www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

محرم الحرام کا چاند جبین فلک پر نمودار ھونے کو بے قرار ہے۔ یھی وہ مھینہ ہے جس میں فتح و شکست کے پیمانے بدل گئے، جس میں قاتل شکست کھا گئے اور مقتول فتح سے ھمکنار ھوئے۔

 یھی وہ مھینہ ہے جس میں خون تلوار پر غالب آگیا۔ جب مغرور گردنیں حیرت سے تنی کی تنی رہ گئیں اور کٹی گردنیں نیزوں پر بلند ھوکر سکانِ سماوات کے زمزمے سننے لگیں۔ جن کے دوش پر سر تھے انھوں نے سر بریدہ سے تلاوت قرآن کے نغمے سنے۔ جب حق آشکار ھوگیا اور باطل ذلیل و خوار ھوگیا۔
ھاں یہ سب کچھ 10 محرم الحرام 61ھ کی شام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنے والے روز و شب کو یہ داستان منتقل کر دی اور پھر یہ داستان نسلوں نے نسلوں کے نام کی۔
زمانہ سیدالشھداء کی جرأت و شھامت، حق و صداقت اور حضورِ حق میں تسلیم و رضا کا شاھد ہے اور زمانے کی شھادت نھیں جھٹلائی جاسکتی کہ آئندہ کی تاریخ اسی کے سھارے آگے بڑھتی ہے۔
یھی شھادت شب ھائے ظلمانی میں لَو دیتی ہے اور مسافروں کو آگے بڑھنے کے لئے راستہ دکھاتی ہے۔ کربلا کی 10محرم 61ھ کی شام کی شھادت ھر دوسری شھادتِ حق کی موّید ہے اور تمام تر شھادتوں اور صداقتوں کی امین ہے۔
کربلا کی عصر ھر عصر و مصر کے سامنے یہ اعلان کرتی رھے گی کہ ایمان اور عمل صالح کو شکست نھیں دی جاسکتی۔ قرآن تو پھلے ھی شھادت دے چکا ہے:
وَالْعَصْرِ O اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ O اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔۔۔
خسران یزید کے تکبر و غرور کا مقدر ٹھہرا اور کامیابی حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کے ایمان و عمل صالح پر ناز کرتی رھی۔
امام حسین علیہ السلام کی کامیابی اور یزید کی ناکامی اس تیز رفتاری سے واضح ھوئی کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اقتدار سے یزید اور اس کی نسل کا حصہ تمام ھوا اور دلوں کو فتح کر لینے والا حسین آج بھی زندہ ہے اور قوت حسینی سے حق بھی پائیدار اور مستحکم ہے۔ بقول اقبال :
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
ایک وہ دن تھا جب مؤرخ مسعودی کے بقول یزید اقتدار و شراب کے نشے میں چُور اپنے دائیں پھلو میں ابن زیاد کو بٹھائے اپنی کامیابی کے گیت یوں گنگنا رھا تھا:
اَسْقِنِیْ شُرْبَۃً تَرْوِیْ مَشَاشِیْ
ثُمَّ مِلْ فَاسْقِ مِثْلَھَا ابْنَ زِیَاد
صَاحِبَ السِّرِّ وَالْاَمَانَۃِ عِنْدِیْ
وَلِتَسْدِیْدِ مَغْنَمِیْ وَجَھَادِیْ
اے ساقی مجھے ایسا جام شراب پلا جو میری طبیعت کو سیراب کر دے،
پھر ایسا ھی ایک جام ابن زیاد کو دے،
جو میرا ھمراز اور معتمد ہے
اور جو میری کامیابیوں اور کوششوں کو مستحکم کرتا ہے۔
لیکن جلد ھی وہ دن آیا جب اس کے تخت کے سامنے کھڑے ھو کر اس کے بیٹے معاویہ ابن یزید نے اپنے باپ سے اپنی بیزاری کا اظھار اور امام حسین علیہ السلام کی صداقت کا اعلان مؤرخ ابو زید احمد بن سھیل بلخی کی نقل کے مطابق ان الفاظ میں کیا:
"بے شک میرے دادا معاویہ نے اُس شخص سے حکومت کے معاملے میں تنازع کیا، جو اس سے زیادہ اس کا اھل اور زیادہ مستحق تھا۔ اس شخص کے بارے میں ان جرائم کا ارتکاب کیا جو تمھیں معلوم ھی ہیں، حتیٰ کہ اپنے اعمال کے ساتھ دُنیا سے رخصت ھوگیا۔ پھر میرے باپ نے حکومت سنبھالی، حالانکہ وہ بھی اس کے لائق نہ تھا۔ وہ اس سے لت پت ھُوا اور بڑی خطاؤں کا مرتکب ھوا۔ میں نھیں چاھتا کہ تمھاری ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ اﷲ تعالٰی سے ملاقات کروں۔ سو تم جانو اور تمھاری حکومت، جسے چاھو اس کے حوالے کر دو۔ ﷲ کی قسم! اگر خلافت مال غنیمت ہے تو ھم اس سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ اگر یہ شر ہے تو ابوسفیان کی اولاد اس سے جو کچھ لے چکی ہے وھی بس کرتا ہے۔"
شاعر نے اس صورت حال کو ان دو مصرعوں میں بیان کیا ہے:
حق آشکار ھوگیا خون شھید سے
بیزار ہے یزید کا بیٹا یزید سے
حسین کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ڈنکے پورے عالم میں گونج رھے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرنے والے اس مضمون کو طرح طرح سے باندھ رھے ہیں:
دلوں پہ نقش ھوئیں حکمرانیاں تیری
تاریخ، کربلا سے نکلنے والے خون کے دھارے کے سھارے قدم آگے کی طرف بڑھا رھی ہے۔ دن بدن نفاق کا کریھہ اور سیاہ چھرہ آشکار ھوتا چلا جارھا ہے۔ حسین کے نانا کا دین آخر کار تائید فطرت کے ساتھ غالب ھوکے رھے گا۔ اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ O
اور ھمارا ارادہ ہے کہ ھم ان لوگوں پر احسان کریں، جنھیں زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے اور انھیں منصب امامت عطا کریں اور انھی کو وارث قرار دیں۔
تحریر: ثاقب اکبر
 

Add comment


Security code
Refresh