www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

یثرب کے لوگ دین اسلام قبول کرنے میں کیوں پیش پیش رہے اس کی کچھ وجوہ تھیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
۱۔ وہ لوگ چونکہ یہودیوں کے گرد و نواح میں آباد تھے اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) کے ظہور پذیر ہونے کی خبریں اور آنحضرت کی خصوصیات ان کی زبان سے اکثر سنتے رہتے تھے، چنانچہ جب کبھی ان کے اور یہودیوں کے درمیان تصادم ہو جاتا تو یہودی ان سے کہا کرتے تھے کہ جلد ہی اس علاقے میں پیغمبر کا ظہور ہوگا، ہم اس کی پیروی کریں گے اور تمہیں قوم ”عاد “ اور ”ارم“ کی طرح تباہ و برباد کرکے رکہ دیں گے۔ (حوالہ سابق﴾

سنہ ۲ ھجری میں جو واقعات رونما ہوئے ان میں سے ایک جنگ بدر کا تقدیر ساز معرکہ تھا۔ اس جنگ کا تعلق ارادۂ ایزدی سے تھا۔
قرآن مجید کی آیات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مدینہ سے قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب اور نتیجہ میں جنگ کے لئے نکلنا وحی اور آسمانی حکم کے مطابق تھا جیسا کہ ارشاد ہے:

ہجرت کے تیسرے سال کے دوران جو واقعات رونما ہوئے ان میں ”غزوہ احد“ قابل ذکر ہے، یہ جنگ ماہ شوال میں وقوع پذیر ہوئی جو خاص اہمیت و عظمت کی حامل ہے۔
ہم یہاں اس جنگ کا اجمالی طور پر جائزہ لیں گے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تجزیہ کریں گے۔

غزوۂ بنی قینقاع
جو یہودی مدینہ میں آباد تھے ان کی خیانت و نیرنگی کم و بیش جنگ بدر سے قبل مسلمانوں پر عیاں ہوچکی تھی۔ جب مسلمانوں کو جنگ بدر میں غیر متوقع طورپر مشرکین پر فتح و کامرانی نصیب ہوئی تو وہ سخت مضطرب و پریشان ہوئے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگ گئے۔ قبیلۂ بنی قینقاع اندرون مدینہ آباد تھا اور اس شہر کی معیشت اسی کے ہاتھوں میں تھی، یہی وہ قبیلہ تھا جس کی سازش و شرارت مسلمانوں پر سب سے پہلے آشکار ہوئی۔

 

تقریباً ۲۳شوال سنہ ۵ھجری.بنی نضیر کے یھودی جنھوں نے اپنی کینہ توزی اور انتقام کے خیال سے مدینہ کو چھوڑا تھا وہ خاموشی سے بیٹھ گئے،