www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

تکفیری عناصر خاص قسم کے افکار اور اعتقادات کے حامل ہیں، جو اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں گروھوں اور سیاسی جماعتوں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ 

درحقیقت تکفیری عناصر کسی خاص گروہ یا جماعت تک محدود نھیں بلکہ تکفیریت ایسی سوچ کا نام ہے جس کا حامل اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والے مسلمانوں کو کافر قرار دیتا ہے۔
مسلم دنیا میں کئی مختلف گروہ اور جماعتیں از طرز تفکر کی نمائندہ ہیں، جنھیں تکفیری گروہ یا جماعتوں کا نام دیا جاتا ہے۔ تکفیری ایسے فرد یا گروہ کو کھا جاتا ہے جس کی فکری بنیادیں سلفی اور وھابی طرز تفکر کی مختلف تعبیروں میں سے کسی ایک پر استوار ھوں اور وہ دوسرے مسلمانوں کو صرف اس بنا پر کہ وہ اس کے ھم عقیدہ نھیں اپنے باطل معیاروں کی بنیاد پر کافر اور دین سے خارج قرار دیتا ھو۔
ان گروھوں کو زیادہ بھتر انداز میں سمجھنے کیلئے تکفیری طرز فکر کے بانی رھنماوں کی شخصیت اور ان کے افکار سے آشنائی انتھائی ضروری ہے۔
اس تحریر میں ھماری کوشش ھوگی کہ تکفیری سوچ کے چند بانی رھنماوں کی شخصیت کا جائزہ لیتے ھوئے اس کی جانچ پرکھ کریں۔ ان رھنماوں میں احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب کے نام زیادہ اھم ہیں۔
1۔ احمد بن حنبل:
تکفیری سوچ کا جائزہ لینے کیلئے ضروری ہے کہ سلفی مکتب فکر کے آغاز کو مدنظر قرار دیا جائے اور یہ وہ مرحلہ ہے جو احمد بن حنبل سے منسوب ہے۔
حدیث کی معروف کتاب "المسند" کے مصنف اور حنبلی فقہ کے بانی احمد بن حنبل کو سلفیت کا بانی اور مجدد جانا جاسکتا ہے۔
درحقیقت احمد بن حنبل سلفیوں کے امام اور پیشوا کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ پھلے شخص تھے جنھوں نے برصغیر، یونان اور ایران سے اجنبی فلسفی علوم اور ثقافتی اقدار کے اسلامی دنیا میں داخل ھو کر اسلامی علوم کا حصہ بن جانے اور اسلامی اعتقادات میں شامل ھوجانے کے بعد حدیث کو اس یلغار سے بچانے کی کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے انھوں نے شدت پسندی کا شکار ھو کر عقلانیت اور عقل پسندی کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا اور حدیث جیسے اسلامی علم میں عقلی طریقہ کار داخل ھونے کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیا۔
لھذا اگرچہ احمد بن حنبل بعض مسائل سے نجات حاصل کرنا چاھتے تھے، لیکن اپنے طرز عمل کی بدولت زیادہ شدید مسائل اور مشکلات کا شکار ھوگئے۔
سلفیت کے بانی کے طور پر احمد بن حنبل سماعت اور نقل پر حد سے زیادہ تاکید کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں آیات قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سمجھنے میں عقل کا استعمال مکمل طور پر حرام ہے اور ھمیں صرف ان کے ظاھری معانی تک ھی اکتفا کرنا چاھئے۔
اعتقادات اور انھیں بیان کرنے کی نوعیت کے بارے میں احمد بن حنبل کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ صحابہ اور تابعین کی بیان کردہ عبارات کو بعینہ نقل کرتے تھے۔
جس مسئلے میں صحابہ اور تابعین نے سکوت اختیار کیا ھوتا، احمد بن حنبل بھی سکوت اختیار کرتے تھے اور ھمیشہ قرآنی آیات اور احادیث نبوی (ص) کے ظاھری معانی کی روشنی میں فتویٰ دیتے تھے۔
کسی حدیث کی تاویل نھیں کرتے تھے اور خداوند متعال کی خبری صفات کے بارے میں بھی بغیر کسی تاویل کے ظاھری معانی کو ھی اپنے اعتقادات کی بنیاد بناتے تھے۔
وہ ایک جگہ کھتے ہیں: "ھم حدیث کو بالکل ویسے ھی جیسے ہے بیان کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں۔" (شهرستانی، الملل و النحل، الشریف الرضی‏، ص:165-129)۔
پھلی صدی سے لے کر تیسری صدی ھجری تک فقھی اعتبار سے اھلسنت دو گروھوں "اھل رائے" اور "اھل حدیث" میں تقسیم تھے۔
اھل حدیث فرقے کے علماء شرعی احکام کے استنباط میں عقل کیلئے کسی اھمیت اور مقام کے قائل نہ تھے اور اپنے بقول صرف قرآن و سنت تک ھی محدود رھتے تھے۔
احمد بن حنبل کا شمار اھلسنت کے چار فرقوں کے ان فقھاء اور مذھبی پیشواوں میں ھوتا ہے جو "عقلی استدلال" کے شدید مخالف تصور کئے جاتے تھے۔
ابن تیمیہ نے بھی ساتویں اور آٹھویں ھجری قمری میں احمد بن حنبل کے طرز فکر کی پیروی کرتے ھوئے انھیں کے راستے کو انتخاب کیا۔درحقیقت یہ کھنا مناسب ھوگا کہ ابن تیمیہ احمد بن حنبل کی راہ و روش کا مجدد تھا۔
احمد بن حنبل نے اپنے فرقے کی بنیاد درج ذیل بنیادی اصولوں پر استوار کی:
1۔ قرآن و سنت کی نصوص
2۔ صحابہ پیغمبر (ص) کے فتوے
3۔ ان میں اختلاف کی صورت میں جو فتویٰ بھی قرآن و سنت کے مطابق ھو
4۔ تمام ضعیف اور مرسل احادیث کو معتبر سمجھنا۔
احمد بن حنبل کا مذھب اس کے بعد بھت کم پھیلا، لیکن ساتویں صدی ھجری میں ابن تیمیہ (661 – 728 ھجری قمری) نے اسے ازسرنو زندہ کرکے اس کی ترویج شروع کر دی۔
کلی طور پر تین درج ذیل خصوصیات کو احمد بن حنبل اور اس کے شاگرد ابن تیمیہ کے نظریات کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے۔
آج بھی یھی تینوں بنیادی نکات شدت پسند تکفیری گروھوں کے سنھری اصول قرار پائے ہیں اور وہ اپنے شدت پسندانہ اقدامات کی توجیہ کرنے اور ان کا شرعی جواز فراھم کرنے کیلئے رائے عامہ کے سامنے انھیں نکات کا سھرا لیتے ہیں۔
1۔ شدید اور انتھا پسندانہ روایت پسندی
2۔ منطق کو قبول نہ کرنا اور عقل دشمنی
3۔ جدید فکری اور معاشرتی رجحانات کی شدید مخالفت
دوسرے الفاظ میں یوں کھا جاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا نکات احمد بن حنبل کی سوچ کے بنیادی اصول ہیں، جو آج تکفیری گروھوں نے اپنا رکھے ہیں۔ لھذا احمد بن حنبل کو شدت پسندانہ خاص طور پر تکفیری گروھوں کے فکری رھنما کے طور پر جانا جاسکتا ہے۔
2۔ احمد ابن تیمیہ:
ابن تیمیہ ایک حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے گھرانے میں پیدا ھوا۔ ایسا گھرانہ جس کے افراد اس فرقے کے بڑے مذھبی رھنماوں میں شمار کئے جاتے تھے جن میں سے پھلا محمد بن خضر بن تیمیہ تھا۔
ابن تیمیہ جس نے سلفیت پر مبنی احمد ابن حنبل کی سوچ کو آگے بڑھایا، اسی جیسے نظریات کا مالک تھا۔ شیخ محمد ابو زھرہ اس بارے میں کھتا ہے: "ابن تیمیہ کا عقیدہ تھا کہ مذھب سلف کے مطابق خداوند متعال ھر اس صفت کا مالک ہے جو قرآن کریم میں ذکر ھوئی ہے، جیسے فوقیت (کسی چیز کے اوپر ھونا)، تحتیت (کسی چیز کے نیچے ھونا)، عرش پر بیٹھنا، ھاتھ، محبت، نفرت وغیرہ سے برخوردار ھونا اور وہ دوسری صفات جن کا ذکر احادیث میں ھوا ہے، البتہ بغیر کسی تاویل کے۔
ابن تیمیہ سے قبل، چوتھی صدی ھجری میں حنبلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی قرآن و احادیث میں بیان شدہ خدا کی صفات کے بارے میں اسی عقیدے کے حامل تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سلفی مذھب ایسا ھی تھا، جبکہ ان کے ھم عصر علماء نے ان کی شدید مخالفت کی۔ علماء کا عقیدہ تھا کہ اس قسم کے اعتقادات کا نتیجہ خداوند کے جسمانی اور مادی اشیاء سے شبیہ ھونے کی صورت میں ظاھر ھوتا ہے۔"
احمد ابن تیمیہ کو اسلامی تفکر کی تاریخ اور اگلے مراحل میں سیاست اور معاشرے کے عملی میدانوں میں عظیم تبدیلی کا منشا قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب ابن تیمیہ اپنے زمانے میں پورے زور و شور سے اپنے نظریات پیش کرنے میں مصروف تھا اور پوری تگ و دو کے ساتھ سیاسی اور سماجی سرگرمیاں انجام دے رھا تھا اور اپنے افکار کے شدت پسندانہ ھونے اور اسلامی نظریات اور مبادیات سے اجنبی ھونے کی خاطر اکثر مسلمان علماء کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کر رھا تھا اور مسلمان علماء اسے ترک کرچکے تھے، تو شاید اسے خود بھی اس بات کا یقین نھیں تھا کہ صدیوں بعد محمد بن عبدالوھاب اس کے نظریات کو ازسرنو زندہ کر دے گا اور اکیسویں صدی عیسوی میں اس قدر مخلص حامی پیدا کر لے گا جو اسلامی دنیا کے بڑے حصے پر اثرانداز ھوسکیں گے۔
اس وقت شدت پسندانہ ترین اسلامی گروہ ایسے ہیں جنھوں نے ابن تیمیہ کے نظریات کو اپنی سرگرمیوں کی بنیاد بنا رکھا ہے۔ ابن تیمیہ کی تمام کتابوں میں یہ مشترکہ نکتہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی تحریر میں قرآن، سنت اور سلف صالح کی باتوں کو بیان کرکے ان سے اپنی مرضی کی تفسیر اور تعبیر کو اخذ کرتا ہے اور اپنی ان من گھڑت تعبیروں کو اپنے تمام فتووں کی بنیاد بناتا ہے۔
وہ کسی بھی مسئلے میں فتویٰ دینے کیلئے سب سے پھلے قرآن کریم سے رجوع کرتا ہے، اس کے بعد اجماع اور اگلے مرحلے میں قیاس کا سھارا لیتا ہے۔ وہ قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر سوچتا ہے اور کسی کی تقلید بھی نھیں کرتا۔
احمد ابن حنبل، ابن تیمیہ اور ان جیسے دوسرے سلفی دینی رھنماوں کے نظریات کا جائزہ لینے سے معلوم ھوتا ہے کہ وہ عقل کیلئے کسی قدروقیمت اور اھمیت کے قائل نہ تھے۔
ابن تیمیہ کھتا ہے: "وہ افراد جو عقل کی تعریف و تمجید کے مدعی ہیں، درحقیقت ایسے بت کی تعریف و تمجید کا دعویٰ کرتے ہیں جسے انھوں نے عقل کا نام دیا ہے۔ عقل اکیلے میں ھرگز ھدایت اور ارشاد کیلئے کافی نھیں، ورنہ خداوند کبھی بھی نبی یا رسول نہ بھیجتا۔"
ابن تیمیہ نے اپنی ذاتی اور من گھڑت سوچ کی بنیاد پر بے شمار ایسے فتوے صادر کئے، جو اس کے زمانے میں ھی تمام مسلمان فرقوں کے بڑے مذھبی رھنماوں کی جانب سے شدید مخالفت کا نشانہ بنے۔
مثال کے طور پر ابن تیمیہ کے ایسے چند فتوے درج ذیل تھے: "پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، انبیاء اور صالحین کی قبور کی زیارت کا حرام ھونا، نماز پڑھنے اور دوسرے شرعی احکام میں کوتاھی برتنے والوں کو قتل کرنے کا حکم"۔
احمد ابن تیمیہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ ایسی حدیث سے روبرو ھوتا تھا جو اس کے من گھڑت اعتقادات کے ساتھ زیادہ ھم آھنگ نھیں ھوتی تھی تو یا تو اسے جھوٹی حدیث کہ کر مسترد کر دیتا تھا یا اس کو ادھورا بیان کرتا تھا۔
اسی طرح ابن تیمیہ اھل تشیع سے شدید متنفر تھا اور انتھائی نازیبا الفاظ جو ایک عالم دین کی شان کے خلاف ہیں، کے ساتھ اھل تشیع پر تھمتیں لگاتا اور ان کی توھین کرتا تھا۔
ابن تیمیہ ایسے ایسے اعتقادات کو شیعہ مسلک سے منسوب کرتا ہے جس کے خود شیعہ بھی معتقد نھیں۔ اس کی نظر میں اھلسنت کے علاوہ باقی تمام مسلمان فرقوں سے وابستہ مسلمان اھل دوزخ میں سے ہیں۔
اگرچہ ابن تیمیہ اپنے نظریات کی بنیاد قرآن و سنت کو بناتا تھا، لیکن اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ انتھائی سطحی اور ایک پھلو پر مبنی (one dimensional) سوچ کا مالک تھا، یعنی اس کی سوچ اسلام کے صرف بعض حصوں تک محدود تھی اور ان کے بارے میں بھی اس کا فھم انتھائی سطحی درجے کا تھا۔
اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ابن تیمیہ سے قبل بھی ھزاروں مسلمان علماء اور محققین قرآن و سنت کا مطالعہ کرچکے تھے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر اپنے مخالف فرقوں کے خلاف اس قدر شدت پسندانہ اور انتھا پسندانہ فتوے نھیں دیئے تھے۔
خود اھلسنت کے بھت سے علماء جیسے عبدالکافی نے ابن تیمیہ کو ایک بدعت گزار، گمراہ کرنے والا اور شدت پسند شخص قرار دیا ہے۔ وہ کھتے ہیں: "ابن تیمیہ نے اعتقادات میں بھت سی بدعتیں ایجاد کیں اور اسلام کی بنیادوں کو نابود کیا۔ اس نے یہ کام قرآن و سنت کی پیروی کی اوٹ میں انجام دیا اور اپنے اوپر قرآن و سنت کا لبادہ اوڑھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ لوگوں کو حق اور بھشت کی جانب دعوت دے رھا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اس نے بھی قرآن و سنت کی پیروی نھیں کی اور بدعت گوئی کرنے لگا۔ وہ اجماع کی مخالفت کرنے کی وجہ سے جماعت مسلمین سے خارج ہے۔
اسی طرح ابوبکر حصینی کھتے ہیں:
"پس جان لو کہ میں نے اس خبیث شخص (ابن تیمیہ) کی باتوں پر غور کیا ہے۔ اس کے دل اور قلب میں گمراھی کی بیماری ہے۔ میں نے اس شخص میں جو فتنہ ایجاد کرنے کی غرض سے قرآن و سنت میں موجود مشتبھات سے مدد لیتا ہے اور جو ایسے افراد کی پیروی کر رھا ہے جن کی ھلاکت کا ارادہ خداوند متعال نے کیا ہے، ایسی چیزوں کا مشاھدہ کیا ہے، جنھیں بیان کرنے کی طاقت مجھ میں نھیں، کیونکہ ان کا نتیجہ پروردگار عالم کا انکار ہے۔"
احمد ابن تیمیہ 67 سال کی عمر تک غیر شادی شدہ رھا اور اپنے منحرف اعتقادات اور غلط فتووں کے باعث تین بار قیدخانے کا رخ کیا۔ وہ آخرکار 728 ھجری قمری میں دمشق کے قیدخانے میں فوت ھوگیا۔
ابن تیمیہ کو مرنے کے بعد وھابی فرقے کا بانی قرار دیا گیا۔ اگرچہ ابن تیمیہ کے پیروکار اسے اھل حدیث کا بانی قرار دیتے ہیں، لیکن بعض اھلسنت علماء دین حدیث کے بارے میں ابن تیمیہ کے طریقہ کار کو غلط قرار دیتے ہیں اور کھتے ہیں: "ابن تیمیہ حدیث کو نقل کرنے میں احتیاط کا خیال نھیں رکھتا تھا اور اپنی مرضی کے مطابق اس کو بیان کرتا تھا۔ اس کے باوجود اس کی سوچ بھت تیزی سے اس کے حامیوں میں پھیل گئی۔
ابن تیمیہ کے حامی اھم تفسیری کتابوں جیسے تفسیر بغوی، طبری اور ابن عطیہ میں صحابہ کرام کی رائے جانے بغیر آنکھیں بند کرکے اس کے نظریات کو قبول کر لیتے ہیں۔"
مختصر الفاظ میں یہ کہ موجودہ تکفیری گروھوں کی نظریاتی بنیاد فراھم کرنے اور ان کی جانب سے اپنی شدت پسندانہ سرگرمیوں کو شرعی جواز فراھم کرنے میں استعمال ھونے والے ابن تیمیہ کے اھم افکار اور اعتقادات کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے:
الف) بدعت:
ابن تیمیہ کی نظر میں ھر وہ چیز جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سلف صالح کے زمانے میں نھیں تھا بدعت ہے۔ ابن تیمیہ کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے توسل کرنا صرف ان کی زندگی میں ھی تھا اور آپ (ص) کی وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل نھیں کیا۔ ابن تیمیہ نے توسل کے تین معنی بیان کئے ہیں، جن میں سے دو جائز اور ایک حرام ہے۔
وہ کھتا ہے کہ توسل کا پھلا معنی پیغمبر اکرم (ص) کی اطاعت کرنا اور ان پر ایمان لانا ہے، جو اسلام اور ایمان کی بنیاد ہے۔
دوسرا معنی آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں اور قیامت کے دن آپ (ص) سے دعا اور شفاعت کیلئے توسل کرنا ہے۔ یہ بھی جائز ہے۔
توسل کا تیسرا معنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے دعا میں مدد مانگنا اور ان (ص) کے نام کی قسم کھانا ہے، یہ بدعت اور حرام ہے۔
ب) قبور کی زیارت کیلئے جانا:
ابن تیمیہ کی نظر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان کی قبر مبارک کی زیارت کیلئے جانا ایسا ھی ہے جیسے جاھلیت کے دور میں بت پرستی کی جاتی تھی، لھذا بدعت اور حرام ہے۔
اس کا عقیدہ ہے کہ اپنی قبر اور دوسرے انبیاء علیھم السلام کی قبر کی زیارت کے بارے میں خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کوئی معتبر حدیث اسے نھیں ملی اور آپ (ص) سے منسوب تمام وہ احادیث جو ان (ص) کی قبر کی زیارت کے بارے میں ھمارے پاس موجود ہیں ضعیف ہیں۔
اسی طرح سلف صالح نے بھی اس بارے میں کوئی فتویٰ نھیں دیا۔ ابن تیمیہ اپنے فتوے کیلئے یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "میری قبر کو آمدورفت کا راستہ قرار نہ دو۔"
ج) استغاثہ اور توسل:
ابن تیمیہ شفاعت اور انبیاء و ائمہ معصومین علیھم السلام سے توسل کو زمانہ جاھلیت کی باقیات قرار دیتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان سے توسل کرنے والوں کو مشرک اور کافر سمجھتا ہے۔
ابن تیمیہ کھتا ہے کہ جو شخص بھی یہ عقیدہ رکھتا ھو کہ فوائد کے حصول، نقصانات کو اپنے سے دور کرنے اور رزق و روزی کے حصول میں انسانوں اور خدا کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت ہے، تو گویا اس نے خدا کیلئے شریک قرار دے دیا ہے، لھذا وہ مشرک ہے اور اس پر توبہ کرنا واجب ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو واجب القتل ہے۔
د) خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانا:
ابن تیمیہ کے ایسے فتوے جو اسی کے ساتھ مخصوص ہیں، میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا کے علاوہ کسی اور کے نام کی قسم کھانے کو حرام قرار دیتا ہے۔
ھ) شیعہ دشمنی:
ابن تیمیہ نے پوری کوشش کی کہ اھل تشیع کو یھودیوں اور اسلام دشمن عناصر سے وابستہ ایک سیاسی گروہ کی صورت میں پیش کرے۔
و) جبریت:
ابن تیمیہ گھرے تفکر اور بصیرت کے نہ ھونے اور اسی طرح عقل کو ترک کرنے کے باعث اپنے اکثر اعتقادی نظریات میں جبر کا قائل ہے۔
3۔ محمد بن عبدالوھاب:
تکفیری مکتب فکر کا ایک اور رھنما محمد بن عبدالوھاب ہے۔ اس کے بارے میں کھا گیا ہے کہ وہ اپنی نوجوانی سے ھی تفسیر، حدیث اور عقائد کی کتب کے مطالعے میں دلچسپی رکھتا تھا اور خاص طور پر ابن تیمیہ اور ابن قیم کی کتابوں کو بھت اھمیت دیتا تھا۔ لھذا نظریاتی اعتبار سے ابن تیمیہ کو محمد بن عبدالوھاب کا فکری مرشد قرار دیا جاسکتا ہے۔
البتہ بعض محققین کا خیال ہے کہ محمد بن عبدالوھاب کا حسب نسب ایک یھودی گھرانے سے جا ملتا ہے، جو ترکی کے شھر جھودان دونمے میں رھائش پذیر تھے اور خود کو مسلمان ظاھر کرتے تھے۔
محمد بن عبدالوھاب کو ابن تیمیہ کی کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، لھذا اس نے ان میں غوروخوض کرنا شروع کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبدالوھاب نے ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو عملی جامہ پھنایا۔ محمد بن عبدالوھاب نے "وھابی" نامی فرقے کی بنیاد رکھی، جو 12 ویں صدی ھجری سے اب تک چلا آرھا ہے۔
یھاں سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ سلفی اور تکفیری طرز فکر رکھنے والے افراد میں محمد بن عبدالوھاب کے افکار اس قدر رائج کیوں ہیں؟
اس کا جواب سادہ ہے اور وہ یہ کہ محمد بن عبدالوھاب کے افکار انتھائی سطحی اور سادہ ہیں، لھذا انھیں سمجھنے کیلئے زیادہ سوچ بچار اور غوروفکر کی ضرورت نھیں اور آسانی سے سمجھ آجاتے ہیں۔
یھی وجہ ہے کہ سلفی اور تکفیری عناصر جو دینی تعلیمات کو عقل کی روشنی میں پرکھنے کے قائل نھیں، بھت آسانی سے ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب کے افکار کو قبول کر لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر محمد بن عبدالوھاب ایسے افراد پر جو پیغمبر اکرم (ص) اور اولیاء الٰھی کے مزار مبارک کی زیارت کو جاتے ہیں کفر کا فتویٰ لگاتا ہے۔ لھذا یہ کھنا درست ھوگا کہ محمد بن عبدالوھاب کی سلفی تحریک جس نے حنبلی مذھب کی آغوش میں جنم لیا اور ابن تیمیہ کے افکار و نظریات کو لے کر آگے بڑھی، قرآن و سنت سے براہ راست مراجعہ پر مبنی تھی اور ان کا بنیادی مطالبہ اسلامی تعلیمات کو دوسرے اسلامی فرقوں کی تعلیمات سے پاک کرنا تھا۔ تقلید کی مخالفت اور دو مذھبی فرقوں شیعہ اور صوفیہ سے ٹکراو اور ان کے بعض عقائد اور رسوم و رواج کو بدعت قرار دینا، اس تحریک کی چند واضح خصوصیات تھیں۔
محمد بن عبدالوھاب کی جانب سے پیش کردہ توحید کا مخصوص تصور اس بات کا باعث بنا کہ سلفی اور تکفیری گروہ شیعہ فرقے پر شرک اور کفر کی تھمت لگانے لگیں اور اپنے مخصوص عقائد کی بنیاد پر دوسرے مسلمان فرقوں کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنانے لگیں۔
بزرگ علماء کے آثار اور مزاروں کی نابودی، شیعہ کتب کی مخالفت، اھلسنت کی تاریخی، حدیثی اور تفسیری کتب میں تحریف ڈالنا، کتابوں کو مختصر کرنا (کتابوں کے وہ حصے جو ان کے عقائد سے ھم آھنگ نھیں تھے، کو مختصر کرنے کے بھانے حذف کر دیا کرتے تھے اور یہ موقف اختیار کیا کرتے تھے کہ ان کا مقصد ان کتابوں کو عام فھم بنانا ہے) اور شیعہ مسلمانوں کو تھمتوں کا نشانہ بنانا وھابیوں کے اقدامات کے چند اھم نمونے ہیں۔
اس قسم کے اقدامات نے سلفی وھابی ٹولے اور تکفیری ٹولے کے درمیان قربتیں ایجاد کر دی ہیں۔ سید محمد امین، محمد بن عبدالوھاب کے عقائد و افکار کو مندرجہ ذیل انداز میں بیان کرتے ہیں:
الف)۔ مرحومین حتٰی پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے ایصال ثواب کیلئے مجالس کے انعقاد کا حرام ھونا۔
ب)۔ انبیاء اور اولیاء الھی کی قبور شریفہ پر ھر قسم کی عمارت اور گنبد کی تعمیر کا حرام ھونا۔
ج)۔ انبیاء اور ائمہ علیھم السلام کی زیارت، ان سے توسل کرنا اور بارگاہ خداوند میں انھیں اپنا شفیع قرار دینا حرام ہے۔ اسی طرح قربت کی نیت سے نذر نیاز تقسیم کرنا اور قربانی کرنا بھی حرام ہے۔
د)۔ ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم میں نماز ادا کرنا حرام ہے۔ حتٰی محمد بن عبدالوھاب کے پیرو تکفیری عناصر ائمہ معصومین علیھم السلام کے حرم مبارک کو نابود کرنے کو واجب قرار دیتے ہیں۔
ھ)۔ ھر اس شخص کی اطاعت واجب ہے جو تلوار کے زور پر حکومت بنا کر خود کو امام مسلمین کے طور پر پیش کرے۔ وہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتا ہے اور دوسروں پر اس کی اطاعت واجب ہے۔ ماضی کے افراد کے افکار و نظریات کوئی اھمیت نھیں رکھتے۔
و)۔ محمد بن عبدالوھاب کے پیروکار ایسے تمام مسلمان فرقوں کو کافر قرار دیتے ہیں، جن کے افکار و نظریات ان سے مختلف ہیں اور اس بنا پر ان کے قتل کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔
کھا جاتا ہے کہ محمد بن عبدالوھاب نے حنبلی فرقے کے علاوہ باقی تمام فرقے کے افراد سے جنگ کی ہے۔ وہ حنبلی فرقے کو بھی ابن تیمیہ کے پیش کردہ نظریات و افکار کی روشنی میں پیش کرتا تھا۔
محمد بن عبدالوھاب اجتھاد کو مانتے ہیں، لیکن چار مسلمان فرقوں میں سے کسی کی پیروی کو جائز نھیں سمجھتے۔ محمد بن عبدالوھاب کے پیروکار، تکفیری عناصر کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان ایمان لانے کے بعد کافر ھوچکے ہیں اور شرک کا شکار ہیں۔ ان کا کفر اصلی ہے اور وہ کفار سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ لھذا ان کا قتل واجب ہے اور ان کی جان اور مال ان پر حلال ہے۔
وھابی عقائد کے مطابق باقی فرقوں کے مسلمان کافر ہیں کیونکہ وہ انبیاء، صالحین اور ائمہ کی قبور کی عبادت کرتے ہیں۔ وھابیوں کی نظر میں باقی مسلمان ایسے عیسائیوں کی مانند ہیں، جنھوں نے حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم کو خدا بنا رکھا ہے۔
اسی طرح وھابی مسلمانوں پر یہ تھمت بھی لگاتے ہیں کہ وہ مردوں سے مدد مانگتے ہیں اور ان کے نام کا ذکر پڑھتے ہیں اور ان کے ذریعے خدا سے شفاعت طلب کرتے ہیں۔
یھی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا میں سرگرم تکفیری اور سلفی ٹولے پیغمبر اکرم (ص)، اولیاء الھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے مزارات کو نابود کرنے کا عھد کرتے نظر آتے ہیں اور اسے اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ محمد بن عبدالوھاب کے مطلوبہ مذھب کی بنیاد اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھنے پر استوار تھی۔ یھی وہ عقیدہ ہے جو آج تکفیریت کی نظریاتی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ لھذا تکفیریت اور وھابی عقائد میں گھرا گٹھ جوڑ پایا جاتا ہے۔ محمد بن عبدالوھاب نے اپنی کتابوں میں مسلمانوں پر کفر کے اعلانیہ فتوے لگا رکھے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے خط "اربع قواعد و کشف الشبھات" میں لکھتا ہے: "مسلمانوں کا شرک بت پرستوں کے شرک سے بدتر ہے کیونکہ بت پرست صرف آسانی کے وقت شرک کرتے تھے اور مشکل حالات میں خدا کی مخلصانہ عبادت کیا کرتے تھے لیکن ان کا شرک دائمی ہے۔ یہ خدا کے ساتھ ساتھ ان افراد سے بھی مدد مانگتے ہیں، جو خدا کے مقربین میں سے ہیں۔"
نتیجہ:
ھر گروہ، جماعت، تحریک یا سیاسی ٹولے کو بھتر انداز میں پھچاننے کیلئے اس کے فکری اور نظریاتی رھنماوں کے افکار و نظریات کو جاننا انتھائی ضروری ہے۔ اس طرح سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس گروہ، جماعت یا تحریک کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں۔ لھذا ھم نے تکفیری گروھوں کی نظریاتی بنیادوں کو جاننے کیلئے ان کے نظریاتی رھنماوں جیسے احمد بن حنبل، ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب کے افکار و نظریات پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ وہ مذھبی شخصیات تھیں، جن کے افکار و نظریات منطق و عقل کو مسترد کرنے، جدید فکری و سماجی افکار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ اور اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو کافر و مشرک قرار دینے پر مبنی تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مذھبی شخصیات نے اپنے افکار و نظریات کے ذریعے موجودہ تکفیری گروھوں کی پیدائش کا زمینہ فراھم کیا ہے۔
تحریر: محمد افروز اسفنجانی
 

Add comment


Security code
Refresh