www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

اس سال حج میں جو سلسل وار واقعات پیش آئے ہیں اور خاص کر منی کا واقعہ ،یہ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ کی نشاندھی کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے امریکہ اور آل سعود ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے ہیں

 امریکہ اور سعودیہ کی اس ڈبلینگ میں سے محمد بن نایف اور محمد بن سلمان میں سے آخر کار ایک کو موجودہ بادشاہ کا جانشین بننا ہے اور دوسرے کو نالایق اور بے کار ھونے کی وجہ سے طاقت سے کنارہ کش ھونا ہے ۔
مقدمہ
اس سال حج میں سلسلہ وار واقعات کے رونما ھونے کے بعد ان واقعات کے دو اسباب بتائے جارھے ہیں ۔
۱ ۔ فرضیہ: قصور اور کوتاھی ۔
۲ ۔ فرضیہ :تقصیر و تعمد ۔
جو لوگ فرضیۂ قصور اور کوتاھی کے معتقد ہیں وہ ان واقعات کی وجہ سعودی حکام کی تدبیر میں کوتاھی ، نظم برقرار کرنے میں نا اھلی ، تجربے کی کمی ، اور یمن کی جنگ اور بحرین میں مداخلت کی وجہ سے آل سعود کی توجہ حج کے مسئلے پر نہ ھونا بتاتے ہیں ۔
پھلے فرض کے مقابلے میں دوسرا فرض پیش کیا جا رھا ہے کہ جس میں مکہ اور منیٰ کے حوادث کی وجہ سعودی حکام کی سوچی سمجھی سازش کو بتایا گیا ہے ۔ اس دوران کچھ لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ لوگ دوسرے فرض کے بجائے پھلے فرض کو تسلیم کر لیں اس لیے کہ پھلے فرض کے لوگوں پر بھت گھرے اثرات مرتب ھوں گے ۔یہ لوگ فرضیۂ تقصیر و تعمد کے برملا ھو نے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مضر مانتے ہیں اسی لیے وہ اس کوشش میں ہیں کہ اس فرض کو نظر انداز کیا جائے اور فرضیۂ قصور و کوتاھی کو برملا کیا جائے ۔
سیاسی عمل اور مذکورہ بالا گروہ کے مقاصد پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فرضیۂ تقصیر و تعمد کے سامنے آنے کے عواقب و نتائج مندرجہ ذیل ھوں گے جن سے اس گروہ کے مقاصد کمزور اور خلل پذیر ھو جائیں گے ۔
* معاشرے کی فضا اور عام جذبات کا انتخابات کے حق میں نہ ھونا ۔
* معاشرے کا مشترکہ جامع پلان ( برجام) کی خوبی اور پانچ جمع ایک کے سمجھوتے کو رد کر دینا ۔
* معاشرے کا سیاسی اور ثقافتی دو قطبی فضا سے باھر آجانا ،
اس مقالے کے لکھنے والے نے دوسرے فرضیے پر اعتقاد رکھتے ھوئے تقصیر اور تعمد کو مکہ اور منی کے واقعات کے رونما ھونے کا سبب قرار دیا ہے ،اس بنا پر کوشش کی جائے گی کہ اس مقالے میں ایک منطقی اور مستند بحث کے ذریعے اور درج ذیل دو محوروں پر انحصار کرتے ھوئے مذکورہ بالا دو فرضیوں کے بارے میں بحث کی جائے ۔
اول : مشاھدات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر فرضیۂ قصور و کوتاھی کی تردید ۔
دوم : مکہ اور منی کے واقعات میں فرضیۂ تقصیر و تعمد کو ثابت کرنے کے لیے صحیح اور برھانی دلایل پیش کیا جانا ۔
امید ہے کہ یہ مقالہ حریم دوست کے زائروں کی ان پاک اور نورانی ارواح کے قرض کی ادائگی کا ایک ذریعہ بن سکے کہ زندگی کے پاک ترین لمحات میں مظلومانہ اپنی جان دی اور امت کو اپنے غم میں عزادار بنا دیا ۔
فرضیۂ قصور و کوتاھی کی تردید کے دلایل:
۱ ۔ آل سعود کا یہ جھوٹا دعوی کہ مسجد الحرام میں جو کرین گری تھی وہ آندھی کے چلنے سے گری تھی ، اس لیے کہ کرین ھوا کے رخ کے مخالف سمت میں گری تھی ۔
۲ ۔ کرین کا اس کے تعادل کے وزن کے خلاف سمت میں گرنا ۔
۳ ۔ مسجد الحرام میں حادثے کے بعد امداد رسانی مں جان بوجھ کر کوتاھی کیا جانا ۔
۴ ۔ رمی جمرات کی طرف جانے والے راستوں کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے غیر متوقع پور پر بند کر دینا ۔
۵ ۔ ایشیاء اور افریقہ کے حاجیوں کے راستے میں خلل ایجاد کرنا (عربی اور سعودی حاجیوں کا راستہ معمول کے مطابق کھلا تھا ) ۔
۶ ۔ رمی جمرات کی طرف جانے والے ایک راستے کو بند کرنے کی دلیل نہ بتانا ۔
۷ ۔ حاجیوں کو لے جانے والی ٹرین کی حرکت میں غیر متوقع طور پر خلل ایجاد کیا جانا اور ٹرین کا دیر تک کھڑے رھنا کہ جس کی وجہ سے حاجیوں کے راستے میں بھاری بھیڑ جمع ھو گئی۔
اس سلسلے میں سعودی عرب کے ایک انتھائی تیز و طرار نامہ نگار مجتھد نے تصریح کی ہے کہ رات میں ٹرین چار گھنٹے لیٹ تھی جس کی وجہ سے حاجی اسٹیشن پر انتظار کرتے رھے ۔۔۔جب ٹرین پھنچی تو اس کے باوجود کہ ٹرین کے دبے بھر چکے تھے اور دروازے بند تھے مگر پھر بھی ٹرین نھیں چلی ،مجتھد نے زور دے کر کھا کہ ٹرین کھڑی تھی اور اس کے دروازے بند تھے اور ایک گھنٹے تک اس کے دروازے نھیں کھلے ،دروازوں کے بند ھونے کی وجہ سے مسافروں کو گھٹن کا احساس ھوا جس کی وجہ سے کچھ مسافر بے ھوش ھو گئے ۔
۸ ۔ بھیڑ کو کنٹرول کرنے والے مرکز کی طرف سے بھاری بھیڑ کے جمع ھوجانے کی خبر دینے کے باوجود اس پر دھیان نہ دینا ۔
مجتھد کھتا ہے : حج کو منعقد کروانے والے سعودی حکام نے حادثے کے رونا ھونے سے دو گھنٹے پھلے بھیڑ پر نظر رکھنے والے کیمروں کے ذریعے بھیڑ کو دیکھا تھا اور سیکیوریٹی فورسز کو ضروری نوٹس بھیج دیے تھے لیکن سیکیوریٹی فورسز ان پر کوئی دھیان نھیں دیا ۔
۹ ۔حج کے ان عظیم اعمال کا انتظام کرنے کے لیے ناواقف اور کمزور لوگوں کو تعینات کیا جانا ۔
۱۰ ۔ حاجیوں کو بھیڑ سے بھرے ھوئے راستوں کی لے جانا ۔
۱۱ ۔ داخل ھونے کے راستوں کو کھلا رکھنا اور خارج ھونے کے راستوں کو بند کیا جانا ۔
۱۲ ۔ بند کیے راستے سے حاجیوں کو اسی طرف موڑنا کہ جس طرف سے وہ آ رھے تھے ۔
۱۳ ۔ امدادی تیم خاص کر ڈاکٹروں کی ٹیم کا کئی گھنٹے دیر سے پھنچنا ۔
۱۴ ۔ ان صدمہ دیدہ افراد کو ھوش میں لانے کی کوشش نہ کرنا کہ جو بھیڑ کے دباو اور گرمی کی وجہ سے بے ھوش ھو گئے تھے ۔
۱۵ ۔ دوسرے ملکوں خاص کر جمھوری اسلامی کے ڈاکٹروں کو ٹیم کو امداد کے لیے جانے سے روکنا ۔
۱۶ ۔ جھان یہ واقعہ رونما ھوا تھا اس علاقے کو محاصرے لیا جانا اور لوگوں کو وھاں سے نکلنے اور امداد رسانوں کو وھاں آنے سے روکنا۔
۱۷ ۔ زخمیوں کو منتقل کرنے پر توجہ نہ دینا ۔
۱۸ ۔ زخمیوں اور جان گنوا دینے والوں کی شناخت کے لیے ان کے متعلقہ ممالک کے ساتھ تعاون نہ کرنا ۔
۱۹ ۔ سعودی عرب کا اس سے زیادہ تعداد کے ساتھ حج کے اعمال منعقد کروانے کا تجربہ ،اور منی میں اس سے کم تعداد کے باوجود حوادث کا تجربہ۔
۲۰ ۔ مسجد الحرام میں کرین گرنے کے باوجود منی میں حادثے سے بچنے کے لیے حفاظتی انتظامات نہ کیے جانا ۔
یقینا جب حاجی واپس آئیں گے اور وہ آنکھوں دیکھی سنائیں گے تو مزید علل و اسباب کا پتہ چلے گا اور کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نھیں رھے گی کہ قصور و کوتاھی کا فرضیہ بد انتظامی اور تدبیر امور میں کمزوری اور تجربے میں ناپختگی کی بنا پر ایک غلط فرضیہ ہے ۔
مکہ اور منی کے حوادث کے رونما ھونے میں تقصیر و تعمد کے فرضیے کے اثبات کے دلایل
انجام شدہ تحقیقات کی بنیاد پر کہ جو مشاھدات اور واقعیات سے مربوط ہیں یہ کھا جا سکتا ہے کہ مکہ اور منی کے حوادث کی تین اھم دلیلیں ہیں:
۱ ۔ واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ ۔
۔ ایران سے خوف اور ایران کے خلاف جنگ کی فضا قائم کرنا ۔
۳ ۔ شیعوں سے خوف زدہ کرنا اور مذھبی جنگ شروع کرنا ۔
فرضیۂ تقصیر و تعمد کے اثبات میں مستقبل میں ممکن ہے کچھ دوسرے دلایل بھی پیش کیے جا سکیں کہ جو ابھی گمان کی حد تک ہیں اور ان کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے :
واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ ؛
علاقے میں مذھبی کشیدگی اور نیابتی جنگ کہ جو امریکہ صھیونی حکومت اور بعض یورپ کے ملکوں کی جانب سے سعودی عرب کی عقیدتی حمایت کے ساتھ خطے میں شروع کی گئی ہے، اس جنگ کا منصوبہ بنانے والوں اور اس کو عملی جامہ پھنانے والوں کے مقاصد کے بر خلاف یہ جنگ درج ذیل نتائج پر منتھی ھوئی ہے :
* علاقے میں جمھوری اسلامی کے اقتدار اعتبار اور اسٹراٹیجیک نفوذ میں اضافہ ۔
* علاقائی تنازعات میں روس کی بھر پور مداخلت ۔
* علاقے میں امریکی پالیسیوں کے سلسلے میں یورپی ملکوں می شکوک و شبھات پیدا ھونا ۔
* امریکہ کے علاقائی حلیفوں جیسے سعودی عربیہ اور ترکی کا خود ساختہ نیابتی جنگوں کے گرداب میں گرفتارھونا ۔
* علاقے میں اسلامی مزاحمت کی حدود اور ثقافت میں پھیلاو ۔
* مغربی ،عربی اور عبری ملکوں کے اقدامات کے سلسلے میں علاقے کی رائے عامہ میں شدید نفرت کا وجود میں آنا۔
مذکورہ چیزوں نے علاقے میں اسٹراٹیجیک تعادل کو بدلنے کے علاوہ علاقے میں نئے امنیتی اقدامات کے کیے جانے کا باعث بنی ہیں ،ان میں سے بعض اقدامات نے ایران ، اسلامی مزاحمتی محاذ اور روس کو دھشت گردی کے ساتھ مقابلے کا ایک قطب بنادیا ہے اور اس کے مقابلے میں امریکہ ،کچھ یورپی ملکوں صھیونی حکومت اور علاقے میں امریکہ کے ساتھیوں کو دھشت گردی کے حامی قطب میں قرار دے دیا ہے ۔
اس بنا پر امریکہ میں جو حکمران پارٹی ہے وہ مذکورہ بالا صورت حال کو قابو میں کرنے کے لیے جمھوری اسلامی ایران کے ساتھ کار آمد تعاون کرنے کے لیے خود کو مجبور پاتی ہے ۔
قصر ابیض کے موجودہ حکام کا یہ عقیدہ ہے کہ شام ،عراق اور یمن کی فائل پر تیزی کے ساتھ عمل ھونا چاھئے،ورنہ امریکہ کے آنے والے الیکشن میں ڈیمو کریٹس کو جمھوری خواھوں کے مقابلے میں بھاری شکست کا سامنا ھو گا ۔
اس سلسلے میں اوباما اور اس کی پارٹی خود پر لازم سمجھتی ہے کہ سعودی عرب کی حاکمیت کو بدلا جائے ۔ڈیموکریٹس چاھتے ہیں کہ حکومت کے کاروبار کو دوسری نسل کے شاھزادوں تک منتقل کیا جائے جس کے لیے انھوں نے دوسری نسل کے سب سے بڑے شاھزادے محمد بن نایف کا انتخاب کیا ہے جو اس وقت سعودی عرب کا ولی عھد ہے۔ اس کے مقابلے میں جموری خواہ اور صھیونی حکومت کی ترجیح یہ ہے کہ محمد بن سلمان فرزند ملک سلمان کو بادشاھت کی مسند پر بٹھایا جائے ۔
جمھوری خواھوں کے ساتھ محمد بن سلمان کے رابطے کا آغاز ھتھیاروں کی تجارت سے ھوا تھا جو اب ایک اسٹاٹیجیک تعاون تک پھنچ چکا ہے ۔اس نے اسی حمایت کی پشتپناھی کے سھارے طاقت کے زینوں کو تیزی کے ساتھ طے کیا ہے۔
محمد بن سلمان نے اپنے باپ کے اقتدار تک پھنچنے کے بعد ،محمد بن نایف کے ساتھ ایک موقتی اتحاد کر کے غیر سدیری پارٹی یعنی متعب ابن عبد اللہ وغیرہ کو اقتدار سے الگ کیا ۔اس نے سعودی عرب کے وزیر جنگ ھونے کے ناطے اس بھانے سے کہ مقرن بن عبد العزیز نے یمن کے خلاف جنگ کی مخالفت کی ہے اس کو ولی عھدی کے منصب سے بر طرف کرنے کے مقدمات فراھم کر دیے اور خود نئے ولی عھد محمد بن نایف کا جانشین بن گیا ۔اس منصب نے اس کو موقعہ دیا کہ اس نے اقتصاد اور ترقی کے امور کی ریاست کو بھی اپنے ھاتھ میں لے لیا اور عملی طور پر تیل کی کمپنی آرامکو کو بھی ھتھیا لیا ۔
محمد بن سلمان کی طاقت حاصل کرنے کی رفتار میں اتنی تیزی آئی کہ سعودی عرب کے امور کی خبر رکھنے والوں اور آل سعود کے اندر کے تعلقات سے باخبر افراد نے اعلان کیا کہ ملک سلمان مستقبل قریب میں حکومت سے کنارہ کش ھو جائے گا اور اپنے بیٹے کو اپنے جانشین کے طور پر پیش کرے گا ۔ لیکن محمد بن سلمان کو قدرت کے کسب کرنے کے اپنے راستے میں آخری قدموں پر محمد بن نایف اور آل سعود کے بعض شاھزادوں کی مخالفت کا سامنا ہے کہ جنھوں نے یمن کے خلاف جنگ کے سلسلے میں بھی اس کے موقف کی مخالفت کی تھی ۔
اس بناپر ایسا معلوم ھوتا ہے کہ اس سال کے حج میں رونما ھونے والے سلسلہ وار واقعات واشنگٹن سے ریاض تک طاقت کی جنگ کی عکاسی کرتے ہیں کہ جس نے امریکہ کی دو پارٹیوں اور آل سعود کی دو پارٹیوں کو ایک دوسرے کے مقابل میں لا کھڑا کر دیا ہے ۔
امریکی سعودی ڈبلینگ میں محمد بن نایف اور محمد بن سلمان میں سے ایک کوموجودہ بادشاہ کا جانشین بننا ہے اور دوسرے کو ایک ناکارہ پرزے کی طرح پھینک دیا جانا ہے ۔
امریکی سعودی ڈبلینگ میں کہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا واشنگٹن کی حکمران پارٹی یعنی ڈیموکریٹس اور ریاض میں سلمانے مخالفین اس کوشش میں ہیں کہ کہ اس سال کے حج کے سلسلہ وار واقعات کو دلیل بنا کر بادشاہ کو نالایق ثابت کرنے کے ساتھ ہی آل سعود کے اندر حاکمیت میں تبدیلی کی رفتار میں تیزی لائیں تا کہ محمد بن نایف تخت سلطنت پر براجمان ہو سکے۔ اس سلسلے میں روزنامہ غارڈین نے پردہ اٹھایا ہے کہ سعودیہ کے ایک اعلی رتبہ شاہزادہ نے ملک سلمان کے حکومت سے الگ کیےجانے کے منصوبے کی بات بتائی ہےامریکہ میں ڈیمو کریٹس کی سعودی عرب میں محمد بن نایف کے ساتھ مل کر اس منظر نامے کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے شواہد در ذیل ہیں :
* سعودی شاہزادوں کے ایک خط کا انتشار کہ ملک کو سلمان اور محمد بن سلمان کے ہاتھوں سے نجات دلائی جائے ۔
* محمد اور سمان کی طف منسوب ویڈیو کا ریلیز ہونا اور اس کی اور اس کے ساتھیوں کی منی میں موجودگی کو رمی جمرات کا راستہ بند کیے جانے کی وجہ بتانا کہ جس کی بنا پر منی میں حادثہ رونما ہوا ۔
* محمد بن نایف کی جانب سے حقیقت تک پہنچنے کے لیے کمیٹی کی تشکیل ۔
امریکی سعودی ڈبلینگ کے دوسری جانب امریکہ کے جمہوری خواہ ،صہیونیسٹ اور ،محمد بن سلمان ہیں کہ جن کی کوشش ہے کہ حج میں رونما ہونے والے سلسلہ وار حوادث کو دلیل بنا کر ،سیاسی اور امنیتی امور اور حج کے سلسلے میں محمد بن نایف کی نالایقی کو ظاہر کرتے ہوئے اس کو بر طرف کرنے کے مقدمات فراہم کریں ۔مکہ اور منی میں رونما ہونے والے حوادث کے بعد اور طاقت کی جنگ کے چھڑنے کے بعدسے سعودیوں نے لگاتار جو اقدامات کیے ہیں ان کے بارے میں غورو فکر کرنے سے ان واقعات کے رونما ہونے کے اسباب پہلے سے زیادہ روشن ہو جاتے ہیں :
* مسجد الحرام کی توسیع کے پروجیکٹ کو بن لادن کمپنی سے کہ جو سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی ہے ، لے کر بادشاہ کے حکم سے اسے محمد بن سلمان کی کمپنی نسما کو دینا ۔
* بادشاہ کے حکم سے بن لادن کمپنی کے تمام سرمائے کونسما کمپنی کو دینا ۔
*محمد بن نایف کے نظریات کے بر خلاف بادشاہ کا یہ حکم کہ حج کے منصوبوں میں نظر ثانی کی جائے اور امور حج کے اداروں کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں انکے بارے میں تحقیق کی جا ئے ۔
* بادشاہ کے حکم سے بندر بن حجاز کو بر طرف کیا جا نا کہ جو سعودی عرب کے وزیر حج اور محمد بن نایف کے قربی ہیں ۔
* امن عامہ کے مدیر جنرل عثمان الحرج ، اور تین دوسرے فوجیوں کا بر طرف کیا جا نا ۔
*دربار کے افسر تحقیقات اور محمد بن نایف کے قریبی سعید الجبری کی برطرفی ۔
*بادشاہ کا سیکیوریٹی فوج کی حمایت کرنا اور حج کے امور کی دیکھ بھال کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنانا ۔
*ایران سے خوف زدہ کرنا اور ایران کے خلاف جنگ چھیڑنا ۔
*منی میں حاجیوں کے قتل عام کو جمھوری اسلامیء ایران کیطرف نسبت دینا ایران سے خوف زدہ کرنے کی خاطر ہے اور یہ کام سعودی عرب سے وابستہ ذرائع ابلاغ نے کیا ہے ۔
* کویتی روزنامے القبس نے ایرانی حاجیوں کے حکام کی رھنمائی کو نظر انداز کرنے کو منی میں اس حادثے کی وجہ بتایا ہے ۔
* سی این این عربی نے ایک رپورٹ میں ایرانی حجاج کو منی میں حادثے کا ذمہ دار بتایا ہے ۔
* روزنامہ الشرق الاوسط نے بھی لکھا ہے کہ ۳۰۰ ایرانی حاجیوں کے مخالف سمت میں حرکت کو جو دیکھی گئی ہے بھیڑ اور حادثے کی اصلی وجہ بتایا ہے۔
*ٹویٹر کی جس کی مالکیت اب سعودی عرب کے پاس ہے اس نے ایک ساتھ دو عنوان قائم کیے ہیں : ایران تقتل الحجاج ،ایران حاجیوں کا قاتل ہے ،اور ایرانی دھشت گردی ۔
اس منظر میں ایران ھراسی الگ نوعیت کی تھی ایک تو مخاطبین کے اندر ادراک اور نظریے کی تبدیلی پیدا کی جائے اور ان کے اندر ایران سے جنگ کے خیالات کو بٹھایا جائے ۔
ایران سے خوف زدہ کرنے اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے والا اھم ترین گروہ علاقے میں سلفی اور تکفیری گروہ ہے ۔ اس گروہ کی تعلیمات میں ایران کو عثمانی خلافت تضعیف اور اس کے پاش پاش ھونے کا اصلی سبب قرار دیا گیا ہے ۔
اس بنا پر سلفی تکفیری گروھوں کے اندر یہ خیال زیادہ زور پکڑے گا کہ سعودی عرب اور عثمانی خلاف ایک ھی ہیں اور ایران ان کے خلاف ہے ۔اس لیے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس منظر نامے میں تکفیری سلفی گروہ جمھوری اسلامی ایران کے خلاف نیابتی جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ ایران سے خوف زدہ کرنے اور اس کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے کا تکفیری سلفی گروھوں کا منصوبہ صرف عربی ایشیائی اور افریقی ملکوں تک محدود نھیں ہے بلکہ اس دائرے میں وہ ایک اور منظر کو تشکیل دے رھے ہیں کہ جس کا مقسد امریکی حکام اور عوام اور یورپی ملکوں کو بھی اس میں شامل کرنا ہے ۔
منی میں حاجیوں کے قتل عام کے سلسلے میں آل سعود کا ایران کو نشانہ بنانے کا مقصد اس کو ایک نئے منظر نامے کے ساتھ جوڑنا ہے کہ جس تعلق سعودی عرب میں ظھران کے ٹاوروں میں ھونے والے دھماکوں سے ہے ۔
یہ واقعہ سال ۱۹۹۶ میں ۱۹ امریکی فوجیوں کے مارے جانے کا باعث بنا تھا ۔ اس سلسلے میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بیروت میں احمد المغسل کا اغوا کیا جانا کہ جس کے ساتھ چند ایرانی حاجی بھی لاپتہ ھو گئے تھے ایران سے خوف زدہ کرنے اور ایران کے خلاف جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے منطر نامے کا نیا سین ہے۔
احمد المغسل حزب اللہ حجاز کے پانچ مشکوک افراد میں سے ایک ہے کہ ایف بی آئی نے جس کی گرفتاری کے پچاس لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے ۔
اس بنا پر جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے کہ منی کے حادثے کو ایرانی حاجیوں کے سر منڈھنا آل سعود اور سعودی عرب کے ٹکڑوں پر پلنے والے ذرائع ابلاغ کا ایک انفعالی اقدام تھا اس کے برخلاف ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایران ھراسی اور ایران ستیزی ، اس منظر نامے کا دوسرا پردہ ہے کہ جس کا ایک سرا منی میں حاجیوں کا قتل عام تھا اور دوسرا سرا مستقبل کے حوادث میں نمایاں ھو گا ۔
شیعہ ھراسی اور مذھبی جنگ کا آغاز
آل سعود نے منی میں جنایت کا ارتکاب کر کے کوشش کی ہے کہ سلفی تکفیریوں کے لیے شیعہ ھراسی اور شیعوں کے خطرے کو زیادہ نمایاں کرے ۔اس سلسلے میں شیخ عبد العزیز آل شیخ کا کھنا ہے : بعض حاجی مقدس مقامات پر جان بوجھ کر مرنا چاھتے ہیں اس لیے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ ان مقامات پر زندگی اجر کا باعث ہے ۔
سعودی حکام کے منی کے حادثے کو شیعوں کی طرف نسبت دینے کے پیچھے درج ذیل مقاصد ھو سکتے ہیں :
*بحرین میں مداخلت اور یمن کی جنگ کا جواز فراھم کرنا ۔
* شیعہ ستیزی کی سوچ جو تکفیریوں کے اندر راسخ ھو چکی ہے اس کو فریق مخالف سے انتقام لینے کی خاطر شیعوں کے مذھبی مراسم کی طرف منتقل کرنا۔
* مصر اور نائجیریا میں سلفی تکفیریوں کی نقل و حرکت میں تیزی لانا ، (اس واقعے میں نائجیریاء کے ۵۵۰ حاجی اور مصر کے ۳۰۰ حاجی مارے گئے ہیں )
اسی طرح مذھبی جنگ چھیڑنے کے بارے میں ایک امریکی نظریہ پرداز جوزف نای نے حال ھی میں کھا ہے : یورپ میں مذھبی جنگ کیتھولیک اور پروٹیسٹوں کے مابین تقریبا ڈیڑھ صدی تک چلتی رھی اور ۱۶۴۸ میں وستفالیا کے معاھدے کے ساتھ ختم ھوئی ۔اگر ھم یہ یاد کر لینں تو برا نھیں ہے کہ اس زمانے میں بھی چند فرقوں اور مذاھب پر مشتمل اتحادیے موجود تھے کہ جو مذھبی مسائل کے علاوہ دوسرے مسائل پر متحد ھوئے تھے ۔
آج ھمیں مشرق وسطی میں بھی اس طرح کی ترکیبات کا منتظر رھنا چاھیے ۔جوزف نای آگے چل کر کھتا ہے ؛ یورپ میں مذھبی جنگیں اس وقت ختم ھوئیں کہ جب جرمنی تیس سال سے زیادہ کے عرصے میں اپنی آدھی سے زیادہ آبادی سے ھاتھ دھو چکا تھا ان واقعات اور باتوں پر غور کرنے سے مذھبی جنگ کے درج ذیل ظاھری اور باطنی مقاصد نمایاں ھوتے ہیں :
* لمبے مذھبی فتنے برپا کر کے مسلمانوں کی آبادی کو نابود کرنا ۔
* اسلامی ملکوں کے مادی سرمائے کی تباھی ۔
* اسلامی ممالک کی فوجوں کو ھلاک کرنا یا کمزور کر دینا ۔
*اور آخر کار اسلامی ملکوں کے ٹکڑے کرنا ۔
 

Add comment


Security code
Refresh