www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

انسان کے سراپا پر نظر ڈالئے، پورا انسان سامنے رکھیئے۔ یہ درست ہے کہ سب سے اوپر سر ہے جس میں دماغ ہے، جو عقل کی انسان کے لئے سر بلندی اور امتیاز کی علامت ہے۔ اسی لئے کھا جاتا ہے کہ عقل انسان کا مابہ الامتیاز ہے،

یعنی عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسانی بدن کے تمام اعضاء کو اسی عقل کے ماتحت حرکت کرنا چاھیے۔ آنکھ دیکھنے کے لئے عقل سے پوچھے اور کان سننے کے لئے۔ اسی طرح زبان بولنے کے لئے پھلے میزانِ عقل پر تول لے۔۔۔لیکن اللہ نے انسان کو دل بھی دیا ہے۔ عقل خوبی و بدی اور اچھے برے میں تمیز کا فیصلہ تو کرسکتی ہے لیکن خیر و خوبی کی طرف حرکت اور اس کی طرف لپکنے کے لئے طلب، چاھت اور آرزو کی ضرورت ہے۔ شر و بدی سے نفرت کے بغیر اس سے بچانا عقلِ محض کے بس کی بات نھیں۔ دل محبت و نفرت، پسند ناپسند اور طلب و گریز کا مرکز ہے اور قوتِ متحرکہ فراھم کرتا ہے۔ عقل جس چیز کی اچھائی کو ثابت کردے اسے دل میں جگہ دینے کی ضرورت ہے۔
 مسئلے کو "فطرت" کے زیر عنوان بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ دل حسن و جمال کا فریفتہ ہے، لیکن حقیقی حسن و جمال کی تشخیص پھلے مرحلے پر عقل کا کام ہے۔ حسنِ ناپائیدار اور خیر زود گزر کے بجائے حسنِ پائیدار اور خیرِ دائمی کا انتخاب و شناخت عقل کا کام ہے اور اس سے محبت کا رشتہ دل برقرار رکھتا ہے۔
 قرآن حکیم جھاں انسان کو عقل سے کام لینے اور فکر و تدبر کو بروئے کار لانے کی ترغیب دیتا ہے، وہاں وہ دل کے کردار کو بھی نظر انداز نھیں کرتا۔
 اللہ تعالٰی خود بتاتا ہے کہ اسے کس کس طرح کے انسان سے محبت ہے اور اسے کس طرح کے لوگوں سے محبت نھیں ہے۔ وہ جھاں اپنے لئے اطاعت کا طلب گار ہے، وھاں محبت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ وہ نیکی اور نیک لوگوں سے محبت کا اظھار بھی کرتا ہے اور ان سے محبت کی دعوت بھی دیتا ہے۔ انبیاء پر درود و سلام اور خاص طور پر آخری نبی پر درود بھیجنا اور بھیجنے کا حکم دینا اظھار محبت اور طلبِ محبت ھی تو ہے۔ نبی کریم کے قریبیوں سے محبت و مودت اختیار کرنے کا حکم بھی اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ محبت و مودت حسن و جمال سے ھوتی ہے اور یہ محبت بے ساختہ ھوتی ہے، جیسے حسین، نرم و نازک اور خوبصورت پھول کی طرف انسان بے ساختہ لپکتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ محبت و مودت اختیار کرنے کا حکم کیوں؟ ھم پھلے بھی اشارہ کر آئے ہیں کہ انسان گاھے سطح بینی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ کبھی کسی کی خیر خواھی کے جھوٹے دعوے سے فریب کھا جاتا ہے۔ آدم و ابلیس کے قصے میں یھی راز مخفی ہے۔ ابلیس نے آدم کے لئے اپنی خیر خواھی کے اظھار سے دھوکہ دیا اور انھیں جنت سے نکلوا دیا۔ انسان کبھی دنیا کی ظاھری چمک دمک سے فریب کھا جاتا ہے اور نورِ ازلی و ابدی کی پائیداری سے غافل ھو جاتا ہے۔ دنیاوی، وقتی اور ناپائیدار اقتدار کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے۔ قادر مطلق اور علی کل شیء قدیر کے اسم جمیل سے غافل ھو جاتا ہے، اس لئے اسے توجہ دلانے، متنبہ کرنے اور نظارت کی ضرورت ھوتی ہے۔
جب اللہ تعالٰی کسی سے محبت کا تقاضا کرتا ہے تو ضرور وہ لائق محبت ھوتا ہے۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اس لیاقت کو پھچانے۔ اس کی معرفت حاصل کرے۔ اس میں وہ کونسا جوھر و گوھر ہے کہ انسان کی چشم بصیرت اس پر جا پڑے تو وہ اس کا فریفتہ ھوجائے۔ یہ بھی نھیں ھوسکتا کہ اللہ تعالٰی کسی ناپائیدار چیز، ھستی یا خوبی سے محبت و مودت کا تقاضا کرے۔ آج مجھے یہ سب کچھ محبتوں کے امنڈتے دریاؤں، مودتوں کے بے کراں تلاطم اور عشق کے منہ زور سمندروں پر ایک نظر ڈالنے سے سوجھا۔
مفسرین کھتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم(ص) کے اصحاب نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کی کہ آپ نے ھماری ھدایت کے لئے کیا کیا مشکلات اور مصائب جھیلے ہیں اور کیا کیا زحمتیں اٹھائی ہیں، ھم اس کے بدلے آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔ اللہ کے محبوب نے اس کے لئے اپنے پروردگار سے رجوع کیا تو جواب آیا:
قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی۔
اے نبی! ان سے کھیے کہ میں اس پر تم سے کچھ بھی طلب نھیں کرتا سوائے میرے قریبیوں سے محبت کے۔
صحابۂ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ قریبی کون ہیں؟ تو فرمایا: وہ ہیں علی، فاطمہ، حسن اور حسین۔
ان دنوں انھی میں سے آخری امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی مناسبت سے پوری دنیا میں ایک ولولہ محبت، غلغلہ عشق اور ھمھمہ مودت کروڑوں دلوں کو بے قرار کئے ھوئے ہے۔
20 صفر کو ھر سال پوری دنیا میں فرزند رسول سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام کا چھلم منایا جاتا ہے۔ ویسے تو دنیا کے مختلف ملکوں اور ملکوں کے مختلف شھروں میں یوم اربعین حسینی کی مناسبت سے مجالس، جلوس اور دیگر تقریبات عزا کا اھتمام کیا جاتا ہے، لیکن سرزمین عراق ایک عجیب کیفیت سے گزرتی ہے۔
لفظوں کا عجز دیکھنا ھو تو ان مناظر کے بیان میں دیکھیئے۔ اظھار و بیان کی تنگ دامانی دیکھنی ھو تو اس کیفیت کے بیان میں دیکھیئے۔ قلم و زبان سے داستانِ عشق بیان نھیں ھوسکتی۔ پوری دنیا سے کارواں کربلا کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ سلسلے ویسے تو آغاز محرم الحرام کے ساتھ ھی شروع ھو جاتے ہیں اور روز عاشورا بھی کئی ملین افراد سرزمین کربلا پر پیغمبر اکرم(ص) کی تاسی میں ان کے سبط اصغر اور پیارے نواسے پر آنسو بھانے کو جمع ھوتے ہیں، لیکن اربعین حسینی پر کربلا میں حاضری کا اشتیاق عجیب مناظر تخلیق کرتا ہے۔
بصرہ سے کربلا تک کا پیدل سفر تقریباً پندرہ دن پر محیط ھوتا ہے۔ بصرہ سے پاپیادہ قافلے اسی مناسبت سے کربلا کا رُخ کرتے ہیں اور پھر آھستہ آھستہ سرزمین عراق کے بیسیوں شھروں اور سینکڑوں قصبوں سے اسی طرح کاروان نکل کھڑے ھوتے ہیں۔ عراق سے باھر سے کئی ملین اربعین حسینی کے موقع پر سرزمین کربلا میں حضوری کے شرف کی تمنا لئے اس سرزمین کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی لاکھ افراد پھلے نجف اشرف میں امام علی علیہ السلام کی قدم بوسی کرتے ہیں اور پھر کربلا کی طرف پیدل روانہ ھوجاتے ہیں۔ یہ کوئی اسی کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور تین چار روز میں قافلے عموماً نجف اشرف سے کربلائے معلی میں پھنچتے ہیں۔
شاید کوئی سمجھے کہ یہ قافلے جوانوں پر مشتمل ھوتے ھوں گے۔ نھیں ایسا نھیں، ان قافلوں میں جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کتنی ھی خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے ان بچوں کے ھمراہ عازمِ کربلا ہیں کہ جو ابھی پیدل نھیں چل پاتے، انھیں ان کی ماؤں نے ھتھ گاڑی میں ڈال رکھا ہے اور عزم و استقامت، بلکہ عشق و وارفتگی کا نمونہ بنے اپنے مولا حسین کی طرف کشاں کشاں رواں دواں ہیں۔
میری نظروں نے انتھائی بوڑھی خواتین کو بھی دیکھا ہے جو عصا ھاتھ میں لئے انسانی ارادے کی اعجازی قوت کا مظھر بنی قدم اٹھائے جا رھی ہیں۔ اتنا ھی نھیں میں نے معذوروں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ھر محرومی کو بھول کر محبت و عقیدت کے پھول فرزند رسول پر نچھاور کرنے کے لئے بے قرار ہیں اور کربلا کا رخ کئے ھوئے ہیں۔ ان میں نابینا بھی ہیں اور ایسے اپاھج بھی جو اپنے پاؤں پر نھیں چل سکتے بلکہ اپنے ھاتھوں کے سھارے پر کربلا کی طرف جاتی شاھراھوں کے کناروں پر داستان عزیمت رقم کر رھے ہیں۔

ایک نظر ان کی طرف بھی ڈالئے جو امام حسین علیہ السلام کے ان زائروں کے راستے میں آنکھیں فرش راہ کئے ھوئے ہیں۔ عراق میں کربلائے معلٰی کی طرف جانے والے ھر راستے میں عراقی عوام ان زائروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ کوئی کھانا پیش کر رھا ہے، کوئی پانی پلا رھا ہے، کوئی کھجوریں بانٹ رھا ہے۔ دو رویہ سڑکوں میں سے ایک پر خیمے لگے ہیں، کرسیاں بچھی ہیں، قالینیں بچھی ہیں، کھانے پک رھے ہیں۔ چونکہ یہ ھر سال کا قصہ ہے۔ بھت سے اھل خیر نے راستوں پر عمارتیں تعمیر کرلی ہیں۔ بڑے بڑے ھال بنا لئے ہیں، واش رومز بنائے ہیں۔ زائرین کے آرام کے لئے اھتمام کیا ہے۔ پیسے وصول کرنے اور کاروبار کے لئے نھیں۔ یہ اللہ سے تجارت کا بازار ہے۔ اس اجر رسالت کی ادائیگی کا اجر اللہ سے پانا ہے، لیکن کاروبار و تجارت کس کے وھم و خیال میں ہے۔ محبت تو انسان کو خود بے قرار کر دیتی ہے۔ اس محبت و مودت کے لئے تو اللہ نے دلوں کو چن لیا ہے۔
این سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
ایسے عراقی بھی ہیں جو رات پڑ جائے تو زائرین سے درخواست کرتے ہیں کہ رات ھمارے ھاں بسر کیجیے۔ پھر جو زائرین ان کے گھر پر چلے جائیں، ان کی ایسی محبت سے خدمت کرتے ہیں کہ بیان میں نھیں سما سکتی۔ تھکے ھوئے زائرین کے پاؤں گرم پانی سے دھلاتے ہیں۔ انھیں سلا کر رات بھر جاگتے ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے امام حسین علیہ السلام کے چھلم پر کربلا میں پھنچنے والے زائرین کی تعداد بلا مبالغہ کروڑوں تک جا پھنچتی ہے۔ اب کے برس کیا ھوتا ہے یہ مناظر بھی فلک اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا ہے ۔۔۔ داعش اور القاعدہ کا خوف ان کاروانوں کے لئے سدراہ ہے اور نہ طول و طویل مسافتیں، نہ راستے کی سختیاں ان کی راہ روک پاتی ہیں اور نہ کوئی اور عذر۔۔۔ کربلا کیا ہے۔ ایک ناقابل وصف قوت کار، ایک ناقابل بیان قوت کشش، ایک طاقت ہے، ایک جذبہ ہے، ایک ولولہ ہے کہ امنڈتا ھی چلا جاتا ہے۔
سچ فرمایا تھا ام المصائب اور شریکۃ الحسین علیہ السلام زینب کبریٰ نے۔۔۔ دمشق میں، دربار یزید میں، رسن بستہ حالت میں، یزید کی ایک بات کے جواب میں:
تم نے غلط کھا یزید کہ جو ھونا تھا ھوچکا، جو ھوا ہے وہ ھونے والے کی تمھید ہے۔۔۔
میں عرض کروں گا: بی بی! آپ سے سچ فرمایا، آپ کی کربلا آگے کی طرف بڑھ رھی ہے، ایک عالمی انقلاب کی طرف، اس کی پیش قدمی کو کوئی نھیں روک سکتا۔
تحریر: ثاقب اکبر
 

Add comment


Security code
Refresh