www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

   ابن تیمیہ کے فتوٴوں کے نمو نے
عالم کبیر شیخ محمد بخیت حنفی عالم جامعہ ا زھرنے اپنی کتاب ”تطھر الفواد من دنس الا عتقاد ،،طبع مصر مطبوعہ ۱۳۱۸ء کے ص ۱۲ پر اس شخص کے کچہ فتوؤں کا ذکر کیا ھے جن میں سے بعض نمو نے ھم یھاں پر پیش کر رھے ھیں تا کہ ایک غیر جانبدارقاری کو اس کے انحراف ، فاسد عقیدے اور منحرف فتوؤں میں علماء اسلام سے اس کی مخالفت کا زیا دہ سے زیا دہ علم ھو سکے ۔
(۰) ” اگر کو ئی شخص جان بو جہ کر نماز تر ک کر دے تو اس کی قضا وا جب نھیں ھے۔“
(۰) ” حیض والی عورت کے لئے خانہ ء کعبہ کا طواف کرنا جائز ھے اور اس پر کوئی کفارہ نھیں ھے۔“
(۰)” تین طلاق ایک طلاق کی طرف پلٹایا جائے گا“ اور اس بات کا دعویٰ کر نے سے پھلے خود اسی نے نقل کیا ھے کہ اجماع مسلمین اس کے بر خلاف ھے ۔
(۰) ” جس اونٹ کے پیر کی موٹی والی نسیں کاٹ دی گئی ھوں وہ کاٹنے والے کے لئے حلال ھے اور وہ جب تاجروں سے لے لیا جائے تو زکوٰة کے عوض کافی ھے اگر چہ زکوٰة کے نام سے نہ لیا گیا ھو ۔،،
(۰)” بھنے والی چیزوں میں اگر جاندار مثلا چوھا مر جائے تو یہ چیزیں نجس نھیں ھو تیں“
(۰)” جنب کو چاھئے کہ حالت جنا بت میں نافلہ شب پڑھے اور تا خیر نہ کرے کہ فجر سے پھلے غسل کر کے پڑھے گا اگر چہ اپنے ھی شھر میں ھو ۔“
(۰) ” وقف کرنے والے کی شرط کا کوئی اعتبار نھیں ھے بلکہ اگر اس نے شا فعیہ پر وقف کیا ھے تو حنفیہ پر صرف کیا جائے گا اور بر عکس ،اور قاضیوں پر وقف کیا ھے تو صو فیہ پر صرف کیا جائے گا ۔،،
اسی طرح عقائد اور اصول دین کے مسائل میں بھی انحراف کا مر تکب ھوا ھے۔
(۰)” ْ خدا وند عالم محل حوا دث ھے“تعالیٰ عن ذالک علوا کبیرا
(۰)”خدا مرکب ھے اس کی ذات ویسے ھی محتاج ھے جیسے کل اپنے جزء کا محتاج ھوتا ھے ”تَعَا لیٰ عَنْ ذَالِکَ،،
(۰)”خدا جسم رکھتا ھے،وہ خاص سمت میں ھے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ھوتا ھے ،وہ ٹھیک عرش کے برابر ھے نہ چھوٹا نہ بڑا“(خدا وندعالم اس قبح وبد ترین افترا ء اور صریحی کفر سے کھیں بالا تر ھے ۔خدا اس کے پیروٴوں کو رسوا کرے اور اس کے معتقدین کا شیرازہ منتشر کرے ) (۰)”جھنم فنا ھوجائے گی ،انبیاء معصوم نھیں ھیں۔“
(۰)”رسول الله صلّی الله علیہ وآلہ وسلّم کی کوئی وقعت نھیں ھے ۔ان سے توسل نہ کیا جائے۔“
(۰)”پیغمبر اسلام کی زیا رت کے لئے سفر کرنا معصیت ھے اس سفر میں نمازقصر نھیں ھوگی۔“
وہ کتا بیں جو ابن تیمیہ کی رد میں لکھی گئیں:
مذا ھب اربعہ کے علماء کی ایک جماعت نے ابن تیمیہ کی رد میں اس کے عقائد پر طعن کر تے ھوئے اور اس کے منحرف فتوؤں کو باطل کرنے کی غرض سے کتابیں لکھی ھیں جن میں سے کچہ حضرات کے نام یھاں درج کرتے ھیں ۔
علی بن محمد میلی جمالی تو نسی مغری مالکی ۔انھوں نے ”السّیوف المشر قیہ لقطع اعناق القائلین با لجھة والجسمیة“لکھی ” ھد یة العا ر فین“ ج ۱ ص ۷۷۴ اور ایضاح المکنون ج۲ ص ۳۷ میں اس کا تذ کرہ ملتا ھے ۔
شھا ب الدّین احمد بن یحییٰ جبرئیل شافعی ۔انھوں نے ” خبرالجھة،، لکھی ۔دیکھئے ”ھد یة العا رفین “ج ۱ ص ۱۰۸ اور ابو حا مد مرزوق کے بقول یہ بھترین رسالہ ھے ۔ ”التوسل بالنبی وبالصالحین“
تقی الدّین ابی بکر حصینی ۔انھوںنے ” دفع شبہ وتمرّد،، لکھی جو ۱۳۵۰ھء میں مصر میں طبع ھوئی اس میں ابن تیمیہ کے جھت اور تشبیہ کے قول کو باطل کیا گیا ھے۔
محمد حمید الدّ ین حنفی دمشقی فر غانی ۔ ان کی کتاب کا نام ”الردّ علیٰ ابن تیمیہ فی الا عتقادات،، ھے ۔معجم المئو لفین تا لیف عمر رضا کحالہ ج ۸ ص ۳۱۶ ۔
شیخ نجم الدین ابن ابی الد رالبغدا دی ۔انھوں نے ” رد علی الشیخ ابن تیمیھ،، لکھی۔ اس میں مو صوف نے ابن تیمیہ کے ایک رسالہ کاجواب دیا ھے ۔دیکھئے ” کشف الظنونج ۲ ص ۲۷ ۱۵
شیخ محمد ابن علی مازنی ۔انھوں نے ” رسالة فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئالة الطلاق،، اور رسالہ فی مسئلة الزیارت“ لکھی ۔معجم المئو لفین تالیف عمر رضا کحالہ ج ۱۱ ص ۳۱ ۔
۰ عیسیٰ ابن مسعود منکالاتی مالکی ۔ انھوں نے ” الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلة الطلاق“ لکھی ھے ۔ اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین میں ج ۸ ص ۳۳ پر کیا ھے ۔
۰ شیخ کما ل الدین محمد ابن علی بن شافعی ود مشقی معروف بہ ابن زملکانی ۔انھوں نے ” الدرة المضیة فی الرد علی ابن تیمیھ“ لکھی اس کا ذکر ” کشف الظنون“ ج ۱ ص ۷۴۴ اور ” ھدیة العارفین“ج ۲ ص ۱۴۶،اور” معجم المولفین“ ج ۱۱ ص ۲۵ پر ھے ۔
احمد ابن ابر ھیم سرو جی حنفی ۔ انھوں نے ” اعتراضات علیٰ ابن تیمیہ فی علم الکلام،،
لکھی ۔دیکھئے معجم المئو لفین ج ۱ ص ۱۴۰ ۔
کمال الدین ابو القاسم احمد بن محمد شیرازی۔ انھوں نے ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی : ”رد علی ابن تیمیہ،،جس کا تذ کرہ معجم المئو لفین ج ۲ ص ۱۵۰ ، پرھے ۔
شیخ تقی الدین سبکی ، انھوں نے بھی ابن تیمیہ کی رد میں کتاب لکھی ھے ، جس کا تذ کرہ ” کشف الظنون،، ج ۱ ص ۸۳۷ اور ”ھدیةالعارفین، ، ج ۱ ص ۷۲۱ پر ھے اور شاید یھی ”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ ھو جس کے بارے میں شیخ محمد نجیت مطبعی حنفی نے اپنی کتاب ”تطھیر الفواد من دنس الاعتقاد،، ص ۱۳ پر اس طرح لکھا ھے کہ یہ کتاب غرض مقصود کو پورا کرتی ھے۔ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب میں جو کچہ بیان کیا ھے اس کی بنیاد کو ختم کر تی رھی ھے ، اس کے ار کان کو متز لزل اور اس کے آثار کو مٹاتی ھے ، اس کے جھوٹے وعدوں کو فنا کر نے والی ھے اس کے فساد کو ظاھر اور اس کے عناد کو واضح کر دیتی ھے“۔
شیخ محمد نجیت مطیعی حنفی عالم جامعہ ا زھر۔انھوں نے ” تطھیر الفوادمن دنس الا عتقاد،، لکھی۔ اس میں مصنف مذ کور نے ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد کی ھے ۔یہ مصر میں ۱۳۱۸ ء میں طبع ھوئی ھے ۔اور چوتھی مر تبہ ۰۵ ۱۴ ء میں تر کیہ میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔
شیخ نعمان ابن محمود آلوسی بغدادی ۔ انھوں نے ” جلاء العینین فی محاکمة الا حمدین،، ”احمد ابن تیمیہ اور احمد بن حجر ھیثمی“ لکھی ۔ اس کا ذکر اسماعیل پاشا نے ایضاح المکنون ج ۱ ص ۳۶۳ پر اور عمر رضا کحالہ نے معجم المئو لفین ج ۱۳ ص ۱۰۷ پر کیا ھے ۔
ابن تیمیہ اور اس کے پیروں کی رد میں ھمارے علماء اعلام کی طرف سے جتنا لکھا گیا ھے ان میں سے جتنے افراد سے میں آگاہ ھو سکا ان کا ذکر یھاں کر دیا۔
جو کتابیں وھابیت کی رد میں لکھی گئیں:
وہ کتابیں جنھیں علماء مذا ھب اربعہ نے محمد ابن عبدالوھاب کے ایجاد کردہ وھابی مذ ھب کی رد میں لکھا ھے وہ بھی بھت ھیں جن میں سے کچہ مصنفین اور ان کی کتابوں کے نام ھم یھاں پر درج کر رھے ھیں ۔
سب سے پھلے وھا بیت کی رد میں محمد ابن عبدالوھاب کے حقیقی بھائی سلیمان بن عبد الو ھاب نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ”الصواعق الا لھیة فی الرد علی الو ھا بیة“رکھا ۔ اس کے بعد تو حجاز ، مصر،ھند ،شام اور عراق کے علماء اھل سنت والجما عت بلکہ را فضیوں نے بھی پے در پے وھابیت کی رد میں کتابیں لکھیں ۔
شیخ سلیمان نے اس کتاب کے ذریعہ حسن بن عیدان کا جواب دیا ھے کیونکہ اس نے اس مذ ھب کے بطلان پر دلیلیں مانگیں تھیں ۔اس کتاب میں مو صوف نے وھابیوں کی جھالت ،گمراھی اور ان کے اندر استنباط کی صلا حیت نہ ھونا ثابت کیا ھے ۔اسی طرح نذر ، شفاعت ،دعا اور میت سے سوال وغیرہ جیسے مسائل میں اپنے فاسد عقائد کی مخالفت کر نے والوں کو کافر قرار دیتے ھیں جنھیں تمام مسلمان انجام دیتے ھیں ، اور اس میں شر عا کوئی قباحت نھیں جانتے خواہ اھل سنت ھوں یا غیر ۔ ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ھیں ، ھر ایک مسئلہ کو معتبر شرعی دلیلوں اور متواتر حدیثوں اور ائمہ اربعہ رضی الله عنھم سے حکایت شدہ اجماعات کے ذریعہ ثابت کرتے ھیں ، اس کتاب میں وھابیوں کی باطل آراء کو غلط ثابت کیا ھے ۔یہ کتاب تیسری مرتبہ استا نبول ، تر کیہ میں ۱۳۹۹ء میں طبع ھوئی ۔
شیخ سلیمان رحمتہ الله علیہ نے اس کتاب کے ص ا۴ پر وھابیوں کو مخاطب کرتے ھوئے لکھا ھے : رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے اسی طرح اھل علم نے فرقہ نا جیہ کے اوصاف بیان کئے ھیں اور تم میں اس فرقہ کی ایک صفت بھی نھیں پائی جاتی ۔ مو صوف نے ان کے دعویٰ کی تردید کی ھے کہ قیامت کے دن وھابی نجات پائیں گے کیوں کہ ان کے اندر تھتر ھلاک ھونے والے اور دوزخی فرقوں میں سے ایک نجات پانے والے فر قہ کے او صاف نھیں پائے جاتے ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں سے ایک حمد الله واجوی ھیں انھوں نے ”البصائر المنکری التو سل با ھل المقابر“لکھی جو استانبول میں ۱۹۷۵ءء میں شائع ھوئی۔
ان ھی میں عامر قادری استاد دارالعلوم قادریہ کراچی پاکستان ھیں انھوں نے” المدارج السنیة فی رد الو ھابیة۔“ لکھی جو ۱۹۷۷ءء میں طبع ھوئی اور دوبارہ تر کیہ میں ۱۹۷۸ءء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی اسے حسین حلمی ابن سعید استانبولی نے شا ئع کیا۔
وھابیوں کی رد میں ابراھیم بن عثمان سمنودی مصری نے بھی ” سعادة الدارین فی الر د علی الفر قتین الو لھا بیة و مقلد ة الظاھر یة“ نام کی کتاب لکھی جو مصر میں ۱۳۲۰ء میں دو جلدوں میں شائع ھوئی ۔
اور شیخ احمد سعید سر ھند ی نقش بندی نے ”الحق المبین فی الرّ د علی الوھابین“لکھی اس کا ذکر بغدادی نے ” ھد یة العا رفین“ ج ۱ص ۱۹۰پر اور عمر رضا کحالہ نے ”معجم المو لفین“ ج ۱ ص ۲۳۲ پر کیا ھے
اسی طرح ان کی رد میں لکھنے والوں میں ابو حامد بن مرذوق شامی ھیں جنھوں نے ” التوسل با لنبی و بالصالحین“ لکھی جو تر کیہ میں ۱۹۸۴ءء میں بذ ریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔
اوروھابیوںکی رد لکھنے والوں میں بغداد میں طریقئہ نقشبندیہ کے پیشوا مرحوم شیخ دا وؤد بین سلیمان بغدادی ھیں جو خالدیہ نقشبندیہ کے خلفاء میں سے ھیں انھوں نے ۔ ” المنحہ الو ھبیة فی ردالوھابیة“ لکھی جو تیسری مر تبہ استانبول تر کیہ میں ۱۹۷۸ء ء میں طبع ھو ئی۔
اس کتاب میں انھوں نے ثابت کیا ھے کہ وھابی جاھل ھیں اور احادیث صحیحہ ، ادلہ عقلیہ اور مذاھب اربعہ کے تمام علماء کی مخالفت کرتے ھیں۔ اس کتاب میں ان کے تمام فاسد عقائد اور لغو آراء کو عقلی ونقلی دلیلوں سے باطل کیا ھے ۔اور اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ انبیاء زندہ ھیں ، شفاعت کریں گے ، مردے زندوں کی گفتگو سنتے ھیں ، زیارت کر نے والے سے آگاہ ھوتے ھیں ، انھیں دیکھتے ھیں ، اور ان کے اقوال سے واقف ھوتے ھیں اسی طرح اس میں ثابت کیا ھے کہ مردوں سے توسل صحیح ھے اور وھابی ان سب باتوں کا انکار کر تے ھیں یھاں تک کی اس بات کو بھی نھیں مانتے کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اپنے زیارت کر نے والوں کا علم رکھتے ھیں اور ان کے کلام کو سنتے ھیں ۔
اور وھابی جو اپنے عقائد کے مخالف مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ھیں ان کی رد میں ایک کتاب لکھی گئی ھے جس کا نام ”صلح الا خوان الرد علی من قال بالشرک والکفران،،ھے ۔ اس کا تذ کرہ بغدادی نے ۔ ”ھدیة العارفین،، ج ۱ ص ۳۶۳ پر کیا ھے۔
انھیں میں ابر ھیم ابن عبدالقادر ریا حی تو نسی مالکی بھی ھیں انھوں نے ” ردّ علی الوھابیة“کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔اس کا ذکر عمر رضا کحالہ نے ”معجم المئو لفین،، ج ۱ ص ۴۹ پر کیا ھے ۔
طریقہ رفاعیہ کے رئیس مر حوم شیخ ابراھیم راوی نے بھی ان کی رد لکھی ھے۔ انھوں نے ” الا وراق البغد ادیہ فی الحوادث النجد یھ“لکھی اس میں مو صوف نے کتاب وسنت کی روشن دلیلوں سے وھابیوں کی رد کی ھے۔ یہ کتاب بغدادمیں ۱۳۴۵ءء مطبع النجاج میں اور تر کیہ میں ۱۹۷۶ءء میں طبع ھوئی۔رد لکھنے والوں میں خوجہ حافظ محمد حسن جان سر ھندی ھیں انھوں نے۔العقائد الصحیحہ فی تر دید الوھابیة النجد یة“ لکھی ۔اس کتاب میں مصنف نے وھابیوں کے تمام عقیدوں کو غلط ثابت کیا ھے اور ان کی تمام دلیلوں کو کتاب خدا سنت نبویھ، عقل اورعرف عام سے قطعی براھین کے ذریعہ باطل کیا ھے۔ یہ کتاب پھلے ۱۳۶۰ءء میں امرتسر ھندوستان میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۸ء میں استانبول ترکیہ میں آفسٹ کے ذریعہ طبع ھوئی ۔اسے برادر حسین حلمی استانبول نے شائع کیا۔
موصوف نے ایک اور کتاب بنام ” الا صول الا ربعہ فی تردید الوھابیھ“بھی لکھی جو تر کیہ میں ۱۴۰۶ء میں بذریعہ آفسٹ طبع ھوئی ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں شیخ جمیل آفندی صدقی زھاوی ھیں۔ انھوں نے ” الفجر الصادق فی الرد علیٰ منکر التوسل والکرامات والخوارق“لکھی جو ۱۳۲۳ء میں ”مطبعة الواعظ“ مصر میں طبع ھوئی اور دوبارہ ۱۳۹۶ء اور ۱۴۰۶ء میں استانبول ترکیہ میں طبع ھوئی جسے مکتبة الحقیقہ نے شائع کیا ۔ اس کے ناصر احمد علی ملیجی کتبی اس کی تعریف میں کھتے ھیں کہ : اس کتاب میں ایسی قوی دلیلیں اور ٹھوس برا ھین ھیں کہ سنت سے منحرف اور خیالی گمراھیوں سے تمسک کرنے والوں میں اس کا مقابلہ کرنے کہ قوت نھیں ھے ۔
موٴ لف:مذکورہ بالا کتاب کے اندر وھابیت کی تاریخ ، اس کے ظھور کا آغاز ، اس کی نشرو اشاعت ، اس کے قائد کے فاسد عقائد کا بیان ، رھبر وھابیت کے جرائم، زمین میں اس کا فساد پھیلا نا ،بے دینی ، مسلمانوں کی خونریزی ، اس کی زندگی میں وھابیوں نے جو کچہ کیا اور اس کے مرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ جو جرائم اور زیادتیاں کیں اور دین میں جو بدعتیں ایجاد کیں یہ ساری باتیں مذ کور ھیں لھٰذا یہ کتاب وھابیوں کی رد میں لکھی گئی کتابوں میں سب سے بھترین کتاب ھے کیونکہ اس کتاب نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ھے اور یہ واضح کر دیا ھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ھیں اور اپنے پست مقاصد کے حصول کے لئے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خاطر صرف اسلام کے نام پر مظاھرہ کرتے ھیں ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ محمد کسم حنفی بھی ھیں جنھوں نے ” الا قوال المر ضیةفی الّرد علی الوھابیة“ جس کا ذکر عمر رضاکحالہ نے ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۳ پر کیا ھے ۔
محمد عطاء الله معروف بہ عطا نے ” الر سالة الردیة علی الطائفة الوھابیة“ لکھی اس کا ذکر
بھی ”معجم المئو لفین“ ج۱۰ ص ۲۹۴ پر ھے ۔
اور وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں فقیہ عبدالمحسن اشیقری حنبلی بھی ھیں انھوں نے ”الر د علی الوھابیة“ لکھی ۔اس کا ذکر بھی ” معجم المئو لفین“ ج ۶ ص ۱۷۲ پر ھے اور وھابیوں کی ردظاھر شاہ ھندی نے بھی لکھی ھے انھوں نے۔” ضیاء الصدور لمنکر التوسل باھل القبورلکھی جو ۱۴۰۶ء میں ترکیہ میں ” الفجر الصادق“تصنیف شیخ زھاوی کے ساتھ شائع ھوئی ھے ۔
رد لکھنے والوں میں قاضی القضاة ابو الحسن علی السبکی بھی ھیں انھوں نے ۔”شفاء السقام فی زیارت خیر الا نام“ لکھی جو ۱۴۰۵ ء میں تر کیہ میں کتاب”تطھیر الفواد من دنس الا عتقاد،، سے ملحق کر کے طبع ھوئی۔وھابیوں کی رد میں محمود بن مفتی عبدالغیور نے بھی کتاب بنام ” ردو ھابی“ لکھی جو ۱۴۰۱ئہ میں استانبول میں طبع ھوئی ۔
شیخ حسن خزبک نے بھی رد لکھی ھے ۔انھوں نے ” المقالات الوفیہ فی الرد علیٰ الوھابیة،، لکھی جو طبع بھی ھوئی اس کا ذکر ” التوسل بالنبی و با لصالحین“ص ۲۵۳ پرھے ۔
ان کی رد لکھنے والوں میں مفتی محمد عبد القیوم قادری ھزاروی ھیں انھوں نے ” التوسل“لکھی اور ۱۹۸۴ءء میں تر کیہ میں کتاب ” التوسل بالنبی وبالصالحین“ سے ملحق کر کے طبع ھوئی ۔اس کتاب میں وھابیوں کے اس نظریہ کو رد کیا ھے کہ نبی سے توسل کرنا جائز نھیں ھے اور سنت اجماع اور بزرگوں کے اقوال سے ثابت کیا ھے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد بھی آپ سے توسل کرنا جائز ھے ۔
وھابیوں کی رد لکھنے والوں میں مالک ابن شیخ محمود داوٴد مدیر مدرسةالعرفان شھر کوتیالی جمھوریہ مالی،افریقہ ھیں ،انھوں نے ”الحقائق السلامیہ فی الردّعلی المزاحم الوھابیةبادلّة الکتاب والسنةالنبویة،،لکھی جو ۱۴۰۳ھئمیں طبع ھوئی اور پھر دوبارہ ۱۴۰۵ھء میں ترکیہ میںبذریعہ آفسٹ طبع ھوئی۔
ان ھی میںابوالفداء اسماعیل تمیمی تو نسی ھیں،انھوںنے ”المنح الالٰھیہ فی طمس الضلالة الوھابیة،،لکھی ۔اس کا ذکر احمد ابن ضیاف نے ”اتحاف اھل الزمان باخبار ملوک تونس وعھد الامان،، میں کیا ھے جو کتاب ”الحقائق السلامیة،،سے ملحق کرکے طبع ھوئی اور ایک دوسری کتاب ”عقدنفیس“بھی لکھی جس میں وھابیوں کے شبھات کو رد ّکیا ھے ۔اس کا ذکر ”معجم الموٴلفین،، ج۲ ص۲۶۳میںھے ۔
وھابیوں کی ردّلکھنے والوں میں سید احمد زینی دحلان مفتی شافعیہ ھیں جنھوں نے ”الدّررالسنیةفی ردّعلیٰ وھابیة،،لکھی جو استانبول ترکیہ میں ۱۹۷۶ئئمیں طبع ھوئی ۔اس کا ذکر بغدا دی نے ”ھدیةالعا رفین“ج۱ ص۱۹۱پر کیا ھے اور مصنّف مذکور اپنی کتاب ”الفتوحات الاسلامة،،میںوھابیوں پر ردّ کی ھے جو”فتنة الوھابیھ،،کے نام سے ۱۹۷۵ئئمیںترکیہ میں شائع ھوئی اور ”الدّررالسنیة،،کی جانب شیخ یوسف نبھانی نے ” شواھد الحق فی الاستغاثة بسیدالخلق“میں اشارہ کیا ھے اور کھا کہ سید احمد دحلان مفتی شافعیہ نے وھابیت کی ردّمیں ایک مستقل کتاب لکھی ھے ۔
اور خیر الدین زرکلی نے ”الاعلام،،ج۱/ص۱۳۵پرلکھا ھے :ان (زینی دحلان)کا ایک رسالہ وھابیوں کی ردّ میںھے ۔
اور نبھانی نے ”شواھدالحقّ،،کے تیسرے باب میںایسی باتیں نقل کی ھیں جواثبات حق اور باطل کو فنا کرنے کے لئے کافی ھیںاس طرح اس میں وھابیوں کے شبھات کو واضح بیان اور قوی ترین دلیل و برھان سے رد کیا ھے اور ان کا کلام۲۶صفحوں پر پھیلاھوا ھے۔ ملاحظہ کیجئے اس کتاب کے ص۱۵۱تا ص۷۷۱یہ تمام صفحات وھابیوں کی رد اور طعن پر مشتمل ھیں۔
ان ھی کی ردّلکھنے والوں میں مصطفی ابن احمد شطی حنبلی ھیں جنھوںنے ایک رسالہ بنام ”النقول الشرعیة فی الرد ّعلی الوھابیة،،لکھا جو۱۴۰۶ھئمیںترکیہ میں ”الفجر الصادق“تصنیف علامہ زھاوی سے ملحق کرکے شائع ھوئی۔ اس کا ذکر شیخ نبھانی نے شواھد الحق میں کیا ھے۔
ان کے علاوہ وھابیوں کی رد میں اور بھی کتابیںلکھی گئیں جن میں ایک”التوسل بالنّبی وجھلةالوھابین“ ھے۔ یہ کتاب ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول ترکیہ میںطبع ھوئی ۔
اورانھیںمیں سے ”ضلالات الوھابین،،ھے جو ۱۹۷۶ئئمیں استانبول میں طبع ھوئی اور ”المسائل المنتخبة،،تصنیف قاضی حبیب الحق ابن قاضی عبد الحق جو ۱۹۰۶ئئمیںکتاب الانصاف سے ملحق کرکے استانبول میںطبع ھوئی” التوسل با لموتیٰ،،جو ۱۹۷۶ئئمیںاستانبول طبع ھوئی ۔”علماء المسلمین والوھابیون“اسے حسین حلمی الیشیق نے جمع کیا ھے یہ کتاب ۱۹۷۳ئئمیںاستانبول ترکیہ میں طبع ھوئی اور پانچ رسالوں کا مجموعہ ھے۔ پھلا رسالہ ”میزان الکبریٰ،،شیخ عبدالوھاب شعرانی مصری کی تالیف ھے ۔دوسرا رسالہ ”شواھدالحق“سے ھے جوشیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی سابق رئیس محکمہ حقوق بیروت کی تصنیف ھے ۔تیسرا رسالھ”العقائد النسفی“تصنیف شیخ عمر ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندکی ھے ۔چوتھا رسالہ ”من معربات الکتوبات“تصنیف شیخ احمد ابن عبد الاحد فاروقی حنفی نقشبندی ھے اور پانچواںرسالہ ”رسالةفی تحقیق الرابطھ،،شیخ خالد بغدادی کی تصنیف ھے یہ کتاب مکتبھٴ الیشیق کتاب اوی استانبول ترکیہ نے طبع کی ھے ۔
اور جس کتاب کی جانب ھر امین لکھنے والے اور کھلی تحقیق کر نے والے کی توجہ مبذول کرانا مناسب ھے وہ ”تاریخ آل سعود ھے“ ایک ضخیم اور ٹھوس کتاب جسے استا د مجاھد شھید ناصر السعید نے تالیف کیا ھے اس میں وھابیوں کے سیاہ ماضی اور مکروہ حال کی تاریخ موجود ھے جس میں سعودی مزدور مجرم حکام ،گمراہ و گمراہ کن وھابیوں کے دین کی بنیاد مضبوط کرنے والے ، ذلیل ورسوا ھوئے ھیں ۔
یہ کتاب ایک ھزار سے زائد صفحات پر مشتمل ھے اور اس میں ایسے ٹھوس حقائق ھیں جنھیں مضبوط مصادر سے مستحکم کیا گیا ھے اور جو اس سے پھلے کسی اور کتاب میں نھیں تھے ۔
اس کے صفحات پر بعض ان وھابی قائدین کی ناگوار تصویر یں بھی ھیںجو مقدس سر زمین حجاز پر آج ظلم وجور کے ذریعہ حاکم ھیں لیکن درحقیقت اپنے آقاوٴں ،یھودیوں اور امریکیوںکے نوکر ھیں ۔
یہ تصویر یں انھیں شراب پیتے ھوئے،سینوں پر صلیب لٹکائے ھوئے اور طوائفوں اور بد کار عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول دکھایا گیا ھے۔
لھذا یہ ایک ایسی وسیع کتاب ھے جسے پڑہ کر انسان اس من گڑھت دین کے حکّام کے جرائم اور ان کی بد کاریوں اور بد اعمالیوں سے زیا دہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرسکتا ھے۔ 

Add comment


Security code
Refresh