www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عزت اورسیرت امام حسین(ع) :

۱۔امام حسین(ع) کی سیرت کے کچھ پہلو ایسے ملتے ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امام حسین(ع) کی سیرت میں عزت کاکیاکردار ہے جیسا کہ امام کی شہادت سے قبل آپ نے فرمایا کہ میں جب شہادت کے لئے جاؤں تومجھے کم اہمیت لباس دیں تاکہ میں وہ پہن کرمیدان جنگ کی طرف جاؤں جبکہ روایت میں ملتا ہے کہ آپ کو(تُبّان)خاص لباس دیاگیا کہ وہ پہن کرجائیں توآپ نے اس کوقبول نہیں کیا اورفرمایا:(لا ذاک لباس من ضربت علیہ بالذلۃ)’’نہیں یہ لباس اس کاہے جوذلت سے دچار ہے۔‘‘(۲۹)

۲۔جب ولید نے امام حسین(ع) سے بیعت لینی چاہی اورآپ نے یزید کی بیعت سے انکار کیاتومروان بن حکم نے آپ کوقتل کی دھمکی دی توآپ نے مروان سے یوں فرمایا:’’مجھے خداوندمتعال کی قسم!اگرکوئی مجھے قتل کرناچاہے اس سے پہلے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہومیں اس کے خون سے زمین کوسیراب کردوں گا (اے مروان) اگرتوچاہتا ہے کہ میری بات کی سچائی کوپائے تویہ عمل کرکے دیکھ لوتمہیں اس کاجواب دے دوں گا۔‘(۳۰)

اورپھر امام حسین(ع) نے ولید سے کہا:(ایھاالامیر!انااھل ابیت النبوۃ ومعدن الرسالۃ ومختلف الملائکہ وبنافتح اللہ وبناختم ویزید رجل فاسق مشارب الخمر قاتل النفس المحترمہ معلن بالفسق مثلی لایبایع لمثلہ)

’’اے امیر! میں اھل بیت رسالت کے معادن میں سے ہوں اورہم ہی الملائکہ کے باربار نزول کی جگہ ہیں اورخداوندمتعال نے ہمارے ذریعے ہی ابتدا کی ہے اورہم ہی پراختتام کیا ہے اوریزید فاسق شخص ،شراب خور اورنفس محترمہ کاقاتل ہے اوراعلانیہ طورپرفسق وفجور انجام دیتا ہے اورمجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ۔‘(۳۱)

-۳۔جب محمد حنفیہ سے بات ہوئی توآپ نے یزید کی بیعت کے بارے میں یوں فرمایا:(یااخی! واللہ لولم یکن فی الدنیا ملجأ ولامأویً لمابایعت واللہ یزید ابن معاویہ ابداً)’’اے میرے بھائی! خدا کی قسم اگرروی زمین پرمیرے لئے کوئی ٹھکانہ اورپناہ گاہ بھی باقی نہ رہے تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی کبھی بھی بیعت نہیں کروں گا۔‘(۳۲)

ان تمام الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے نزدیک یزید کی بیعت کرنا کتنا قابل نفرت کام تھاکہ جوآپ کسی حالت میں بھی انجام نہیں دے سکتے چاہے اس کے لئے آپ کے پاس روی زمین پرایک ٹکڑا بھی باقی نہ رہے پس آپ موت کوسعادت سمجھتے تھے اور بیعت جیسے کام کوانتہائی برا اورگناہ سمجھتے تھے۔

۴۔امام حسین(ع) کی جب ملاقات کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ہوئی توآپ نے فرزدق سے فرمایا:(وانا اولیٰ من قام بنصرۃ دین اللہ واعزاز شرعہ والجھاد فی سبیل اللہ لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیاء) ’’میں سب سے اولیٰ اوربہتر ہوں کہ خدا کے دین کی نصرت کے لئے کھڑا ہوجاؤں اورشریعت کوعزت بخشنے کے لئے جھاد کروں اللہ کے راستے میں تاکہ کلمۃ اللہ ہی بلند ہو۔‘(۳۳)

امام حسین علیہ السلام یزید کے خلاف قیام کواپنی ذمہ داری سمجھ رہے ہیں اور اگراس وقت کے تمام افراد کودیکھا جائے توتنہا حضرت امام حسین(ع) ہیں کہ جواس ذمہ داری کوانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اورویسے بھی یہ قیام تمام عالم اسلام پرواجب تھا لیکن اس وجوب کوعملی جامہ پہنانے کے لئے فقط امام حسین(ع) ہی آگے بڑھے اوراس کام کوانجام دیا۔

امام حسین(ع) نے عاشورسے قبل اورروزعاشور بہت سارے اعما ل انجام دیئے کہ جن سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ امام عزت کے خواہاں تھے اوریزید کے تمام اعمال کولوگوں کے سامنے بیان کیا اورنہ صرف یزیدبلکہ یزیدی فوج کے ایک ایک فرد کے کرتوتوں کولوگوں کے سامنے بیان کیا اورانھیں لوگوں کے سامنے ذلیل کیاجیسا کہ فوج اشقیاء کے سامنے حجت کوتمام کرنے کے لئے عبیداللہ ابن زیاد کے بارے میں فرماتے ہیں:(الا ان الدعی ابن الدعی قدرکزبین اشنتین بین السلۃ والذلۃ وھیھات منا الذلۃ۔یأبی اللہ ذالک لناورسولہ والمومنون وحجورٌ طابت وطھرت وانوف حمیۃ ونفوس ابیۃمن ان نؤثر طاعتہ اللئام علی مصارع الکرام۔الا وانی نراحف بھذہ الاسرۃ مع قلۃ العدد وخذلان الناصر)’’آگاہ رہو‘ زنازادہ ابن زنازادہ (ابن زیاد) نے مجھے دوچیزوں میں سے کسی ایک کواختیار کرنے کوکہا ہے یاتلوار نکال کرجنگ کے لئے آمادہ رہوں یاپھر ذلت کالبادہ اوڑھ لوں(یزیدکی بیعت کروں) لیکن ذلت مجھ سے بڑی دور ہے جبکہ خدا، رسول (ص)خدا ،مومن اورپاک دامن افراد ہم سے اس قسم کے کام کی توقع رکھتے کہ اطاعت کی ذلت کوقتل ہونے پرکریم اوربزرگوں کی طرح ترجیح نہ دیں جان لو اگرچہ میرے پاس مددگار انتہائی کم ہیں پھربھی تم سے جنگ کروں گا۔‘‘(۳۴)اورپھرامام(ع) ،فوج اشقیاء کواپنی صفات بتاتے ہوئے ان اشعار کوبصورت رجز پڑھا:

 اناابن علی الطھر من آل ھاشم کفانی بھذا مفخراً حین افخر

وجدی رسول اللہ اکرم من مضی ونحن سراج اللہ فی الارض نزھر

وفاطمۃ ای من سلالۃ احمد وعمی یدعی ذوالجناحین جعفر

وفینا کتاب اللہ انزل صادقاً وفینا الھُدیٰ والوحی بالخیریذکر(۳۵)

’’میں علی(ع) مطہر جوخاندان ھاشم میں سے ہے ان کابیٹا ہوں اورمیرے لئے یہ افتخار جب میں فخر کروں کفایت کرتا ہوں ،میرے جد حضرت رسول (ص) اکرم بزرگ ترین افراد میں سے ہیں اورہم خدا وندمتعال کے چراغ اورنورہیں کہ جو زمین پراھل زمین کومنور کرتاہے میری ماں حضرت فاطمۃ الزھراء(س) حضرت احمد مرسل(ص) کی نسل ہیں اورمیرے چچا جعفر(ع) ہیں جن کوخداوندمتعال نے پر عطاکئے تھے ہمارے خاندان میں خداوندمتعال کی سچی کتاب نازل ہوئی اورہمارا خاندان ہی ہدایت ، وحی کاخاندان ہے جب کوئی ذکرکرے توان اسماء سے مشہورہوتا ہے۔‘‘

یہ وہ اعزاز ہیں جوامام نے اپنے لئے ذکرکئے اورتمام عالم اسلام کوبتایا کہ ہم ہی معززترین افراد ہیں خداوندمتعال کے نزدیک اورہم ہی ہرصفت کے لحاظ سے اورخاندا ن کے لحاظ سے ہم سے پاکیزہ ترین خاندان وجود نہیں رکھتا۔اسی وجہ سے آپ نے دشمن کی ذلت کے پہلوؤں کوبھی ذکرکیااورفرمایا کہ(ویلکم یاشیعۃ آل ابی سفیان ان لم یکن لکم دین وکنتم لایتخافون المعاد فکونوا احراراً فی دیناکم ھذہ وارجعوا الیٰ احسابکم ان کنتم عرباً کماتزعمون)’’ویل ہوتم پراے آل ابوسفیان کے شیعو!اگرتمہارے پاس دین نہیں ہے اورتم معاداورقیامت سے نہیں ڈرتے توکم ازکم اپنی دنیا میں آزاد رہواوراپنے حسب نسب کی طرف پلٹ جاؤ اورتم عرب ہوجیسا کہ تمہارا گمان ہے۔‘‘

Add comment


Security code
Refresh