www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

عرفان اور عشق حقیقی
لفظ”عرفان“ بھی ان الفاظ میں سے ھے کہ تاریخ علم وفلسفہ ابھی تک جنکے صحیح اور حقیقی معنی پیش نھیں کرسکی ھے یعنی یہ ایک ایسا لفظ ھے کہ ھر شخص نے اس کے لئے اپنے طور پر ایک معنی فرض کرلئے ھیں۔ بھر حال لغوی اعتبار سے لفظ ” عرفان “ بھی ”معرفت “ کی مانند ایک مصدر ھے ” معرفت“ یعنی شناخت لھذا عارف یعنی وہ شخص جو حامل شناخت ھو ۔
ادبی اعتبار سے عارف اور عالم کے درمیان دو طرح کا فرق پایاجاتاھے :
(1)۔عارف صرف اس شخص کو کھہ سکتے ھیںجو کسی چیز کے بارے میں پھلے سے نہ جانتا ھواور اب وہ چیز اسے معلوم ھوگئی ھو لیکن عالم میں ایسا نھیں ھے بلکہ ممکن ھے کہ آدمی ،عالم کھے جانے سے پھلے بھی اس چیز کو جانتا ھو۔ اسی وجہ سے خداکو عالم کھا جاتاھے نہ کہ عارف کیونکہ اسکے علم سے پھلے جھل کا تصورنھیں ھے ۔
(2)۔ لفظ ”معرفت“ کا استعمال اکثر وبیشتر جز ئیات میں کیا جاتا ھے جبکہ ”علم “ جزئیات کے ساتھ ساتھ کلیات میں بھی مستعمل ھے ۔
لیکن فلسفہ اور حکمائے متا خرین(بوعلی سینا اور ان کے بعد ( کی اصلاح میں ” عرفان “ ایک مخصوص معنی میںمختلف انداز سے استعمال ھوتا رھاھے ۔ عرفان کے لئے استعمال شدہ ان تمام معانی و اصطلاحات کی گنجائش اس مختصر مقالہ میں قطعاًً نھیں ھے لھذا یھا ں فقط عرفان کے وھی معنی بیان کئے جارھے ھیں جو کسی حد تک آپس میں قدرمشترک رکھتے ھیں اور مشھور ھیں ۔
عارف : اس شخص کو کھا جا تا ھے جو تمام علائق سے انقطا ع پیدا کر کے عا م کتا بو ں میں نو شتہ شدہ راہ و روش کے ذ ریعے قرب خدا حاصل کر لیتا ھے اور یہ قرب تد ریجاً انسان کو مقا م فنا فی اللہ میں تبد یل کر دیتا ھے کہ جسکو اصطلاحاً” ھو ھو بعینہ “ بھی کھا جاتا ھے۔عر فان کے مذکورہ معنی مختلف انداز واطور سے ارباب عرفان کے در میان ، نظم ونثر دونو ںمیدانوں میں ، قابل قبول اور متفق علیہ رھے ھیں ۔
یھاں ایک سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ آیا اس عر فان کے مقد مات محبت سے شروع ھو تے ھیں یا تمام دیگر موجود ات کی بے ثبا تی اس عرفان کا سر چشمہ ھے یا پھر تجسما ت روح یا وھم اسکا باعث بنتے ھیں ؟ ان تمام سوالو ں کے جوابات تفصیلی طور پر ” عر فان منفی “ میں ھی دئے جا سکتے ھیں ۔
عرفان کے ایک دوسرے معنی یہ بھی ھیں کہ عرفا ن ھر اس شخص کا مخالف ھے کہ جومنکر ھے یعنی عرفان کے اس دائرے میں کسی بھی صورت میں کو ئی منکر داخل نھیں ھو سکتا کیو نکہ ایسا کون سا شخص ھو گا جو معر فت و شنا خت سے دوری اختیار کر نا چا ھیگا اور انکار کر یگا لیکن عرفان کے اس معنی سے سرسر ی طور پر نھیں گز را جاسکتا بلکہ یہ ایسے معنی ھیں کہ جو نھا یت احتیاط اور دقت سنجیو ں کا مطا لبہ کر تے ھیں مبا دا خیال و پند ار ھائے غلط اور غیرصحیح اپنا سر اٹھا لیں ۔ پس لا محا لہ عرفان حقیقی ھی ایسا عر فان ھے جو انسان کو کمال وتکامل کی آخری منازل تک لے جا سکتا ھے ۔ خود خدا وند عالم انسانو ں کیلئے عر فان کے معنی کو اس طر ح بیان فر ما رھا ھے:” قل ان کنتم تحبو ن اللّٰہ فا تبعونی“(اے پیغمبر ! کھدو کہ اگر تم لو گ اللہ سے محبت کر تے ھے تو میری پیروی کرو!)
وجو د انسا نی میں عشق کو د و قسموں میں تقسیم کیا گیا ھے:
(1)عشق مجا زی:
اس عشق کا منبع محبو ب کے وہ دلنشیں او صاف ھو تے ھیں جو انسان کے نفس کے سا تہ ھم آھنگ اور اس سے مطا بقت رکھتے ھیں یعنی انسان کا نفس ان اوصاف کا گر وید ہ ھو جا تا ھے ۔

(2) عشق حقیقی:
اس عشق کا منبع محبوب کے وہ کمالات ھو تے ھیں جو انسان کی رو ح سے مطا بقت رکھتے ھیں یعنی روح انسان ان کمالات تک پھنچنا چا ھتی ھے جیسے کمال علم ، علم ودانش کی محبت کو عشق حقیقی کھیں گے ۔ اسکے بر خلا ف مال وجمال جیسی چیز و ں کی محبت کو عشق مجازی کھیں گے۔ عرفان حقیقی میں اساسی کردار ، عشق حقیقی کا ھو تا ھے کیونکہ عرفان حقیقی میں محبوب ،کا مل مطلق خدا ھے کہ جس میں ذرہ برا بر نقص کا شا ئبہ محال ھے ۔ حکماء کی اصلا ح میں یہ ایسا کمال مطلق ھے جو فو ق التما م ھے اور ایسا تمام ھے جو فوق ا لکما ل ھے ۔ علا وہ از ایں، عشق مجا زی میں محبوب ھمیشہ فنا ھو جانے وا لا ھو تا ھے جب کہ عشق حقیقی میں محبوب ھمیشہ دائم وقائم اور باقی رھنے وا لا ھے ۔
عشق مجازی میں مبتلا افرادکی نگاہ میں عشق حقیقی کی حیثیت ایک غیر مانوس اورغیر موزوں آھنگ یا نغمے کی سی ھوتی ھے جب کہ ارباب عشق حقیقی کی نظر میں عشق مجازی میں گرفتار شخص اس پرندے کے مانند ھوتا ھے کہ جسکو ایک قفس میں محصور و مقید کر دیا جائے اور ھر لمحے اس پرندے کی خواھش وکوشش یھی رھتی ھے کہ کسی طرح اس قفس سے آزاد ھوجائے در حالیکہ وہ اس بات سے غافل ھو تا ھے کہ قفس میں موجود سوراخ یا شگاف اسکو آزاد نھیں کراسکتے۔
اسی بنا پر کھا جاتا ھے کہ گنھگاروں کے سامنے عشق حقیقی سے متعلق گفتگوکرنا خود اس عشق پر ایک قسم کا ظلم وستم ھے
مدح توحیف است بازندانیاں گویم اندر محفل روحانیاں
(اے عشق حقیقی ! حیف ھے کہ میں تیرا قصیدہ گنھگارو ں کے در میان پڑ ھو ں بلکہ اس قصیدے کا مقا م تو عشق حقیقی میں ڈو بے ھو ئے دل ھیں ۔)
عشق مجا زی اپنے مو ضو ع کے رفتہ رفتہ متغیر ھو نے کی وجہ سے خود بھی متغیر ھو تا رھتا ھے ۔ با لفرض اگر اسکو کمال حاصل ھو بھی جا ئے تو ایک نہ ایک دن اسے اپنے محبوب سے دل بر دا شتہ ھو نا ھی پڑ تا ھے جبکہ اس کے بر خلاف عشق حقیقی اگر عقل وقلب کو مد نظر رکھتے ھو ئے شر وع کیا جا ئے تو ھمیشہ لا منتا ھی کمال وتکامل کی جانب بڑ ھتا چلا جاتاھے ۔
یہ ھے عرفان حقیقی میں عشق کا مفھو م ومعنی کہ جسکی او لین علامت معشو ق از لی وابدی کی فر مائشا ت و خواھشات کی انجام آوری ھے یعنی عرفان حقیقی میں” لا حو لا ولاقو ة الا باللّٰہ “ کھا جا ئے تو دل کی گھرا ئیو ں سے کھا جانا چاھئے ۔
دل کی گھرا ئیو ں سے نکلنے والا جملہ” لا حو ل ولا قو ة الا باللّٰہ “ انسان کو خدائی اوا مر ونو اھی کا پیر و بنا دیتا ھے اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ھے کہ جب خود عا شق کا وجو د اس جملے کی نشا ندھی کر نے لگتا ھے یعنی جیسے ھی نماز کیلئے اللہ اکبر کھتا ھے خود کو محراب عبادت میں اپنے ھی خون میں نھلا نے تک کیلئے آمادہ اورتیار کر لیتا ھے ۔
عرفان حقیقی میں جملہ” لا حول ولا قو ة الا باللّٰہ “ عارف کے مقد س دا من کو کلمہ ”میں“ سے مکمل طور پر پا ک کردیتا ھے ۔ ایک عارف کیلئے ” میںایسا کر تا ھو ں “ یا ” میں نے یہ کیا “ جیسے جملے لا یعنی اور لغوھو کر رہ جا تے ھیں لیکن ان افعا ل کے ما سو اجو اختیا ر ی اور اسلامی احکا مات کا محو ر ھیں کیو نکہ عارف جانتا ھے کہ
بربا د فنا تا ندھی گرد خودی را ھرگز نتوا ں دید جمال احدی را
( یعنی جب تک اپنی خود ی اور انانیت کو خود سے دور نھیں کر لو گے اس وقت تک خدا ئے وحدہ لا شریک کے جمال کا مشا ھدہ نھیں کر سکتے ۔)
عا رف مثبت ” اپنی عقل کو زندہ رکھتا ھے اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیتا ھے ۔ اسکا جسم باریک ھو جاتا ھے اور اسکا بھاری بھر کم بدن ھلکا ھو جاتا ھے اور جب وہ اس ریا ضت کو انجا م دے لیتا ھے تو عالی ترین حقا ئق کا اس طرح احساس کر تا ھے جس طرح ایک باریک بال کا ۔ اس کے دل میں بھترین ضو پا ش نو ر ھدا یت چمک اٹھتا ھے اور اس نور کے ذریعے راہ ھدایت کو حاصل کر لیتا ھے ۔ تمام دروازے اسے سلامتی کے دروازے اور ھمیشگی کے گھر تک پھو نچا دیتے ھیں اور اس کے قدم طمانیت بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ھو جا تے ھیں کہ وہ اپنے دل کو استعمال کر تا ھے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ھے ۔“(1)
”اے ابوذر ! اب جبکہ ان لو گوں نے اپنی دنیا کی خاطر تم کو معاشرے سے نکال دیا ھے مبادا تم غیر از خدائے ودود ، کسی سے انس پیدا کرو اور غیر از باطل کسی شئی سے خوف کھاؤ۔“(2)
مناسب ھے کہ اس مبحث کا خاتمہ ان جملوں کو قرار دیا جائے جو عرفان حقیقی کا شاھکار ھیں یعنی وہ عرفانی جملے جو روز عرفہ فرزند امیر لمو منین حسین بن علی علیھماالسلام کی زبان مبارک سے جاری ھوئے تھے:
خدایا ! تیرے ماسوا ایساکون ھے جو تجھے ظاھر کر سکے۔۔۔۔
خدایا! میں اپنی مالداری میں بھی فقیر ھی ھوں تو غربت میں کس طرح فقیرنہ ھو ں گا اور اپنے علم کے باوجود جاھل ھو ں تو جھالت میں کس طرح جاھل نہ ھوں گا۔ تیری تدبیروں کی نیرنگی اور تیرے مقدرات کی سرعت تبدیلی نے تیرے با معرفت بندوں کو روک رکھا ھے، عطا پر سکون سے اور مصیبت میں ناامید ھونے سے۔
پروردگارا!میری طرف سے وہ سب کچہ ھے جو میری ذلت و پستی کے مطابق ھے تو تیری طرف سے بھی وہ سب کچہ ھونا چاھئے جو تیرے کرم کے شایان شان ھے ۔
خدا یا!تونے اپنی تعریف لفظ لطیف ورؤوف سے کی ھے اور میرے ضعف کے وجود کے پھلے سے اسکا مظاھرہ کیا ھے تو کیا اب ضعف ظاھر ھوجانے کہ بعد اسکو روک دے گا ؟
پروردگارا! اگر مجھ سے نیکیوں کا ظھور ھو تو وہ تیرے کرم ھی کا نتیجہ ھے اور اگر برائیاں ظاھر ھوں تویہ میرے اعمال کا نتیجہ ھیں اوران پر تیری حجت تمام ھے ۔ خدایا ! جب تو میرا کفیل ھے تو دوسرے کے حوالے کس طرح کریگا اور جب تو میرامددگار ھے تو میں ذلت سے کس طرح دو چارھوں گا ۔ تو میرے حال پر مھربان ھے تو مایوس اور ناکام ھونے کی کیا وجہ ھے!
اب میں اپنی فقیری ھی کو واسطہ قرار دیتا ھوں لیکن اسے کس طرح واسطہ قراردوں جبکہ تیری بارگاہ تک پھونچنے کا سوال ھی نھیں ۔ میں اپنے حالات کاشکوہ کس طرح کروں کہ تو خود ھی بھتر جا نتا ھے ۔ اپنی زبان سے کس طرح تر جمانی کرو ں کہ سب کچہ تو تجھ پر خودھی روشن وواضح ھے یا کیو نکر تو میری امیدوں کو ناامید ی میں تبدیل کرسکتا ھے کیو نکہ وہ تیر ے ھی کرم کی بار گاہ میں پیش کی گئی ھیں اور کیسے حالات کی اصلاح نھیں کر یگا جبکہ انکا قیام تیری ھی ذات سے وا بستہ ھے ۔
خدا یا! میری عظیم ترین جھا لت کے باو جود تو کس قدر مھر بان ھے اور میرے بدترین اعمال کے باوجود تو کسی قدر رحیم وکریم ھے ۔ خدا یا !تو کس قدر مجھ سے قر یب ھے اور میں کسی قدر تجھ سے دور ھو ں اور جب تو اس قدر مھر بان ھے تو اب کون درمیان میں حائل ھو سکتا ھے ۔
خدا یا !آثار کے اختلاف اور زمانے کے تغیرات سے میں یہ سمجھتا ھو ں کہ تو ھر چیز اور رنگ میں اپنے کو ظاھر ووا ضح کر نا چا ھتا ھے کہ میں کسی بھی طر ح جا ھل نہ رہ جا ؤ ں اور ھر حال میں تجھے پھچان سکو ں ۔
خدا یا ! جب میری ذلت میری زبان کو بند کر نا چا ھتی ھے تو تیرا کرم قوت گو یائی پیدا کر دیتا ھے اور جب میر ے حالات و کیفیات مجھے مایو س بنا ناچاھتے ھیں تو تیرے احسا نات پھر پر امید بنا دیتے ھیں ۔
خدا یا !میں، جسکی نیکیا ں بھی بدی جیسی ھیں تو اسکی برا ئیو ں کا کیا حال ھو گا اور جسکی نگاہ کے حقا ئق بھی دعو ے سے زیادہ حیثیت نھیں رکھتے ھیں تو اسکے دعوو ں کی کیا حیثیت!
خدا یا !تیرے نا فذ حکم اور تیری قھرمان مشیت نے کسی کے لئے بو لنے کا موقع نھیں چھوڑااور نہ کسی کو کسی حال پہ ثابت رھنے دیا۔
خدایا !کتنی ھی بار میں نے اطاعت کی بنا رکھی ا ور حا لات کو مضبوط بنایا لیکن تیرے عدل وانصاف نے میرے اعتماد کو منھدم کر د یاا ور فضل و کرم نے مجھے سھار ا دیا۔
خدایا ! تجھے معلو م ھے کہ فعل وعمل کے اعتبار سے میری اطاعت دائمی نھیں ھے تو محبت اور عز م وجزم کے اعتبار سے تو بھر حال دائمی ھے۔
حوالہ:
(1) قد احیی عقلہ و امات نفسہ حتی دق جلیلہ و لطف غلیظہ و برق لہ لامع کثیر البرق، فابان لہ الطریق و تدافعتہ الابواب الی باب السلامة و دار الاقامة و ثبتت رجلاء بطمانینة بدنہ فی قرار الامن و الراحة: بما استعمل قلبہ و ارضی بہ(نھج البلاغہ خطبھ/220)۔
(2)۔یا اباذر!۔۔۔۔ لا یوٴنسک الا الحق و لا یوحشنک الا الباطل۔(نھج البلاغہ)۔ 

Add comment


Security code
Refresh