www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

برھان الملک پر الزام اور اس  کی تردید

یوگیش پروین اور بعض دیگر مورخین یہ تحریر فرماتے ہیں کہ بات ۵۰لاکھ روپیہ پر معین ہو چکی تھی اور سب کچھ بخوبی انجام پارہا تھا کہ اچانک ۲۵فروری ۱۷۳۹ء کی رات میں میر بخشی کا انتقال ہو گیا جو اسی کرنال کی جنگ میں  شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے ۔ ان کے انتقال کے بعد بادشاہ محمد شاہ نے نظام الملک کے مشورے سے انہیں ہی میر بخشی کے منصب پر فائز کر دیا اور جب یہ خبر برہان الملک کو ملی تو وہ نظام الملک سے خاص ناراض ہو ئے کیونکہ نظام الملک نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں اس منصب پر فائز کر وائیں گے لہذا برہان الملک نے نظام الملک کی اس حرکت پر انہیں سبق سکھانے کی ٹھانی اور جب انکی ملاقات دوبارہ نادرشاہ سے ہوئی تو انہوں نے نادرشاہ سے کہا کہ نظام الملک نے آپ کو ۵۰لاکھ روپیہ کی رقم کا وعدہ کر کے دھوکھادیا ہے اگر آپ دہلی چلے تو آپ کو ۲۰کروڑ روپیہ نقد مل سکتے ہیں ۔ لہذا نادر شاہ نے برہان الملک کی وجہ سے دہلی کی طرف رخ کیا اور جب نادرشاہ دہلی پہنچا تو یہ رقم اسے نہ ملی کیونکہ مصنف کے بقول دہلی کے خزانے میں ۲۰کروڑ روپیہ کبھی جمع ہی نہ ہوئے اور برہان الملک نے چونکہ اس سے وعدہ کیاتھا تو اس نے  انہیں برے الفاظہ سے نوازا اور رقم جلدی مہیا کرنے کی بات کی برہان المک اپنی اس شرمندگی اور بے عزتی کو برداشت نہ کرسکے اور زہر کا پیالا پی کر اپنی زندگی کو خیر باد کہا ۔(۱۷)

اس کے علاوہ تاریخی و قایع دلپذیر کے مقدمہ نگار تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے پیر میں زخم تھا ( جس کا ذکر ہم سابق میں کر چکے ہیں ) وہ ایک کینسر کے پھوڑے میں تبدیل ہو گیا تھا اور اس کے پھوٹنے سے برہان الملک کے جسم میں زہر پھیل گیا جس کی وجہ سے انکا انتقال ہو گیا ۔ (۱۸)

برہان الملک کی سوانح حیات پر نظر رکھتے ہوئے یہ بات تو قطعی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے خود کشی نہیں کی کیونکہ انہی مؤرخین نے جنہوں نے ان کی خود کشی کی بات تحریر کی ہے خواہ وہ امجد علی ہوں یا یوگیش پروین یا دیگر مولفین ان لوگوں نے جب برہان الملک کی سوانع حیات بیان کی تو ان کے بارے میں یہ تحریر کیا کہ برہان الملک ایک قوی ارادہ زحمت کش ہمت نہ ہارنے والے ہے با استقامت شخص تھے پیر کے شدید زخم کے بعد بھی میدان جنگ میں گئے سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا قوی ارادہ رکھنے والا شخص اتنی جلدی کیسے ٹوٹ گیا پھر دوسری بات یہ کہ ایشا شخص جو اس لیے میدان جنگ میں جان ہتھیلی پرلے کر نادر شاہ کے مقابلہ پر سب سے پہلے چلا گیا کہ کہیں لوگ اسے غدّار نہ سمجھ لیں کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک عہدہ کے لیے اپنے سارے اصول بھلا بیٹھے جو اس سے پہلے اس سے زندگی میں سرزد نہ ہوئے تھے۔

اور یوگیش پروین کا یہ تحریر کرنا کہ برہان الملک نے نادرشاہ سے یہ کہا کہ نظام الملک نے ۵۰لاکھ کی بات کر کے انہیں دھوکا دیا ہے یہ بات تو بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتی اس لیے کہنادرشاہ سے جنگ کے اخراجات لے کر واپس چلے جانے کی پیش نہاد تو برہان الملک  سعادت خان نے کی تھی نہ نظام الملک نے کیوں کہ گرفتار ہو کر برہان الملک گئے تھے نہ نظام الملک اور بات بھی دو کروڑ کی ہوئی تھی نہ ۵۰لاکھ کی کیونکہ ۵۰لاکھ کی رقم اتنی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ نادر شاہ کے ایران سے ہند تک آنے اور جنگ کی خسارت کے لیے کافی ہوتی  ۔

اور آخری بات یہ کہ دہلی کے خزانہ میں ۲۰کروڑ روپیہ تھے ہی نہیں اور کبھی جمع نہ ہوئے ڈاکٹر دبیر اپنی کتاب شہرہ اولیاء کے ص ۳۷کے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مغل حکومت میں سب سے زیادہ رقم خزانے میں بادشاہ شاہ جہاں کے دور میں جمع ہوئی جو ۱۶کروڑ تھی ۔

یہ بات قابل ہضم نہیں ہوتی جب آپ فروغ کاظمی کی کتاب شاہان اودھ اور شیعت کا مطالعہ کریں اس کتاب کے ص ۳۵پر رقمطراز ہیں کہ جب برہان الملک کی وفات ہوئی تو اخراجات ۱۹کروڑ روپیہ خزانہ شاھی میں موجود تھے جو ان کے حسن انتظام سلیقہ مندی کفایت شعاری اور قناعت پسندی کی دلیل ہے ۔ (۱۹)

یہ بات اودھ کے خزانے شاہی کے بارے میں ہے دہلی کے نہیں ظاہر سی بات ہے اگر حکومت دہلی کے ایک صوبہ میں ۱۹کروڑ روپیہ ہوسکتے ہیں تو خود دہلی میں ۲۰کروڑ نہ ہونے کی وجہ سے برہان الملک کو خود کشی کرنی پڑی بات تھوڑا عجیب سی نظر آتی ہے کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو برہان الملک اپنی عزت ہی کے لیے صحیح پیسہ صوبہ اودھ سے منگا کر دے سکتے تھے لہذا برہان الملک کی خود کشی کر لینے کی بات بےبنیاد نظر آتی ہے یہاں پر کسی حد تک امجد علی (تاریخ اودھ کا مختصر جائزہ کے مؤلف ) کی بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ نظام الملک کے لیے برہان الملک ایک رقیب کی حیثیت رکھتے  تھے ۔

اورنظام الملک اپنی اس چال میں کامیابی ہو گئے تھے عہدہ حاصل کر لیا تھا لیکن اس خوف میں مبتلا تھے کہ کہیں برہان الملک ان سے انتقام نہ لیں لہذا برہان الملک کو زہر دلوا کر ان کی زندگی کے چراغ کو خاموش کر دیا اور لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ برہان الملک نے خود کشی کی اور اس کے لیے ایک داستان بھی  گڑھ لی ۔ اس طرح برہان الملک ۹ذالحجہ ۱۱۵۱ھجری کو دنیا سے رخصت ہو ئے انہیں دہلی ہی میں دفن کیا گیا لیکن بعد میں انکی بیٹی صدر النساء جو نواب ابو المنصور صفدر جنگ کی زوجہ تھی نواب کے دور حکومت میں ان کی ہڈیاں قبر سے نکلوا کر مرزا حکیم کے ذریعہ کربلائے معلی بھجوا کر امام حسین (ع) کے روضہ کی پشت پر دفن کروادیا ۔ میں نے نواب سعادت خان برہان الملک کی شخصیت اور کردار پر روشنی ڈالنے میں کافی اختصار سے کام لیا ہے کیوں ہماری یہ تحقیق ۴۰صفوں پر مشتمل ہے لہذا اس سے زیادہ بیان نہیں کیا جاسکتا تھا اتنا بیان کرنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ برہان الملک نوابین اودھ اور حکومت اودھ کے بانی ہیں البتہ آئندہ اودھ کے ۱۰نوابوں کا ذکر بہت ہی مختصر کر کے بیان کرونگا اور پھر انکی اسلامی خدمتوں پر بھی مختصر روشنی ڈالونگا اس بات کا ذکر یہاں کرنا اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ قارئین کو یہ گمان نہ ہو کہ میں نے بہت سے الزامات جو نوابین اودھ پر لگائے گئے انکا ذکر ہی نہیں کیا ذکر نہ کرنا ایک تو اختصار کے سبب تھا دوسرے ہم نے اہم الزامات پر روشنی ڈالنے اور انہیں رد کرنے کی کوشش کی ہے ۔

Add comment


Security code
Refresh