www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھی گئی کتابیں
قارئین کرام جانتے ھیں کہ شیخ سلیمان ابن عبدالوھاب ،محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی نے سب سے پھلے اس بد عت ایجاد کرنے والے کی رد میں کتاب لکھی جس کا نام ” فصل الخطاب فی الرد علیٰ محمد ابن عبدالوھاب ،، رکھا تھا ۔ اس کا اسماعیل پاشا نے ” ایضاح المکنون ج ۲ ص ۱۹۰ طبع بیروت دار الفکر ۱۴۰۲ ئ
اور عمر رضا کحالہ نے ” معجم الموٴ لفین ،، ج ۴ ص ۲۶۹ طبع بیروت ” دارا حیاء الترات العربی ،، میں ذکر کیا ھے
اور محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک شیخ عبدالله بن عیسیٰ صغانی ھیں ۔ انھوں نے جو کتاب لکھی اس کا نام ” السیف الھندی فی ابانة طریقةالشیخ النجدی ،، ھے۔ اس کا ذکر بھی اسماعیل پاشا نے ” ھدیة العارفین ،، ج ۱ ص ۴۸۸ میں کیا ھے
اس کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک سید علوی ابن حداد بھی ھیں جنھوں نے کتاب ”مصباح الانام ،،و ”جلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بھا العوام،،یہ کتاب مطبع عامر کے توسط سے ۱۳۲۵ھئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ابو حامد ابن مرزوق نے اپنی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میںکیا ھے۔ یہ کتاب بھی ابن عبد الوھاب کے عقائد کی رد میں لکھی گئی ھے ۔موصوف نے ایک اور کتاب بھی بنام ”السیف الباتر لعنق المنکر علی الاکابر ،،لکھی ھے اس کا ذکر بھی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،صفحھ۲۵۰پر ھے ۔
محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میںسے ایک احمد ابن علی البصری ھیں جو قبائی کے نام سے مشھورتھے۔ انھوں نے اس کے ایک رسالہ کی رد میں ”فصل الخطاب فی رد ضلا لات ابن عبد الوھاب ،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے۔ اس کا تذکرہ بھی ابو حامد مرزوق نے” التوسل بالنبی وبالصالحین،،میں صفحھ۲۵۰پرکیا ھے اور اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ایضاح المکنون،،میں ج۲صفحھ۱۹۰پراس کتاب کا نام ”فصل الخطاب،، ذکر کیا ھے۔
محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک بزر گوار سید احمد ابن زینی دحلان ،مفتی مکہ مکرّمہ بھی ھیں۔ انھوں نے ”فتوحات اسلامیھ،،کی ج۲طبع مصر ۱۳۵۴ھئمطبع مصطفی محمد میں اس کی رد کی ھے اوراس پر طعن کیا ھے (صفحھ۲۵۱سے ۲۶۹تک دیکھئے )
مر حوم زینی دحلان نے لکھا ھے کہ محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں بھت سی کتابیں اوررسالے لکھے گئے ھیں لیکن موصوف نے ان کتابوں کے نام نھیں ذکر کئے ۔
شیخ یوسف نبھانی نے بھی اس کی رد میں ”شواھدالحق فی التوسل بسید الخلق،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے جوایک جلد میں طبع ھوئی ھے ۔اس کا ذکر بھی ”التوسل بالنبی وبالصالحین،،صفحھ۲۵۲پر ھے۔ اس کتاب کے ص۱۵۱پر سید احمد ابن دحلان کی کتاب ”خلاصةالکلام فی امراء البلد الحرام ،،سے نقل ھے۔
ان شبھات کا ذکر جن سے وھابیت نے تمسک کیا
مناسب یہ ھے کہ پھلے ان شبھات کا ذکر کریںجن سے محمد ابن عبد الوھاب نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تمسک کیا۔
پھر ان کی رد پیش کریں گے اور یہ بیان کریں گے کہ جن باتوں کو اس نے دلیل بنایا ھے وہ سب جھوٹ ،افتراء اور عوام فریبی ھے ۔
پھر ”شواھد الحق،،کے ص۱۷۶میں لکھاھے۔
محمد ابن عبدالوھاب کے پاس اس کے استاد کردی کا خط
محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والوں میں سے ایک اس کے استاد شیخ محمد ابن سلیمان کردی شافعی ھیں انھوں نے منجملہ ان باتوں کے جو خط میں اس کی رد کرتے ھوئے لکھا تھا یہ باتیں بھی لکھی تھیں :
عبدالوھاب کے بیٹے !سلام ھو اس پر جس نے راہ راست کی پیروی کی، میں تمھیں الله کے لئے نصیحت کرتا ھوں کہ اپنی زبان کو مسلمانوں کی ایذا رسانی سے باز رکھو !
چنانچہ اگر کسی شخص کے بارے میں سنو کہ وہ غیر خدا جس سے مدد مانگی جائے اس کے موثر ھونے کا عقیدہ رکھتا ھے تو اسے حق پھچنواؤ اور دلیل پیش کرو کہ غیر خدا میں تاثیر نھیں ھے ۔ اب اگر وہ انکار کرے تو صرف اسے کافر قرار دو ۔ تمھیں مسلمانوں کے سواد اعظم کو کافر قرار دینے کا کوئی حق نھیں ھے جبکہ تم خود سواد اعظم سے منحرف ھو اور جو شخص سواد اعظم سے منحرف ھو اس طرف کفر کی نسبت دینا زیادہ مناسب ھے ،کیوں کہ اس نے اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کی ھے خدا وند عالم نے فرمایا ھے :
” ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدی ویتّبع غیر سبیل المو منین نولّہ ما توّلّیٰ و نصلّہ جھنّم و سائت مصیرا ،،
” کہ جو شخص راہ ھدایت روشن ھو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کرے تو ھم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور اسے جھنم میں جلائیں گے اور یہ برا ٹھکانا ھوگا ،، اور بھیڑ یا گلہ سے الگ ھو جانے والی بکری کو ھی کھاتا ھے ۔ انتھیٰ۔
اس کے بعد لکھتے ھیں کہ : مذا ھب اربعہ میں سے جن لوگوں نے اس کی رد کی ھے ۔ خواہ مشرق کے رھنے والے ھوں یا مغرب کے ، بے شمار ھیں ۔ کسی نے مبسوط کتاب کی صورت میں رد لکھی اور کسی نے مختصر اور بعض نے صرف امام احمد ابن جنبل کے نصوص سے اس کی رد کی ھے تاکہ یہ واضح ھو جائے کہ وہ جھوٹا ھے ، اپنے کو امام احمد بن جنبل کے مذ ھب کی طرف نسبت دینے میں فریب دھی سے کام لے رھا ھے اور اپنے کلام کو اس طرح تمام کیا ھے کھ”ھم نے جو کچہ ذکر کیا اس سے وہ تمام باتیں باطل ھو جاتی ھیں جو محمد ابن عبدالوھاب نے گڑھی ھیں اور جن کے ذریعہ مومنین کو دھوکہ دے رھا ھے اور خود اس نے اور اس کے پیروؤںنے ان کی جان ومال کو مباح قرار دے رکھا ھے ،،۔ (خلاصہ کلام سید احمد دحلان )
کچہ اور افراد جنھوں نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں
محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں شیخ عطاء مکی بھی ھیں ، انھوں نے ” انصار الھند ی فی عنق النجدی ،، نام کی کتاب لکھی ۔ اس کا تذ کرہ ” التوصل بالنبی و بالصا لحین ،، میںص ۲۵۰ پر ھے ۔
اسی طرح اس کی رد میں لکھنے والوں میں بیت المقدس کے ایک عالم ھیں جنھوں نے ” السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاو لیا ، بعد الا نتقال ،، لکھی اس کا تذ کرہ بھی ”التوسل بالنّبی و با لصالحین ،،میں ص ۲۵۰ پر ھے ۔ ایک اور بزرگ شیخ ابراھیم حلمی قادری اسکندری نے بھی اس کی رد کی ھے ، انھوں نے جو کتاب لکھی ھے اس کا نام ” جلال الحق فی کشف احوال اشرار لخلق ،، ھے۔ یہ کتاب اسکندریہ میں ۵۵ ۱۳ء ہ میں طبع ھوئی ھے اس کا تذ کرہ ” التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میں ص ۲۵۳ پر ھے ۔
شیخ مالکی جزائری نے بھی اس کی رد کی ھے۔ انھوں نے ” اظھار العقوب ممن منع التو سلّ با لنّبی والو لی الصدوق ،، نام کی کتاب لکھی ھے۔ اسے صاحب کتاب ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، نے ص ۲۵۲ پر ذکر کیا ھے ۔شیخ عفیف الدین عبدالله ابن داؤد جنبلی نے بھی اس کی رد میں ” الصّواعق والر عود ،، نام کی کتاب لکھی۔ اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، کے ص ۲۴۹ پر ھے اور سید علوی ابن احمد حداد کا قول نقل کیا ھے کہ ’ بصرہ ، بغداد ، حلب ، اور احساء کے بزرگ علماء نے بھی اس کتاب کی تائید کی ھے اور اپنی تفریظوں میں بھی اس کی تعریف کی ھے ۔اور اس کی رد لکھنے والوں میں ایک شیخ عبدالله ابن عبد اللطیف شافعی ھیں ۔ انھوں نے ” تجرید الجھاد لمدی الا جتھاد ،، ص ۲۴۹ پر ھے ۔
اس کی رد کرنے والوں میں شیخ محقق محمد ابن الرحمن بن عفالق الحنبلی ھیں انھوں نے کتاب تحکم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین ،،لکھی ۔اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںص۲۴۹پرھے اور یہ بھی ذکر ھے کہ انھوں نے ھر اس مسئلہ کی جسے محمد ابن عبد الوھاب نے گڑھا ھے خوب رد کی ھے۔
اسی طرح طائف کے ایک عالم شیخ عبد الله ابن ابراھیم میر غینی ھیں انھوں نے ”تحریض الاغبیاء علی الاستغاثہ بالانبیاء والاولیاء ،،نامی کتاب لکھی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔
شیخ طاھر سنبل حنفی انھوںنے ”الانقصار للاولیاء الابرار ،،نام کی کتاب لکھی اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔
شیخ مصطفی حمامی مصری نے بھی اس کی رد میں ”غوث العباد ببیان الرشاد ،،نام کی کتاب لکھی جو طبع ھو چکی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۳ پرھے ۔
اس کی رد لکھنے والوں میں علامہ محقق شیخ صالح کواشی تونسی بھی ھیںانھوں نے اس کی ردمیں ”رسالہ مسجعہ محکمة،،لکھا اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۱ پرھے اور لکھا ھے کہ علامہ موصوف نے اس رسالہ کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی رد کی ھے ۔علامہ مذکور کا یہ رسالہ ”سعادة الدار ین فی الرد علی الفریقین ،،کے ضمن میں طبع ھواھے نیز اس کی رد تونس کے شیخ الاسلام اسماعیل تمیمی مالکی نے بھی لکھی ھے ۔انھوں نے رد علی محمد ابن عبدالوھاب کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،صفحھ۲۵۱ پرھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر کیا ھے کہ مذکورہ کتاب کافی محققانہ اور ٹھوس ھے اس کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی ردکی گئی ھے یہ کتاب تونس میں شائع ھوئی ھے ۔
علامہ مفتی فاس الشیخ مھدی وزّانی نے بھی اس کی رد کی ھے انھوں نے جواز توسل کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ھے،اس کاذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۲ پرھے ۔
اور ابو حامد ابن مرزوق نے ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،کے صفحھ۱ پرذکر کیا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں:ائمہ اربعہ کے بعض پیروٴوں نے اس کی اور اس کے مقلدین کی بھت سی عمدہ تالیفات کے ذریعہ ردکی ھے۔
اور حنبلوں میں اس کی رد کرنے والوں میںسے اس کے بھائی سلیمان ابن عبدالوھاب ھیں اور شام کے حنبلیوں میں سے آل شطیٰ اور شیخ عبداللهقدومی نابلسی ھیں جنھوں نے اپنے سفرنامہ میں اس کی رد لکھی اوریہ سب کتابیں”زیارةالنبّی صلی الله تعالی علیہ وسلم والتوسل بہ وبالصا لحین من امتھ،،کے حاشیہ پر شائع ھوئی ھیں اور کھا کہ محمد ابن عبدالوھاب اپنے مقلدین سمیت خوارج میں سے ھے ۔ جن لوگوں نے اس مطلب پہ نص کی ھے ان میں سے علامہ محقق سیّد محمد امین بن عابدین بھی ھیں جنھوں نے اپنے حاشیہ ” ردالمختار علیٰ الدر المختار ،، میں باغیوں کے باب میں اور شیخ صاوی مصری نے جلالین کے حاشیہ میں صریحاً لکھا ھے کہ یہ اور اس کے مقلدین خوارج میں سے ھیں کیوں کہ یہ ” لاالھٰ الّا الله محمدرسول الله ،،کھنے والوں کو اپنی رائے سے کافر کھتے ھیں اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ مسلمانوں کو کافر کھنا خوارج اور دوسرے بدعت کاروں کی علامت ھے جو اھل قبلہ میں سے اپنے مخالفین کو کافر قرار دیتے ھیں ۔
محمد ابن عبدالوھاب اور اس کے ماننے والوں کی بنیادی عقائد فقط چار ھیں ۔ خدا وند عالم کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دینا ، الوھابیت اور ربوبیت دونوں کی توحید کو ایک ماننا ، نبی صلیٰ الله علیہ وآلہ وسلّم ،کی عزت نہ کرنا ، اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا ، اور یہ ان تمام عقائد میں احمد ابن تیمیہ کا مقلد ھے اور احمد ابن تیمیہ پھلے عقیدہ میں کرامیہ اور مجسمیہ جنبلیہ ( جو خدا کے لئے ھاتہ پاؤں وغیرہ اعضائے جسم کے قائل ھیں ) کا مقلّد ھے اور چوتھے عقیدہ میں ان دونوں فرقوں اور فرقئہ خوارج کا پیرو ھے ۔
اور وھابیوں کے نزدیک نقل دین کے سلسلہ میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد افراد ابن تیمیھ، اس کے شاگرد ابن قیم اور محمد ابن عبدالوھاب ھی ھیں ۔ چنانچہ علماء مسلمین میں سے کسی عالم پر وہ اعتماد نھیں کرتے اور اس کی کوئی قدر نھیں جانتے جب تک کہ اس کے کلام میں کوئی ایسا شبہ نہ پایا جاتا ھو جو ان کی رائے اور خواھش کی تائید کرے چنانچہ یہ وسیع دین اسلام ان کے نزدیک تین مذکورہ بالا افراد میں محصور ھے ۔نیز کتاب التوسل النبّی ص۲۴۹ پراس عنوان کے تحت ”محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والے علماء خواہ اس کے ھم عصر ھوں یا اس کے بعد میں آنے والے ان کی ایک جماعت کا تذکرہ کیا ھے جن میںمندرجہ ذیل نام گنائے ھیں :علامہ عبدالوھاب ابن احمد برکات شافعی احمدی مکّی ،علامہ سید منعمی ،جب محمد ابن عبدالوھاب نے ایک ایسی جماعت کو جنھوں نے اپنے سر نھیں منڈائے تھے قتل کردیا تو موصوف نے ایک قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی تھی ۔
علامہ سید عبدالرحمن جو احساء کے بزرگ ترین علماء میں سے ھیں ،انھوں نے ایک زور دار قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی اس قصیدہ میں سرسٹہ (۶۷)اشعار ھیںجس کا مطلع یہ ھے :
بدت فتنة اللیل قدغطّت الافق وشاعت فکادت تبلغ الغرب والشرقا
(فتنہ شب ظاھر ھوا جس نے افق کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور پھیلاتو مغرب اور مشرق تک پھونچ گیا۔)
شیخ عبد الله ابن عیسیٰ مویسی ،شیخ احمد مصری احسائی ،شیخ محمد ابن شیخ احمد ابن عبد الطیف احسائی اور ص۱۰۵پر اس عنوان کے تحت کھ” محمد ابن عبدالوھاب پیغمبر پر درود بھیجنے سے منع کرتا تھا ،،لکھا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں اور ”صاحب کتاب ”مصباح الانام وجلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بِھَا الْعَوام ،،سید علوی ابن احمد ابن حسین ابن سید عارف بالله عبد الله ابن علوی حداد نے اپنی کتاب میں اس کا ذکرکیا ھے ،پھرسید احمد بن زینی دحلان نے اپنے رسالہ ”الدررالسنیةفی الرد علی الوھابیة،،میں لکھا ھے کہ محمد ابن عبدالوھاب پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پرصلوات پڑھنے سے روکتا تھا اور منبروں پر بلند آواز سے صلوات پڑھنے کو روکتا تھا اور ایسا کرنے والے کو اذیّت اور سخت سزا دیتا تھا حتی کہ اس نے ایک نابینا کو جو ایک صالح اور خوش آوازموٴذن تھا قتل کردیا ۔اسے اذان کے بعد منارہ پر صلوات پڑھنے سے روکا تھا لیکن وہ باز نھیں آیا نتیجہ میںاسے جان سے مار ڈالا اور کھا کہ طوائف کے گھر باجہ بجانے والے کا گناہ اس شخص کی بہ نسبت کم ھے جو منارہ پر پیغمبر اسلام پر درود پڑھے۔
اورصفحھ۲۵۰پر لکھا ھے کہ سید علوی ابن احمد حداد نے فرمایا میں نے مذاھب اربعہ کے بے شمار بڑے بڑے علماء کے جوابات دیکھے ھیں یہ علماء حرمین شریفین ،احساء ،بصرہ بغداد ،حلب ،یمن اور دوسرے اسلامی شھروں کے رھنے والے تھے جنھوں نے نثر ونظم دونوں میں جوابات لکھے ۔میرے پاس ابن عبدالرّزاق حنبلی کی اولاد میں سے ایک شخص کا مجموعہ لایا گیا اس میں بھت سے علماء کی جانب سے لکھی گئی رد موجود تھیں ۔
اس کے بعد لکھا ھے :اور میرے پاس شیخ محدث صالح فلانی مغربی ضخیم کتاب لائے جس میں علماء مذاھب اربعہ حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ ،اور حنبلیہ کے خطوط اور جوابات تھے جو محمد ابن عبدالوھاب کے جواب میں لکھے گئے تھے ۔اورص۲۴۸پر ھے۔ محمد ابن عبدالوھاب کی رد بھت سے علماء نے کی ھے ۔اس کے ھم عصر علماء نے بھی اور بعد میں آنے والے علماء نے بھی اور اب تک علماء اسلام کے اعتراضوں کے تیر اس کو نشانہ بناتے رھتے ھیں ۔
اس کے ھم عصر رد کر نے والوں میں پیش پیش احساء کے حنبلی تھے اور درحقیقت تمام اعتراضات ابن تیمیہ کو نشانہ بنارھے تھے ۔
موٴلف کھتا ھے :ابوالفضل قاسم محجوب مالکی نے بھی ایک رسالہ کے ذریعہ جس کا تذکرہ احمد ابن ضیاف کی کتاب ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان ،،میں ملتا ھے ،محمد ابن عبدالوھاب کی رد کی ھے اور اس کے آراء اور فتاوی کو باطل قرار دیا ھے ۔
اس رسالہ کا ایک حصّہ حاج مالک داوٴد کی کتاب ”الحقائق الاسلامیةفی الرد علی المز اعم الوھابیةبادلّةالکتاب والسنة النبویة ،،سے ملحق کرکے ۱۴۰۳ ئمیں طبع ھوا تھا اور دوبارہ آفسٹ سے ترکیہ میں ۱۴۰۵ ئمیں طبع ھوا ۔
جھاںمیری واقفیت میں علماء مذاھب اربعہ کی جانب سے رد اور طعن محمد ابن عبدالوھاب پرکی گئیں وہ میں نے درج کردیں ۔
احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر کئے گئے اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔ اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی
اور اسی کتاب کے ص ۱۰۷۸ پر احمد ابن تیمیہ جنبلی کی ایک کتاب بنام ”الصراط المستقیم والرد علی اھل الجحیم ،، کا ذکر کیا ھے اور اسی میں ایسی باتیں لکھی ھیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نھیں ھے مثلا عبد الله ابن عباس کو کافر قرار دینا ۔حصینی نے اپنی کتاب میں اس کی رد لکھی ھے ۔ جامعہ ا زھر کے ایک عالم شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی نے اپنی کتاب ” تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ،،میںص۹ پر ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ھے کہ اس نے اپنی کتاب ”الواسطہ ،، وغیرہ کی تالیف کی تو ایسی باتیں گڑھیں جن سے مسلمانوں کے اجماع کو پارہ کر دیا ۔اس نے کتاب خدا ، صریح سنت اور سلف صالح کی مخالفت کی ھے۔ اپنی فاسد عقل کا مطیع ھوا ھے اور جان بوجہ کر گمراہ ھواھے ۔اس کا معبود اس کی ھوائے نفس ھے۔ اسے یہ گمان ھوا ھے کہ جو کچہ اس نے بیان کیا ھے حق ھے حالانکہ وہ حق نھیں ھے بلکہ یہ جھوٹ اور قول منکر ھے ،اور اسی کتاب کے ص۱۳پر ھے :یہ کتاب ابن تیمیہ کی بھت سی من گڑھت باتوں پر مشتمل ھے جوکتاب و سنّت اور جماعت مسلمین کے مخالف ھے ۔
اور صفحھ۱۰ /۱۱پر ھے:وہ برابر اکابر کے پیچھے پڑا رھا یھاں تک کہ اس کے زمانے والے اس کے خلاف مجتمع ھوئے اسے فاسق قرار دیا اور بدعتی ٹھھرایا بلکہ ان میں سے زیا دہ لوگوں نے اسے کافر قرار دیا ۔
اور صفحہ ۱۷پر ھے :اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کا وتیرہ ادب اورھر زمانے میں اس کے پیروٴوں کا یھی طریقہ رھا ھے کھ:
”یقولون آمنّا بالله و بالیوم الاخروما ھم بمومنین ،یخادعون اللهوالذین آمنوا وما یخدعون الاانفسھم وما یشعرون ،،یہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم الله اور روز قیامت پر ایمان لائے ھیں حالانکہ یہ مومن نھیں ھیں ۔یہ الله کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ھیں حالانکہ یہ خود اپنے کو دھوکہ دے رھے ھیں اور انھیں اس کا احساس نھیں ھے ۔،،
موٴلف کھتا ھے :یہ منافقیں کی صفت ھے جسے خدا وند عالم نے اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ھے ۔
اور یافعی نے ”مرآةالجنان ،،ج۴/ص۲۴۰طبع حیدرآباد دکن ۱۳۳۹ھئمطبع دائرةالمعارف النظامیہ میں ابن تیمیہ کے بعض مھمل اقوال کا ذکر کیا ھے مثلاًلکھا ھے:خدا حقیقتاًعرش پر بیٹھا ھے اور الفاظ وآواز سے گفتگو کرتا ھے پھرلکھا ھے کہ دمشق میںیہ اعلا ن کردیا گیا کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ پر ھوگا اس کی جان اور اس کا مال مباح ھے ۔
اور صفحھ۲۷۸پر۷۲۸ ئکے واقعات کے سلسلہ میں ھے :اس (ابن تیمیہ )کے عجیب وغریب مسائل ھیں جن کے بارے میں اس پر طعن وتشنیع کی گئی ھے اورجن کے سبب مذھب اھل سنّت ترک کرنے کی خاطر اسے قید کیا گیا ۔پھر اس کی بھت سی برائیوں کو شمار کراتے ھوئے لکھا ھے کھ:اس کی قبیح ترین برائی یہ تھی کہ اس نے پیغبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کر دیا تھا ۔آپ پر اور دوسرے اولیاء خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں پر طعن و تشنیع کی تھی اور اسی طرح مسٴلہ طلاق وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا مسلک اور جھت کے بارے میں اس کا عقیدہ اور اس بارے میں جوباطل اقوال اس سے نقل ھوئے ھیں یہ سب اور اس کے علاوہ اور بھی بھت سی باتیں اس کے قبائح میں سے ھیں ۔
شیخ ابن حجر ھیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ھے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ھونے کا دعویٰ ایساھے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ھے ۔سفینةالراغب ص۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ
شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواھدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷پر لکھا ھے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاھب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اھم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ھونا ،کے بارے میں اھل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ھے جنھوں نے اس پر طعن کیاھے لکھا ھے :
”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ھیںجو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ھوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رھنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ھے اور اسے برا کھا ھے ۔،،
انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ھیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ھے : حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ھے چنانچہ کھا ھے :زیارت کا باعث تقرب خدا ھونا ضرویات دین میں سے ھے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ھے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ھے کیونکہ جس کے مستحب ھونے پر اجماع ھو اس کا حرام قراردینا کفر ھوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ھے۔
اور انھیں میں سے شباب الدین خفاجی حنفی ھیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ھے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ھیں جن کا ذکر کرنا مناسب نھیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ھو ھی نھیں سکتیںچہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ھو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ ”قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ھے ،،کذب محض،لغو ھے اوربکواس ھے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نھیں ھے ،،باطل ھے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی اللهعنھم کا مذھب یہ ھے کہ سلام ودعا میںقبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ھے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ھے۔
اور انھیںمیں سے امام محمدزرقانی مالکی ھیں ۔(بنھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواھب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ھے جسے ھم یھاںپیش کررھے ھیں:
”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ھے اور وہ ھے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نھیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاھے ؟اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کمال الدین ز ملکانی شافعی متوفی۷۲۷ھئنے کشف الظنون میں ان کی ایک کتاب”الذرةالمضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ ،،کا ذکر کیا ھے انھوں نے ان مسائل میں اس سے مناظرہ کیا ھے جن میں وہ مذاھب اربعہ سے منحرف ھوگیا ھے اور ان میں قبیح ترین مسئلہ اس کا انبیاء وصالحین خصوصاًسیدالمرسلین کی قبروں کی زیارت اور آپ کے وسیلہ سے خدا سے مانگنے کو منع کرنا ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کبیرشھیر تقی الدین سبکی شافعی ھیں(ابن تیمیہ پر اعتراضات کو ان کی کتاب شفاء السقام فی زیارت خیر الانام علیہ السلا م سے نقل کیا ھے) اس کتاب میں انھوں نے اسے بدعتی کھا ھے ۔ اور انھیں میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ھیں(انھوں نے اپنی کتاب فتح الباری فی شرح البخاری میں اس پر رد کی ھے )اور انھیں میں سے امام عبد الروٴوف منادی شافعی ھیں انھوں نے شرح شمائل میں کھا ھے :اور ابن قیّم کا اپنے شیخ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ کھناکہ ”مصطفی صلّی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پرور دگارکو اپنے دونوں شانوں کے درمیان اپنے ھاتہ رکہ کر دکھائے تو خدااس جگہ کو بالوں کو نوازا ۔اس کی ردشارح یعنی ابن حجرمکّی نے اس طرح کی بات ان دو نوں (ابن تیمیہ وابن قیم)کی بد ترین گمراھی ھے اور یہ ان دونوں کے اس عقیدہ پر مبنی ھے کہ خدا جھت اور جسم رکھتا ھے۔خدا وند عالم ظالموں کے اس قول سے کھیں بزرگ وبرتر ھے اس کے بعد منادی نے لکھا ھے :اب میں کھتا ھوں ان دونوںکا بدعتیوں میں سے ھونا مسلّم ھے۔
اور انھیں میں سے ھمارے دوست عالم با عمل ،فاضل کامل ، شیخ مصطفی ابن احمد سطی جنبلی دمشقی حفظ الله وجزاہ الله احسن الجزاء ھیں ۔ مو صوف نے ایک مخصوص رسالہ تالیف کیا ھے جس کا نام ( النقول الشرعیہ فی الرد علی الو ھابیة ) ھے۔انھیں میں سے امام شھاب الدین احمد بن حجر ھیثمی مکی شافعی ھیں انھوں نے ابن تیمیہ پر بھت سخت ردو تنقید کی ھے ۔
اور نبھانی نے شواھدالحق کے ص ۱۹۱ پر پھلے تو ان لوگوں کے نام نقل کئے ھیں جنھوں نے ابن تیمہ کو طعن و تشنیع کی اور جن کا ذکر ابھی گزرا ھے ۔ اس کے بعد کھتے ھیں : لھذا ثابت ھوا اور آفتاب نصف النھار کی طرح روشن ھوا کہ علماء مذ ھب اربعہ نے ابن تیمیہ کی بد عتوں کے رد کرنے پر اتفاق کیا ھے اور کچہ علماء نے اس کی نقل کی صحت پر طعن کیا ھے تو بھلا جن مسائل میں دین سے انحراف کیا ھے اور اجماع مسلمین کی مخالفت کی ھے خاص کر ان مسائل میں جو سید المر سلین سے متعلق ھیں اس کی کھلی ھوئی غلطی پر سخت طعن وتشنیع کیوں نہ کرتے ۔
حنفیوں میں سے جنھوں نے اس کی نقل کے صحیح ھونے پر طعن کیا ھے شھاب الدین خفاجی شارح الشفا ء ھیں جن کا ذکر گزر چکا ھے ۔ اور مالکیوں میں سے امام زرقانی ھیں شرح مواھب میں ، یہ تذ کرہ بھی گزر چکا ھے ۔ اور شافیوں میں سے امام سبکی ھیں جیسا کہ ان کی کتاب شفاء السقام میں مذ کور ھے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ھے کہ نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ کی رائے غلط ھے بلکہ اس کے نقل کئے ھوئے وہ احکام شرعیہ بھی صحیح نھیں ھیں جس کے ذریعہ اس نے اپنی بدعت کی تقویت پر استدلال کیا ھے اور انھیں مذاھب اربعہ کی طرف منسوب کیا ھے حالانکہ ائمہ مذا ھب اربعہ نے وہ احکام نھیں بیان کئے ھیں ۔اسی طرح اس کے نقل کی عدم صحت کا ذکر امام ابن حجر ھیثمی نے بھی اس کے اوپر اپنے اعترا ضات میں کیا ھے اور یہ بات پو شیدہ نھیں ھے کہ یہ چیز ایک عالم کے اندر بھت بڑاعیب اور بھت بڑا اخلاقی جرم ھے جو اس پر اعتماد کو ضعیف کر دیتا ھے اور اس کے منقولات کے اعتبار کو ساقط کر دیتا ھے چاھے وہ احفظ حفاظ اورا علم علماء میں سے ھو اور ابن تیمیہ کے منقو لات کے معتبر نہ ھونے کی تقویت اس قول سے بھی ھوتی ھے جو اس کے بارے میں حافظ عراقی نے کھا ھے۔ کلام نھبانی تمام ھوا ۔ شواھد الحق ص ۱۷۷تا ۱۹۱
ابن تیمیہ کا ذکر ڈاکٹر حامد حفنی داوؤد حنفی نے بھی اپنی کتاب ( نظرات فی الکتب الخالدة) ص ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۳۹۹ء دارالمعلم للطباعة میں کیا ھے اور اسے بدعتی قرار دیا ھے اور حاشیہ میں اس کلمہ پر نوٹ لگایا ھے کہ : اکثر علماء اھل سنّت نے اس کے بد عتی ھونے کا قول اختیار کیا ھے رہ گئے صوفیہ تو انھوں نے اس پر اجماع کیا ھے ، امام تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے درمیان فقہ وعقیدہ کے اکثر گوشوں کے بارے میں خط وکتابت ھوتی ھے ۔دیکھئے ھماری کتاب (التشریع الا سلامی فی مصر ) انتھی ۔
عبدالغنی حمادہ اپنی کتاب ( فضل الذاکرین والرد علی المنکر ین ) طبع سوریہ اَدْلَبْ ۹۱ ۱۳ء ص ۲۳ پر اس طرح وھابیت پر طعن کر تے ھیں :
شیخ وھابیت ابن تیمیہ کے بارے میں علامہ مصر علاء الدین بخاری نے لکھاھے کہ : ابن تیمیہ کافر ھے جیسا کہ اس کے زمانے کے بزر گ عالم زین الدین حنبلی نے کھا ھے کہ میرا اعتقاد یہ ھے کہ ابن تیمیہ کافر ھے اور کھتے تھے کہ امام سبکی رضی الله عنہ ابن تیمیہ کی تکفیر سے معذور ھیں کیونکہ اس نے امت اسلامیہ کو کافرقرار دیا ھے اور اسے قول خدا :”اتخذ وااحبار ھم ورھبانھم ار بابا من دون الله ،،کی تفسیر کر تے ھوئے یھودو نصاریٰ سے تشبیہ دی ھے۔ علماء مذاھب نے لکھا ھے کہ : ابن تیمیہ زندیق ھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی توھین کرتا تھا اور اس کی کتابیں خدا وند عالم کی تشبیہ اور اسے صاحب جسم قرار دینے سے بھری ھوئی ھیں ۔
اور اس کے زمانے کے علامہ ابن حجر رضی الله عنہ نے کھا ھے ۔ ابن تیمیہ ایک ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراھ، اندھا ، بھرا اور ذلیل کیا ھے ۔اس کے خلاف مذاھب اربعہ میں سے اس کے دور کے علماء اٹہ کھڑے ھوئے اور اکثر نے اس کو فاسق اور کافر قرار دیا ھے ۔علماء نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ نے صحابہ کرام رضی الله عنھم کو کافر قرار دینے میں خوارج کے مذ ھب کا اتباع کیا ھے ۔
اور ائمہ حفاظ نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ خوارج میں سے ھے ،جھوٹا ھے ، شریر ھے ، افترا پر داز ھے ۔”فضل الذا کرین ،،میں لفظ بہ لفظ مو جود ھے ۔
اور ابو حامد مرزوق شامی نے اپنی کتاب ۔” التوسل بالنّبی وبا لصالحین ،،مطبوعہ تر کیہ طبع آفسٹ ۸۴ ۱۹ ءء کے ص ۴ پر لکھا ھے:
"ایک بار ابن تیمیہ نے دمشق کے ممبر پر جانے کے بعد کھا : " خدا وند عالم اسی طرح عرش سے اتر تا ھے جیسے میں ممبر سے اتر رھا ھوں اور ایک زینہ نیچے اتر کر دکھایا ھے ، ، اس کے بعد ابو حامد نے لکھا ھے کہ اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں فقیہ سیاح ابن بطوطہ مغری بھی ھیں اور ” التوسل بالنّبی وبالصالحین ،،کے ص ۶ پر ابن تیمیہ سے نقل کیا ھے کہ ابن تیمیہ نے لکھا ھے کھ” خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ،، اور اسی کتاب کے ص ۲۱۶ پر کتاب ” دفع شبہ من شبّہ وتمرّد ،،طبع مصر ۵۰ ۱۳ء ہ مطبع عیسیٰ حلبی ، تصنیف ابو بکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ ء سے نقل کر تے ھوئے لکھا ھے کہ مصنف مذکور نے ابن تیمیہ کے بارے میں کھا ھے :” میں نے اس خبیث (ابن تیمیہ ) کے کلام کو دیکھا جس کے دل میں انحراف کا مرض ھے جو فتنہ پیدا کر نے کے لئے متشابہ آیات و احادیث کا اتباع کر تا ھے اور عوام و غیر عوام میں سے ان لوگوں نے اس کی پیروی کی جس کے ھلاک کر نے کا خدا نے ارادہ کیا تھا ، میں نے اس میں ایسی باتیں پائیں جن کو ادا کر نے کی مجھ میں قدرت نھیں ھے اور نہ میری انگلیوں اورقلم میں انھیں تحریر کر نے کی جراٴت ھے کیو نکہ اس نے پر وردگار عالم کی اس بات پر تکذیب کی ھے کہ اس نے کتاب مبین میں اپنے کو منزہ قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے بر گزیدہ اور منتخب افراد خلفاء راشدین اور ان کے صالح پیروکاروں کی توھین اور عیب جوئی کی ھے لھذا میں نے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ جانا اور صرف ان باتوں کو ذکر کیا جنھیں ائمہ متقین نے ذکر کیا تھا اور جن پر ان کا اتفاق ھے وہ یہ کی ابن تیمیہ بد عتی اور دین سے خارج ھے ۔
حافظ ابن حجر نے ” الفتاوی الحدیثیہ ،، ص ۸۶ پر لکھا ھے کہ ” ابن تیمیہ ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ ، اندھا ، بھرہ ، اور ذلیل بنا دیا ھے اور اسی بات کی تصریح ان اماموں نے بھی کی ھے جنھوں نے اس کے فاسد ھونے اور اس کی باتوں کو جھوٹ ھونے کا بیان کیا ھے اور جو شخص اسے جاننا چاھتا ھو وہ امام مجتھد ابوالحسن سبکی جن کی ،امامت ، جلالت ، شان اور مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے پر اتفاق ھے ان کے اور ان کے فرزند تاج اور شیخ امام عزّ بن جماعہ اور شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، میں سے ان کے ھم عصر علماء کے کلام کو ملا حظہ کریں ، ابن تیمیہ نے صرف متاخرین صوفیہ کے اوپر اعتراض کرنے پر اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب رضی الله عنھما ،، جیسے حضرات پر بھی اعتراض کیا ھے۔
خلاصہ یہ کہ اس کے کلام کی کوئی قدرو قیمت نھیں ھے اور چاھئے کہ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بدعتی گمراہ ،گمراہ کن ، جاھل اور غلو کر نے والا ھے ، خدا اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ھمیں اس کے طریقہ ، عقیدہ ، اور عمل سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔ کلام ابن حجر تمام ھوا اسے ھم نے تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ص ۹ طبع مصر ۱۳۱۸ ء ہ تصنیف شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی سے نقل کیا ھے۔
اس کے بعد کھا کہ وہ خدا کے لئے سمت کا قائل ھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ وہ خدا کے لئے جسمیت ، محاذات ،اور استقرار کا قائل ھے ۔
کتاب ”التوسل با لنّبی وبا لصالحین ،، میں ابن تیمیہ پر اور بھی بھت سے طعن ھیں جن کو چند عناوین کے تحت ذکر کیا ھے ، جو حسب ذیل ھیں ۔
۰ علّامہ شھاب الدین احمد بن یحییٰ حلبی کی جھت کے بارے میں ابن تیمیہ پر رد۔
۰ ابن تیمیہ کے اس زعم کا ابطال کہ خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ۔
۰ عقیدہ ابن تیمیہ جس کے سبب اس نے جماعت مسلمین سے مخالفت کی ھے اور انھیں برا کھا ھے جسے قر آن میں طعن کر نے والے او باش ملحدین سے حاصل کیا ھے ۔
۰ ابن تیمیہ کی تمام علماء اسلام سے مخالفت ۔ 

Add comment


Security code
Refresh