www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

فدک ایک خوبصورت باغ کا نام تھا جو مدینے سے دس یا پندرہ فرسخ کے فاصلے پر واقع تھا جس کی سالانہ آمدنی بارہ ھزار دینار تک بیان کی گئی ہے بعض نے اس میں موجود خرما کے درختوں کی تعداد کو چھٹی صدی ھجری میں کوفہ کے خرما کے درختوں کے برابر قرار دیا ہے۔( شرح نھج البلاغہ، ۱۶۔ ۱۳۶)

تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمان حیات میں باغ فدک حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے اختیار میں تھا اور ان کے مزدور اس میں کام کرتے تھے۔
 پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خلیفہ اول نے حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کے مزدوروں کو باغ فدک سے بھگا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا: فدک میرے باپ کی طرف سے مجھے ملا ھوا ھدیہ ہے۔ شیعہ منابع کے علاوہ اھل سنت کی کتابوں میں بھی بھت ساری روایتیں موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو علمائے اھل سنت نے اس آیت’’ آت ذاالقربیٰ حقہ‘‘ کے ذیل میں تائید کے طور پر نقل کی ہیں۔
 لیکن خلیفہ اول و دوم نے حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کو باغ فدک واپس کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے فدک کا مسئلہ تاریخ اسلام میں ایک بھت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا۔
تاریخ اسلام میں مسئلہ فدک اہل بیت اطھارعلیھم السلام کی مظلومیت پر دلالت کرنے والی ایسی زندہ حقیقت ہے جو ھر دور کے منصف اھل قلم کی توجھات کا مرکز بنی رھی۔ اس کے پشت پردہ کچھ ایسے حیرت انگیز اور تعجب آور نکات پائے جاتے ہیں جن کی طرف مختلف اھل قلم نے وقتا فوقتا اشارہ کیا ہے۔
اس مختصر تحریر میں ایسے ھی بیس حیرت انگیز اور تعجب آور نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن سے یہ واضح ھوتا ہے کہ باغ فدک دختر رسول اسلام حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا حق مسلّم تھا اور کارخانہ خلافت نے زور و زبردستی اسے غصب کیا اور اپنے اس عمل سے اھل بیت اطھارعلیھم السلام کی نسبت پائے جانے والے بغض و کینہ کا اظھار کیا:
۱: سب جانتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس کوئی چیز ھو اور کوئی دوسرا اگر اس کا دعویدار بن جائے تو مدعی کو چاھیے کہ وہ اپنے دعوے پر گواہ پیش کرے کہ وہ چیز اس کی ہے، اور کبھی بھی اس شخص سے گواہ کا مطالبہ نھیں کیا جاتا جس کے پاس وہ چیز ہے۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ کارخانہ خلافت میں کچھ اس کے برخلاف رونما ھوا۔ خلیفہ اول نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی سے گواہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ باغ فدک ان کے اختیار میں تھا اور وہ اس کی مالکن تھی!
۲: کیا خلیفہ اول اور دیگر مسلمان یہ نھیں جانتے تھے کہ آیت تطھیر حضرت زھرا اور امیر المومنین علی علیھما السلام کی شان میں نازل ھوئی ہے اور وہ ھر طرح کے رجس سے پاک و منزہ ہیں؟
تو ایسے میں کیا یہ تعجب کی بات نھیں ہے کہ خلیفہ اول فدک کے سلسلے میں حضرت زھرا سلام اللہ علیھا پر جھوٹے دعوے کی تھمت لگا کر فدک واپس کرنے سے انکار کر دیں!
۳: مباھلہ کے واقع میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، فاطمہ زھرا، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کے مقام کو دنیا کے سامنے متعارف کروانے کے لیے صرف انھیں ھی میدان میں لے کر آئے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نبوت کو ثابت کرنے اور جھوٹوں پر لعنت بھیجنے میں شریک ھوں" فنجعل لعنۃ اللہ علی الکاذبین"۔ لھذا کیا یہ حیرانگی کی بات نھیں ہے کہ خلیفہ اول ان افراد پر فدک کے مسئلے میں جھوٹ کی تھمت لگائے جنھوں نے کل میدان مباھلہ میں جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجی!۔ جی ھاں، اللہ جھوٹوں پر ان کی لعنت کو قبول کرتا ہے لیکن خلیفہ اول خود انھیں جھوٹا قرار دیتے ہیں!
۴: اسقف نامی عیسائی نے واقعہ مباھلہ میں کھا: اے نصرانیوں میں ایسے چھرے دیکھ رھا ھوں جو اگر بدعا کر دیں تو کرہ زمین پر ایک بھی عیسائی باقی نھیں رھے گا۔ ھاں وہ ان چھروں کی عظمت اور پاکیزگی کو جانتا تھا لیکن مسلمانوں کے خلیفہ ان چھروں کی عظمت سے ناآشنا تھے اور انھوں نے ان پر جھوٹا ھونے کی تھمت لگا دی!
۵: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھت ساری احادیث میں جو شیعہ سنی کتابوں میں موجود ہیں حضرت علی علیہ السلام کو "صدیق اکبر" کا لقب دیا اور فرمایا: "انت الصدیق الاکبر"( مستدرک الصحیحین، میزان الاعتدال، اسد الغایہ۔۔۔۔۔)
اور قرآن کریم کی آیت "الذین آمنو باللہ و رسلہ اولئک ھم الصدیقون" فریقین کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں نازل ھوئی ہے اس کے باوجود خلیفہ اول ان پر جھوٹ کی تھمت لگا کر ان کی گواھی کو رد کر دیتے ہیں!
۶: خداوند عالم کا قرآن کریم میں ارشاد ہے:" افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ" اور اس کے بعد امیر المومنین (ع) کو اپنے رسول کی نبوت پر گواہ قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے" قل کفی باللہ شھیدا بینی و بینکم و من عندہ علم الکتاب" سب نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے گواہ قرار پائے اور اللہ نے انھیں اپنے نبی کی نبوت پر گواہ پیش کیا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اللہ اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ایک طرف خود کو گواہ بناتا ہے اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام کو جبکہ اسی نبوت کے ماننے والے اور اسی نبی کا کلمہ پڑھنے والے جس کی نبوت علی کی گواھی سے ثابت ھوئی ہے مسئلے فدک میں حضرت علی علیہ السلام کی گواھی کو قبول نھیں کرتے اور ان کی گواھی کو ناکافی سمجھتے ہیں!!
۷: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خزیمہ بن ثابت کی گواھی کو دو گواھوں کے برابر قرار دیا اور اسے قبول کیا اور وہ ذوالشھادتین کے لقب سے معروف ھوگئے۔
لیکن خلیقہ اول اس ذات والا صفات کی گواھی کو قبول نھیں کرتے جو خزیمہ کے ساتھ کسی بھی اعتبار سے قابل مقائسہ نھیں ہیں جب کہ ان کی گواھی کے ساتھ ساتھ جوانان جنت کے سرداروں امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی گواھی نیز ام ایمن کی گواھی بھی موجود تھی جو قبول نھیں کی گئی!
۸: تمام شیعہ و سنی اس بات پر متفق ہیں کہ قاضی مالی امور میں ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کر سکتا ہے لیکن خلیفہ اول نے حضرت علی علیہ السلام اور ام ایمن کی گواھی کو قبول نھیں کیا اور امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کو ایک گواہ کے برابر کی حیثیت بھی نھیں دی اور نہ ھی حضرت زھرا سلام اللہ علیھا سے قسم کا مطالبہ کیا تاکہ ان کے حق میں فیصلہ کریں!
۹: تاریخ کی کتابوں میں لکھا ھوا ہے کہ بعض صحابہ جیسے جابر بن عبد اللہ انصاری، جریر بن عبد اللہ اور ابوبشیر مازنی خلیفہ اول کے پاس آئے اور دعویٰ کیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی مالی مدد کرنے کا وعدہ دیا تھا خلیفہ نے بغیر گواہ کے ان کے دعوے کو قبول کر لیا اور نہ ھی ان سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا اور نہ قسم کھانے کا!
لیکن حضرت زھرا سلام اللہ علیھا جو باغ فدک کی مالکن تھی ان سے گواہ کا مطالبہ کیا جبکہ گواہ لانے پر ان کی گواھی بھی قبول نھیں کی گئی!
۱۰: روایات میں ہے کہ خلیفہ اول نے بیت المال سے چھے ھزار دینار اٹھا کر ان سے ایک کھیت خریدا اور خلیفہ اول کے بعد خلیفہ دوم نے اسے جناب عائشہ کو بخش دیا۔( الاموال، ابو عبد القاسم بن سلا، ۳۴، الطبقات الکبریٰ، ۳، ۱۹۴، ابن عساکر در تاریخ، ۳ ، ۱۴۲۹)
بعض روایات میں آیا ہے کہ خلیفہ اول نے وفات کے وقت جناب عائشہ سے کھا کہ اولاد میں تم سے زیادہ کوئی بھی میرے نزدیک محبوب نھیں ہے میرے پاس بحرین میں کچھ زمین ہے جو میں تمھیں دے رھا ھوں۔( الطبقات الکبریٰ ۳، ۱۹۴)
جی ھاں خلفاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیت المال سے جائداد خرید کر اسے اپنی اولاد کو ھدیہ کردیں لیکن جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کی بات آئے تو وھاں خود ان کا حق بھی انھیں لوٹانے پر تیار نھیں ھوتے، بلکہ یہ کھہ دیتے ہیں کہ رسول تو کوئی میراث نھیں چھوڑتا جو اس کی اولاد کو ملے!
۱۱: جب خلیفہ نے فدک کی مالکیت کے سلسلے میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا دعویٰ قبول نھیں کیا تو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا نے فدک اور دیگر باغات نیز خیبر سے حاصل شدہ خمس کے باقی ماندہ حصے سے میراث کا مطالبہ کیا تو خلیفہ نے کھا: پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: ھم پیغمبر میراث نھیں چھوڑتے جو کچھ ھم سے باقی بچے وہ صدقہ ہے!
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب پیغمر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماری کے بستر پر تھے اور وصیت لکھنے کے لیے قلم و دوات مطالبہ کیا تو خلیفہ دوم نے کھا کہ ھمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے وصیت کی کوئی ضرورت نھیں! لیکن جب اپنے مطلب کی بات آئی تو پیغمبر کی حدیث سے ھی دختر پیغمبر کی بات کو ٹھکرانے کے لیے استدلال کیا گیا!
۱۲: ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر، اللہ کی جانب سے دنیا کے کونے کونے میں مبعوث ھوئے ان کے حالات و احکامات سے بھت ساری باتیں نقل ھوئی ہیں لیکن تاریخ میں کسی بھی نبی سے ایک بھی روایت نقل نھیں ھوئی کہ کسی پیغمبر نے کھا ھو ھم میراث نھیں چھوڑتے یا اپنی اولاد کو میراث سے محروم کر دیا ھو۔
جب ایسا کھیں نھیں ملتا تو پھر خلیفہ اول کھاں سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں اور اس کو دلیل بنا کر رسول کی بیٹی کا حق غصب کرتے ہیں؟!
۱۳: کیسے خلیفہ اول انبیا کے میراث نہ چھوڑنے کے بارے میں حدیث نقل کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید حضرت سلیمان کا وارث حضرت داوود یا حضرت زکریا علیھم السلام کے وارث ھونے کی بات کرتا ہے:" فھب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب۔۔۔"
۱۴: ایک طرف خلیفہ اول یہ دعویٰ کر رھے ہیں انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی کہ پیغمبر میراث نھیں چھوڑتے جبکہ دوسری طرف جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا جن کی صداقت پر آیت تطھیر دلالت کرتی ہے خلیفہ اول کی بیان کی ھوئی اس حدیث کو واضح طور پر جھوٹا قرار دیتے ھوئے فرماتی ہیں:" لقد جئت شیئا فریا" تم نے جھوٹی حدیث پیش کی ہے! اس کے بعد فرمایا کہ کیا تم جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو نظر انداز کرتے ھو اور جھوٹی حدیثوں کا سھارا لیتے ھو؟
اب فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟
۱۵: اگر انبیا کے میراث نہ چھوڑنے والی بات درست ھوتی تو کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث کو صرف جناب ابوبکر کے لیے بیان کرتے اور اپنی اولاد کو اس سے آگاہ نہ کرتے جبکہ انھیں اس کی زیادہ ضرورت تھی! یہ وہ سوال ہے جسے فخر رازی نے بھی تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے۔( تفسیر کبیر، ج ۱۰)
۱۶: حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پارہ تن تھیں اور آپسب سے زیادہ ان کی نسبت دلسوز تھے یھاں تک کہ بارھا فرمایا:"فداھا ابوھا" ان کا باپ ان پر فدا ھو۔ آپ نے ان کی تعلیم و تربیت کے فرائض خود انجام دئے کیا ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حدیث کو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے پوشیدہ رکھیں جو بعد میں فتنے کا باعث بنے اور انھیں اس کی وجہ سے اس قدر مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے اور نامحرموں سے محو کلام ھونا پڑے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی شخصیت خود اپنی امت کے اندر اتنے بڑے فساد کے واقع ھونے کا راستہ فراھم کر دیں؟ یہ وہ سوال ہے جو علامہ شرف الدین نے بھی بیان کیا۔( النص و الاجتھاد)
۱۷: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جید اصحاب جو کاتب وحی تھے جو شھر علم کا دروازہ تھے حافظان حدیث تھے ان میں سے کسی نے بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کے بارے میں اس حدیث کو بیان نھیں کیا اور صرف خلیفہ اول کو خاص طور پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث بیان کردی اور کسی اور کو بتایا تک نھیں کہ ھم انبیاء اپنی اولاد کے لیے میراث نھیں چھوڑ کر جاتے جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ھوتا ہے؟!( تاریخ الخلفا، تاریخ دمشق)
جب یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حدیث صرف جناب ابوبکر کے لیے ہی بیان کی؟ چونکہ قرآن کریم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص لگانا درست نھیں ہے تو اس سوال کے جواب میں یوں کھتے ہیں کہ دوسرے افراد جیسے ابوھریرہ اور عمر بن خطاب نے بھی اس حدیث کی تائید کی ہے لھذا یہ خبر واحد نھیں ہے!
۱۸: جنگ بدر میں جب جناب زینب بنت خدیجہ سلام اللہ علیھا کے شوھر ابوالعاص کو گرفتار کر لیا گیا اور زینب نے ان کی رھائی کے لیے جناب خدیجہ کے گلے کا ھار رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ابوالعاص کو رھا کردیں اور ھار کو بھی واپس کر دیں۔ مسلمانوں نے بھی حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ایسا ھی کیا۔
ابن ابی الحدید یھاں پر لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد سے کھا: کیا احسان اور بزرگی کا تقاضا نھیں ہے کہ فدک کے سلسلے میں جناب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا کے دل کو خوش کرنے کے لیے مسلمان فدک کو ان کے حوالے کر دیتے؟ کیا جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا مقام ان کی بھن زینب سے کم تھا؟ جبکہ وہ نساء العالمین کی سردار ہیں۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ قاضی عبد الجبار نے بھی یہ بات بیان کی کہ خلیفہ اول و دوم نے اپنی بزرگی کا بالکل لحاظ نھیں رکھا۔ اس کے بعد ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ یہ وہ بات ہے جس کا کوئی جواب نھیں ہے۔( شرح نھج البلاغہ، ۱۴، ۱۹۰)
۱۹: واقعہ فدک کے حیرت انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب نے خود دختر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باغ فدک کو چھیننے میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن جب منصب خلافت پر پھنچے تو کھنے لگے کہ فدک کو ان کے اصلی وارثوں حوالے کر دو۔( معجم البلدان، ۴، ۲۳۸)
ھمیں اگر چہ اس بات کی صداقت پر تردید ہے کہ کیا حقیقت میں انھوں نے ایسا حکم دیا لیکن اگر ایسا کیا ھو تو پھر ابتداء خلافت میں ان دونوں بزرگواروں کا اس بات پر اصرار کہ پیغمبر میراث نھیں چھوڑتے اور اس کے بعد پیغمبر کی جانب سے حدیث کا نقل کرنا، یہ سب کیا تھا؟ اگر ھم صحیح مسلم کی بات قبول کریں جو یہ کھتے ہیں کہ جو کچھ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام اور جناب عباس کو لوٹایا وہ مدینہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ تھا نہ ان کا وہ مال جو انھیں خیبر میں ملا تھا اور نہ ھی فدک۔ تو یھاں پر بھی یہ حیرت کن بات سامنے آتی ہے کہ کیا فرق ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقات کے درمیان ( جس سے مراد مدینے کے وہ سات باغ ہیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتی ملکیت تھی اور اھل سنت نے ان کا نام صدقات پیغمبر رکھا تا کہ اس جعلی حدیث "لانورث" کی توجیہ کرسکیں) اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے اموال میں جیسے فدک اور خیبر۔ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث" لانورث" صحیح تھی تو پھر کیوں اس مال کو پیغمبر کے وارثوں کو لوٹایا گیا؟!
اس جعلی حدیث کے باطل ھونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خلیفہ بنی امیہ عمر بن عبد العزیز نے لوگوں سے کھا: اے لوگو! میں ان مظالم کا جو گزشتہ دور میں اولاد رسول پر روا رکھے گئے جبران کروں گا اور اس میں کا سب سے پھلا ظلم فدک ہے جو میرے اختیار میں ہے اور میں اسے پیغمبر اور علی کی اولاد کو لوٹاوں گا۔۔۔
۲۰: جب امیر المومنین ظاھری خلافت پر بیٹھے تو جناب عائشہ نے مخالفت کے لیے قدعلم کیا اور طلحہ و زبیر کے حمایت سے امیر المومنین کے خلاف شورش کی اور دسیوں ھزار لوگوں کو امام و خلیفہ وقت کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ جب دختر رسول نے مسجد نبوی میں خلافت غصب کرنے والوں کے خلاف خطبہ پڑھا اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مدد کے لیے طلب کیا اور آواز دی کہ اے مسلمانوں یہ کیسی خاموشی ہے جو تم نے میرے حق کے مقابلے میں سادھ لی ہے کیا تم لوگوں کی نگاھوں کے سامنے مجھ پر ظلم نھیں ھو رھا ہے؟ تاریخ نے لکھا ہے کہ کوئی ایک بھی ان کی مدد کے لیے نھیں اٹھا اور نہ کسی نے حمایت کا اعلان کیا! اس معما کا راز کیا ہے؟
دختر رسولمسلمانوں کے اس رویہ سے سخت ناراض ھوئیں اور جب گھر واپس لوٹیں تو امیر المومنین سے فرمایا: انصار نے میری مدد کرنے سے انکار کیا، اور مھاجرین ھم سے دور ھو گئے اور لوگوں نے اپنی نگاھیں ھم سے موڑ لیں اور ھم بے یار و مددگار ھو کے رہ گئے۔ "خرجت کاظمۃ و عدت راغمۃ" میں غصے کو سینے میں دبا کر گئی تھی لیکن سرجھکائے ھوئے واپس لوٹی ھوں، کاش میں جانے سے پھلے اور یہ ذلت اٹھانے سے پھلے ھی مر گئی ھوتی۔۔۔۔ "مات العمد و وھن العضد" میرا ستون (پیغمبر) دنیا سے رخصت ھوا اور میرا بازو سست ھو گیا " شکوای الی ابی و عدوای الی ربی"( بحار الانوار، ج ۴۳، ۴۸)
آخر میں یہ شبھہ ذھنوں سے دور کرنے کے لیے کہ کیا حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو فدک سے اتنی محبت تھی یا نعوذ باللہ وہ مال دنیا کے لیے اتنی لالچی تھی کہ دربار خلافت میں نامحرموں کے درمیان پھنچ گئیں؟
شھید مطھری کا یہ جملہ جو انھوں نے کتاب "سیری در سیرہ نبوی" کے صفحہ نمبر ۱۰۱ میں لکھا ہے بیان کر دوں جس سے جناب زھرا سلام اللہ علیھا کے دربار خلافت میں جانے کا مقصد واضح ھو جاتا ہے:
شھید مطھری لکھتے ہیں کہ زھرا مرضیہ سلام اللہ علیھا اگر فدک کے لیے دربارہ خلافت میں گئی ہیں تو اس عنوان سے گئی ہیں کہ اسلام میں "احقاق حق" یعنی اپنا حق لینا واجب ہے " لاتظلمون و لا تظلمون" اور اگرنہ جاتیں تو ترک واجب کرتیں اس لیے کہ اگر فدک کے لیے دربار میں نہ جاتیں تو اس کا مطلب یہ تھا کہ گویا انھوں نے ظلم قبول کر لیا اور اسلام میں جس طرح ظلم کرنا حرام ہے اسی طرح ظلم قبول کرنا بھی حرام ہے۔ ورنہ فدک کی کیا قیمت ہے؟
حضرت زھرا سلام اللہ علیھا تو وہ ہیں جو فدک جیسے سینکڑوں باغات راہ خدا میں خیرات کر دیتی ہیں فدک کی بعنوان باغ فدک یا مال دنیا زھرا سلام اللہ علیھا کے سامنے کوئی قیمت نھیں تھی مسئلہ احقاق حق کا تھا اور ظلم قبول نہ کرنے کا تھا جو جناب زھرا قیامت تک کے مسلمانوں کو بتانا چاھتی تھیں کہ یاد رکھو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اگر سیدہ کونین کہ دنیا جن کی جوتی کے نوک کے برابر بھی ارزش نھیں رکھتی دربار خلافت میں نامحرموں کے سامنے جا سکتی ہیں تو عام مسلمانوں کو ظلم کے سامنے خاموش نھیں رھنا چاھیے اور ظلم سھتے ھوئے گھر نھیں بیٹھ جانا چاھیے یا اگر خواتین پر ظلم ھو رھا ہے تو اسے سھہ کر گھر میں نھیں بیٹھ جانا چاھیے کہ گھر سے باھر نکلیں گی تو بدحجابی ھو جائے گی بلکہ حجاب کا لحاظ رکھتے ھوئے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور ظلم کا مقابلہ کرتے ھوئے اپنا حق لینا سیرت فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا ہے جو عین اسلام محمدی ہے۔ اور دوسرا مقصد جناب زھراسلام اللہ علیھا کا دربار خلافت میں جانے کا یہ تھا کہ جناب زھراسلام اللہ علیھا اپنے اس عمل سے خلافت کے حقیقی چھرے کو مسلمانوں کے لیے آشکار کرنا چاھتی تھی تاکہ مسلمان کبھی دھوکا نہ کھا جائیں کہ تخت خلافت پر بیٹھنے والے اور جانشینی رسول کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ھی حق پر ہیں اور ان کا کردار عین مطابق اسلام و شریعت ہے۔
جناب زھرا سلام اللہ علیھا نے بنفس نفیس دربار خلافت میں جا کر خلافت کے چھرے پر پڑی جھوٹ و فراڈ کی نقاب اتار دی اور مسلمانوں کے لیے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا کہ اب اس کے بعد بھی اگر کوئی خلافت کا تابع رھے اور اسی کو سچا اسلام مانتا رھے تو وہ جان بوجھ کر اپنے پاوں پر کلھاڑی مار رھا ہے اور خود کو ھلاکت میں ڈال رھا ہے۔
حقیقی اسلام وہ نھیں ہے جس کی بنیاد غصب و ظلم پر مبنی ھو بلکہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ھوا حقیقی اسلام جو نجات دھندہ ہے جو انسان کو شرافت انسانیت کے زیور سے مالا مال کرتا ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے وہ اھل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار میں درخشاں ہے وہ سیرت زھرا و اولاد زھراسلام اللہ علیھا میں نمایاں ہے۔
اگر جناب زھراسلام اللہ علیھا گھر میں بیٹھی رھتیں اور دربار خلافت میں نہ جاتی تو یہ حقیقت پوشیدہ رہ جاتی اور خلافت کے ظاھری خوبصورت چھرے کو دیکھ کر گمراہ ھونے والے کل قیامت بارگاہ رسالت میں شکایت کرتے لھذا دختر رسول نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ھوئے اپنے اس عمل سے قیامت تک عالم بشریت کے لیے سامان ھدایت فراھم کر دیا۔
بقلم: سید افتخار علی جعفری
 

Add comment


Security code
Refresh