www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 گفتارِ مترجم
وھابیت مسلمانوں کے سینہ پرایک ایسا ناسور ھے جس کی اذیت وبدبو سے تمام عالم اسلام سسک رھا ھے ۔ابتدا ھی سے یہ سازش مسلمانوں کے لئے عظیم مصیبت ھے ۔عقائد اسلامی ،شعائر الھیہ ،دانش واخلاق ،معا شرت و معیشت سبھی کچہ بھو نچال کا شکار ھیں

البتہ ادھر عالمی سیاست کے نشیب وفراز کی وجہ سے یھودیت سے اس کی برادرانہ وابستگی طشت از بام ھو چکی ھے ۔و ھابیت کا پشت پناہ سعودی خاندان اپنے مسلسل گھناؤ نے حر کات سے صیھونیت کا قافیہ بن چکا ھے ۔ عام طور سے مترا دف قافیے کے طور پر سعود و یھود کھا جانے لگا ۔ لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے زیادہ تر افراد اپنی جھالت اور بے خبری کی وجہ سے اس کی ابتداء ، عزائم اور وسیع تر نقصانات سے عدم تو جھی برت رھے ھیں ۔
زیر نظر کتاب ” وھابیت مسلمان علماء کی نظرمیں ،، ایک جلیل القدر اھل سنّت عالم جناب احسان عبد الطیف بکری کی تا لیف ھے ،جسے مکتبہ آیت الله العظمیٰ مر عشی نجفی قدس سرھ، قم نے شائع کیا ھے ۔ اس مختصر مگر مفید کتاب میں وھابیت کی حقیقت، دانشوران اسلام پر اس کا رد عمل وھابیت کے ” پیر مغان ،، ابن تیمیہ کی حقیقی تصویر نیزان کے علمی عجوبوں کو پیش کیا گیا ھے ۔ اور کتاب کے آخر میں مسلمانوں کو درد مندانہ نصیحت کی گئے ھے ۔حقیر کی یہ پھلی کو شش ھے جسے محض خالصتہ لو جہ الله پیش کیا جار ھا ھے ۔ کتاب میں خامیاں بھی ھو نگی ، لیکن یہ احساس محض اس لئے ھمت شکنی نھیں کر رھا ھے کہ ایک مفید چیز مسلمانوں کے لئے مشعل راہ کا کام کر سکے ۔ارباب نظر سے گزارش ھے کہ غلطیوں سے مطلع فر مائیں ۔
سید نیاز علی رضوی ھندی۔ حوزئہ علمیہ قم المقدسہ۔ جمھوری اسلامی ایران
تقریظ
از حضرت آیت الله جعفر سبحانی دام ظلّہ
 اسلامی قوانین دو بنیادوں پر استوار ھے ۔ان میںسے ایک ”کلمہ توحید ،،یعنی یکتا پرستی ھے جو تمام مسلمانوں کا شعار ھے۔ اور دوسرا ”توحید کلمہ ،،ھے جوتمام مسلمانوںکو وحدت و اتفاق اور اتحاد و یگانگی کی دعوت دیتا ھے اگر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلّم لو گوںکو یکتا پرستی کی دعوت دیتے تھے تو ان کو تفرقہ اور گروہ بازی سے بھی منع کرتے تھے ۔اور ھمیشہ سے یہ آیت دنیا بھر کے تمام مسلما نوں کے پیش نظر رھی ھے :اِنَّ ھَٰذِہ اُمَّتَکُم اُمَّةًوَاحِدةًوَاَنَا رَبَّکُم فَاعْبُدُون(سورہ انبیاء ۹۲)” بےشک ےہ تمھاری امت ایک امت یعنی ایک دین کو ماننے والی ھے اور میں تمھا را پروردگار ھوں تم میری ھی عباد ت کرو ،،۔
بنا بر این جو چیز بھی مسلمانوں کی وحدت کو نقصان پھونچائے، ان کے اتحادکو درھم و برھم کرے ،ان کو مختلف گروھوںمیں باٹے یا ان کے در میان جو موجودہ شگاف ھے اس میں اضافہ کرے تو وہ ایک شیطانی فعل اور شیطانی نعرہ کھا جانے کا مستحق ھے ،جو جاھلوں یا اسلام سے ناواقف افراد کے منہ سے بلند ھوتا ھے ۔
دنیا کے مسلمان آٹھویں صدی ھجری تک انبیاء و اولیا اور صالحین امت کے بارے میں وحدت کلمہ رکھتے تھے ۔ وہ پیغمبر اسلام کی زیارت کے سفر کو مستحب جانتے تھے اور خود زیارت کو قربت کا ایک عمل سمجھتے تھے ۔ نیز اسلامی اساسوں اور پیغمبر اسلام کے آثار ، مثلاً خود آپ کی اور آپ کے فرزندوں اور صحابیوں کی قبر کی حفاظت پر بھت توجہ دیتے تھے ۔ اور اس راہ میں کسی کو شش سے دریغ نھیں کر تے تھے ۔ وہ مشاھد مقدسہ کو آباد رکھتے تھے اور اس طرح اپنی اسلامی ذمہ داریوں کو عملی جامہ پھناتے تھے ۔
پھلی بار آٹھویں صدی ھجری میں احمد ابن تیمیہ ( ولادت ۶۶۱ اور وفات ۷۲۸ ) نامی ایک شخص نے شام میں مسلمانوں کے در میان پر چم مخالفت بلند کیا اور تمام مسلمانوں سے بغاوت کر تے ھوئے اس نے زیارت کے سفر کو حرام کرار دیا ۔ انبیاء وصالحین کی قبروں کی زیارت کو بد عت اور رسالت کے آثار کی حفاظت کو شرک قرار دیا ۔ البتہ اس شیطانی آواز کا اس وقت شام اور مصر کے بزرگ علماء اور دانشوروں نے گلا گھونٹ دیا اور ابن تیمیہ کا مسلک اور نظریہ رواج نہ پاسکا ۔
 لیکن بارھویں صدی ھجری میں ابن تیمیہ کی کتابوں کامطالعہ کرنے کے بعد محمد ابن عبدالوھاب ( ولادت ۱۱۱۵ اور وفات ۱۲۰۷ ) نامی ایک شخص نے اس کے خبیث افکار کو دوبارہ زندگی دی اور ۱۱۶۰ میں خاندان محمد ابن سعود کے ساتھ رشتہ والحاق پیدا کیا۔ اس طرح یہ خبیث افکار نجد میں رائج ھوئے۔ اس مسلک کی نشر اشاعت کیلئے یہ لوگ عراقی ،اردنیٰ ،حجازی اور نجد کے اطراف میں مقیم قبائل کے ساتھ مسلسل خونی جنگ کرتے رھے ،نتیجہ میں توحید کے نام پر مسلمانوں کے ناموس اور پاکیزہ اقدار کی ھتک حرمت اور ان کے گھر بار کو آگ لگاتے اور ویران کرتے رھے ۔
لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود وھابی مسلک کو قابل دید عروج حاصل نہ ھو سکا یھاں تک ادھر آخری صدی میں برطانیہ کی مدد سے دوسری جنگ عظیم کے بعد آل سعود نجد و حجاز پر مسلّط ھوگئی ۔ اور یہ لوگ چند خود فروش اھل قلم کو خریدکر دوسروں کو گمراہ کرنے اوراس مسلک کو کہ جس کا مقصد ھی اسلام کی بنیادوںکومٹانے اور اسلامی آثار کو فنا کرنے اور نسل جدیدکو گزشتہ نسلوںسے منقطع کرنے کے سواکچہ اور نھیں ھے ،دوردراز علاقوںتک پھچانے میں کامیاب ھوگئے ۔اس راہ میں انھوں نے پٹرول ڈالر کی بنیاد پر کا فی عروج حاصل کیا۔
لیکن باطل ایک ٹمٹماتا ھوا چراغ ھے اس کی تمام روشنی چند روزہ ھوتی ھے اور حق باقی رھنے والا ھے ۔دوسرے لفظوں میں ”للباطل جولة و للحق دولة،،
اوراس بنا پر اھل سنّت اور تشیّع کی بھت سی شخصیتوں نے اس مسلک پر کھل کر تنقید کرتے ھوئے ابن تیمیہ کے افکار کو رد کیا ھے جن میں اکثریت اھل سنت حضرات کی ھے ۔ان میںسے کچہ افرادکے نام اس کتابچہ میں جسے حجتہ الاسلام جناب سیدنیازعلی رضوی نے ترجمہ کیا ھے درج کئے گئے ھیں ۔
تاکہ وھابیت سے متعلق اس مختلف معلومات اور دندان شکن علمی جوابات کے مطالعہ سے با ایمان افراد خاص طور پر نوجوان نسل اس فکری بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکہ سکے ۔
   قم ۔موٴسسہ امام صادق علیہ السلام
 جعفر سبحانی
 (۲/۹/۱۳۶۹ ۔۴/جمادی الاوّل ۱۴۱۱ھ)


مقدمہ
از حضرت آیت الله ناصر مکارم شیرازی دام ظلّہ
اسلام اور مسلمانوں کیلئے وھابیت کا خطرہ
جب بھی کوئی شخص وھابیت کا تاریخچھٴ پیدائش، ابتداء اور اس کی تشکیل نیز پھلے نجد اور پھر پورے حجاز میں اس کے پھیلاؤ کا مطالعہ کرے، جو خود ان کے یا دوسرے غیر جانبدار افراد کے ذریعہ لکھا گیا ھے تو اس پر یہ حقیقت روشن ھو جائے گی کہ وھابی اپنے پیروؤں کے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر ،مشرک،اور بت پرست جانتے اور ان کے خون و جان ومال مباح سمجھتے ھیں ۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نھیں ھے ۔ اس کے دسیوں معتبر ثبوت موجود ھیں اور یہ مسلمات میں سے ھے ۔ اب آپ غور کیجئے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی اقلیت کا وجودجو ایک طرف اسلام اور مسلمانوں کے مرکز حرمین شریفین پر قابض ھے اور دوسری طرف دنیا کے اھم ترین تیل کے کنوؤں پر تسلط جمائے ھے، ساتھ ھی ان کا استکباری حکومتوں اور عالمی استعمار سے نز دیکی اور اٹوٹ رابطھ، جن کی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کسی سے چھپی نھیں ھے ۔کس قدر بالقوت اور بالفعل خطرات کا باعث ھو سکتا ھے، افسوس کہ بعض نا سمجھ اور نا دان گروہ ان کے بعض پر فریب نعروں ۔مثلاً توحید کی طرف دعوت، خرافات سے مقابلہ ،ھر طرح کی بدعت کا سختی سے انکار ۔ کا شکار ھو جاتے ھیں اور ان سے بدتر یہ کہ ان کے پٹرول ڈالر جسے وہ اپنے گمراہ کن مذ ھب کی تبلیغ کے لئے عجیب و غریب انداز میں صرف کر تے ھیں، اس کے ذریعہ وہ بعض اھل قلم اور در باری ملاؤ ں کو اپنی طرف مائل کر لیتے ھیں ۔ اس حرکت نے وھابیت کے خطرہ کو دو چنداں کر دیا ھے جب کہ صفات خدا کے سلسلہ میں ان کے بھت سے عقائد زمانھٴ جاھلیت کے مشرکین کے عقائد سے بالکل ملتے جلتے ھیں اور دین میں ان کی پیدا کی ھوئی بد عتیں نہ صرف سنّت نبوی پر ایک بڑا سوالیہ نشان بناتی ھے بلکہ شفاعت اور وسیلہ وغیرہ کے سلسلہ میں بھت سی قرآنی آیات پر بھی حملہ آور ھوتی ھیں ۔یہ سب کچہ ایک طرف اور ان لوگوں نے مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف ایجاد کیا ھے وہ ایک طرف ۔آخر دنیائے اسلام پر کشمیر سے مرا کش اور افغانستان سے فلسطین تک دشمنوں کا قبضہ کیسے ھو گیا ؟ سب بیدار ھو رھے ھیں اور اگر یھی کیفیت باقی رھی تو بلا شبہ تمام مستکبرین کے منافع خطرے میں پڑ جائیں گے اور اسلام کی غصب شدہ مقدس سرزمین یعنی فلسطین بھی اس بیداری کے پر تو میں آزاد ھو کر رھے گی ۔ ان حالات میں دشمن سر گر داں ھے اور سب سے اھم نقطہ جس سے دشمن نے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ھیں وہ ھے، اختلاف پیدا کر نا اور مسلمانوں کی صفوں میں شگاف ڈالنا اور اختلاف پیدا کر نے کا بھترین حر بہ ھی وھابیت کو ھوا دینا اور اس کی حمایت کر نا ھے ۔
ھم تمام مسلمانوں سے یہ در خواست کر تے ھیں کہ اس فر قہ کے عقائد خاص تور سے اپنے پیروؤں کے علاوہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی تکفیر اور ان کی جان و مال و آبرو کو مباح کرار دینے والے عقائد کو غیر جانبدارصاحبان قلم کی کتابوں میں پڑھیں اور ماضی میں سر زمین طائف، درعیھ، نجد کے تمام علاقوں،حجاز کے عمو ماً تمام شھروں اور کربلا میں ان کے قتل عام پر غور کریں ۔ مسلمانوں اور اسلام کے پیکر میں ان کے ذریعہ جو شگاف پڑ گیا ھے اس کا جائزہ لیں نیز ان کے ھاتھوں اھل سنّت اور شیعوں کے عظیم ترین علماء کی شھادتوں کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں ۔ اس کے بعد اس عظیم خطرہ سے مقابلہ کی فکر کریں۔ اسے اپنا فریضہ سمجھیں اور خاص طور سے جھاں تک ھو سکے دنیا کے مسلمانوں کو آگاہ نیز نا سمجھ اور فریب خوردہ افراد کو بیدار کر نے کی کوشش کریں ۔
خدا وند عالم ھم سب کے دلوں کو اتحاد وآگھی کے نور سے منور فرمائے اور مفسروں کا شر ان ھی کی جانب پلٹا دے ۔
آمین یا رب العالمین
ناصر مکارم شیرازی ۔
قم حوزئہ علمیہ ۔ ۱۳ / جمادی الثانی / ۱۴۱۱ ھء


 بِسمِ اللهِ الرَّ حمٰنِ الرَّ حِیِم
" واذ اقیل لھم اتبعو اما انزل الله، قالو ا: بل نتّبع ما وجدنا علیہ آبائنا"
"لقد کنتم انتم وآباوٴ کم فی ضلال مبین " ( القر آن الحکیم)
” اور جب ان سے کھا گیا کہ خدا نے جو (دین ) نازل کیا ھے اس کی پیروی کرو ( تو ) اُن لوگوں نے جواب دیا کہ ( نھیں ) بلکہ ھم اس ( دین ) کی پےروی کر تے ھیں جس پر ھم نے اپنے بزرگوں کو پایا ھے ،، ” یقینا تم لوگ کھلی ھوئی گمراھی میں ھو اور تمھارے بزرگ بھی کھلی ھوئی گمراھی میں تھے ،، (قرآن کریم (
مسلمان بھائیوں
کیا آپ وھابیت کی حقیقت سے آگاہ ھیں ؟
اور کیا آپ جانتے ھیں کہ وھابی مسلک کو محمد ابن عبدالوھاب نجدی متوفی ۰۶ ۱۲ئہ نے ایجاد کیا ھے ۔ اور اس نے اپنے تمام اصول احمد ابن تیمیہ حرانی کے افکار سے حاصل کئے ھیں ۔؟
اور کیا آپ یہ بھی جانتے ھیں کہ یہ مذ ھب مسلمانوں کے چاروں مذاھب کے خلاف ھے ؟
اور کیا اس سے بھی با خبر ھیں کہ چاروں مذاھب وھابی مسلک کے قائدین اور اس کے پیرو کاروں کو گمراہ اور راہ ایمان سے خارج بتاتے ھیں ؟
خدا وند عالم نے فرمایا :
”ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل الموٴ منین نولّہ ماتولّیٰ ، ونصلہ جھنّم وسائت مصیرا۔ ،، صدق الله العظیم
” اور جو شخص راہ ھدایت روشن ھو جانے کے بعد رسول خدا کی مخالفت کرے اور اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرے تو ھم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور جھنم میں جلائیں گے اور یہ کتنا برا ٹھکانا ھے ،،۔
اور کیا آپ لوگ جانتے ھیں کہ ھمارے اھل سنّت علماء کی ایک بڑی جماعت نے آپس میں اختلاف مذاھب کے با وجود وھابی مسلک کے مو جد اور اس کے استاد اور امام ، ابن تیمیہ کی رد میں بھت سی کتابیں لکھی ھیں ۔اور وھابی مسلک کو باطل قرار دیا ھے ۔؟
محمد ابن عبدالوھاب نجدی اور اس کے عقائد
کیا آپ جانتے ھیں ؟کہ علماء مکہ نے محمد ابن عبد الوھاب کے ملحد ھو نے کا فتویٰ دیا ھے اور اسے خبیث ،بے شرم ،بے بصیرت اور گمراہ بتایا ھے۔ اور بتایا ھے کہ یہ شخص جھوٹا تھا ،قرآن و حدیث کے معنی میں تحریف کیا کرتا تھا خدا پر بھتان باندھتا تھااور قرآن کا منکر تھا اُنھوں نے اس پر بارھا لعنت کی ھے ۔
ھاں!یہ تمام باتیں حق کے حامی شاہ فضل رسول قادری نے اپنی کتاب ”سیف الجبار المسلوک علیٰ اعداء الابرار ،،میں لکھی ھے ۔یہ کتاب ۱۹۷۹ءء میں ایک غیرت مند مسلمان حسین حلمی استانبولی نے تر کیہ میں شائع کی تھی ۔
عراق کی ایک مسلّم ومتفق علیہ عظیم علمی شخصیت شیخ جمیل آفندی زھاوی نے اپنی کتاب ”الفجر الصادق ،،میں صفحھ،۱۷پر محمد ابن عبدالوھاب کے حالات میںتحریر فرمایا ھے :یہ محمد ابن عبد الوھاب شروع میںایک طالب علم تھا ،،علماء سے علم حاصل کرنے کی خاطر مکہ ،مدینہ آتا جاتا رھتا تھا۔مدینہ میںجن علماء سے اس نے تحصیل علم کیاوہ یہ ھیں :شیخ محمد ابن سلیمان کردی ،شیخ محمد حیاةسندی ،یہ دونوں استاد اور دوسرے جن علماء سے یہ پڑھتا تھا،وہ حضرات اس کے اندر گمراھی و الحاد کو بھانپ گئے تھے اور کھتے تھے کہ خدا عنقریب اسے گمراہ کرے گا اور اس کے ذریعہ دوسرے بدنصیب بندے بھی گمراہ ھوںگے چنانچہ ایسا ھی ھوا۔اور اسکے باپ عبد الوھاب جو علماء صالحین میں تھے،انھوںنے بھی اس کی بے دینی کا اندازہ لگا لیا تھا اور لوگوںکو اس سے دور رھنے کا حکم دیتے تھے۔اسی طرح اس کے بھائی شیخ سلیمان بھی اس کے خلاف تھے بلکہ انھوں نے تو محمدابن عبدالوھاب کی ایجاد کردہ بدعتوں اور منحرف عقیدوں کی رد میں ایک کتاب بھی لکھی ۔وہ اسی کتاب کے صفحھ۱۸میں لکھتے ھیں کہ اس(محمد ابن عبدالوھاب )پر خدا کی لعنت ھو یہ اکثر پیغمبر اسلام کی مختلف الفاظ میں توھین کرتا تھا ،ً آپ کو پیغمبر کے بجائے ”طارش،،کھتا تھا جس کا مطلب عوام کی زبان میں وہ شخص ھے جسے کوئی کسی کے پاس بھیجے۔ حالانکہ عوام بھی صاحب عزت وقابل احترام شخصیت کے لئے یہ کلمہ نھیں استعمال کرتے ۔یھاں تک کہ اس کے بعض پیرو پیغمبر کی شان میں کھتے ھیں :”میرا یہ عصا محمد سے بھتر ھے ۔کیونکہ میں اس سے کام لیتا ھوںاور محمد مر گئے ھیں۔اب ان سے کوئی فائدہ حاصل نھیں ھوسکتا۔ محمد ابن عبد الوھاب یہ سب سن کر خاموش رھتا تھا اور اپنی رضا ظاھر کرتا تھا آپ جانتے ھیں یہ بات مذاھب اربعہ میں کفر مانی جاتی ھے۔
اسی طرح یہ پیغمبر اسلام پر درود بھیجنے کو برا سمجھتا اور شب جمعہ میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلّم پر درود پڑھنے سے روکتا تھا ۔منبروں پر بلند آواز سے درود پڑھنے سے منع کرتا اور اگر کوئی شخص ایسا کر تا تو اسے سخت سزا دیتا تھا یھاں تک اس نے ایک نابینا موٴذن کواسی بات پر قتل کردیا تھا کہ اسے اذان کے بعد درود پڑھنے سے منع کیا تھا لیکن وہ باز نھیں آیا تھا ۔
آپ کو جان کر بھی حیرت ھوگی اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ھدیةالعا رفین ،،میں جو پھلے استانبول ،ترکیہ میں ۱۹۵۱ئئمیں طبع ھوئی پھر دوبارہ بیروت میں ۱۴۰۲ھئمیں آفسیٹ سے طبع ھوئی ،کی ج۲صفحہ ۳۵۰پرذکر کیا ھے :محمد ابن عبدالوھاب نے ایک کتاب ان مسائل سے متعلق لکھی ھے جس میں اس نے پیغمبر کی مخالفت کی تھی ،اور پیغمبر کی مخالفت کا مطلب آپ سے دشمنی کرنا ھے جس کے متعلق خدا نے فرمایا ھے :”ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل الموٴ منین نولّہ ماتولّیٰ ، ونصلہ جھنّم وسائت مصیرا۔
جوراہ ھدایت روشن ھوجانے کے بعد پیغمبرکی مخالفت کرے اس کا ٹھکانا جھنّم ھے۔


 محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھی گئی کتابیں
قارئین کرام جانتے ھیں کہ شیخ سلیمان ابن عبدالوھاب ،محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی نے سب سے پھلے اس بد عت ایجاد کرنے والے کی رد میں کتاب لکھی جس کا نام ” فصل الخطاب فی الرد علیٰ محمد ابن عبدالوھاب ،، رکھا تھا ۔ اس کا اسماعیل پاشا نے ” ایضاح المکنون ج ۲ ص ۱۹۰ طبع بیروت دار الفکر ۱۴۰۲ ئ
اور عمر رضا کحالہ نے ” معجم الموٴ لفین ،، ج ۴ ص ۲۶۹ طبع بیروت ” دارا حیاء الترات العربی ،، میں ذکر کیا ھے
اور محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک شیخ عبدالله بن عیسیٰ صغانی ھیں ۔ انھوں نے جو کتاب لکھی اس کا نام ” السیف الھندی فی ابانة طریقةالشیخ النجدی ،، ھے۔ اس کا ذکر بھی اسماعیل پاشا نے ” ھدیة العارفین ،، ج ۱ ص ۴۸۸ میں کیا ھے
اس کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک سید علوی ابن حداد بھی ھیں جنھوں نے کتاب ”مصباح الانام ،،و ”جلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بھا العوام،،یہ کتاب مطبع عامر کے توسط سے ۱۳۲۵ھئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ابو حامد ابن مرزوق نے اپنی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میںکیا ھے۔ یہ کتاب بھی ابن عبد الوھاب کے عقائد کی رد میں لکھی گئی ھے ۔موصوف نے ایک اور کتاب بھی بنام ”السیف الباتر لعنق المنکر علی الاکابر ،،لکھی ھے اس کا ذکر بھی کتاب ”التوسل بالنبی وبالصالحین ،،صفحھ۲۵۰پر ھے ۔
محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میںسے ایک احمد ابن علی البصری ھیں جو قبائی کے نام سے مشھورتھے۔ انھوں نے اس کے ایک رسالہ کی رد میں ”فصل الخطاب فی رد ضلا لات ابن عبد الوھاب ،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے۔ اس کا تذکرہ بھی ابو حامد مرزوق نے” التوسل بالنبی وبالصالحین،،میں صفحھ۲۵۰پرکیا ھے اور اسماعیل پاشا بغدادی نے ”ایضاح المکنون،،میں ج۲صفحھ۱۹۰پراس کتاب کا نام ”فصل الخطاب،، ذکر کیا ھے۔
محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں سے ایک بزر گوار سید احمد ابن زینی دحلان ،مفتی مکہ مکرّمہ بھی ھیں۔ انھوں نے ”فتوحات اسلامیھ،،کی ج۲طبع مصر ۱۳۵۴ھئمطبع مصطفی محمد میں اس کی رد کی ھے اوراس پر طعن کیا ھے (صفحھ۲۵۱سے ۲۶۹تک دیکھئے )
مر حوم زینی دحلان نے لکھا ھے کہ محمد ابن عبد الوھاب کی رد میں بھت سی کتابیں اوررسالے لکھے گئے ھیں لیکن موصوف نے ان کتابوں کے نام نھیں ذکر کئے ۔
شیخ یوسف نبھانی نے بھی اس کی رد میں ”شواھدالحق فی التوسل بسید الخلق،،کے نام سے ایک کتاب لکھی ھے جوایک جلد میں طبع ھوئی ھے ۔اس کا ذکر بھی ”التوسل بالنبی وبالصالحین،،صفحھ۲۵۲پر ھے۔ اس کتاب کے ص۱۵۱پر سید احمد ابن دحلان کی کتاب ”خلاصةالکلام فی امراء البلد الحرام ،،سے نقل ھے۔
ان شبھات کا ذکر جن سے وھابیت نے تمسک کیا
مناسب یہ ھے کہ پھلے ان شبھات کا ذکر کریںجن سے محمد ابن عبد الوھاب نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تمسک کیا۔
پھر ان کی رد پیش کریں گے اور یہ بیان کریں گے کہ جن باتوں کو اس نے دلیل بنایا ھے وہ سب جھوٹ ،افتراء اور عوام فریبی ھے ۔
پھر ”شواھد الحق،،کے ص۱۷۶میں لکھاھے۔
محمد ابن عبدالوھاب کے پاس اس کے استاد کردی کا خط
محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والوں میں سے ایک اس کے استاد شیخ محمد ابن سلیمان کردی شافعی ھیں انھوں نے منجملہ ان باتوں کے جو خط میں اس کی رد کرتے ھوئے لکھا تھا یہ باتیں بھی لکھی تھیں :
عبدالوھاب کے بیٹے !سلام ھو اس پر جس نے راہ راست کی پیروی کی، میں تمھیں الله کے لئے نصیحت کرتا ھوں کہ اپنی زبان کو مسلمانوں کی ایذا رسانی سے باز رکھو !
چنانچہ اگر کسی شخص کے بارے میں سنو کہ وہ غیر خدا جس سے مدد مانگی جائے اس کے موثر ھونے کا عقیدہ رکھتا ھے تو اسے حق پھچنواؤ اور دلیل پیش کرو کہ غیر خدا میں تاثیر نھیں ھے ۔ اب اگر وہ انکار کرے تو صرف اسے کافر قرار دو ۔ تمھیں مسلمانوں کے سواد اعظم کو کافر قرار دینے کا کوئی حق نھیں ھے جبکہ تم خود سواد اعظم سے منحرف ھو اور جو شخص سواد اعظم سے منحرف ھو اس طرف کفر کی نسبت دینا زیادہ مناسب ھے ،کیوں کہ اس نے اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کی ھے خدا وند عالم نے فرمایا ھے :
” ومن یشاقق الرّسول من بعد ما تبیّن لہ الھدی ویتّبع غیر سبیل المو منین نولّہ ما توّلّیٰ و نصلّہ جھنّم و سائت مصیرا ،،
” کہ جو شخص راہ ھدایت روشن ھو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور اھل ایمان کے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ کی پیروی کرے تو ھم اسے اس کے باطل راستہ پر چھوڑ دیں گے اور اسے جھنم میں جلائیں گے اور یہ برا ٹھکانا ھوگا ،، اور بھیڑ یا گلہ سے الگ ھو جانے والی بکری کو ھی کھاتا ھے ۔ انتھیٰ۔
اس کے بعد لکھتے ھیں کہ : مذا ھب اربعہ میں سے جن لوگوں نے اس کی رد کی ھے ۔ خواہ مشرق کے رھنے والے ھوں یا مغرب کے ، بے شمار ھیں ۔ کسی نے مبسوط کتاب کی صورت میں رد لکھی اور کسی نے مختصر اور بعض نے صرف امام احمد ابن جنبل کے نصوص سے اس کی رد کی ھے تاکہ یہ واضح ھو جائے کہ وہ جھوٹا ھے ، اپنے کو امام احمد بن جنبل کے مذ ھب کی طرف نسبت دینے میں فریب دھی سے کام لے رھا ھے اور اپنے کلام کو اس طرح تمام کیا ھے کھ”ھم نے جو کچہ ذکر کیا اس سے وہ تمام باتیں باطل ھو جاتی ھیں جو محمد ابن عبدالوھاب نے گڑھی ھیں اور جن کے ذریعہ مومنین کو دھوکہ دے رھا ھے اور خود اس نے اور اس کے پیروؤںنے ان کی جان ومال کو مباح قرار دے رکھا ھے ،،۔ (خلاصہ کلام سید احمد دحلان )
کچہ اور افراد جنھوں نے اس کی رد میں کتابیں لکھیں
محمد ابن عبدالوھاب کی رد میں لکھنے والوں میں شیخ عطاء مکی بھی ھیں ، انھوں نے ” انصار الھند ی فی عنق النجدی ،، نام کی کتاب لکھی ۔ اس کا تذ کرہ ” التوصل بالنبی و بالصا لحین ،، میںص ۲۵۰ پر ھے ۔
اسی طرح اس کی رد میں لکھنے والوں میں بیت المقدس کے ایک عالم ھیں جنھوں نے ” السیوف الصقال فی اعناق من انکر علی الاو لیا ، بعد الا نتقال ،، لکھی اس کا تذ کرہ بھی ”التوسل بالنّبی و با لصالحین ،،میں ص ۲۵۰ پر ھے ۔ ایک اور بزرگ شیخ ابراھیم حلمی قادری اسکندری نے بھی اس کی رد کی ھے ، انھوں نے جو کتاب لکھی ھے اس کا نام ” جلال الحق فی کشف احوال اشرار لخلق ،، ھے۔ یہ کتاب اسکندریہ میں ۵۵ ۱۳ء ہ میں طبع ھوئی ھے اس کا تذ کرہ ” التوسل بالنبی وبالصالحین ،،میں ص ۲۵۳ پر ھے ۔
شیخ مالکی جزائری نے بھی اس کی رد کی ھے۔ انھوں نے ” اظھار العقوب ممن منع التو سلّ با لنّبی والو لی الصدوق ،، نام کی کتاب لکھی ھے۔ اسے صاحب کتاب ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، نے ص ۲۵۲ پر ذکر کیا ھے ۔شیخ عفیف الدین عبدالله ابن داؤد جنبلی نے بھی اس کی رد میں ” الصّواعق والر عود ،، نام کی کتاب لکھی۔ اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین ،، کے ص ۲۴۹ پر ھے اور سید علوی ابن احمد حداد کا قول نقل کیا ھے کہ ’ بصرہ ، بغداد ، حلب ، اور احساء کے بزرگ علماء نے بھی اس کتاب کی تائید کی ھے اور اپنی تفریظوں میں بھی اس کی تعریف کی ھے ۔اور اس کی رد لکھنے والوں میں ایک شیخ عبدالله ابن عبد اللطیف شافعی ھیں ۔ انھوں نے ” تجرید الجھاد لمدی الا جتھاد ،، ص ۲۴۹ پر ھے ۔
اس کی رد کرنے والوں میں شیخ محقق محمد ابن الرحمن بن عفالق الحنبلی ھیں انھوں نے کتاب تحکم المقلدین بمن ادّعی تجدید الدین ،،لکھی ۔اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںص۲۴۹پرھے اور یہ بھی ذکر ھے کہ انھوں نے ھر اس مسئلہ کی جسے محمد ابن عبد الوھاب نے گڑھا ھے خوب رد کی ھے۔
اسی طرح طائف کے ایک عالم شیخ عبد الله ابن ابراھیم میر غینی ھیں انھوں نے ”تحریض الاغبیاء علی الاستغاثہ بالانبیاء والاولیاء ،،نامی کتاب لکھی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔
شیخ طاھر سنبل حنفی انھوںنے ”الانقصار للاولیاء الابرار ،،نام کی کتاب لکھی اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۰ پرھے ۔
شیخ مصطفی حمامی مصری نے بھی اس کی رد میں ”غوث العباد ببیان الرشاد ،،نام کی کتاب لکھی جو طبع ھو چکی ھے اس کا ذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۳ پرھے ۔
اس کی رد لکھنے والوں میں علامہ محقق شیخ صالح کواشی تونسی بھی ھیںانھوں نے اس کی ردمیں ”رسالہ مسجعہ محکمة،،لکھا اس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۱ پرھے اور لکھا ھے کہ علامہ موصوف نے اس رسالہ کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی رد کی ھے ۔علامہ مذکور کا یہ رسالہ ”سعادة الدار ین فی الرد علی الفریقین ،،کے ضمن میں طبع ھواھے نیز اس کی رد تونس کے شیخ الاسلام اسماعیل تمیمی مالکی نے بھی لکھی ھے ۔انھوں نے رد علی محمد ابن عبدالوھاب کے نام سے ایک کتاب لکھی جس کا ذکر ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،صفحھ۲۵۱ پرھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذکر کیا ھے کہ مذکورہ کتاب کافی محققانہ اور ٹھوس ھے اس کے ذریعہ ابن عبدالوھاب کے ایک رسالہ کی ردکی گئی ھے یہ کتاب تونس میں شائع ھوئی ھے ۔
علامہ مفتی فاس الشیخ مھدی وزّانی نے بھی اس کی رد کی ھے انھوں نے جواز توسل کے بارے میں ایک رسالہ لکھا ھے،اس کاذکر” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،میںصفحھ۲۵۲ پرھے ۔
اور ابو حامد ابن مرزوق نے ” التوسلّ با لنّبی و با لصالحین،،کے صفحھ۱ پرذکر کیا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں:ائمہ اربعہ کے بعض پیروٴوں نے اس کی اور اس کے مقلدین کی بھت سی عمدہ تالیفات کے ذریعہ ردکی ھے۔
اور حنبلوں میں اس کی رد کرنے والوں میںسے اس کے بھائی سلیمان ابن عبدالوھاب ھیں اور شام کے حنبلیوں میں سے آل شطیٰ اور شیخ عبداللهقدومی نابلسی ھیں جنھوں نے اپنے سفرنامہ میں اس کی رد لکھی اوریہ سب کتابیں”زیارةالنبّی صلی الله تعالی علیہ وسلم والتوسل بہ وبالصا لحین من امتھ،،کے حاشیہ پر شائع ھوئی ھیں اور کھا کہ محمد ابن عبدالوھاب اپنے مقلدین سمیت خوارج میں سے ھے ۔ جن لوگوں نے اس مطلب پہ نص کی ھے ان میں سے علامہ محقق سیّد محمد امین بن عابدین بھی ھیں جنھوں نے اپنے حاشیہ ” ردالمختار علیٰ الدر المختار ،، میں باغیوں کے باب میں اور شیخ صاوی مصری نے جلالین کے حاشیہ میں صریحاً لکھا ھے کہ یہ اور اس کے مقلدین خوارج میں سے ھیں کیوں کہ یہ ” لاالھٰ الّا الله محمدرسول الله ،،کھنے والوں کو اپنی رائے سے کافر کھتے ھیں اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ مسلمانوں کو کافر کھنا خوارج اور دوسرے بدعت کاروں کی علامت ھے جو اھل قبلہ میں سے اپنے مخالفین کو کافر قرار دیتے ھیں ۔
محمد ابن عبدالوھاب اور اس کے ماننے والوں کی بنیادی عقائد فقط چار ھیں ۔ خدا وند عالم کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دینا ، الوھابیت اور ربوبیت دونوں کی توحید کو ایک ماننا ، نبی صلیٰ الله علیہ وآلہ وسلّم ،کی عزت نہ کرنا ، اور مسلمانوں کو کافر قرار دینا ، اور یہ ان تمام عقائد میں احمد ابن تیمیہ کا مقلد ھے اور احمد ابن تیمیہ پھلے عقیدہ میں کرامیہ اور مجسمیہ جنبلیہ ( جو خدا کے لئے ھاتہ پاؤں وغیرہ اعضائے جسم کے قائل ھیں ) کا مقلّد ھے اور چوتھے عقیدہ میں ان دونوں فرقوں اور فرقئہ خوارج کا پیرو ھے ۔
اور وھابیوں کے نزدیک نقل دین کے سلسلہ میں بھی ثقہ اور قابل اعتماد افراد ابن تیمیھ، اس کے شاگرد ابن قیم اور محمد ابن عبدالوھاب ھی ھیں ۔ چنانچہ علماء مسلمین میں سے کسی عالم پر وہ اعتماد نھیں کرتے اور اس کی کوئی قدر نھیں جانتے جب تک کہ اس کے کلام میں کوئی ایسا شبہ نہ پایا جاتا ھو جو ان کی رائے اور خواھش کی تائید کرے چنانچہ یہ وسیع دین اسلام ان کے نزدیک تین مذکورہ بالا افراد میں محصور ھے ۔نیز کتاب التوسل النبّی ص۲۴۹ پراس عنوان کے تحت ”محمد ابن عبدالوھاب کی رد کر نے والے علماء خواہ اس کے ھم عصر ھوں یا اس کے بعد میں آنے والے ان کی ایک جماعت کا تذکرہ کیا ھے جن میںمندرجہ ذیل نام گنائے ھیں :علامہ عبدالوھاب ابن احمد برکات شافعی احمدی مکّی ،علامہ سید منعمی ،جب محمد ابن عبدالوھاب نے ایک ایسی جماعت کو جنھوں نے اپنے سر نھیں منڈائے تھے قتل کردیا تو موصوف نے ایک قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی تھی ۔
علامہ سید عبدالرحمن جو احساء کے بزرگ ترین علماء میں سے ھیں ،انھوں نے ایک زور دار قصیدہ کے ذریعہ اس کی رد کی اس قصیدہ میں سرسٹہ (۶۷)اشعار ھیںجس کا مطلع یہ ھے :
بدت فتنة اللیل قدغطّت الافق وشاعت فکادت تبلغ الغرب والشرقا
(فتنہ شب ظاھر ھوا جس نے افق کو اپنی لپیٹ میں لے لیااور پھیلاتو مغرب اور مشرق تک پھونچ گیا۔)
شیخ عبد الله ابن عیسیٰ مویسی ،شیخ احمد مصری احسائی ،شیخ محمد ابن شیخ احمد ابن عبد الطیف احسائی اور ص۱۰۵پر اس عنوان کے تحت کھ” محمد ابن عبدالوھاب پیغمبر پر درود بھیجنے سے منع کرتا تھا ،،لکھا ھے جس کے الفاظ یہ ھیں اور ”صاحب کتاب ”مصباح الانام وجلاء الظلام فی رد شبہ البدعی النجدی التی اضلّ بِھَا الْعَوام ،،سید علوی ابن احمد ابن حسین ابن سید عارف بالله عبد الله ابن علوی حداد نے اپنی کتاب میں اس کا ذکرکیا ھے ،پھرسید احمد بن زینی دحلان نے اپنے رسالہ ”الدررالسنیةفی الرد علی الوھابیة،،میں لکھا ھے کہ محمد ابن عبدالوھاب پیغمبراسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پرصلوات پڑھنے سے روکتا تھا اور منبروں پر بلند آواز سے صلوات پڑھنے کو روکتا تھا اور ایسا کرنے والے کو اذیّت اور سخت سزا دیتا تھا حتی کہ اس نے ایک نابینا کو جو ایک صالح اور خوش آوازموٴذن تھا قتل کردیا ۔اسے اذان کے بعد منارہ پر صلوات پڑھنے سے روکا تھا لیکن وہ باز نھیں آیا نتیجہ میںاسے جان سے مار ڈالا اور کھا کہ طوائف کے گھر باجہ بجانے والے کا گناہ اس شخص کی بہ نسبت کم ھے جو منارہ پر پیغمبر اسلام پر درود پڑھے۔
اورصفحھ۲۵۰پر لکھا ھے کہ سید علوی ابن احمد حداد نے فرمایا میں نے مذاھب اربعہ کے بے شمار بڑے بڑے علماء کے جوابات دیکھے ھیں یہ علماء حرمین شریفین ،احساء ،بصرہ بغداد ،حلب ،یمن اور دوسرے اسلامی شھروں کے رھنے والے تھے جنھوں نے نثر ونظم دونوں میں جوابات لکھے ۔میرے پاس ابن عبدالرّزاق حنبلی کی اولاد میں سے ایک شخص کا مجموعہ لایا گیا اس میں بھت سے علماء کی جانب سے لکھی گئی رد موجود تھیں ۔
اس کے بعد لکھا ھے :اور میرے پاس شیخ محدث صالح فلانی مغربی ضخیم کتاب لائے جس میں علماء مذاھب اربعہ حنفیہ ،مالکیہ ،شافعیہ ،اور حنبلیہ کے خطوط اور جوابات تھے جو محمد ابن عبدالوھاب کے جواب میں لکھے گئے تھے ۔اورص۲۴۸پر ھے۔ محمد ابن عبدالوھاب کی رد بھت سے علماء نے کی ھے ۔اس کے ھم عصر علماء نے بھی اور بعد میں آنے والے علماء نے بھی اور اب تک علماء اسلام کے اعتراضوں کے تیر اس کو نشانہ بناتے رھتے ھیں ۔
اس کے ھم عصر رد کر نے والوں میں پیش پیش احساء کے حنبلی تھے اور درحقیقت تمام اعتراضات ابن تیمیہ کو نشانہ بنارھے تھے ۔
موٴلف کھتا ھے :ابوالفضل قاسم محجوب مالکی نے بھی ایک رسالہ کے ذریعہ جس کا تذکرہ احمد ابن ضیاف کی کتاب ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان ،،میں ملتا ھے ،محمد ابن عبدالوھاب کی رد کی ھے اور اس کے آراء اور فتاوی کو باطل قرار دیا ھے ۔
اس رسالہ کا ایک حصّہ حاج مالک داوٴد کی کتاب ”الحقائق الاسلامیةفی الرد علی المز اعم الوھابیةبادلّةالکتاب والسنة النبویة ،،سے ملحق کرکے ۱۴۰۳ ئمیں طبع ھوا تھا اور دوبارہ آفسٹ سے ترکیہ میں ۱۴۰۵ ئمیں طبع ھوا ۔
جھاںمیری واقفیت میں علماء مذاھب اربعہ کی جانب سے رد اور طعن محمد ابن عبدالوھاب پرکی گئیں وہ میں نے درج کردیں ۔
احمد ابن تیمیہ حرانی اور اس پر کئے گئے اعتراضات
محمد ابن عبد الوھاب کے امام ، احمد ابن تیمیہ جس کے آراء و افکار کی اس نے تقلید کی ھے اور جس کے عقائد کو اس نے اخذ کیا اور جس پر اپنے دین کی بنیاد رکھی اور نتیجہ میں صراط مستقیم سے نہ صرف خود بھٹکا بلکہ اور بھت سے مسلمانوں کو بھی گمراہ کیا ھے اس کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے جاتے ھیں ۔
چنانچہ علماء مکہ کے بقول جیسا کہ کتاب ” سیف الجبار المسلول علی اعداء الا برار،، طبع ترکیہ ۱۹۷۹ءء کے ص ۲۴ پر ھے کہ : بدبخت ابن تیمیہ کے دور کے علما نے اس کی گمراھی اور اس کے قید کر نے پر اجماع کیا ھے اور اعلان کیا گیا ھے کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدوں پر ھو گا اس کا مال اور خون مباح ھے ۔”کشف الظنون ،،ج۱ ص ۲۲۰ پر ھے کہ علماء نے اس کی رد میں بھت مبالغہ کیا ھے یھاں تک کہ تصریح کی ھے کہ یہ شخص (ابن تیمیہ ) جسے شیخ الاسلام کھا گیا ھے ، کافر ھے ، اس کی کتاب کی جلد ۲ ص ۱۴۳۸ پر ھے :ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العرش وصفتہ ،، میں ذکر کیا ھے کہ خداوند عالم کرسی پر بیٹھتا ھے اور ایک جگہ خالی چھوڑ کر رکھی ھے جھاں رسول صلی الله علیہ و آلہ وسلم بیٹھیں گے۔ اس کو ابو حیان نے کتاب ” النھر،، میں قول خدا ”وسع کرسیہ السمٰوات والارض ،،کے ذیل میں لکھا ھے : میں نے احمد ابن تیمیہ کی کتاب ” العرش ،، میں اسی طرح پڑھاھے ۔ انتھی
اور اسی کتاب کے ص ۱۰۷۸ پر احمد ابن تیمیہ جنبلی کی ایک کتاب بنام ”الصراط المستقیم والرد علی اھل الجحیم ،، کا ذکر کیا ھے اور اسی میں ایسی باتیں لکھی ھیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نھیں ھے مثلا عبد الله ابن عباس کو کافر قرار دینا ۔حصینی نے اپنی کتاب میں اس کی رد لکھی ھے ۔ جامعہ ا زھر کے ایک عالم شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی نے اپنی کتاب ” تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ،،میںص۹ پر ابن تیمیہ کے بارے میں لکھا ھے کہ اس نے اپنی کتاب ”الواسطہ ،، وغیرہ کی تالیف کی تو ایسی باتیں گڑھیں جن سے مسلمانوں کے اجماع کو پارہ کر دیا ۔اس نے کتاب خدا ، صریح سنت اور سلف صالح کی مخالفت کی ھے۔ اپنی فاسد عقل کا مطیع ھوا ھے اور جان بوجہ کر گمراہ ھواھے ۔اس کا معبود اس کی ھوائے نفس ھے۔ اسے یہ گمان ھوا ھے کہ جو کچہ اس نے بیان کیا ھے حق ھے حالانکہ وہ حق نھیں ھے بلکہ یہ جھوٹ اور قول منکر ھے ،اور اسی کتاب کے ص۱۳پر ھے :یہ کتاب ابن تیمیہ کی بھت سی من گڑھت باتوں پر مشتمل ھے جوکتاب و سنّت اور جماعت مسلمین کے مخالف ھے ۔
اور صفحھ۱۰ /۱۱پر ھے:وہ برابر اکابر کے پیچھے پڑا رھا یھاں تک کہ اس کے زمانے والے اس کے خلاف مجتمع ھوئے اسے فاسق قرار دیا اور بدعتی ٹھھرایا بلکہ ان میں سے زیا دہ لوگوں نے اسے کافر قرار دیا ۔
اور صفحہ ۱۷پر ھے :اپنے زمانے میں ابن تیمیہ کا وتیرہ ادب اورھر زمانے میں اس کے پیروٴوں کا یھی طریقہ رھا ھے کھ:
”یقولون آمنّا بالله و بالیوم الاخروما ھم بمومنین ،یخادعون اللهوالذین آمنوا وما یخدعون الاانفسھم وما یشعرون ،،یہ لوگ کھتے ھیں کہ ھم الله اور روز قیامت پر ایمان لائے ھیں حالانکہ یہ مومن نھیں ھیں ۔یہ الله کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ھیں حالانکہ یہ خود اپنے کو دھوکہ دے رھے ھیں اور انھیں اس کا احساس نھیں ھے ۔،،
موٴلف کھتا ھے :یہ منافقیں کی صفت ھے جسے خدا وند عالم نے اپنی کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ھے ۔
اور یافعی نے ”مرآةالجنان ،،ج۴/ص۲۴۰طبع حیدرآباد دکن ۱۳۳۹ھئمطبع دائرةالمعارف النظامیہ میں ابن تیمیہ کے بعض مھمل اقوال کا ذکر کیا ھے مثلاًلکھا ھے:خدا حقیقتاًعرش پر بیٹھا ھے اور الفاظ وآواز سے گفتگو کرتا ھے پھرلکھا ھے کہ دمشق میںیہ اعلا ن کردیا گیا کہ جو شخص ابن تیمیہ کے عقیدہ پر ھوگا اس کی جان اور اس کا مال مباح ھے ۔
اور صفحھ۲۷۸پر۷۲۸ ئکے واقعات کے سلسلہ میں ھے :اس (ابن تیمیہ )کے عجیب وغریب مسائل ھیں جن کے بارے میں اس پر طعن وتشنیع کی گئی ھے اورجن کے سبب مذھب اھل سنّت ترک کرنے کی خاطر اسے قید کیا گیا ۔پھر اس کی بھت سی برائیوں کو شمار کراتے ھوئے لکھا ھے کھ:اس کی قبیح ترین برائی یہ تھی کہ اس نے پیغبر اسلام صلّی الله علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کر دیا تھا ۔آپ پر اور دوسرے اولیاء خدا اور اس کے برگزیدہ بندوں پر طعن و تشنیع کی تھی اور اسی طرح مسٴلہ طلاق وغیرہ کے سلسلہ میں اس کا مسلک اور جھت کے بارے میں اس کا عقیدہ اور اس بارے میں جوباطل اقوال اس سے نقل ھوئے ھیں یہ سب اور اس کے علاوہ اور بھی بھت سی باتیں اس کے قبائح میں سے ھیں ۔
شیخ ابن حجر ھیتمی نے ”تحفہ ،،میں لکھا ھے :خدا کی جسمیت یا اس کے جھت میں ھونے کا دعویٰ ایساھے کہ اگر کوئی اس کا عقیدہ رکھے تو کافر ھے ۔سفینةالراغب ص۴۴ طبع بولاق مصر ۱۲۵۵ ئ
شیخ یوسف نبھانی نے اپنی کتاب ”شواھدالحق ،،کے صفحہ ۱۷۷پر لکھا ھے :چوتھا باب ،ابن تیمیہ کے اوپرعلماء مذاھب اربعہ کے اعتراضات کی عبارتیں اور اس کی کتابوں پر کئے گئے ایرادات اور بعض اھم مسائل جیسے خدا وندعالم کا ایک خاص جھت وسمت میں ھونا ،کے بارے میں اھل سنّت کی مخالفت کے بیان میں ۔پھر ایک جماعت کا ذکر کیا ھے جنھوں نے اس پر طعن کیاھے لکھا ھے :
”انھیں طعن کرنے والوں میں سے امام ابوحیان ھیںجو ابن تیمیہ کے دوست تھے ۔جب اس کی بدعتوں سے با خبر ھوئے تو اس کو بالکل چھوڑ دیا اور لوگوں کو اس سے دور رھنے کی تاکید کی ۔اور انھیں میں سے امام عزالدین ابن جماعةھیں انھوں نے اس کی رد کی ھے اور اسے برا کھا ھے ۔،،
انھیں میں سے ملا علی قاری حنفی ھیں انھوں نے شفاء کی شرح میں لکھا ھے : حنبلیوں میں سے ابن تیمیہ نے افراط سے کام لیا چنانچہ اس نے زیارت نبی کے لئے سفر کرنے کو حرام قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے مقابل والے نے بھی افراط سے کام لیا ھے چنانچہ کھا ھے :زیارت کا باعث تقرب خدا ھونا ضرویات دین میں سے ھے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ھے ۔اور شاید یہ دوسرا قول حق سے قریب ھے کیونکہ جس کے مستحب ھونے پر اجماع ھو اس کا حرام قراردینا کفر ھوگاکیونکہ یہ مباح متفق علیہ کے حرام قرار دینے سے بڑہ کر ھے۔
اور انھیں میں سے شباب الدین خفاجی حنفی ھیں جن کے کلام کو اس طرح ذکر کیا ھے :ابن تیمیہ نے ایسی خرافات باتیں لکھی ھیں جن کا ذکر کرنا مناسب نھیں کیونکہ یہ باتیں کسی عقلمند انسان کی ھو ھی نھیں سکتیںچہ جائیکہ ایک پڑھے لکھے آدمی کی زبان اورقلم سے صادر ھو ں ۔چنانچہ ابن تیمیہ کا یہ کھنا کہ ”قبر پیغمبر اسلام کی زیارت حرام کام ھے ،،کذب محض،لغو ھے اوربکواس ھے ۔ اس کا یہ کھنا ”اس کے بارے مےں کوئی نقل موجود نھیں ھے ،،باطل ھے کیونکہ امام مالک ،امام احمد ،اور امام شافعی رضی اللهعنھم کا مذھب یہ ھے کہ سلام ودعا میںقبر شریف کی طرف رخ کرنا مستحب ھے اور یہ بات ان بزرگوں کی کتابوںمیں درج ھے۔
اور انھیںمیں سے امام محمدزرقانی مالکی ھیں ۔(بنھانی نے ان کے کچہ کلام کو مواھب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ھے جسے ھم یھاںپیش کررھے ھیں:
”لیکن ابن تیمیہ نے اپنے لئے ایک جدید مذھب ایجاد کیا ھے اور وہ ھے قبروں کی تعظیم نہ کرنا ۰۰۰ کیا یہ شخص جس بات کا علم نھیں رکھتا اس کے جھٹلانے سے شرماتاھے ؟اور ابن تیمیہ کی طعن وتشنیع کے سلسلے میں اپنی پھلی والی بات دھرائی ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کمال الدین ز ملکانی شافعی متوفی۷۲۷ھئنے کشف الظنون میں ان کی ایک کتاب”الذرةالمضیہ فی الرد علی ابن تیمیہ ،،کا ذکر کیا ھے انھوں نے ان مسائل میں اس سے مناظرہ کیا ھے جن میں وہ مذاھب اربعہ سے منحرف ھوگیا ھے اور ان میں قبیح ترین مسئلہ اس کا انبیاء وصالحین خصوصاًسیدالمرسلین کی قبروں کی زیارت اور آپ کے وسیلہ سے خدا سے مانگنے کو منع کرنا ھے ۔
اور انھیں میں سے امام کبیرشھیر تقی الدین سبکی شافعی ھیں(ابن تیمیہ پر اعتراضات کو ان کی کتاب شفاء السقام فی زیارت خیر الانام علیہ السلا م سے نقل کیا ھے) اس کتاب میں انھوں نے اسے بدعتی کھا ھے ۔ اور انھیں میں سے حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی ھیں(انھوں نے اپنی کتاب فتح الباری فی شرح البخاری میں اس پر رد کی ھے )اور انھیں میں سے امام عبد الروٴوف منادی شافعی ھیں انھوں نے شرح شمائل میں کھا ھے :اور ابن قیّم کا اپنے شیخ ابن تیمیہ کے حوالے سے یہ کھناکہ ”مصطفی صلّی الله علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے پرور دگارکو اپنے دونوں شانوں کے درمیان اپنے ھاتہ رکہ کر دکھائے تو خدااس جگہ کو بالوں کو نوازا ۔اس کی ردشارح یعنی ابن حجرمکّی نے اس طرح کی بات ان دو نوں (ابن تیمیہ وابن قیم)کی بد ترین گمراھی ھے اور یہ ان دونوں کے اس عقیدہ پر مبنی ھے کہ خدا جھت اور جسم رکھتا ھے۔خدا وند عالم ظالموں کے اس قول سے کھیں بزرگ وبرتر ھے اس کے بعد منادی نے لکھا ھے :اب میں کھتا ھوں ان دونوںکا بدعتیوں میں سے ھونا مسلّم ھے۔
اور انھیں میں سے ھمارے دوست عالم با عمل ،فاضل کامل ، شیخ مصطفی ابن احمد سطی جنبلی دمشقی حفظ الله وجزاہ الله احسن الجزاء ھیں ۔ مو صوف نے ایک مخصوص رسالہ تالیف کیا ھے جس کا نام ( النقول الشرعیہ فی الرد علی الو ھابیة ) ھے۔انھیں میں سے امام شھاب الدین احمد بن حجر ھیثمی مکی شافعی ھیں انھوں نے ابن تیمیہ پر بھت سخت ردو تنقید کی ھے ۔
اور نبھانی نے شواھدالحق کے ص ۱۹۱ پر پھلے تو ان لوگوں کے نام نقل کئے ھیں جنھوں نے ابن تیمہ کو طعن و تشنیع کی اور جن کا ذکر ابھی گزرا ھے ۔ اس کے بعد کھتے ھیں : لھذا ثابت ھوا اور آفتاب نصف النھار کی طرح روشن ھوا کہ علماء مذ ھب اربعہ نے ابن تیمیہ کی بد عتوں کے رد کرنے پر اتفاق کیا ھے اور کچہ علماء نے اس کی نقل کی صحت پر طعن کیا ھے تو بھلا جن مسائل میں دین سے انحراف کیا ھے اور اجماع مسلمین کی مخالفت کی ھے خاص کر ان مسائل میں جو سید المر سلین سے متعلق ھیں اس کی کھلی ھوئی غلطی پر سخت طعن وتشنیع کیوں نہ کرتے ۔
حنفیوں میں سے جنھوں نے اس کی نقل کے صحیح ھونے پر طعن کیا ھے شھاب الدین خفاجی شارح الشفا ء ھیں جن کا ذکر گزر چکا ھے ۔ اور مالکیوں میں سے امام زرقانی ھیں شرح مواھب میں ، یہ تذ کرہ بھی گزر چکا ھے ۔ اور شافیوں میں سے امام سبکی ھیں جیسا کہ ان کی کتاب شفاء السقام میں مذ کور ھے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ھے کہ نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ کی رائے غلط ھے بلکہ اس کے نقل کئے ھوئے وہ احکام شرعیہ بھی صحیح نھیں ھیں جس کے ذریعہ اس نے اپنی بدعت کی تقویت پر استدلال کیا ھے اور انھیں مذاھب اربعہ کی طرف منسوب کیا ھے حالانکہ ائمہ مذا ھب اربعہ نے وہ احکام نھیں بیان کئے ھیں ۔اسی طرح اس کے نقل کی عدم صحت کا ذکر امام ابن حجر ھیثمی نے بھی اس کے اوپر اپنے اعترا ضات میں کیا ھے اور یہ بات پو شیدہ نھیں ھے کہ یہ چیز ایک عالم کے اندر بھت بڑاعیب اور بھت بڑا اخلاقی جرم ھے جو اس پر اعتماد کو ضعیف کر دیتا ھے اور اس کے منقولات کے اعتبار کو ساقط کر دیتا ھے چاھے وہ احفظ حفاظ اورا علم علماء میں سے ھو اور ابن تیمیہ کے منقو لات کے معتبر نہ ھونے کی تقویت اس قول سے بھی ھوتی ھے جو اس کے بارے میں حافظ عراقی نے کھا ھے۔ کلام نھبانی تمام ھوا ۔ شواھد الحق ص ۱۷۷تا ۱۹۱
ابن تیمیہ کا ذکر ڈاکٹر حامد حفنی داوؤد حنفی نے بھی اپنی کتاب ( نظرات فی الکتب الخالدة) ص ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۳۹۹ء دارالمعلم للطباعة میں کیا ھے اور اسے بدعتی قرار دیا ھے اور حاشیہ میں اس کلمہ پر نوٹ لگایا ھے کہ : اکثر علماء اھل سنّت نے اس کے بد عتی ھونے کا قول اختیار کیا ھے رہ گئے صوفیہ تو انھوں نے اس پر اجماع کیا ھے ، امام تقی الدین سبکی اور ابن تیمیہ کے درمیان فقہ وعقیدہ کے اکثر گوشوں کے بارے میں خط وکتابت ھوتی ھے ۔دیکھئے ھماری کتاب (التشریع الا سلامی فی مصر ) انتھی ۔
عبدالغنی حمادہ اپنی کتاب ( فضل الذاکرین والرد علی المنکر ین ) طبع سوریہ اَدْلَبْ ۹۱ ۱۳ء ص ۲۳ پر اس طرح وھابیت پر طعن کر تے ھیں :
شیخ وھابیت ابن تیمیہ کے بارے میں علامہ مصر علاء الدین بخاری نے لکھاھے کہ : ابن تیمیہ کافر ھے جیسا کہ اس کے زمانے کے بزر گ عالم زین الدین حنبلی نے کھا ھے کہ میرا اعتقاد یہ ھے کہ ابن تیمیہ کافر ھے اور کھتے تھے کہ امام سبکی رضی الله عنہ ابن تیمیہ کی تکفیر سے معذور ھیں کیونکہ اس نے امت اسلامیہ کو کافرقرار دیا ھے اور اسے قول خدا :”اتخذ وااحبار ھم ورھبانھم ار بابا من دون الله ،،کی تفسیر کر تے ھوئے یھودو نصاریٰ سے تشبیہ دی ھے۔ علماء مذاھب نے لکھا ھے کہ : ابن تیمیہ زندیق ھے کیونکہ وہ پیغمبر اسلام اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی توھین کرتا تھا اور اس کی کتابیں خدا وند عالم کی تشبیہ اور اسے صاحب جسم قرار دینے سے بھری ھوئی ھیں ۔
اور اس کے زمانے کے علامہ ابن حجر رضی الله عنہ نے کھا ھے ۔ ابن تیمیہ ایک ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراھ، اندھا ، بھرا اور ذلیل کیا ھے ۔اس کے خلاف مذاھب اربعہ میں سے اس کے دور کے علماء اٹہ کھڑے ھوئے اور اکثر نے اس کو فاسق اور کافر قرار دیا ھے ۔علماء نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ نے صحابہ کرام رضی الله عنھم کو کافر قرار دینے میں خوارج کے مذ ھب کا اتباع کیا ھے ۔
اور ائمہ حفاظ نے کھا ھے کہ ابن تیمیہ خوارج میں سے ھے ،جھوٹا ھے ، شریر ھے ، افترا پر داز ھے ۔”فضل الذا کرین ،،میں لفظ بہ لفظ مو جود ھے ۔
اور ابو حامد مرزوق شامی نے اپنی کتاب ۔” التوسل بالنّبی وبا لصالحین ،،مطبوعہ تر کیہ طبع آفسٹ ۸۴ ۱۹ ءء کے ص ۴ پر لکھا ھے:
"ایک بار ابن تیمیہ نے دمشق کے ممبر پر جانے کے بعد کھا : " خدا وند عالم اسی طرح عرش سے اتر تا ھے جیسے میں ممبر سے اتر رھا ھوں اور ایک زینہ نیچے اتر کر دکھایا ھے ، ، اس کے بعد ابو حامد نے لکھا ھے کہ اس واقعہ کو دیکھنے والوں میں فقیہ سیاح ابن بطوطہ مغری بھی ھیں اور ” التوسل بالنّبی وبالصالحین ،،کے ص ۶ پر ابن تیمیہ سے نقل کیا ھے کہ ابن تیمیہ نے لکھا ھے کھ” خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ،، اور اسی کتاب کے ص ۲۱۶ پر کتاب ” دفع شبہ من شبّہ وتمرّد ،،طبع مصر ۵۰ ۱۳ء ہ مطبع عیسیٰ حلبی ، تصنیف ابو بکر حصنی دمشقی متوفی ۸۲۹ ء سے نقل کر تے ھوئے لکھا ھے کہ مصنف مذکور نے ابن تیمیہ کے بارے میں کھا ھے :” میں نے اس خبیث (ابن تیمیہ ) کے کلام کو دیکھا جس کے دل میں انحراف کا مرض ھے جو فتنہ پیدا کر نے کے لئے متشابہ آیات و احادیث کا اتباع کر تا ھے اور عوام و غیر عوام میں سے ان لوگوں نے اس کی پیروی کی جس کے ھلاک کر نے کا خدا نے ارادہ کیا تھا ، میں نے اس میں ایسی باتیں پائیں جن کو ادا کر نے کی مجھ میں قدرت نھیں ھے اور نہ میری انگلیوں اورقلم میں انھیں تحریر کر نے کی جراٴت ھے کیو نکہ اس نے پر وردگار عالم کی اس بات پر تکذیب کی ھے کہ اس نے کتاب مبین میں اپنے کو منزہ قرار دیا ھے ۔اسی طرح اس کے بر گزیدہ اور منتخب افراد خلفاء راشدین اور ان کے صالح پیروکاروں کی توھین اور عیب جوئی کی ھے لھذا میں نے ان کا ذکر کرنا مناسب نہ جانا اور صرف ان باتوں کو ذکر کیا جنھیں ائمہ متقین نے ذکر کیا تھا اور جن پر ان کا اتفاق ھے وہ یہ کی ابن تیمیہ بد عتی اور دین سے خارج ھے ۔
حافظ ابن حجر نے ” الفتاوی الحدیثیہ ،، ص ۸۶ پر لکھا ھے کہ ” ابن تیمیہ ایسا بندہ ھے جسے خدا نے رسوا ، گمراہ ، اندھا ، بھرہ ، اور ذلیل بنا دیا ھے اور اسی بات کی تصریح ان اماموں نے بھی کی ھے جنھوں نے اس کے فاسد ھونے اور اس کی باتوں کو جھوٹ ھونے کا بیان کیا ھے اور جو شخص اسے جاننا چاھتا ھو وہ امام مجتھد ابوالحسن سبکی جن کی ،امامت ، جلالت ، شان اور مرتبہ اجتھاد تک پھنچنے پر اتفاق ھے ان کے اور ان کے فرزند تاج اور شیخ امام عزّ بن جماعہ اور شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، میں سے ان کے ھم عصر علماء کے کلام کو ملا حظہ کریں ، ابن تیمیہ نے صرف متاخرین صوفیہ کے اوپر اعتراض کرنے پر اکتفاء نھیں کی ھے بلکہ عمر ابن خطاب اور علی ابن ابی طالب رضی الله عنھما ،، جیسے حضرات پر بھی اعتراض کیا ھے۔
خلاصہ یہ کہ اس کے کلام کی کوئی قدرو قیمت نھیں ھے اور چاھئے کہ اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ بدعتی گمراہ ،گمراہ کن ، جاھل اور غلو کر نے والا ھے ، خدا اس کے ساتھ اپنے عدل سے معاملہ کرے اور ھمیں اس کے طریقہ ، عقیدہ ، اور عمل سے محفوظ رکھے ۔ آمین ۔ کلام ابن حجر تمام ھوا اسے ھم نے تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد ص ۹ طبع مصر ۱۳۱۸ ء ہ تصنیف شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی سے نقل کیا ھے۔
اس کے بعد کھا کہ وہ خدا کے لئے سمت کا قائل ھے جس کا لازمی نتیجہ یہ ھے کہ وہ خدا کے لئے جسمیت ، محاذات ،اور استقرار کا قائل ھے ۔
کتاب ”التوسل با لنّبی وبا لصالحین ،، میں ابن تیمیہ پر اور بھی بھت سے طعن ھیں جن کو چند عناوین کے تحت ذکر کیا ھے ، جو حسب ذیل ھیں ۔
۰ علّامہ شھاب الدین احمد بن یحییٰ حلبی کی جھت کے بارے میں ابن تیمیہ پر رد۔
۰ ابن تیمیہ کے اس زعم کا ابطال کہ خدا حق تعالیٰ عرش کے اوپر ھے ۔
۰ عقیدہ ابن تیمیہ جس کے سبب اس نے جماعت مسلمین سے مخالفت کی ھے اور انھیں برا کھا ھے جسے قر آن میں طعن کر نے والے او باش ملحدین سے حاصل کیا ھے ۔
۰ ابن تیمیہ کی تمام علماء اسلام سے مخالفت ۔ 


   ابن تیمیہ کے فتوٴوں کے نمو نے
عالم کبیر شیخ محمد بخیت حنفی عالم جامعہ ا زھرنے اپنی کتاب ”تطھر الفواد من دنس الا عتقاد ،،طبع مصر مطبوعہ ۱۳۱۸ء کے ص ۱۲ پر اس شخص کے کچہ فتوؤں کا ذکر کیا ھے جن میں سے بعض نمو نے ھم یھاں پر پیش کر رھے ھیں تا کہ ایک غیر جانبدارقاری کو اس کے انحراف ، فاسد عقیدے اور منحرف فتوؤں میں علماء اسلام سے اس کی مخالفت کا زیا دہ سے زیا دہ علم ھو سکے ۔
(۰) ” اگر کو ئی شخص جان بو جہ کر نماز تر ک کر دے تو اس کی قضا وا جب نھیں ھے۔“
(۰) ” حیض والی عورت کے لئے خانہ ء کعبہ کا طواف کرنا جائز ھے اور اس پر کوئی کفارہ نھیں ھے۔“
(۰)” تین طلاق ایک طلاق کی طرف پلٹایا جائے گا“ اور اس بات کا دعویٰ کر نے سے پھلے خود اسی نے نقل کیا ھے کہ اجماع مسلمین اس کے بر خلاف ھے ۔
(۰) ” جس اونٹ کے پیر کی موٹی والی نسیں کاٹ دی گئی ھوں وہ کاٹنے والے کے لئے حلال ھے اور وہ جب تاجروں سے لے لیا جائے تو زکوٰة کے عوض کافی ھے اگر چہ زکوٰة کے نام سے نہ لیا گیا ھو ۔،،
(۰)” بھنے والی چیزوں میں اگر جاندار مثلا چوھا مر جائے تو یہ چیزیں نجس نھیں ھو تیں“
(۰)” جنب کو چاھئے کہ حالت جنا بت میں نافلہ شب پڑھے اور تا خیر نہ کرے کہ فجر سے پھلے غسل کر کے پڑھے گا اگر چہ اپنے ھی شھر میں ھو ۔“
(۰) ” وقف کرنے والے کی شرط کا کوئی اعتبار نھیں ھے بلکہ اگر اس نے شا فعیہ پر وقف کیا ھے تو حنفیہ پر صرف کیا جائے گا اور بر عکس ،اور قاضیوں پر وقف کیا ھے تو صو فیہ پر صرف کیا جائے گا ۔،،
اسی طرح عقائد اور اصول دین کے مسائل میں بھی انحراف کا مر تکب ھوا ھے۔
(۰)” ْ خدا وند عالم محل حوا دث ھے“تعالیٰ عن ذالک علوا کبیرا
(۰)”خدا مرکب ھے اس کی ذات ویسے ھی محتاج ھے جیسے کل اپنے جزء کا محتاج ھوتا ھے ”تَعَا لیٰ عَنْ ذَالِکَ،،
(۰)”خدا جسم رکھتا ھے،وہ خاص سمت میں ھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھوتا ھے ،وہ ٹھیک عرش کے برابر ھے نہ چھوٹا نہ بڑا“(خدا وندعالم اس قبح وبد ترین افترا ء اور صریحی کفر سے کھیں بالا تر ھے ۔خدا اس کے پیروٴوں کو رسوا کرے اور اس کے معتقدین کا شیرازہ منتشر کرے ) (۰)”جھنم فنا ھوجائے گی ،انبیاء معصوم نھیں ھیں۔“
(۰)”رسول الله صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی وقعت نھیں ھے ۔ان سے توسل نہ کیا جائے۔“
(۰)”پیغمبر اسلام کی زیا رت کے لئے سفر کرنا معصیت ھے اس سفر میں نمازقصر نھیں ھوگی۔“
وہ کتا بیں جو ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں:
مذا ھب اربعہ کے علماء کی ایک جماعت نے ابن تیمیہ کی رد میں اس کے عقائد پر طعن کر تے ھوئے اور اس کے منحرف فتوؤں کو باطل کرنے کی غرض سے کتابیں لکھی ھیں جن میں سے کچہ حضرات کے نام یھاں درج کرتے ھیں ۔
علی بن محمد میلی جمالی تو نسی مغری مالکی ۔انھوں نے ”السّیوف المشر قیہ لقطع اعناق القائلین با لجھة والجسمیة“لکھی ” ھد یة العا ر فین“ ج ۱ ص ۷۷۴ اور ایضاح المکنون ج۲ ص ۳۷ میں اس کا تذ کرہ ملتا ھے ۔
شھا ب الدّین احمد بن یحییٰ جبرئیل شافعی ۔انھوں نے ” خبرالجھة،، لکھی ۔دیکھئے ”ھد یة العا رفین “ج ۱ ص ۱۰۸ اور ابو حا مد مرزوق کے بقول یہ بھترین رسالہ ھے ۔ ”التوسل بالنبی وبالصالحین“
تقی الدّین ابی بکر حصینی ۔انھوںنے ” دفع شبہ وتمرّد،، لکھی جو ۱۳۵۰ھء میں مصر میں طبع ھوئی اس میں ابن تیمیہ کے جھت اور تشبیہ کے قول کو باطل کیا گیا ھے۔
محمد حمید الدّ ین حنفی دمشقی فر غانی ۔ ان کی کتاب کا نام ”الردّ علیٰ ابن تیمیہ فی الا عتقادات،، ھے ۔معجم المئو لفین تا لیف عمر رضا کحالہ ج ۸ ص ۳۱۶ ۔
شیخ نجم الدین ابن ابی الد رالبغدا دی ۔انھوں نے ” رد علی الشیخ ابن تیمیھ،، لکھی۔ اس میں مو صوف نے ابن تیمیہ کے ایک رسالہ کاجواب دیا ھے ۔دیکھئے ” کشف الظنونج ۲ ص ۲۷ ۱۵
شیخ محمد ابن علی مازنی ۔انھوں نے ” رسالة فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئالة الطلاق،، اور رسالہ فی مسئلة الزیارت“ لکھی ۔معجم المئو لفین تالیف عمر رضا کحالہ ج ۱۱ ص ۳۱ ۔
۰ عیسیٰ ابن مسعود منکالاتی مالکی ۔ انھوں نے ” الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلة الطلاق“ لکھی ھے ۔ اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین میں ج ۸ ص ۳۳ پر کیا ھے ۔
۰ شیخ کما ل الدین محمد ابن علی بن شافعی ود مشقی معروف بہ ابن زملکانی ۔انھوں نے ” الدرة المضیة فی الرد علی ابن تیمیھ“ لکھی اس کا ذکر ” کشف الظنون“ ج ۱ ص ۷۴۴ اور ” ھدیة العارفین“ج ۲ ص ۱۴۶،اور” معجم المولفین“ ج ۱۱ ص ۲۵ پر ھے ۔
احمد ابن ابر ھیم سرو جی حنفی ۔ انھوں نے ” اعتراضات علیٰ ابن تیمیہ فی علم الکلام،،
لکھی ۔دیکھئے معجم المئو لفین ج ۱ ص ۱۴۰ ۔
کمال الدین ابو القاسم احمد بن محمد شیرازی۔ انھوں نے ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی : ”رد علی ابن تیمیہ،،جس کا تذ کرہ معجم المئو لفین ج ۲ ص ۱۵۰ ، پرھے ۔
شیخ تقی الدین سبکی ، انھوں نے بھی ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی ھے ، جس کا تذ کرہ ” کشف الظنون،، ج ۱ ص ۸۳۷ اور ”ھدیةالعارفین، ، ج ۱ ص ۷۲۱ پر ھے اور شاید یھی ”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ ھو جس کے بارے میں شیخ محمد نجیت مطبعی حنفی نے اپنی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد،، ص ۱۳ پر اس طرح لکھا ھے کہ یہ کتاب غرض مقصود کو پورا کرتی ھے۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو کچہ بیان کیا ھے اس کی بنیاد کو ختم کر تی رھی ھے ، اس کے ار کان کو متز لزل اور اس کے آثار کو مٹاتی ھے ، اس کے جھوٹے وعدوں کو فنا کر نے والی ھے اس کے فساد کو ظاھر اور اس کے عناد کو واضح کر دیتی ھے“۔
شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی عالم جامعہ ا زھر۔انھوں نے ” تطھیر الفوادمن دنس الا عتقاد،، لکھی۔ اس میں مصنف مذ کور نے ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد کی ھے ۔یہ مصر میں ۱۳۱۸ ء میں طبع ھوئی ھے ۔اور چوتھی مر تبہ ۰۵ ۱۴ ء میں تر کیہ میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔
شیخ نعمان ابن محمود آلوسی بغدادی ۔ انھوں نے ” جلاء العینین فی محاکمة الا حمدین،، ”احمد ابن تیمیہ اور احمد بن حجر ھیثمی“ لکھی ۔ اس کا ذکر اسماعیل پاشا نے ایضاح المکنون ج ۱ ص ۳۶۳ پر اور عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین ج ۱۳ ص ۱۰۷ پر کیا ھے ۔
ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد میں ھمارے علماء اعلام کی طرف سے جتنا لکھا گیا ھے ان میں سے جتنے افراد سے میں آگاہ ھو سکا ان کا ذکر یھاں کر دیا۔
جو کتابیں وھابیت کی رد میں لکھی گئیں:
وہ کتابیں جنھیں علماء مذا ھب اربعہ نے محمد ابن عبدالوھاب کے ایجاد کردہ وھابی مذ ھب کی رد میں لکھا ھے وہ بھی بھت ھیں جن میں سے کچہ مصنفین اور ان کی کتابوں کے نام ھم یھاں پر درج کر رھے ھیں ۔
سب سے پھلے وھا بیت کی رد میں محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی سلیمان بن عبد الو ھاب نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”الصواعق الا لھیة فی الرد علی الو ھا بیة“رکھا ۔ اس کے بعد تو حجاز ، مصر،ھند ،شام اور عراق کے علماء اھل سنت والجما عت بلکہ را فضیوں نے بھی پے در پے وھابیت کی رد میں کتابیں لکھیں ۔
شیخ سلیمان نے اس کتاب کے ذریعہ حسن بن عیدان کا جواب دیا ھے کیونکہ اس نے اس مذ ھب کے بطلان پر دلیلیں مانگیں تھیں ۔اس کتاب میں مو صوف نے وھابیوں کی جھالت ،گمراھی اور ان کے اندر استنباط کی صلا حیت نہ ھونا ثابت کیا ھے ۔اسی طرح نذر ، شفاعت ،دعا اور میت سے سوال وغیرہ جیسے مسائل میں اپنے فاسد عقائد کی مخالفت کر نے والوں کو کافر قرار دیتے ھیں جنھیں تمام مسلمان انجام دیتے ھیں ، اور اس میں شر عا کوئی قباحت نھیں جانتے خواہ اھل سنت ھوں یا غیر ۔ ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ھیں ، ھر ایک مسئلہ کو معتبر شرعی دلیلوں اور متواتر حدیثوں اور ائمہ اربعہ رضی الله عنھم سے حکایت شدہ اجماعات کے ذریعہ ثابت کرتے ھیں ، اس کتاب میں وھابیوں کی باطل آراء کو غلط ثابت کیا ھے ۔یہ کتاب تیسری مرتبہ استا نبول ، تر کیہ میں ۱۳۹۹ء میں طبع ھوئی ۔
شیخ سلیمان رحمتہ الله علیہ نے اس کتاب کے ص ا۴ پر وھابیوں کو مخاطب کرتے ھوئے لکھا ھے : رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اسی طرح اھل علم نے فرقہ نا جیہ کے اوصاف بیان کئے ھیں اور تم میں اس فرقہ کی ایک صفت بھی نھیں پائی جاتی ۔ مو صوف نے ان کے دعویٰ کی تردید کی ھے کہ قیامت کے دن وھابی نجات پائیں گے کیوں کہ ان کے اندر تھتر ھلاک ھونے والے اور دوزخی فرقوں میں سے ایک نجات پانے والے فر قہ کے او صاف نھیں پائے جاتے ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں سے ایک حمد الله واجوی ھیں انھوں نے ”البصائر المنکری التو سل با ھل المقابر“لکھی جو استانبول میں ۱۹۷۵ءء میں شائع ھوئی۔
ان ھی میں عامر قادری استاد دارالعلوم قادریہ کراچی پاکستان ھیں انھوں نے” المدارج السنیة فی رد الو ھابیة۔“ لکھی جو ۱۹۷۷ءء میں طبع ھوئی اور دوبارہ تر کیہ میں ۱۹۷۸ءء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی اسے حسین حلمی ابن سعید استانبولی نے شا ئع کیا۔
وھابیوں کی رد میں ابراھیم بن عثمان سمنودی مصری نے بھی ” سعادة الدارین فی الر د علی الفر قتین الو لھا بیة و مقلد ة الظاھر یة“ نام کی کتاب لکھی جو مصر میں ۱۳۲۰ء میں دو جلدوں میں شائع ھوئی ۔
اور شیخ احمد سعید سر ھند ی نقش بندی نے ”الحق المبین فی الرّ د علی الوھابین“لکھی اس کا ذکر بغدادی نے ” ھد یة العا رفین“ ج ۱ص ۱۹۰پر اور عمر رضا کحالہ نے ”معجم المو لفین“ ج ۱ ص ۲۳۲ پر کیا ھے
اسی طرح ان کی رد میں لکھنے والوں میں ابو حامد بن مرذوق شامی ھیں جنھوں نے ” التوسل با لنبی و بالصالحین“ لکھی جو تر کیہ میں ۱۹۸۴ءء میں بذ ریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔
اوروھابیوںکی رد لکھنے والوں میں بغداد میں طریقئہ نقشبندیہ کے پیشوا مرحوم شیخ دا وؤد بین سلیمان بغدادی ھیں جو خالدیہ نقشبندیہ کے خلفاء میں سے ھیں انھوں نے ۔ ” المنحہ الو ھبیة فی ردالوھابیة“ لکھی جو تیسری مر تبہ استانبول تر کیہ میں ۱۹۷۸ء ء میں طبع ھو ئی۔
اس کتاب میں انھوں نے ثابت کیا ھے کہ وھابی جاھل ھیں اور احادیث صحیحہ ، ادلہ عقلیہ اور مذاھب اربعہ کے تمام علماء کی مخالفت کرتے ھیں۔ اس کتاب میں ان کے تمام فاسد عقائد اور لغو آراء کو عقلی ونقلی دلیلوں سے باطل کیا ھے ۔اور اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ انبیاء زندہ ھیں ، شفاعت کریں گے ، مردے زندوں کی گفتگو سنتے ھیں ، زیارت کر نے والے سے آگاہ ھوتے ھیں ، انھیں دیکھتے ھیں ، اور ان کے اقوال سے واقف ھوتے ھیں اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ مردوں سے توسل صحیح ھے اور وھابی ان سب باتوں کا انکار کر تے ھیں یھاں تک کی اس بات کو بھی نھیں مانتے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اپنے زیارت کر نے والوں کا علم رکھتے ھیں اور ان کے کلام کو سنتے ھیں ۔
اور وھابی جو اپنے عقائد کے مخالف مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ھیں ان کی رد میں ایک کتاب لکھی گئی ھے جس کا نام ”صلح الا خوان الرد علی من قال بالشرک والکفران،،ھے ۔ اس کا تذ کرہ بغدادی نے ۔ ”ھدیة العارفین،، ج ۱ ص ۳۶۳ پر کیا ھے۔
انھیں میں ابر ھیم ابن عبدالقادر ریا حی تو نسی مالکی بھی ھیں انھوں نے ” ردّ علی الوھابیة“کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے ”معجم المئو لفین،، ج ۱ ص ۴۹ پر کیا ھے ۔
طریقہ رفاعیہ کے رئیس مر حوم شیخ ابراھیم راوی نے بھی ان کی رد لکھی ھے۔ انھوں نے ” الا وراق البغد ادیہ فی الحوادث النجد یھ“لکھی اس میں مو صوف نے کتاب وسنت کی روشن دلیلوں سے وھابیوں کی رد کی ھے۔ یہ کتاب بغدادمیں ۱۳۴۵ءء مطبع النجاج میں اور تر کیہ میں ۱۹۷۶ءء میں طبع ھوئی۔رد لکھنے والوں میں خوجہ حافظ محمد حسن جان سر ھندی ھیں انھوں نے۔العقائد الصحیحہ فی تر دید الوھابیة النجد یة“ لکھی ۔اس کتاب میں مصنف نے وھابیوں کے تمام عقیدوں کو غلط ثابت کیا ھے اور ان کی تمام دلیلوں کو کتاب خدا سنت نبویھ، عقل اورعرف عام سے قطعی براھین کے ذریعہ باطل کیا ھے۔ یہ کتاب پھلے ۱۳۶۰ءء میں امرتسر ھندوستان میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۸ء میں استانبول ترکیہ میں آفسٹ کے ذریعہ طبع ھوئی ۔اسے برادر حسین حلمی استانبول نے شائع کیا۔
موصوف نے ایک اور کتاب بنام ” الا صول الا ربعہ فی تردید الوھابیھ“بھی لکھی جو تر کیہ میں ۱۴۰۶ء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں شیخ جمیل آفندی صدقی زھاوی ھیں۔ انھوں نے ” الفجر الصادق فی الرد علیٰ منکر التوسل والکرامات والخوارق“لکھی جو ۱۳۲۳ء میں ”مطبعة الواعظ“ مصر میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۶ء اور ۱۴۰۶ء میں استانبول ترکیہ میں طبع ھوئی جسے مکتبة الحقیقہ نے شائع کیا ۔ اس کے ناصر احمد علی ملیجی کتبی اس کی تعریف میں کھتے ھیں کہ : اس کتاب میں ایسی قوی دلیلیں اور ٹھوس برا ھین ھیں کہ سنت سے منحرف اور خیالی گمراھیوں سے تمسک کرنے والوں میں اس کا مقابلہ کرنے کہ قوت نھیں ھے ۔
موٴ لف:مذکورہ بالا کتاب کے اندر وھابیت کی تاریخ ، اس کے ظھور کا آغاز ، اس کی نشرو اشاعت ، اس کے قائد کے فاسد عقائد کا بیان ، رھبر وھابیت کے جرائم، زمین میں اس کا فساد پھیلا نا ،بے دینی ، مسلمانوں کی خونریزی ، اس کی زندگی میں وھابیوں نے جو کچہ کیا اور اس کے مرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو جرائم اور زیادتیاں کیں اور دین میں جو بدعتیں ایجاد کیں یہ ساری باتیں مذ کور ھیں لھٰذا یہ کتاب وھابیوں کی رد میں لکھی گئی کتابوں میں سب سے بھترین کتاب ھے کیونکہ اس کتاب نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ھے اور یہ واضح کر دیا ھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ھیں اور اپنے پست مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر صرف اسلام کے نام پر مظاھرہ کرتے ھیں ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ محمد کسم حنفی بھی ھیں جنھوں نے ” الا قوال المر ضیةفی الّرد علی الوھابیة“ جس کا ذکر عمر رضاکحالہ نے ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۳ پر کیا ھے ۔
محمد عطاء الله معروف بہ عطا نے ” الر سالة الردیة علی الطائفة الوھابیة“ لکھی اس کا ذکر
بھی ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۴ پر ھے ۔
اور وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ عبدالمحسن اشیقری حنبلی بھی ھیں انھوں نے ”الر د علی الوھابیة“ لکھی ۔اس کا ذکر بھی ” معجم المئو لفین“ ج ۶ ص ۱۷۲ پر ھے اور وھابیوں کی ردظاھر شاہ ھندی نے بھی لکھی ھے انھوں نے۔” ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبورلکھی جو ۱۴۰۶ء میں ترکیہ میں ” الفجر الصادق“تصنیف شیخ زھاوی کے ساتھ شائع ھوئی ھے ۔
رد لکھنے والوں میں قاضی القضاة ابو الحسن علی السبکی بھی ھیں انھوں نے ۔”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ لکھی جو ۱۴۰۵ ء میں تر کیہ میں کتاب”تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد،، سے ملحق کر کے طبع ھوئی۔وھابیوں کی رد میں محمود بن مفتی عبدالغیور نے بھی کتاب بنام ” ردو ھابی“ لکھی جو ۱۴۰۱ئہ میں استانبول میں طبع ھوئی ۔
شیخ حسن خزبک نے بھی رد لکھی ھے ۔انھوں نے ” المقالات الوفیہ فی الرد علیٰ الوھابیة،، لکھی جو طبع بھی ھوئی اس کا ذکر ” التوسل بالنبی و با لصالحین“ص ۲۵۳ پرھے ۔
ان کی رد لکھنے والوں میں مفتی محمد عبد القیوم قادری ھزاروی ھیں انھوں نے ” التوسل“لکھی اور ۱۹۸۴ءء میں تر کیہ میں کتاب ” التوسل بالنبی وبالصالحین“ سے ملحق کر کے طبع ھوئی ۔اس کتاب میں وھابیوں کے اس نظریہ کو رد کیا ھے کہ نبی سے توسل کرنا جائز نھیں ھے اور سنت اجماع اور بزرگوں کے اقوال سے ثابت کیا ھے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد بھی آپ سے توسل کرنا جائز ھے ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں مالک ابن شیخ محمود داوٴد مدیر مدرسةالعرفان شھر کوتیالی جمھوریہ مالی،افریقہ ھیں ،انھوں نے ”الحقائق السلامیہ فی الردّعلی المزاحم الوھابیةبادلّة الکتاب والسنةالنبویة،،لکھی جو ۱۴۰۳ھئمیں طبع ھوئی اور پھر دوبارہ ۱۴۰۵ھء میں ترکیہ میںبذریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔
ان ھی میںابوالفداء اسماعیل تمیمی تو نسی ھیں،انھوںنے ”المنح الالٰھیہ فی طمس الضلالة الوھابیة،،لکھی ۔اس کا ذکر احمد ابن ضیاف نے ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان،، میں کیا ھے جو کتاب ”الحقائق السلامیة،،سے ملحق کرکے طبع ھوئی اور ایک دوسری کتاب ”عقدنفیس“بھی لکھی جس میں وھابیوں کے شبھات کو رد ّکیا ھے ۔اس کا ذکر ”معجم الموٴلفین،، ج۲ ص۲۶۳میںھے ۔
وھابیوں کی ردّلکھنے والوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی شافعیہ ھیں جنھوں نے ”الدّررالسنیةفی ردّعلیٰ وھابیة،،لکھی جو استانبول ترکیہ میں ۱۹۷۶ئئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ذکر بغدا دی نے ”ھدیةالعا رفین“ج۱ ص۱۹۱پر کیا ھے اور مصنّف مذکور اپنی کتاب ”الفتوحات الاسلامة،،میںوھابیوں پر ردّ کی ھے جو”فتنة الوھابیھ،،کے نام سے ۱۹۷۵ئئمیںترکیہ میں شائع ھوئی اور ”الدّررالسنیة،،کی جانب شیخ یوسف نبھانی نے ” شواھد الحق فی الاستغاثة بسیدالخلق“میں اشارہ کیا ھے اور کھا کہ سید احمد دحلان مفتی شافعیہ نے وھابیت کی ردّمیں ایک مستقل کتاب لکھی ھے ۔
اور خیر الدین زرکلی نے ”الاعلام،،ج۱/ص۱۳۵پرلکھا ھے :ان (زینی دحلان)کا ایک رسالہ وھابیوں کی ردّ میںھے ۔
اور نبھانی نے ”شواھدالحقّ،،کے تیسرے باب میںایسی باتیں نقل کی ھیں جواثبات حق اور باطل کو فنا کرنے کے لئے کافی ھیںاس طرح اس میں وھابیوں کے شبھات کو واضح بیان اور قوی ترین دلیل و برھان سے رد کیا ھے اور ان کا کلام۲۶صفحوں پر پھیلاھوا ھے۔ ملاحظہ کیجئے اس کتاب کے ص۱۵۱تا ص۷۷۱یہ تمام صفحات وھابیوں کی رد اور طعن پر مشتمل ھیں۔
ان ھی کی ردّلکھنے والوں میں مصطفی ابن احمد شطی حنبلی ھیں جنھوںنے ایک رسالہ بنام ”النقول الشرعیة فی الرد ّعلی الوھابیة،،لکھا جو۱۴۰۶ھئمیںترکیہ میں ”الفجر الصادق“تصنیف علامہ زھاوی سے ملحق کرکے شائع ھوئی۔ اس کا ذکر شیخ نبھانی نے شواھد الحق میں کیا ھے۔
ان کے علاوہ وھابیوں کی رد میں اور بھی کتابیںلکھی گئیں جن میں ایک”التوسل بالنّبی وجھلةالوھابین“ ھے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول ترکیہ میںطبع ھوئی ۔
اورانھیںمیں سے ”ضلالات الوھابین،،ھے جو ۱۹۷۶ئئمیں استانبول میں طبع ھوئی اور ”المسائل المنتخبة،،تصنیف قاضی حبیب الحق ابن قاضی عبد الحق جو ۱۹۰۶ئئمیںکتاب الانصاف سے ملحق کرکے استانبول میںطبع ھوئی” التوسل با لموتیٰ،،جو ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول طبع ھوئی ۔”علماء المسلمین والوھابیون“اسے حسین حلمی الیشیق نے جمع کیا ھے یہ کتاب ۱۹۷۳ئئمیںاستانبول ترکیہ میں طبع ھوئی اور پانچ رسالوں کا مجموعہ ھے۔ پھلا رسالہ ”میزان الکبریٰ،،شیخ عبدالوھاب شعرانی مصری کی تالیف ھے ۔دوسرا رسالہ ”شواھدالحق“سے ھے جوشیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی سابق رئیس محکمہ حقوق بیروت کی تصنیف ھے ۔تیسرا رسالھ”العقائد النسفی“تصنیف شیخ عمر ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندکی ھے ۔چوتھا رسالہ ”من معربات الکتوبات“تصنیف شیخ احمد ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندی ھے اور پانچواںرسالہ ”رسالةفی تحقیق الرابطھ،،شیخ خالد بغدادی کی تصنیف ھے یہ کتاب مکتبھٴ الیشیق کتاب اوی استانبول ترکیہ نے طبع کی ھے ۔
اور جس کتاب کی جانب ھر امین لکھنے والے اور کھلی تحقیق کر نے والے کی توجہ مبذول کرانا مناسب ھے وہ ”تاریخ آل سعود ھے“ ایک ضخیم اور ٹھوس کتاب جسے استا د مجاھد شھید ناصر السعید نے تالیف کیا ھے اس میں وھابیوں کے سیاہ ماضی اور مکروہ حال کی تاریخ موجود ھے جس میں سعودی مزدور مجرم حکام ،گمراہ و گمراہ کن وھابیوں کے دین کی بنیاد مضبوط کرنے والے ، ذلیل ورسوا ھوئے ھیں ۔
یہ کتاب ایک ھزار سے زائد صفحات پر مشتمل ھے اور اس میں ایسے ٹھوس حقائق ھیں جنھیں مضبوط مصادر سے مستحکم کیا گیا ھے اور جو اس سے پھلے کسی اور کتاب میں نھیں تھے ۔
اس کے صفحات پر بعض ان وھابی قائدین کی ناگوار تصویر یں بھی ھیںجو مقدس سر زمین حجاز پر آج ظلم وجور کے ذریعہ حاکم ھیں لیکن درحقیقت اپنے آقاوٴں ،یھودیوں اور امریکیوںکے نوکر ھیں ۔
یہ تصویر یں انھیں شراب پیتے ھوئے،سینوں پر صلیب لٹکائے ھوئے اور طوائفوں اور بد کار عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول دکھایا گیا ھے۔
لھذا یہ ایک ایسی وسیع کتاب ھے جسے پڑہ کر انسان اس من گڑھت دین کے حکّام کے جرائم اور ان کی بد کاریوں اور بد اعمالیوں سے زیا دہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرسکتا ھے۔ 


 دینی بھائیوں کو ایک نصیحت
برادران اسلا می اس کتاب کو پڑہ کر جب آپ وھابی مذ ھب اور اس کی حقیقت سے آگاہ ھو چکے اور یہ جان چکے کہ وہ ایک من گڑ ھت مذ ھب ھے جسے محمد ابن عبدالوھاب نجدی نے احمد ابن تیمیہ کے با طل آراء و عقائد کی پیروی میں ایجاد کر کے مذاھب اربعہ کی مخالفت کی ھے ۔ اور ان کتابوں سے بھی آگاہ ھو چکے جو ھمارے علماء رحمتہ الله علیھم نے اس کی رد اور اس کے جواب میں لکھی ھیں ۔ تو اس کے پیروؤں اور دوستوں کی محبت ،ھمنشینی ، ان کے باطل افکار و فاسد عقائد کی پیروی اور ان کی گمراہ کن کتابوں کے مطالعہ سے پر ھیز کریں ۔
اور ان لو گوں میں سے نہ ھوں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فر مایا ” واذا قیل لھم اتبعو اما انزل الله قالو ابل نتبع ما وجد نا علیہ آ با ئنا“اور جب ان سے کھا گیا کہ خدا نے جو دین نازل کیا ھے اس کی پیروی کرو تو انھو ں نے کھا کہ ھم اس دین کی پیروی کر تے ھیں ، جس پر اپنے باپ دادا کو پایا ھے ۔تو خدا نے اس کی رد کی اور اس جواب پر ان کی اس طرح مذ مت کی :”او لو کان الشیطان ید عو ھم الیٰ عذاب السعیر“شیطان انھیں جھنم کے عذاب کی طرف بلا رھا ھے ۔یا ان لوگوں میں سے نہ ھو جنھوں نے کھا : ”اجئتنا لتلفتنا عما وجد نا علیہ آبا ئنا“تم اس لئے آئے ھو کہ ھمیں ھمارے باپ دادا کے دین سے پھیر دو ۔ تو خدا نے ان کا اس طرح سے جواب دیا
”لقد کنتم انتم وآبا ٴو کم فی ضلال مبین“یقیناتم اور تمھارے باپ دادا کھلی ھوئی گمراھی میں ھیں ۔
آخر میں آپ کے لئے تو فیق کی آرزو کرتا ھوں اور خدا سے دعا کرتا ھوں کہ آپ کو ھر بد عت اور گمراھی سے جو جھنم تک لے جانے والی ھے محفوظ رکھے ۔
اور خوا ھشمند ھوں کہ مطالعات و تحقیقات میں تعصب سے بلند ھوں عقیدہ اور ایمان میں آزاد ھوں اور خدا بھی یھی چاھتا ھے کہ آزاد ھوں اور غیر کے بندے نہ ھوں کیوں کہ آزاد پیدا ھو ئے ھیں ۔
سلام ھو آپ پر اور ان پر جو راہ ھدایت کی پیروی کریں اور گمراھی ، ضلالت اور ھلا کت کے راستے سے دور رھیں ۔
و السلام علیکم ورحمة الله وبرکاة
آپ کا بھائی
احسان عبداللطیف بِکری
محمد ابن عبدالوھاب اور وھابیت کی رد میں لکھی گئی کتابوں کی فھرست:
v ۰ اتحاف اھل الزمان محمد ابن ابی ضیاف
v ۰ الا صول الا ربعہ خواجہ سر ھندی
v ۰ اظھار العقوق مشرقی مالکی جزائری
v ۰ الا قوال الر ضیة فقیہ محمد الکسم
v ۰ الا نتصا رللا ولیاء الا برار طاھر سنبل حنفی
v ۰ الا وراق البغداد یة ابراھیم راوی
v ۰ البراھین الساطعہ سلامة الغرامی
v ۰ البصا ئر لمنکری التوسل حمد الله جوادی
v ۰ تاریخ آل سعود ناصر سعید
v ۰ تجرید سیف الجھاد عبد الله ابن عبد الطیف
v ۰ تحر یض الا غبیاء عبد الله بن ابر ا ھیم
v ۰ تھکم المقلّدین محمد ابن عبد الرّ حمٰن
v ۰ التو سل محمد عبدالقیوم
v ۰ التوسل با لنّبی وبا لصالحین ابو حامد ابن مرزوق
v ۰ جلا ل الحق ابر اھیم جلمی
v ۰ الحق المبین احمد سعید
v ۰ الحقائق الا سلا میة مالک داوؤد
v ۰ خلا صة الکلام احمد زینی دھلان
v ۰ الدرر السنیة احمد بن زینی
v ۰ ردّ علیٰ محمد بن عبد الوھاب اسماعیل تمیمی
v ۰ الر د علیٰ الوھابیة عبدالمحسن اشیقری
v رد علی الو ھابیة ابراھیم بن عبدالقادر
v رد المختار علی الدرالمختار سید محمد امین
v ۰ ردّ وھابی محمود بن عبد الغیور
v ۰ الر سالة الردیة محمد عطاء الله
v ۰ رسالة قاسم محجوب
v رسالة محمد بن سلیمان
v ۰ رسالة فی تحقیق الرا بطة خالد بغدادی
v رسالة فی جواز التوسل مھدی ورّانی
v رسالة مسجعة محکمہ کواشی تونسی
v ۰ سعاد ة الدارین ابرا ھیم بن عثمان
v ۰ السیف الباتر ابو حامد بن مرزوق
v ۰ سیف الجبار شاہ فضل رسول
v ۰ السیف الھندی عبدالله بن عیسیٰ
v ۰ السیوف الصقال عالم من بیت المقدس
v ۰ شفاء السقام علی سبکی
v ۰ شواھد الحق شیخ یوسف نبھانی
v ۰ الصارم الھندی شیخ عطاء مکی
v ۰ صلح الا خوان داوؤد بن سلیمان
v ۰ الصواعق الا لھیة سلیمان بن عبدالوھاب
v ۰ الصواعق والر عود عبدالله بن داؤد
v ۰ ضلا لات الو ھا بیین
v ۰ ضیاء الصدور ظاھر شاہ میاں ھندی
v ۰ العقائد الصحیحیة خواجہ سر ھندی
v العقائد النسفی عمر بن محمد
v ۰ عقد نفیس اسماعیل تمیمی
v ۰ علماء مسلمین والو ھا بیون حسین حلمی ا یشیق
v ۰غوث العباد ببیان الر شاد مصطفیٰ حمامی مصری
v ۰ فتنة الو ھابیة احمد زینی دحلان
v ۰ الفتو حات الا سلا میة احمد بن زینی
v ۰ الفجر الصادق جمیل صدقی الزھاوی
v ۰ فصل الخطاب سلیمان بن عبدالوھاب
v ۰ فصل الخطاب احمد ابن علی بصری
v ۰ المدارج ا لسنیة عامر قادری
v ۰ المسائل المنتخبة حبیب الحق
v ۰ مصباح الا نام و جلا ء الظلام علوی ابن احمد حداد
v ۰ المقالات الو فیة شیخ حسن خزبک
v ۰ المنح الا لھیة اسماعیل تمیمی
v ۰ المنحة الو ھبیة داؤد بن سلیمان
v ۰ من معر بات المکتوبات ا حمد ابن اعبد الا حد
v ۰ میزان الکبریٰ عبدالوھاب شعرانی
v ۰ النقول الشر عیة مصطفیٰ بن احمد شطی
 

Add comment


Security code
Refresh