www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

کوئی مسئلہ نھیں کہ ھم اسے چھلم کھیں یا اربعین، 20صفر شھدائے کربلا اور سرور و سالار شھیدان کے پیغام کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے تجدید عھد وفا کا دن ہے۔

 کوئی فرق نھیں پڑتا کہ اسیران شام سے مدینہ واپسی پر پھلے اربعین یا چھلم پر کربلا زیارت پر آئے یا نھیں لیکن کوئی اس حقیقت کی تردید نھیں کرسکتا کہ بعد ازاں وہ بھی اس روز زیارت پر آئے۔
کوئی جھٹلا نھیں سکتا کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے عظیم بابصیرت صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری اور حضرت عطیہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) 61 ھجری کے ماہ صفر کی 20تاریخ کو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مطھر کی زیارت کے لئے بنفس نفیس حاضر ھوئے۔ قبر سے لپٹے اور گریہ و زاری کی۔ جی ھاں! یہ سنت صحابہ بھی ہے کہ قبر امام حسین علیہ السلام سے لپٹ کر گریہ و زاری کی جائے۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری وہ بزرگ صحابی تھے جو اس وقت ظاھری بینائی سے محروم ھو چکے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران نے نابینا افراد کے لئے "روشن دل"کی اصطلاح دنیا کے سامنے پیش کی اس لئے ھم یہ کھیں گے کہ حضرت جابر بابصیرت تو تھے ھی لیکن ظاھری طور پر بھی روشن دل بھی تھے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی عطا کردہ اربعین حسینی کے لئے مخصوص زیارت آج بھی 20صفر کی اھمیت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس دور میں امام حسین علیہ السلام تو یہ واضح کیاکہ یہ محرم و صفر ہیں جنھوں نے اسلام کو زندہ رکھا ھوا ہے۔ بت شکن خمینی کے استکبار شکن جانشین امام خامنہ ای نے20 صفر کی اھمیت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور اس کی خاص طور پر تاکید کی ہے۔
آئمہ معصومین علیھم السلام کی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو معصومین علیھم السلام میں جس ایک ھستی کی زیارت کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ خامس آل عبا امام حسین ابن علی (ع) ہیں۔
قبر مطھر امام حسین علیہ السلام کی کربلا میں زیارت کی فضیلت پر مستند و متواتر احادیث ہیں اور ان میں اربعین حسینی (ع) کے شب و روز کی زیارت کی بھت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یھی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں شیعہ مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع اربعین حسینی (ع) کے موقع پر کربلا میں ھوتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع عوامی شرکت کے لحاظ سے حج سے بھی زیادہ بڑا اجتماع ھوتا ہے۔ اگر یہ کھیں تو مبالغہ آرائی نھیں ھوگی کہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کربلا اور اس کے اطراف میں چھلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر نظر آتا ہے۔ اس سال آج 19صفر کی شام تک ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد زائرین کربلا اور اس کے گرد و نواح میں جمع ھو چکے ہیں۔
ایران، عراق سرحد سے لاکھوں زائرین سیلاب کی صورت میں کربلا کی زیارت کے لئے پاپیادہ داخل ھوئے۔ ایرانی حکومت اور زائرین کے امور سے متعلق ادارے پریشان ہیں۔ عشاق کا سمندر متلاطم ہے لیکن زائرین کے لئے سھولیات کا انتظام بھی بھت بڑا مسئلہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں 21لاکھ سے کم حاجیوں کو حج کی اجازت ھوتی ہے کیونکہ زیادہ حاجیوں کے لئے انتظامات کرنے میں سعودی حکومت ناکام رھتا ہے اور یھاں کربلا میں ایک کروڑ اسی لاکھ عاشقان حسینی جمع ہیں۔ توقع ہے کہ دوکروڑ زائرین سال 2014ء میں اپنا ھی قائم کردہ پچھلا ریکارڈ توڑ دیں گے۔ نھیں معلوم گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ یہ حقیقت اپنے دامن میں جمع کرچکی ہے یا نھیں؟
امام حسین علیہ السلام سے شیعہ مسلمانوں کا یہ عشق مجھے اللہ کے وعدوں کی تکمیل دکھائی دیتا ہے۔"تم مجھ سے کیا گیا عھد پورا کرو میں اپنا عھد پورا کروں گا۔" تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا یعنی میں تمھیں یاد رکھوں گا۔ بے شک اللہ اپنی مدد کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ ایک طرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے یہ وعدے ہیں اور دوسری جانب امام حسین علیہ السلام کا زندگی کے شب و روز کو اللہ سے کئے ھوئے وعدوں کی تکمیل میں گذارنا۔ شب عاشور کو بھی ذکر خدا کی شب میں تبدیل کردیا۔ کون سی فوجی حکمت عملی، دشمنوں کا کونسا خوف! شب عاشور یعنی عبادت کی رات۔ اللہ سے عھد کو پورا کرنے کے لئے اللہ سے معاملات طے کرنے کی رات۔ شب اربعین اللہ کی جانب سے امام حسین علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کرنے کی رات! یوم عاشور حسینی شعار تیری رضا پہ راضی، تیری قضا پہ سرتسلیم خم اور یوم اربعین اللہ نے حسین ابن علی علیھما السلام کو یاد رکھا۔
حج میں خدا کے گھر مسلمانوں کی تعداد اکیس لاکھ سے بھی کم اور اربعین کے روز تقریباً دوکروڑ مسلمانوں کا کربلا میں قبر مطھر امام حسین علیہ السلام کی زیارت، گریہ و زاری! دنیا میں کونسا ایسا شیعہ مسلمان ھوگا جس کی یہ تمنا نہ ھو کہ وہ شب چھلم اور یوم چھلم کربلا میں موجود ھو۔ میں نوجوان احمد نیک بختیان کی آواز میں زیارت عاشورا سن رھا ھوں، زیارت کی قرات سے قبل وہ اشعار پڑھ رھا ہے کہ
نور وجود از طلوع روئے حسین است،
ظلمت امکان، سواد موئے حسین است
شاھد گیتی بہ خویش جلوہ ندارد
جلوہ عالم، فروغ روئے حسین است
جان نہ دھم جز بہ آرزوئے جمالش
جان مر ا، دل بہ آرزوئے حسین است
عاشق او را چہ اعتنا ست بہ جنت
جنت عشاق خاک کوئے حسین است
دلم فقط کربلامی خواھد، حسین ؑ!
حاج احمد نیکبختیان مداح اھل بیت علیھم السلام ہیں لیکن یھاں انھوں نے یہ پوری نظم نھیں پڑھی کیونکہ اسی مدح حسینی کے دیگر اشعار بھی ہیں۔ صرف چند دیگر شعر ملاحظہ فرمائیں:
حضرت حق را بہ عشق خلق چہ نسبت
مسئلہ عشق، گفتگوئے حسین است
عاشق او را چہ غم ز مرگ طبیعت
زندگی عارفان بہ بوئے حسین است
ذات خدا لایریٰ است روز قیامت
ذکر لقا بر رخ نکوئے حسین است

کوئی بات نھیں حاج آغا احمد نیک بختیان، تم نے یہ دعا کرکے ھم سب کے سینوں میں گھٹی ھوئی آواز یا ھمارے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں اور دماغ میں چھپے جذبات کو اس دعا میں بیان کردیا "اللھم ارزقنا حرم الحسین علیہ السلام"۔ میرے کانوں میں تمھاری صدا گونج رھی ہے اور میرے جذبات تم سے مختلف نھیں۔ میرے اشک مجھے لکھنے سے روکتے ہیں۔ سورج ڈوب چکا ہے اور شب اربعین کا آغاز ھوا چاھتا ہے۔ تم پر درود و سلام ھو اے عزادارو، اے غمگسارو، اے اربعین کے سوگوارو تم سب پر سلام لیکن کیا بات ہے ان کی جو حسین ابن علی کے عشق میں کربلا کی مقدس سرزمین پر وارد ھوئے ہیں۔ اے کربلا میں موجود زائرو، تم پر ھم سب کی جانب سے درود و سلام۔ تم کو خدا کی قسم اے زائرین اربعین، تم جو آج کربلا میں ھو، تمھیں مادر حسین کی قسم کہ ھم جو آج کربلا میں نھیں ہیں، ھماری نیابت کرتے ھوئے حرم مطھر امام عالی مقام میں مادر حسین سے اور منتقم خون فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی بارگاہ میں ھمارا سلام اور یہ عھد بھی پیش کرنا۔ کھنا کہ آج پوری دنیا سوگوار ہے اور دنیا کے ان باضمیر انسانوں کی صدا ہے: ۔۔ ابد واللہ! یا زھرا! ماننسیٰ حسینا!
تحریر: عرفان علی
 

Add comment


Security code
Refresh