www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عزت کے معنی:

باب’’ عَزَ۔یَعِزُّ، ضَرَبَ یَضْرِبُ‘‘ سے ہے کہ جو کلام عرب میں عزیز ھونا‘ قوی ھونا‘ سخت‘ محکم اوراستوار کے معنی میں استعمال ھوتا ہے۔(۴) ابتداء زمانہ میں یہ کلمہ جمادات کی توصیف کے لئے استعمال ھوتا تھا جیسا کہ کھاجاتاتھا’’اَرْضٌ عِزَازٌ‘‘ یعنی محکم زمین۔(۵)

راغب اصفھانی فرماتے ہیں:’’اَلْعِزَّۃُ حَالَۃٌ مَالِغَۃٌ لِلْاِنْسَانِ مِنْ اَنْ یَغْلَبُ ‘‘ عزت ایک ایسی حالت ہے کہ جوباعث بنتی ہے کہ انسان پرکوئی غلبہ نہ کرے(۶)زجاج عزیز کی تعریف میں لکھتا ہے’’ھوالممتنع فلایغلبہ‘ شیء‘(۷)’’عزیز ایسی ذات کو کھتے ہیں کہ جس پر کوئی چیزغلبہ نہ کرے۔چونکہ یہ کلمہ ایک مثبت کلمہ ہے اس لئے مختلف علماء نے اس کے لئے بھت سے کلمات ذکرکیئے ہیں جیسا کہ رفعت‘ قوت‘ غلبہ‘ شدت‘ معانی رکھتا ہے البتہ یہ مسلم ہے کہ یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ ھرانسان کے لئے پسندیدہ ہے اورکوئی بھی شخص اس لفظ کوتنفر کی نظر سے نہیں دیکھتا۔

عزت ‘ قرآن مجید میں:

قرآن مجید میں لفظ’’عزۃ‘‘ کئی مقامات پرآیا ہے البتہ لفظ عزت کبھی مثبت معنی میں آیا ہے اورکبھی منفی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ کفار کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:(الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ایبتغون عندھم العزۃ فان العزۃ للہ جمیعاً)(۸)

’’یہ وہ لوگ ہیں جومومنوں کوچھوڑ کرکافروں کوسرپرست بناتے ہیں کیاوہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں تو بیشک سب عزت اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘

اس آیۂ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ عزت ایک ایسی چیز ہے کہ جس کاخواہاں ہرشخص ہے چاہے وہ مومن ہویاکافر چونکہ یہ ایک ایسا مفہوم ہے کہ جوعقل کے نزدیک حَسَن ہے اوراسی وجہ سے کفار بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ عزت کے مالک ہوں اورعزت ان کے پاس ہولیکن وہ نہیں جانتے کہ عزت کامالک صرف اورصرف خداوندمتعال ہے جوبھی اس عزت کوچاہتا ہے اسے خداوندمتعال کے اصول اوردستورالعمل کے مطابق اپنی زندگیوں کواستوار کرناہوگا تاکہ حقیقی عزت ان کومل سکے جبکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اورذات اورشخصیت ایسی موجود نہیں ہے جس کے پاس عزت ہو اگرچہ بعض غیرمسلم افراد یہ سمجھتے ہیں کہ عزت ان کے پاس ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عزت اورغلبہ ان کے پاس نہیں ہے ان کے پاس یہ عزت ایک ایسی دلدل ہے کہ جس کووہ لوگ حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ یہ حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اسی وجہ سے خداوندمتعال فرماتا ہے:(ولایحزنک قولھم ان العزۃ للّٰہ جمیعاً ھوالسمیع العلیم)(۹)

’’اورتجھے ان کی بات غم میں نہ ڈالے یقیناًسب عزت اللہ ہی کے لئے ہے وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘غلبہ اورعزت فقط خداوندمتعال کے پاس ہے اوروہ افراد جوغیرخدا کوماننے والے ہیں ان کادعویٰ فقط دعویٰ ہے جبکہ حقیقی عزت صرف خداوندمتعال کے پاس ہے۔

معزز کون؟

قرآن مجید سورۂ منافقون میں ان لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ جوعزت کے حقیقی طور پرمالک ہیں اورعزت ہمیشہ ان کے پاس ہے اوران افراد کے مخالف کبھی بھی اس عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے:(یقولون لئن رجعنا الیٰ المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون)(۱۰)

’’وہ کہتے ہیں اگرہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے توجوزیادہ عزت دار ہے وہ اس میں سے ذلیل کوضروربضرور نکال دے گا اورعزت اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولؐاورمومنین کے لئے ہی ہے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں خداوندمتعال نے عزت کوتین افراد کے لئے مختص کیا ہے ایک: خود خداوندمتعال دوم :رسول گرامی اسلام(ص) اور سوم: مومنین ۔اوراس عزت کوذلت کے مقابلے میں قرار دیا ہے یعنی عزت اورذلت ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں اوراس آیت میں عزیز لوگوں کومنافقین کے مقابلے میں قرار دیاگیا ہے پس اگرگذشتہ آیات کودیکھا جائے توپتہ چلے گا کہ خدا کے مقابلے میں کفار بھی ہیں اورمنافقین بھی پس یہ دونوں عزت کے مستحق نہیں ہوسکتے کیونکہ خداوررسول خدا اورمومنین کے خلاف ہیں۔

(من کان یرید العزۃ فللہ العزۃ جمیعاً الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ والذین یمکرون السیٰات لھم عذاب شدید ومکراولئک ھویبور) (۱۱)جوکوئی عزت چاہتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب عزت ہے اسی کے حضور میں پاکیزہ کلمے بلند ہوتے ہیں اورنیک عمل بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی اس کوبلند کرتا ہے اورجولوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اوران کی خفیہ تدبیر وہی توتباہ ہو ں گی۔‘‘

عزت ان بلند کلمات میں سے ہے جنھیں بلندی خداوندمتعال نے عطا کی ہے جوبھی ان کلمات کوبلندی اوراعمال کونیکی کی طرف لے کرجائے گا وہ حقیقی معنی میں خداوند متعال کانمائندہ ہوگا اورجوشخص برائیوں کی تدبیر کرے گا جیسا کہ یزید لعین نے برائیوں کی تدبیر کی، حلال رسول خداکوحرام اورحرام رسول خدا کوحلال کیااوردین اسلام کواس مقام پرپہنچادیا کہ اسلام اپنی حقیقی شکل کھورہا تھا اوراسی وجہ سے امام کی ذمہ داری تھی کہ امام ایسے حالات میں اسلام کودوبارہ حقیقت کی طرف لائیں اگرچہ اس کے لئے انھیں بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، وہ اس سے دریغ نہ کریں کیونکہ حقیقی نمائندہ ہی ایسا کرسکتا ہے اورانھیں وجوہات سے پتہ چلتاہے کہ دین مبین کاحقیقی نمائندہ کون ہے؟اسی لئے خداوندمتعال نے ان لوگوں کہ جنھوں نے برائیوں کی تدبیر کی ان کے لئے سخت عذاب کی بشارت دی ہے البتہ کہاجاسکتا ہے کہ خداوندمتعال نے قرآن مجید میں ایسے الفاظ استعمال کیئے ہیں کہ جن کامعنی مثبت ہے لیکن ان کااستعمال منفی معانی میں بھی کیا ہے جیسے’’بشارت اورآئمہ‘‘ اوران جیسے دیگر الفاظ کہ جو مثبت معانی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن خداوندمتعال نے اپنے مخالفین کے لئے بھی استعمال کیئے ہیں:’’فقاتلوا آئمۃ الکفر‘‘ ، کفر کے اماموں کوقتل کردویعنی اس موقع پرخداوند متعال نے آئمہ کفار کے لئے مجاز کے طورپراستعمال کیا ہے اورمنفی معنی میں ہے یعنی امام دوقسم کے ہیں ایک امام برحق اوردوسرا امام کفراوروہ جوخداوندمتعال کاحقیقی نمائندہ ہے اس کوامام برحق کہاجاتا ہے اوراسی وجہ سے قرآن مجید میں ہے :(یوم ندعوا کل اناس بامامھم )’’اس دن سب لوگوں کوان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا‘‘اگر امام حق ہے تواس کے ساتھ بلایا جائے گا اورجوامام کفرہیں ان کواپنے پیروکاروں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

Add comment


Security code
Refresh