہ کا ہندوستان پر فوجی حملہ

۱۷۳۶ء میں جب نادر شاہ ایران کا بادشاہ ہوا تو اس نے افغانستان پر حملہ کیا وہاں سے بھاگے ہوئےافغانیوں نے ہندوستان میں پناہ لینا شروع کر دیا اس پر نادرشاہ نے محمد شاہ کو پیغام بھیجا کہ وہ افغانیوں کو پناہ نہ دیں لیکن محمد شاہ نے نادر شاہ کی اس بات پر کوئی توجہ نہ دیا لہذا ۱۷۳۸ء میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کی غرض سے کوچ کیا ۔ نادرشاہ کے کوچ کرنے کی خبر سنتے ہی مغل بادشاہ محمد شاہ نے نادرشاہ سے لڑنے کے  لیے سعادت خان برہان الملک کو فیض آباد سے دہلی بلوایا  ۔

سعادت خان نے اودھ کی حکومت کی باگ ڈور اپنے بھانچے اور داماد ابو المنصور خان کو سونپ کر فیض آباد سے دہلی کی طرف روانہ ہوئے تھے ۔اس وقت سعادت خان کے پیرمیں ایک شدید زخم تھا لیکن سعادت خان کے لیے دہلی کی محافظت زیادہ اہم تھی لہذا انہوں نے اپنے اس زخم کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنے بھانجے مرزا محسن ( ابو المنصور خان کے بڑے بھائی ) اور بھتیجے نثار محمد خان شیر جنگ ( میر محمد باقر کے بیٹے ) اس کے علاوہ تیس ۳۰ہزار کی فوج لیکر ۴۵۰میل سے زیادہ کی مسافت طئی کر کے ۱۷فروری ۱۷۳۹کو دہلی پہنچے جہاں انہوں نے ایک دن قیام کیا اور اس طویل سفر کی تھکان کے باوجود دوسرے ہی دن کرنال کی طرف حرکت کردی جہاں بادشاہ موجود تھے اور مقابل میں نادر شاہ کی فوجیں موجود تھیں برہان الملک سعادت خان ۲۳فروری ۱۷۳۹ء کی صبح کرنال میں  بادشاہ محمد شاہ کے دربار میں حاضر ہوئے جہاں پر بادشاہ کے ساتھ ان کے وکیل مطلق نظام الملک و زیر قمر الدین خان اس کے علاوہ میر بخشی وغیرہ بھی موجود تھے جو جنگ کے لیے اپنی اپنی تدبیریں پیش کر رہے تھے اکثر کی رائے یہ تھی کہ جنگ کو کم از کم چند روز کے لیے ٹال دیا جائے اسی ا ثنا میں جاسوسوں نے آکر یہ خبر دی کہ نادر شاہ کے فوجیوں نے برہان الملک کے آنے والے ساز و سامان پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ہے ۔

یہ خبر سبب بنی کے برہان الملک فوری طور پر جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے ۔(۱۱)

سعادت خان کو میدان جنگ میں آتے دیکھ کر نادرشاہ نے اپنے فوجیوں کو انکا مقابلہ کرنے کا حکم دیا دونوں طرف سے شدید حملہ ہوئے جنگ اپنے آب و تاب پر تھی بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک ، قمر الدین خان وزیر اعظم اور خان دوران کو حکم دیا کہ برہان الملک کے ساتھجنگ میں شریک ہوں اور ان کی مدد کریں مگر کسی کا بھی لڑائی میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں تھا ۔

ھر امیر کا یہ حال تھا کہ وہ معاملہ کو دوسرے پر ٹالتا تھا ۔ (۱۲)

Add comment


Security code
Refresh