www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

آج کل جو بھی مسئلہ بیان کیا جائے یا دلیل عقلی کے ذریعے کسی سوال کا جواب دیا جائے، کچھ اذھان میں سلفی گری ایسے بھر دی گئی ھے کہ فورا بول اٹھتے ھیں کہ کوئی حدیث پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب میں لاو۔ اگرچہ یہ روش درست ہے لیکن اس روش سے غلط فائدہ اٹھایا جا رھا ہے۔

 اس لیئے کہ بعض واضع اور بدیھی قضیہ کے لیے بھی یھی روش استعمال کی جاتی ہے مثلا آج کل طالبان و داعش کے بدیھی ظالمانہ رویہ کو بھی عقلی دلایل سے نھیں مانا جا رھا، کیوں؟ اس کی وجہ بھی اسی غلط روش کا نتیجہ ہے۔
 اب ھم ان سے سوال کرتے ہیں کہ ھمیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث صحیحہ کی روشنی میں داعش کے حق پر ھونے کی دلیل دیں؟ اگر آپ نھیں دے سکتے تو ھم صحاح ستہ اور دیگر کتب معتبر سے بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے اور نتیجہ پڑھنے والے حضرات پر چھوڑتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں ،ھم روایات کثیر سے ان کے باطل ھونے پر دلایل دے سکتے ہیں لیکن ابھی ھم صرف وھی احادیث بیان کریں گے جو خصوصا ان کے اور ان جیسوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھمیں خبر دی اور پشین گویی کی ہے۔
1۔ شام کو تباہ کرنے والے آخری زمانے کے فتنہ گر اور کافر ہیں :
جناب ترمذی نے اپنی کتاب (صحیح ترمذی ، ج 8 ص 381) پر اس باب (اپنے اصحاب کو قیامت تک کے ھونے والے واقعات کی خبر) کے ذیل میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو ذکر کیا ہے اس میں ایک حدیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذکرکی ہے کہ اس کو علمائے اھل سنت نے صحیح کھا ہے۔ "إِذَا فَسَدَ أَهْلُ الشَّامِ فَلَا خَيْرَ فِيكُمْ". جب اھل شام تباہ ھونے لگے تو تمھارے لیے خیر نھیں۔
ھم نے فتنہ گر کھاں سے سمجھا؟ چونکہ شام کی فضیلت کی احادیث (اھل سنت کے مطابق) بھی انھی کتابوں مثلا (صحیح حبان میں ج16، ص276) میں وارد ھوئی ہیں۔ پھر اسی حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مولف صحیح ابن حبان لکھتے ہیں کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خبر دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ فساد پھر تمام ممالک تک پھیل جائے گا۔ پس پتا چلا کہ تمام ممالک کو فاسد کرنے والا آخری زمانے کا فتنہ ہے اور پھر ترمذی نے اسی حدیث کے بعد ایک اور حدیث ذکر کی ہے جس نے پھلے مطلب کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ، ان کے کفر کو بھی ثابت کیا ہے۔
" لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ"۔ (سنن ابن ماجہ،ج1،ص214) فرمایا، میرے بعد ایسے کافر مت ھو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنوں کو کاٹنے لگو۔ آخر میں اس حدیث کو صحیح و حسن لکھا ہے۔
پس اس حدیث کی سچائی آج کسی صاحب عقل پر چھپی نھیں ہے کیونکہ داعش کا بےگناھوں کی گردنوں کے کاٹنے کا فعل، پوری دنیا میں کسی پر چھپا نھیں ہے۔
2۔ داعش، دجال کا مقدمہ و سیڑھی ہے
یہ گروہ در حقیقت خارجی گروہ ہے جو دجال کہ جس کے بارے میں شیعہ سنی علما کا اتفاق ہے کہ آخری زمانے میں وہ سب سے بڑا فتنہ ھوگا، اس کی ابتدایی سیڑھی بلکہ اس کے استقبال کی پھلی قربانی ہے جیساکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارہ میں فرمایا: "يَنْشَأُ نَشْءٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ، أَكْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً، حَتَّى يَخْرُجَ فِي عِرَاضِهِمُ الدَّجَّالُ" (سنن ابن ماجہ، ج1، ص214) آخری زمانے میں ایک گروہ پیدا ھوگا جو قرآن کو پڑھے گا لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے نھیں اترے گا، جیسے زمانہ گزرے گا یہ گروہ توڑ دیا جائے گا اور یہ ٹوٹنا 20 مرتبہ سے زیادہ ھوگا، یھاں تک کہ دجال انھی کے ضمن سے خروج کرے گا۔
پس اس حدیث میں اس گروہ کی تباھی و دجال تک استمرار، واضع و روشن بیان ہے اور اس کے بعد ان کا دجال کے لیے مخلص اور قربان ھونا اور دجال کا ان میں سے ھونا، یہ بھی روشن ہے چونکہ کوئی بھی حقیقی مسلمان ایسی حرکتیں کرنا پسند نھیں کرتا جس کو داعش نے اسلام سمجھ رکھا ہے۔
3۔ آخری زمانے کے خوارج، مشرق سے خروج کریں گے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث جو کہ تقریبا صحاح ستہ اور دوسری معتبر کتابوں میں موجود ہے اور اس کو سب نے قبول کیا ہے، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی چند علامات کو ذکر فرمایا ھے ۔
یہ حدیث دو اسلوب سے نقل ھوئی ہیں اور دونوں طریقوں سے اس میں بیان ھونے والی صفات، داعش پر کاملا صادق آتی ہیں۔ کچھ کتب میں اس کو (آخری زمانے) کی قید سے خالی ذکر کیا ہے اور کچھ میں (آخری زمانے) کا لفظ بھی وارد ھوا ہے۔
بخاری نے اس حدیث کو ان خارجیوں پر منطبق کیا ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے مقابلے نھروان کے مقام پر لڑے تھے۔ ھم عرض کرتے ہیں کہ یہ حدیث صرف ان کے ساتھ خاص نھیں ہے۔
اس بات کے اور بھی دلائل ہیں لیکن صرف دو کو عرض کرتے ہیں۔
الف: خود بخاری اور دیگر نے اس حدیث کو آخر زمان کی قید کے ساتھ بھی ذکر کیا ھے۔ "یخرج فی آخر زمان" ( صحیح بخاری، ج4، ص1927 اور سنن ابن داوود،ج4 ص388 و سنن نسایی، ج7، ص119)۔
اس قید سے ذکر کرنا، صرف نھروان کے خوارج کے ساتھ خاص ھونے پر دلیل نھیں ھو سکتا کیونکہ وہ آخری زمانہ نھیں تھا بلکہ آج کا زمانہ آخری کھلائے گا چونکہ آخری زمانہ کی صفات کی احادیث مثلا (برائیوں کا عام ھونا)، اس زمانے کی خصوصیت ہے نہ کہ اس زمانہ کی۔
ب: پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، عام مفھوم رکھتا ہے۔ بخاری نے چونکہ وہ واقعات سنے تھے تو تطبیق کر دیا اور اگر اسی گروہ کے ساتھ خاص ھی کیوں نہ ھو پھر بھی داعش اسی فرمان کے زمرہ میں آتا ھے کیوں کہ ان کی تمام صفات داعش میں پائی جاتی ہیں مثلاً مسلمانوں کا قتل عام، کفر کے فتوے، زندہ مسلمانوں کے اعضا کاٹنا، پھر ان کے جسموں کو لٹکانا، سروں کو پاؤں سے ٹھوکریں مارنا و۔۔۔۔
نوٹ: اس حدیث اور ان جیسی حدیثوں کا اس زمانہ سے مربوط ھونا، اس کی تائید مفتی سعودیہ شیخ عبدالعزیز نے بھی داعش کے خلاف اسی حدیث سے استدلال کرتے ھوئے کی ہے جو کہ الشروق آن لائن پر (19 ۔08۔2014ء) کو نشر ھوئی ہے۔
بھرحال اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گروہ کی خصوصیات بیان کرتے ھوئے عراق کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ گروہ وھاں سے اٹھے گا۔ "قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ - وَ أَهْوَى بِيَدِهِ قِبَلَ الْعِرَاقِ ۔۔۔۔ يَخْرُجُ مِنْهُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ"( صحیح بخاری، ج23، ص37)۔ اور آج ھم دیکھ رھے ہیں کہ أبوبكر البغدادی، و أبوبكر العراقی اس حدیث کی سچائی کی واضح دلیل ہیں۔
اب دوسری خصوصیات اسی حدیث کا حصہ ہیں۔ بھتر ہے پھلے اس حدیث کا ذکر کر دیا جائے۔ "يَأْتِى فِى آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الأَسْنَانِ ، سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ، لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"( صحیح بخاری، ج12، ص360۔)
4۔ اس گروہ کے فوجی،اکثر نوجوان ھونگے:
پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گروہ کی بڑی بڑی علامتیں بیان کرتے ھوئے فرمایا، "يخرج في أخر الزمان قوم أحداث الأسنان"( صحیح بخاری، وھی صفحہ و ابن ماجہ، ج1، ص59 و مسند احمد بن حنبل، ج1،ص 404و۔۔۔۔) آخری زمانہ مین ایک قوم خروج کرے گی جو نوجوانی کی عمر میں ھوگی۔ تو آج یہ بات کسی پر چھپی نھیں ہے کہ اس گروہ کے اکثر فوجی نوجوان ہیں چونکہ وہ جلدی جھوٹی نصیحتوں میں پھنس جاتے ہیں۔
5۔ اس گروہ کے فوجی،کم عقل ھوں گے:
اسی حدیث میں ایک اور صفت، ان کا کم عقل ھونا ہے آپ نے فرمایا: "سُفَهَاءُ الأَحْلاَمِ" یہ کم عقل ہیں۔ آج طالبانیوں اور داعشیوں کے کم عقل ھونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام کے نام پر اسلام کو بدنام کررھے ہیں کیونکہ آج اسلام کا جو چھرہ یہ دنیا کو دکھا رھے ہیں کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی میں کھیں نظر آتا ہے؟ کبھی پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں مسلمانوں پر ظلم کیا ھو؟ یا ان کا خودکش حملے کرنا جو کہ سراسر قرآن و سنت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہے اور اس کو انجام دینے والا کتنا احمق ہے جو صرف امیر کی اندھی تقلید میں جھنم کا ایندھن بنتا ہے۔
6۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ھو گا:
ان کی تیسری صفت یہ ہے کہ ظاھراً یہ سب کے لیے بھلائی لے کر آئے ہیں۔ جیساکہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ البَرِيَّةِ" یہ ایسے ھونگے، جو کھیں گے کہ ھم سب اچھے لوگوں کی بھلائی چاھتے ہیں لیکن عملا اس کے برعکس ہیں جیسا کہ مسند احمد، ج3، ص224 میں حدیث ان کے بارے نقل ھوئی "سيكون في أمتي خلاف وفرقة قوم يحسنون القيل ويسيئون الفعل يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم" میری امت میں اختلاف و فرقہ ھوں گے، ایک قوم قول کے اعتبار سے اچھے جبکہ فعل کے اعتبار سے برے ھونگے قرآن کو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے گلے سے نیچے نھیں اترے گا۔
داعش کے قول و فعل میں تضاد کی واضع دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ھو سکتی ہے کہ مسلمانوں کو بغیر جرم کے قتل کرنا، مال کو لوٹنا، عورتوں کو یھودیوں کے ھاتھوں فروخت کرنا، یہ کھاں کی بھلائی ہے؟ یہ کونسا اسلام ہے؟ کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی مسلمان کے ساتھ یہ سلوک کیا؟۔
7۔ اھل اسلام کو قتل کرنا اور مشرکوں کو دعوت دینا:
آج کل کفر کا فتوی مسلمانوں کے بازار میں انتھایی سستا ھو چکا ہے۔ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو مسلمانوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ "المسلم اخو المسلم" مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور پھر ایک اور مقام پر فرمایا:" من حمل علينا السلاح فليس منا "( سنن نسایی، ج7، ص117)۔ جس نے ھم (مسلمانوں) پر اسلحہ تانا وہ وہ ھم میں سے نھیں۔ یا ایک اور مقام پر فرمایا:"سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَ قِتَالُهُ كُفْرٌ"۔ مسلمان کو قیدی بنانا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے۔
یہ تو ایک قاعدہ کلی بیان فرمایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خصوصاً جو داعش و ان جیسے خارجیوں کے لیے فرمایا وہ بخاری اور دوسروں نے بھی ذکر کیا ہے۔ "يَقْتُلُونَ أَهْلَ الإِسْلاَمِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ"( صحیح بخاری، ج3،ص1219) ۔ یہ گروہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اھل بتوں یعنی کافروں کو دعوت دیں گے۔ تو داعش کی یہ صفت شام میں روز روشن کی طرح واضع ہے کیونکہ یہ بات کس پر چھپی ہے کہ داعش خود صھیونیسیوں کی ھی پیدا کردہ ہے جو اسلام کے نام پر اسلام کو تباہ کر رھی ہے۔

8۔ قرآن کی طرف دعوت کا بھانہ مگر حقیقیت میں مخالفت:
آج کل داعش کا نعرہ یھی ہے کہ ھم قرآن کی تعلیمات کے نفاذ کے لئے جھاد کر رھے ہیں۔ ھم ایک حکومت اسلامی بنانا چاھتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل نھیں ھو رھا۔ تو گویا قرآن کو وسیلہ بنا کر اپنے ذاتی مفاد و حکومت بنانا چاھتے ہیں بالکل نھروانیوں کی طرح، ان کا بھی یھی نعرہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام قرآن کے مطابق عمل نھیں کر رھے اور ان پر فتوای کفر لگا کر جنگ شروع کردی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کی اس صفت کا ذکر پھلے سے فرما دیا ہے۔ جیسا کہ مسند احمد پر ذکر ہے "سيكون في أمتي خلاف وفرقة قوم يحسنون القيل ۔۔۔۔ يَدْعُونَ إِلَى كِتَابِ اللهِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْءٍ"۔ وہ قرآن کی دعوت دیں گے مگر کسی چیز میں بھی قرآن پر نھیں ھونگے۔
9۔ صرف اپنی بات کو حق سمجھنا اور دوسروں کو اسی پر مجبور کرنا:
ان کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ صرف اپنی بات کو حق اور دوسروں کو باطل پر سمجھیں گے اور جو ان کی بات مان لےتو ٹھیک وگرنہ کافر اور واجب القتل ہے اور ان کی اس صفت کی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نمونہ کے ذریعے تایید کی ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم نے نھروانیوں کا ذکر کرتے ھوئے وھاں حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے اس حدیث کو نقل کیا ھے۔ "كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفَ نَاسًا، إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ: "يَقُولُونَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوزُ هَذَا مِنْهُمْ - وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ - مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللهِ إِلَيْهِ"۔ (صحیح مسلم،ج3،ص116)۔ جب نھروان کی جنگ میں خارجیوں نے "لاحکم الا للہ" کھا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، (یہ کلمہ حق ہے لیکن اس سے باطل کا اردہ ہے) پھر داعش کی صفات کو وھاں ان پر تطبیق کرتے ھوئے فرمایا، (بےشک، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کی صفات کو بیان فرمایا ہے اور بےشک میں وہ خصوصیات ان میں (نھروانیوں) پا رھا ھوں یعنی آخری زمان کی ایک قوم کلمہ حق کھے گی لیکن ان کے یھاں (گلے کی طرف اشارہ کیا) سے تجاوز نھیں کرے گی۔ اور یہ خدا کی مبغوض ترین مخلوق ہے۔ تو جیسے نھروانی سب کو صرف اپنے بنائے ھوئے دین کی دعوت دیتے جو قبول نہ کرتا اس کو قتل کر دیتے چونکہ وہ خود کو حق پر اور دوسروں کو باطل اور کفر پر سمجھتے، آج داعش بھی قدم بہ قدم ان کی تقلید میں ہیں۔
10۔ ان کی کثرت سے عبادت دھوکہ ھوگی:
آج کل اسلام کے ٹھیکہ داروں کا سب سے بڑا حربہ، اسلام کی دعوت اور وہ بھی نماز، روزہ، تسبیح و تحلیل، زکوٰۃ کے نام پر ہے اور خود بھی ظاھری نماز و روزہ کی بھت پابندی کرتے ہیں اگرچہ کہ یہ بات بھت اچھی ہے لیکن وہ اسی کو پھندہ بناے ھوئے ہیں۔
عام سادہ لوح انسان بھی ان کے فریب میں آجاتے ہیں جیسا کہ پوری دنیا میں ھورھا ہے، والدین اپنے بچوں کو صرف ان ٹھیکہ داروں کی نمازوں کی وجہ سے پھلے حفظ قرآن و نماز کے نام پر اپنے بچوں کو مدارس بھیج دیتے ہیں اور پھر خودکش دھماکہ کے لئے بھی اجازت دے دیتے ہیں چونکہ ان کی ظاھری اسلامی تبلیغ اور جھوٹی جنت کے پھندہ میں پھنس جاتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کی اس صفت کو ابتدای اسلام میں ھی بتا دیا تھا جیسا کہ مسند احمد (ج3،ص183) پر بھی درج ھے۔ "ان فيكم قوما يعبدون ويدأبون حتى يعجب بهم الناس و تعجبهم نفوسهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية"بے شک تم میں ایک قوم ھو گی جو عبادت کرے گی اور باکثرت کرے گی حتٰی کہ لوگ ان سے تعجب کریں گے اور وہ خود تکبر کریں گے لیکن دین سے ایسے خارج ھوں گے جیسے تیر کمان سے خارج ھو جاتا ہے یعنی وہ حقیقتا دین سے دور اور خود کو اور دوسروں کو فریب دے رھے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے بارہ فرمایا: "لاَ يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ" ایمان انکے گلے سے نیچے نھیں جائے گا۔
داعش کے ساتھ سلوک پیامبر اسلام ﷺ کی نظر میں:
یھاں تک ھم نے بھت اختصار سے داعش کا تعارف پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ سے کرایا۔ آخر میں ضروری سمجھتا ھوں مسلمانوں تک پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اور دستور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ھم سب کو ان خارجیوں کے بارہ دیا ہے، وہ بھی اختصارا بیان کر دوں۔
1۔ ان کا دین سے کویی تعلق نھیں ہے پس ان کے دینی نعروں سے فریب نہ کھائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"حتى يعجب بهم الناس وتعجبهم نفوسهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية"
2۔ ان سے مذاکرات کی کوشش فضول ہے کیونکہ جیسے نکلا ھوا تیر واپس نھیں آتا، یہ بھی دین سے ایسے ھی نکل گئے ہیں کہ دوبارہ واپس دین میں نھیں آسکتے جیسا کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارہ فرمایا: "يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ"( سنن ابن ماجہ،ج1،ص210)۔ یہ گروہ دین سے ایسے خارج ھو جائے گا جیسے تیر کمان سے خارج ھو جاتا ہے اور پھر یہ دین کی طرف نھیں لوٹیں گے۔
3۔ یہ مسلمان نھیں ہیں بلکہ بدترین اور فسادی ترین مخلوق خدا ہیں جیسا کہ ابن ماجہ نے اوپر والی حدیث کے ضمن میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث میں ان کے بارہ نقل کیا "هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ" یہ فسادی ترین اور بدترین مخلوق ہیں۔ پس سادہ لوح مسلمان کبھی ان کے فریب میں نہ آئیں۔
4۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی حقیقت اور اصلیت بیان فرماتے ھوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ جھنمی کتے اور کافر ہیں جیسا کہ ابن ماجہ نے ان کے بارہ میں حدیث نقل کی ہے "كِلَابُ أَهْلِ النَّارِ، قَدْ كَانَ هَؤُلَاءِ مُسْلِمِينَ فَصَارُوا كُفَّارًا"( سنن ابن ماجہ، ج1، ص 216)۔ یہ جھنم کے کتے ہیں اور یہ مسلمان تھے لیکن کافر ھو گئے ہیں۔ پس اب ان کا حال وھی کرنا چاھیئے جو آوارہ کتوں کا کیا جاتا ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ھونا چاھیے اور یہ سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں جبکہ خود کافر ہیں پس ان کے ساتھ کافر حربی جیسا سلوک ھونا چاھیئے۔
5۔ یہ واجب القتل ہیں اور جو ان کو قتل کرے یا شھید ھو جائے، ان کے لئے بھت اجر و ثواب ہے جیسا کہ تمام کتابوں میں نے ان کے بارہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کے آخر میں یہ حکم دیا ھے، "فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ" ان کو جھاں بھی پاؤ، ان کو قتل کر دو۔ بےشک ان کو قتل کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن بھت اجر و ثواب ہے۔
حتی احمد بن حنبل نے ایک حدیث نقل کی جس میں آپ نے فرمایا:"طُوبَى لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوهُ"( مسند احمد، ج1،ص151)۔ جنت ہے اس کے لیے جو ان کو قتل کر دے یا ان کے ھاتھوں شھید ھو جائے۔
6۔ ان کو قتل کرنے والا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواھش کو پورا کرنے والا خوش قسمت انسان ھو گا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"لَئِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ"( صحیح بخاری، ج3،ص1219)۔ اگر میں ان کو پاتا تو ضرور مثل قوم عاد ان کو قتل کرتا، یعنی ان کو جڑ سے اکھاڑ دیتا۔
تحریر: سید مجاھد عباس شمسی
 

Add comment


Security code
Refresh