www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

امام حسین(ع) اورعزت:

چونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ہم امام حسین(ع) کی زندگی میں دیکھیں کہ عزت، امام حسین(ع) کے نزدیک کیا حیثیت رکھتی ہے اس وجہ سے اب ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین(ع) کے نزدیک عزت اورذلت کیا ہیں اورعزت جو کہ ہرفرد کے نزدیک حسن ہے اورذلت جوکہ ہرشخص چاہے مسلمان ہویاکافر کے نزدیک قبیح اوربری ہے، امام حسین(ع) کے اس قیام میں عزت کتنی عظیم شئ ہے کہ امام نے اس عزت کومقصد اورہدف قرار دیا ان دیگر اہداف کی طرح امام حسین(ع) کاتاکید کرناعزت پراوروہ عزت جوقرآن مجید کی نظر میں عزت ہے اسی عزت پرانحصار کیا ہے اسی لئے آپ فرماتے ہیں:(الٰھی کفٰی لی عزاً ان اکون لک عبداً) ’’خدایا! میری عزت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں۔‘‘

دعائے عرفہ میں امام حسینمناجات کرتے ہوئے اپنے خدا سے یوں رازونیاز کرتے ہیں:(یامن خصّ نفسہ بالسمووالرفعۃ واولیاۂُ بعزہ یعستزون)’’اے وہ ذلت جس کانفس بلندی اوررفعت کے ساتھ مخصوص ہے اوراس کے اولیاء اس کی عزت سے تمسک کی وجہ سے عزت پاتے ہیں۔‘(۲)

پس عزت خداوندمتعال کے ساتھ ہے اسی وجہ سے امام(ع) فرماتے ہیں کہ ’’بارالٰھا! اگرتجھے پاکرساری دنیا کوکھودیاتوسب کچھ پالیا اوراگرتجھ کوکھوکرسب کچھ پالیا توکچھ بھی نہ پایا۔‘‘پس خداوندمتعال کوپالینا ہی ہرقسم کی عظمت کوپالینا ہے اورخداوندمتعال کوپالینے سے ہی ہرقسم کی عزت،بلندی، عظمت، رفعت اورہرقسم کی بہترین صفت انسان میں آجاتی ہیں لیکن اگرخداوندمتعال سے دورہوئے توکوئی بھی اچھی صفت انسان کے نزدیک نہیں آسکتی۔

اورپھر آپ نے فرمایا:(یامن دعوتہُ ۔۔۔ذلیلاً فاعزنی)’’اے وہ کہ جس کومیں نے حالت ذلت میں پکارا بارالٰہا! مجھے عزت عطافرما۔‘‘ (۲۳) ایک اورمقام پرفرماتے ہیں:(انت اللہ اعززتُ)’’(اے اللہ)توہی وہ ذات ہے کہ جس نے مجھے عزت بخشی۔‘‘(۲۴)

امام(ع) کے مطابق اگرعزت انسان کے پاس ہے توسب کچھ ہے اوریہ عزت امام(ع) نے خداوندمتعال کی طرف نسبت دی ہے کہ وہی ذات ہی عزت عطا کرتی ہے تمام عزتوں کاسرچشمہ ،منبع اورمخزن وہی ذات ہے اسی وجہ سے آپ فرماتے ہیں:(موت فی عزّ خیرٌ من حیاۃ فی ذل)(۲۵)’’ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔‘‘

جیسا کہ ہم نے تاریخ میں دیکھا کہ امام(ع) کے نزدیک یزید اوراس جیسوں کی بیعت کرناذلت کے مترادف ہے کیونکہ یزید تمام صفات رذیلہ کاپیکرتھا اورصفات حسنہ رکھنے والا شخص صفات رذیلہ رکھنے والے شخص کی بیعت نہیں کرسکتا کیونکہ حقیقت میں یہی ذلت ہے جبکہ اس کے برعکس ذلت نہیں بلکہ عزت ہے یعنی امام جوکہ خداوندمتعال کے حکم سے اس منصب پرفائز ہوتا ہے اس کی بیعت میں آنا ہی عزت ہے کیونکہ یہ امامت خداوندمتعال نے عطا کی ہے اورعزت ہمیشہ اللہ ،اس کے رسول(ص)اور مومنین حقیقی کے لئے ہے چونکہ یہ افراد تحت فرمان خداوندمتعال ہوتے ہیں اورجوبھی خدا کے فرمان کے سامنے جھک جائے اصل عزت اسی کے لئے ہی ہے اسی وجہ سے آپ نے اورفرامین میں بھی ایسی موت کوسعادت کہا ہے:(انی لااریٰ الموت الاسعادۃ والحیاۃ مع الظالمین الا برماً) ’’میرے نزدیک موت سعادت ہے اورظالمین کے ساتھ(ان کے حق میں) رہنا ذلت اوررسوائی ہے۔‘‘(۲۶)

سعادت وشقاوت، عزت وذلت ،حسن وقبیح ،عدل اورجھوٹ ان تمام الفاظ اورمفاہیم سے پتہ چلتا ہے کہ دوراستے ہیں اورتیسرا راستہ وجود نہیں رکھتا ایک اچھااورحسن راستہ اوردوسرا ُ براراستہ اوراگرانسان کوابتدا ئے آفرینش سے دیکھیں توپتہ چلتا ہے کہ مقصد خدابھی یہی تھا کہ انسان کوئی ایک راستہ اپنے لئے منتخب کرے:(انھدیناہ‘ السبیل اما شاکراً واما کفوراً)’’ہم نے انسان کی راستوں کی طرف ہدایت کردی چاہے تووہ شکرکرے اورچاہے کفر کرے۔‘‘(۲۷)

ضروری ہے کہ انسان اپنا ہدف معین کرے کہ اس کاراستہ کون ساہے امام حسین(ع) کاراستہ اس کاراستہ ہے یاپھریزید لعین کاراستہ اس کاراستہ ہے چونکہ تیسرا راستہ موجود نہیں ہے یعنی یاحزب اللہ ہے یاپھرحز ب الشیطان ہے پس ضرورت ہے اس امرکی کہ انسان اپنا ہدف معین کرے بغیرہدف معین کئے اس کی زندگی ایک چوپائے کی زندگی ہوگی کہ جس کاکوئی مقصد اورہدف نہیں ہوتا امام حسین(ع) فرماتے ہیں:(مرحباً بالقتل فی سبیل اللہ وللنکم لاتقدرون علی ھدم مجدی ومھو عزی وشرفی فاداً لاابالی بالقتل)’’خداوندمتعال کے راستے میں موت بہترین موت ہے لیکن مجھے قتل کرنے سے تم میری بزرگی وعظمت‘ عزت اورمیرے شرف کوکم نہ کرسکو گے کیونکہ میں موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘(۲۸)

پتہ چلا کہ وہ موت جومنبع حقیقی (خداوندمتعال) سے متصل ہوایسی موت کسی قسم کے زوال کاباعث نہیں ہے اورایسی موت اسی وجہ سے خوف کاباعث نہیں ہے ضروری ہے کہ انسان خدا کی معرفت رکھتا ہواوراسے معلوم ہوکہ بازگشت اورپلٹ کرجانا صرف خدا کی طرف ہے۔

Add comment


Security code
Refresh